Home » این انتم یا قاضی الحاجات؟
زبان وادب شخصیات وافکار

این انتم یا قاضی الحاجات؟

حافظ صفوان محمد چوہان
قاضی عابد سے صرف دو تفصیلی ملاقاتیں رہیں۔ ایک ڈاکٹر ساجد علی صاحب کے ساتھ اور ایک تنہا اُن کے گھر۔ اِن کے علاوہ سیکڑوں فون، چلتے پھرتے ملاقاتیں، چند تقریباتی ملاقاتیں، یونیورسٹی میں کئی مرتبہ چائے وائے، کتابیں، سافٹ کاپیاں، ای میلیں، اور آخر میں ایک swine song۔ لیکن آج میں ویسے رویا ہوں جیسے انکل مشفق خواجہ کی وفات پر رویا تھا۔ وجہ مجھے خود بھی سمجھ میں نہیں آ رہی۔
قاضی عابد سے میری ملاقات زکریا یونیورسٹی کے زمانے یعنی 1991-1993 کی ہے لیکن مجھے اِس کا یاد نہیں تھا۔ میں نے اپنے ابا جان پروفیسر عابد صدیق صاحب پر طویل مضمون “عابد صدیق: ایک ہیرا تراش کردار” لکھا جو “الایام” کراچی میں شائع ہوا تو قاضی نے یہ مضمون کہیں پڑھ لیا۔ پھر اُس نے مجھے فون کیا اور ایک لمبی ملاقات کے لیے وقت مانگا۔ کچھ دن بعد اِس کا موقع بن گیا۔
پہلی بات قاضی نے یہ پوچھی کہ حافظ صاحب کیا آپ جانتے ہیں کہ مجھے آپ سے کیوں محبت ہے؟ میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو تفصیل سے بتایا کہ وہ کہاں اور کس کس سطح پر میرے ابا جان کے شاگرد رہا ہے اور اُس مضمون کے مندرجات کے حوالے سے بتاتا رہا کہ میرے ابا جان نے اُس زمانے میں کن کن لڑکوں کی کالج اور ہاسٹل کی فیسوں اور کتابوں یونیفارموں کا بندوبست کیا تھا۔
پھر اُس نے میرے ابا جان کی کلاس پڑھانے کے طریقے کا ذکر کیا کہ وہ کلاس میں آتے ہی یہ بتاتے تھے کہ آج کیا پڑھائیں گے، پھر پڑھاتے، اور پھر خلاصہ بتاتے کہ آج کیا پڑھا، اور پھر بتاتے کہ آئندہ لیکچر میں کیا کچھ پڑھائیں گے۔ نیز ہر ہفتے کسی ایک کتاب کا تعارف کراتے اور اٗسے پڑھنے سے ملنے والے کے فوائد کا بتاتے۔ قاضی نے بتایا کہ آپ کے ابو جان اردو کے پروفیسر تھے لیکن تنقید اور شعر سے متعلق انگریزی کتابوں کا تعارف بھی کراتے تھے، جو انٹرمیڈیٹ کی سطح پر واقعی بالکل نئی چیز ہوتا تھا۔ نیز کلاس میں کوئی لڑکا اپنی شاعری سناتا تو اُسے بہت شاباش دیتے اور حوصلہ افزائی کرتے۔
میرے ابا جان سے متعلق اِن میں سے بعض باتیں میرے لیے نئی تھیں کیونکہ میں ادب کا طالبِ علم نہ رہا تھا۔
یہ قاضی عابد سے میرا پہلا تفصیلی تعارف تھا جو غالبًا 2013ء میں ہوا۔ اِس دن قاضی نے بتایا کہ وہ بھی اُنہی دنوں زکریا یونیورسٹی میں پڑھتا تھا جب میں کمپیوٹر سائنس میں پڑھتا تھا۔ اُس نے بتایا کہ ہم بعض دوست تمھیں اِس لیے ملنے آئے تھے کہ تم ہماری یونیورسٹی کے رول نمبر ون تھے۔
بہت سی لڑکیوں، کلاس فیلوز، ٹیچروں، ٹیچرانیوں، وغیرہ وغیرہ، پر unabridged تبصروں کے ساتھ یہ ملاقات ایک کھانے اور تین دفعہ چائے پر مکمل ہوئی۔ یونیورسٹی میں میرے تبلیغی جماعت کا امیر ہونے سے لے کر موجودہ حالت میں آنے تک کے سفرِ تنویریت کی روداد بھی کئی سال بعد ایک ایسی ہی ملاقات میں پورے انہماک سے سماعتی گئی۔
حجاباتِ من و تو تو خیر پہلے بھی نہ تھے، اُس پہلی تفصیلی ملاقات کے بعد رہے سہے حجابات بھی ویلنٹائنیات سے بدل گئے۔ ہم نے آپسی محاورے میں حجاب کا متضاد ویلنٹائن طے کر رکھا تھا، جس کے سلیبلز بھی خودگھڑیدہ ہیں۔
اپنی اور دوسروں کی کتنی ہی کتابیں قاضی نے مجھے بھجوائیں۔ لیکن اِس بات کی مجھے حسرت ہی رہی کہ اُس نے مجھے کبھی اپنی کسی کتاب پر کچھ لکھنے کو اشارۃً بھی کہا ہو۔ آج دکھ سے بھرا ہوا ہوں کہ میرے پاس اُس کی ہر کتاب موجود ہے لیکن اُس کی کسی کتاب پر میں نے کچھ نہیں لکھا ہے۔ ہاں یہ یاد ہے کہ اُس نے ساجد چودھری کی مستشرقین سے متعلق ایک کتاب مجھے دی اور کہا کہ یہ کتاب اِس قابل ہے کہ اِس پر کچھ لکھ لکھا دینا۔
کتنی ہی لڑکیوں لڑکوں کے لیے تعلیمی اور تھیسسی مدد کا قاضی نے مجھے کہا۔ مجھ سے جو ہو سکا میں کرتا رہا۔ وہ اِس پر ہمیشہ شکر گزار رہا ۔
میں نے پوری زندگی میں قاضی کا صرف ایک لیکچر سنا۔ یہ لیکچر ایک تعارفیہ تھا جو اُس نے ڈاکٹر احمد سہیل کے ملتان آنے پر اُن کے لیکچر کے لیے رسمًا دیا۔ تنقیدِ تنقید، تھیوریات اور فکشن پر اُس کی گرفت کا اندازہ مجھے اُسی لیکچر اور پھر اُس کے کلوزنگ ریمارکس سے ہوگیا۔
ہم لوگ دنیا جہان کی باتیں کرتے تھے۔ ڈاکٹر وزیر آغا سے لے کر ڈاکٹر وحید قریشی تک اور عسکری کے گروہ سے لے کر ڈاکٹر شفیق احمد جیسے شریف آدمی تک، کوئی بھی نہ بچتا تھا۔
شعبۂ اردو میں قاضی سے ایک کانفرنس کے موقع پر ملا جب وہ صدرِ شعبہ تھا اور اُس نے مجھے باصرار بلایا تھا۔ اُس روز اُس کے دفتر میں ڈاکٹر یوسف خشک اور اُن کی بیگم صوفیہ، شاہد اقبال کامران، حنا جمشید، لیاقت علی، سجاد نعیم، آصف، حماد رسول، عقیلہ جاوید، ساجد چودھری، عابد سیال، وغیرہ وغیرہ سمیت بیسیوں اساتذۂ اردو سے ملا اور سارے پاکستان میں رفتارِ تحقیق سے تازہ ترین آگاہی ہونے سے بہت فائدہ ہوا۔
پھر قاضی کو سرائیکی ریسرچ سنٹر کا سربراہ بنایا گیا تو کئی ماہ کے بعد اُس نے شکوہ کیا کہ ابھی منہ دیکھنے کا وقت نہیں آیا اِس لیے کبھی منہ ہی دکھا جاؤ۔ میں نے وعدہ کیا۔ ساتھ ہی خالد اقبال صاحب نے اصراری فون کیا۔ القصہ ایک دوپہر یہ چکر لگا ہی لیا۔ نسیم اقبال بھی ملیں۔ کبھی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ قاضی سے یہ آخری بالمشافہہ ملاقات ہوگی۔
فون پر آخری رابطہ کوئی دو ہفتے قبل ہوا جب میں ایک سرکاری دورے پر ظاہر پیر سے گزرا تو وہاں ٹیلیفون ایکسچینج کے لینڈ لائن نمبر سے قاضی کو فون کرکے اُسے حیران کر دیا کہ میں اِس وقت تمھارے شہر میں ہوں، اور بتایا کہ اب میں ملتان سے بہاول پور ٹرانسفر ہوچکا ہوں۔
قاضی کا swine song وہ تبصرے ہیں جو اُس نے ڈاکٹر عاصم بخشی کے ترجمہ کردہ ناول “چاند کو گِل کریں تو ہم جانیں” اور رحمان عباس کے “زندیق” پر کیے، اور “خرد افروزی اور روشن خیالی” پر۔ اِس سے چند دن پہلے اُس نے مارٹن لنگز کی “Muhammad” کے پہلے ایڈیشن پر تبصرہ کرکے میرے چودہ طبق روشن کر دیے تھے۔ یہ کتاب اُسے میں نے فراہم کی تھی۔
میں نے قاضی کے اندر ایک رکھ رکھاؤ والا رکھ پت رکھا پت انسان پایا۔ اُس نے اُن دنوں ایک معروف شخص کے بارے میں زبان و قلم سے ایک لفظ تک نہ کہا جب اردو کے بعض لوگ اُس کی عزت کو چوراہے کی ٹھیکری بنانے کے درپے تھے۔ ایک روز میں نے بطورِ خاص پوچھا تو کہنے لگا کہ اگر اُس شریف انسان نے مجھے اِس معاملے میں کوئی کردار ادا کرنے کو کہا ہوتا تو میں اور میری بیوی جی جان سے اور پوری قوت سے معاملہ سلجھانے کی کوشش کرتے۔ اب تو جہاں کہیں کوئی اُس کا ذکر کرے تو میں اُسے روکنے کی کوشش کرتا ہوں۔
یونیورسٹی ٹاؤن میں جتنی بار قاضی کے گھر جانا ہوا، ہمیشہ گھر کی مزے مزے کی ڈشوں سے سواگت ہوا۔ بھابی کے ہاتھ کا ذائقہ کبھی بھولنے والا نہیں۔
قاضی نے کبھی کسی کی غیبت مجھ سے نہیں کی۔ اُس سفید پوش انسان نے بہت مشکل زندگی گزاری اور جب جب اُس کا پیمانۂ صبر لبریز ہوا تو اُس نے پوسٹیں لکھ کر پریشر کوکر کی بھاپ نکالی۔ میں نے کبھی پوچھا تو کہا کہ دیکھ مولوی، آج پھر پریشر کوکر کا ویٹ ہٹا دیا ہے۔ میں خوب سمجھتا تھا کہ اگر یہ ویٹ نہ ہٹایا جائے تو میرا یار برین ہیمبریج سے مر جائے گا۔ آخر الامر برین ہیمبریج تو نہ ہوا، دل ساتھ چھوڑ گیا۔
قاضی مجھے ہدایت یافتہ مولوی کہتا تھا اور میں اُسے قاضی الحاجات۔ قاضی الحاجات The Almighty Dollar کی متبادل اردو اصطلاح ہے۔ ہدایت یافتہ مولوی آج پوچھتا ہے کہ تم کدھر سٹک لیے اے قاضی الحاجات؟
—————————————————————
ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان کمپیوٹر انجینئر ہیں اور تاریخی وادبی موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں