[ذیل کے سوالات درس نظامی کے ساتویں سال میں زیرِ تعلیم طالبعلم کی طرف سے موصول ہوئے تھے۔ ان کے بساط بھر جوابات حاضر ہیں۔]
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
۱۔ آپ کی ایک تحریر ”درس نظامی۔۔ چند مباحث“ کے عنوان سے دیکھی ہے۔ بالیقین اس کی ادبی، علمی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ایک اصولی سوال زندہ ہے جو آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ میں پچھلے سات، آٹھ سال سے دینی تعلیم سے وابستہ ہوں۔ کچھ عرصے سے ہم چند دوست عجیب خلجان میں مبتلا ہیں تو میں آپ سے اپنا حال بیان کیے دیتا ہوں۔
جواب: گزارش ہے کہ ذیل میں اٹھائے گئے درس نظامی پر آپ کے اعتراضات میں کوئی خلجان نہیں ہے بلکہ اس کے پورے رد کا واضح موقف ہے جس کو میں درست نہیں سمجھتا۔ اگرچہ آپ نے کسی ”اصولی سوال کے زندہ“ ہونے سے بات شروع کی ہے لیکن اس رد کی بنیاد میں کوئی عقلی یا علمی اصول شامل نہیں ہے بلکہ چند یا کثیر کلامی مباحث کے ہم عصر دنیا کے حالاتِ ہستی سے غیرمتعلق ہونے کی مثال دے کر پورے درس نظامی پر ججمنٹ دی گئی ہے، اور جو ظاہر ہے ایک قطعی غیرعقلی اور غیر علمی رویہ ہے۔ اگر مندرس ہونا کوئی اصول ہے تو مذاہب پر جدیدیت کی ججمنٹ پر بھی توجہ فرمائیے۔ جو لوگ مذہب کو رد کرتے ہیں ان کی بڑی ”دلیل“ یہی ہوتی ہے کہ مذاہب جدید دنیا میں مندرس ہو چکے ہیں۔ آپ نے اسی بات کو درس نظامی پر وارد کر دیا تو کیا کمال کر لیا؟ اصل میں انکارِ دین کا آغاز اس کے متضمنات کے انکار سے شروع ہوتا ہے، یعنی دین سے متعلق روایت سے منتقل ہونے والی ہر چیز کا انکار کرتے چلے جاؤ یہاں تک کہ دین کا انکار ممکن ہو سکے۔
عقلی مباحث میں اول بات اس ضروری امر کا ادراک ہے کہ ان کے حاصلات بہت جلد مندرس ہو جاتے ہیں۔ جس علم میں عقل داخل ہو جائے اندراس اس کی تقدیر ہے۔ کنویں کے فقہی مباحث جیسا کہ آپ نے فرمایا کتاب الطہارت کے ذیل میں زیر بحث آئے ہیں۔ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں ہماری مستقل ضرورت طہارت ہے، کنواں نہیں ہے۔ آپ نے اندراس پر تو واویلا کیا ہے لیکن یہ نہیں فرمایا کہ کیا طہارت بھی ہمارے حالات و احوال ہستی سے غیر متعلق ہو گئی ہے؟ اور اگر طہارت ہماری مستقل دینی ضرورت ہے جو کہ یہ ہے، تو اس کو عصر حاضر کے ”کنوؤں“ میں کس طرح فعال رکھنا ہے؟ اس میں دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ ہمارے اسلاف نے حقیقتِ طہارت کو اپنی دقیقہ رسی سے جزیات میں بھی قائم رکھا۔ اگر کنویں کی مندرس بحث اور اس میں کارفرما منہج کو سمجھ لیا گیا ہوتا تو ہم جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا میں طہارت کے دینی مطالبات کو بہتر طریقے پر پورے کرنے کے قابل ہوتے۔ جدید دنیا میں نجاست صرف طبعی (فزیکل) نہیں رہی بلکہ تجریدات میں بھی داخل ہے۔ جدید عقل کا مکمل تشبیہی ہو جانا نجاست نہیں تو اور کیا ہے؟ کنویں کی مندرس بحث میں جو تدقیقات پائی جاتی ہیں ان کا واحد مطلب یہ ہے کہ طہارت ہماری مستقل ضرورت ہے اور عمل اور شے میں اسے کیونکر باقی رکھا جا سکتا ہے۔ طہارت صرف صفائی نہیں بلکہ جسم و روح کی پاکیزگی کا مسئلہ ہے۔
۲۔ آپ نے فرمایا: ”گزارش ہے کہ درس نظامی پر گفتگو کا درست تناظر ”عصری تقاضوں“ کی بجائے بطور مسلمان ہماری چند ”مستقل ضروریات “ ہیں۔ مستقل ضروریات میں وقت کے ساتھ کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ ”عصری تقاضوں“ کا بیانیہ اب اس قدر مضبوط ہو گیا ہے کہ ان مستقل ضرورتوں پر بات کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ دینی روایت، مستقل ضرورتوں اور عصری تقاضوں سے درس نظامی کا تعلق الگ الگ زیر بحث آنا چاہیے“۔ آپ نے بہت خوب صورت، جامع بات فرما دی۔ بس راقم اپنی کج فہمی کی وجہ سے یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آپ نے ”مستقل ضروریات“ فرما کر درس نظامی کے نصاب کا جواز ثابت کیا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے: ”اوریجنل درس نظامی کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ یہ ایک غیرمعمولی نصاب ہے، اور انسانی، دینی اور تہذیبی بصیرت کا شاہکار ہے“۔ دیکھنا یہ ہے کہ درسِ نظامی کا نصاب مسلمانوں کی مستقل ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟
جواب: گزارش ہے کہ ”دیکھنا یہ ہے کہ درسِ نظامی کا نصاب مسلمانوں کی مستقل ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے“ یا نہیں اتنا اہم سوال نہیں ہے۔ اہم یہ ہے کہ کیا کچھ ”دیکھنا“ بھی آتا ہے کہ نہیں؟ جب دیکھنا آ جائے تو اس طرح کے مسائل کا حل مشکل نہیں رہتا۔ دیکھنے کے لیے آنکھیں ہونا تو ضروری ہے ہی، لیکن آنکھیں وہی چیزیں دیکھتی ہیں جو پہلے سے ذہن میں وجود پذیر ہو جاتی ہیں۔ بھئی ہمارے ذہن بنجر اور آنکھیں بے نور ہیں، اور دیکھنے دکھانے کے کام اب ہمارے بس کے نہیں رہے۔ اپنے موجودہ حالات میں ہم اپنی ہم عصر دنیا اور اپنی روایت کو دیکھنے کے قابل نہیں رہے۔ ان کو ”دیکھنے“ کا بھی کوئی سلیقہ بنانا چاہیے۔ صرف درس نظامی کو مندرس دیکھتے جانے سے تو اب آنکھیں ہی پتھرا گئی ہیں۔
۳۔ دیکھیے اہم ترین چیز عقائد و مسائل ہیں جن سے ہر خاص و عام کو پالا پڑتا ہے۔ فقہی مسائل کا سب سے ضخیم انسائیکلوپیڈیا جو داخلِ نصاب ہے وہ ہدایہ ہے جو جہازی سائز کی چار ضخیم مجلدات پر مشتمل ہے۔ اس کو پڑھنے میں چار سال ہی صرف ہوتے ہیں لیکن اس میں موجود اکثر مباحث کا معاشرے کے مسائل سے تعلق ہی نہیں ہے اب دیکھیے ہدایہ کتاب الطھارۃ سے شروع ہو رہا ہے بلا مبالغہ ہفتے گزر جائیں گے کنویں کے مباحث پر کہ فلاں قسم کا کنواں کس طرح پاک ہوتا ہے اور فلاں قسم کا کس طرح۔ اب آپ ہی بتائیے اس کی معاشرے کو کیا ضرورت ہے؟ راقم اکیس کے سن کو پہنچ چکا ہے لیکن آج تک ان آنکھوں سے کنواں دیکھا تک نہیں۔
جواب: آپ کے نزدیک بس اہم یہ ہے کہ آپ نے ابھی تک کنواں نہیں دیکھا۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اگر دیکھ بھی لیتے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے کا۔ اگر کبھی وقت ملے تو طہارت کو بھی ”دیکھ“ لیجیے گا۔ اور بدلتے احوال و حالاتِ ہستی میں اس کو کیسے قائم رکھتے ہیں اس کا طریقہ اسلاف سے سیکھ لیجیے گا۔
۴۔ خیر آگے چلیے نماز میں قبلہ معلوم کرنے کا طریقہ کار، تو وہ اس سے بھی دلچسپ بحث ہے کیا تحریر کریں۔ پھر اس میں اختلاف در اختلاف۔ کتاب ادب القاضی ملاحظہ ہو قاضی مسجد میں بیٹھ سکتا ہے یا نہیں؟ اس پر چار روز تک امام جھگڑتے رہے۔ الغرض آپ پوری ہدایہ دیکھ لیں آدھی سے زیادہ مباحث کا معاشرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
جواب: آپ جزیات کے مندرس ہونے کا رونا تو رو ہی رہے ہیں لیکن کوئی اصول کی بحث بھی تو اٹھائیے۔ اختلاف زندہ اذہان کا مسئلہ ہوتا ہے۔ آپ کو اس سے کیوں گھبراہٹ ہوتی ہے؟ میں تو کم علم آدمی ہوں اور یہ جان کر میرے دل میں اسلاف کی محبت بڑھ گئی کہ انہوں نے یہ بحث بھی چھیڑ رکھی ہے کہ ”قاضی مسجد میں بیٹھ سکتا ہے یا نہیں؟“ آج کی دنیا میں کانٹے کا ایک مسئلہ طاقت اور علم کا باہمی تعلق ہے۔ ذرا اس بحث کو ہم عصر علمی تناظر میں اٹھائیں تو آپ کو اسلاف کی بصیرت کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ اسلام ایسے زمان و مکاں باقی رکھنے میں کامیاب رہا ہے جو سیاسی طاقت کی دستبرد سے آزاد ہوں۔ اس بحث کا تعلق ہدایت اور سیاسی/ قانونی طاقت (juridical power) کی باہمی نسبتوں سے ہے۔ اولی الامر کا مسجد میں امامت کرانا اور قاضی کا مسجد کو عدالت بنا لینا بہت اہم مسائل ہیں، اور ان پر عقلی اور علمی بحث ہمارے اسلام کی بصیرت پر دلالت کرتی ہے۔
آپ کا فرمانا ہے کہ ہدایہ کے آدھے سے زیادہ مباحث کا معاشرے سے کوئی تعلق نہیں، شکر ہے آپ نے سارے ہی غیرمتعلق نہیں کر دیے۔ لیکن جن مباحث کا ہمارے معاشرے سے کوئی تعلق باقی رہ گیا ہے آپ نے ان کے ساتھ نہ جانے کیا معاملہ فرمایا ہے؟ اس اپروچ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جن مباحث کا کوئی تعلق ہم سے رہ گیا ہے انہیں بھی غیرمتعلق کر دیا جائے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ”چار روز تک امام جھگڑتے رہے“۔ اس سے آپ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے ایک غیر اہم مسئلے میں اتنا وقت ضائع کیا۔ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ اہم اور غیر اہم کے تعین کا اصول کیا ہے اور اس کا اختیار کس کے پاس ہے؟ طالب علمانہ بدحواسیوں کو علمی مباحث قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ہمارے ہاں نام نہاد فکر اسلامی کے غلبے اور ترکِ شریعت کے پیچھے اسی طرح کی علمی تزویرات کام کر رہی ہیں۔ نام نہاد فکر اسلامی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم اسلاف کے ورثے کے حامل بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی جدید دنیا کا سامنا کرنے کی استعداد پیدا کر سکے ہیں۔ اس کا حل ہم نے بیچ کی تاریخ اور روایت کو نظرانداز یا مسترد کر کے براہ راست مآخذ اصلی سے جڑنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس کام کے لیے بھی ہم نے یہ فرض کیا ہے کہ نہ کردار کی ضرورت ہے اور نہ عقل کی۔ اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
۵۔ آپ نے فرمایا ناں کہ: ”درس نظامی کا اندازہ آج کل اس کے فارغ لوگوں کو دیکھ کر نہیں لگانا چاہیے۔ اس نصاب کو اس کی اپنی شرائط اور اس کے اپنے تناظر میں سمجھ کر کوئی critique سامنے آنی چاہیے اور جدید نصاب سے اس کا موازنہ ہونا چاہیے“۔ گزارش ہے کہ آپ فاضلین کو چھوڑ دیجیے آپ نصاب کو دیکھ لیں یہ نصاب آپ کو آٹھ سالہ کے چلے کے بعد ایک فقہی مسلک کا ترجمان دے سکتا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مثال کے طور میں ہدایہ کے مباحث حفظ کی حد تک یاد کر لیتا ہوں تو اس کے بعد مجھے ان مباحث کا اس کے سوا کچھ فائدہ نہیں ہے کہ کل کلاں کو مسند نشین ہو کر طلبہ کے سامنے شیخی بگھاروں کہ جب یہ پوچھا جائے کہ ان مباحث کی افادیت کیا ہے تو سوائے اس کے کوئی جواب نہیں ہے کہ اسلاف کا مرتب کردہ ہے اور یقیناً یہ سعادت دارین کا موجب ہے۔ یا ذرا مثبت ہو کر سوچیں تو اتنا فائدہ سمجھ میں آتا ہے کہ امت مسلمہ کو تاریخ کے فلاں دور میں ان مسائل سے نمٹنا پڑا اور علما نے ان کے یہ حل تجویز کیے اور اس اعتبار سے امام ابوحنیفہؒ کے پیروکاروں کے دلائل فوقیت رکھتے ہیں اور بس۔
جواب: بعض اوقات لسانی تحدیدات سے لفظوں کے استعمال میں بڑی مجبوریاں آ جاتی ہیں، جیسے کہ ہم درس نظامی کو بھی نصاب کہتے اور سمجھتے ہیں جبکہ جدید معنی میں یہ نصاب نہیں ہے۔ نصاب (syllabus) جدید تعلیم کا لفظ ہے اور یہ مجموعی تنظیمی عمل (organizational process) کا جز اور اس کے تابع ہوتا ہے۔ طویل تعلیمی اور تنظیمی عمل میں نصاب ذہن کی تشکیل کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس کی ایک خاص تنظیمی تشریط (organizational conditioning) کو سامنے لاتا ہے۔ جدید تعلیم چونکہ شی مرکز ہے، اس لیے متن ردی مائل (dispensible) ہوتا ہے۔ نصاب آرگنائزیشن کے اندر عمر و ذہن، توقیت اور عمل میں ایک متوازیت قائم کرتا ہے اور اس کے آگے پیچھے متن کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ تعلیمی آرگنائزیشن میں متن معنی سے خالی ہو کے تجریدات کی نوآبادی بن کر ریاضی کی مساوات بننا چاہتا ہے۔ درس نظامی پر ان میں سے کسی بات کا اطلاق نہیں ہوتا اور جب اسے بھی نصاب بنا کر مدارس میں ”نافذ“ کیا جاتا ہے، تو اس کا انجام بھی جدید نصابوں کی طرح کا ہوتا ہے۔ کلاسیکل معنی میں درس نظامی ہماری دینی، علمی اور تہذیبی روایت میں داخلے کا بڑا اور واحد دروازہ ہے۔ درس نظامی میں کارفرما عقل اور عقلی تصورات تو مدت سے مر چکے، اور اس کے جاری رکھنے کی بڑی وجہ اسلاف سے ”عقیدت“ تھی۔ اب جدیدیت اور اس کی تہذیبی فضا نے اس عقیدت کا بھی خاتمہ کر دیا ہے تو بھلا درس نظامی کیونکر اچھا ہو سکتا ہے؟ جہاں تک ”سعادت دارین“ کا تعلق ہے تو وہ ایک ترکیب کے طور پر باقی رہ گئی ہے جس کی معنویت کھولنے کے لیے بھی دل و دماغ کی ضرورت پڑتی ہے۔ پھر عقل نہ ہو تو امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے مکتب فکر کے دلائل کو ”اور بس“ کے ضمن میں بھگتانا بھی ایک عظیم کارِ علمی محسوس ہوتا ہے۔
۶۔ یہ میں نے فقہی مثال عرض کی ہے۔ آپ کتبِ عقائد کو دیکھ لیں، اور اگر اس طرۂ پیچ و خم کا کوئی خم نکلے تو براہ کرم سمجھا دیجیے گا۔ درس نظامی کے نصاب کو عقلیات کا چیپمین متصور کیا جاتا ہے۔ میں نے کہیں سنا ہے ”ہم نے منقول کو معقول بنانے کی بجائے معقول کو منقول بنا لیا ہے”۔ جو عقلیات پڑھائی جاتی ہیں ان میں منطق کی بنیادی چیزوں کو نکال دیں تو پچھلی مباحث کے متعلق یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ ”مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا“۔ دیکھیے ”سلم العلوم“ کے اسباق راقم بالترتیب لکھتا رہا ہے کہ شاید کبھی فہم انہیں قبول کر لے۔ نقیضین کے ایک سبق کی شرح کرتے استاذ گرامی لب کشا ہیں: ”متساویان کی نقیضوں میں بھی تساوی کی نسبت ہوتی ہے، کیوں کہ ان میں تساوی کی نسبت نہیں مانیں گے تو تفارق ماننا پڑے گا۔ اس پر امام رازی نے ایک مضبوط اعتراض کیا ہے: اعتراض یہ ہے کہ تفارق، تصادق کی نقیض نہیں ہے، بلکہ تصادق کی نقیض رفعِ تصادق ہے۔ لہٰذا یہ کہنا تو درست ہے کہ نقیضوں میں اگر تصادق نہیں مانا جائے گا تو رفع تصادق ماننا پڑے گا، مگر یہ کہنا درست نہیں کہ تصادق نہ ماننے کی صورت میں تفارق ماننا پڑے گا“۔ مذکورہ اعتراض کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ سالبہ جزئیہ معدولہ اور موجبہ جزئیہ محصلہ میں تلازم ہے، کیوں کہ قاعدہ ہے کہ جب کسی چیز کو صادق نہ مانا جائے تو اس کی نقیض کو صادق ماننا پڑتا ہے یا نقیض کے لازم کو صادق ماننا پڑتا ہے، کیوں کہ لازم نقیض کو بھی نقیض کا درجہ دیا گیا ہے۔ پس جب سالبہ جزیۂ معدولہ اور موجبہ جزئیہ محصلہ میں تلازم ہوا تو خواہ یوں کہو کہ رفع تصادق کو ماننا پڑے گا یا یوں کہو کہ صدق تفارق کو ماننا پڑے گا۔ دونوں باتیں درست کیوں کہ ایک تصادق کی نقیض ہے اور دوسری نقیض کے لیے لازم ہے۔ مگر یہ جواب صحیح نہیں اس کا رد کیا گیا ہے“۔ اسی طرح امام رازی اور فلاسفہ کا اختلاف کہ تصدیق بسیط ہے یا مرکب؟ یہ نامختتم سلسلہ اعتراضات و جوابات کا۔ فلسفہ کی کتب کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے یونان سے باہر قدم رکھنا اپنے شایان شان نہیں سمجھا۔
جواب: گزارش ہے کہ دقائق (technical point) کی اہمیت حقائق کے ضمن میں ہوتی ہے، اور دقائق، حقائق کو جزیات تک میں داخل اور فعال کرنے کی منہج ہوتی ہے۔ آپ نے تحقیراً جس بحث کا حوالہ دیا ہے میں اس پر حیران ہوں۔ یعنی عین وہ چیز جس پر دسترس مسلم ذہن کی ایسی تشکیل کرنے کے قابل ہے جو عصر حاضر کے علمی مباحث کے سامنے ٹھہر سکے وہ آپ کے نزدیک مردود ہے۔ اس میں کرنے کی بات یہ ہے کہ ہم اسلاف کے وارث ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اس کی کوئی اہلیت بہم پہنچانے پر قطعی قادر نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم عصر حاضر کے بنیادی تصورات اور جن دقائق میں ان کی توسیط کی جاتی ہے ان کو سمجھنے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے۔ میرا تعلق شعبۂ تعلیم سے ہے۔ اس میں ایک چیز SOLO Taxonomy ہے۔ میں اس پر اہل علم کی گفتگو سنتا رہتا ہوں۔ نہ حقائق کا پتہ ہے اور نہ دقائق کی خبر ہے۔ ان ٹیکنیکل مباحث میں جو تصور انسان کارفرما ہے، اس تصور کو جس طرح سرمایہ داری مقاصد کے مکمل تابع کر دیا گیا ہے، ان میں انسان کی اخلاقی خودی کو جس طرح نظرانداز کیا گیا ہے، اور جس طرح پورے انسان کو ذہانت کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے، وہ حیرت انگیز ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے کوئی کام نہیں کرنا اور عقل کی دشمنی میں اڑے رہنا ہے۔
۷۔ شاید میرا سوال حد سے زیادہ طویل ہو رہا ہے لیکن آخری بات بھی عرض کیے دیتا ہوں۔ آپ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا ہے: ”یہ اعتراض نصاب پر نہیں، طریقۂ تدریس پر ہے“ حق ہے۔ لیکن اساتذہ وہی پڑھائیں گے جو اس کتاب کی صدیوں پہلے لکھی گئی شروحات میں لکھا گیا ہے۔ وہ دیکھ لیجیے اسی کو بیان کیا جاتا ہے، مطلب درس نظامی کا اندازِ تدریس صدیوں سے یہ ہی ہے۔
جواب: میرا مشورہ ہے کہ کوئی بھی تبصرہ کرنے سے پہلے عقل کے استعمال کے امکان پر ضرور غور کر لیجیے گا۔
۸۔ گزارش ہے کہ عصری تقاضوں کا نام ٹھیک ہے۔ لیکن درس نظامی کو مسلکی منافرت کی زنجیروں سے تو آزاد کیجیے اور دین کو سر کا تاج بنا کر موجودہ نصاب کو اسلام کی ترجمانی اور مسلمانوں کی بنیادی ترین ضروریات کو حل کرنے کا ذریعہ تو بنائیے۔ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں عقائد و مسائل کے باب میں کتنے مسائل جدید ہیں اور یہ نصاب ٹھیک طریقے سے ازبر کر لینے والے ان کا کوئی قابل لحاظ جواب دینے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں؟
جواب: یہ موقف ناقابل دفاع ہے کہ فرقہ واریت کی بنیاد درس نظامی ہے۔ فرقہ واریت ہماری تاریخ میں ظاہر ہونے والی دراڑوں اور اس کے مابعد ملبے سے پیدا ہوئی ہے۔ اگر ہم اپنی تاریخ کی تعمیر کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں تو روایت اور تہذیب کی طرف واپسی کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے، اور اس منصوبے میں درس نظامی کی اولین اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
کمنت کیجے