Home » ڈاکٹر نثار احمدؒ
اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار

ڈاکٹر نثار احمدؒ

ڈاکٹر نثار صاحب سے ملاقات ہے؟
نہیں…
یار وہ تو سیرت کے آدمی ہیں،ان کا بہت کام ہے۔
جانتا تو ہوں،نقوش میں ان کی چیزیں نظر سے گزری بھی ہیں،مگر اب تک ملاقات نہیں ہوسکی۔
کسی وقت چلیں؟
اس سے اچھی اور کیا بات ہوگی…
یہ مختصر سا مکالمہ شاید کوئی دوہزار ایک کی بات ہے اور یہ ہمارے اور برادرِ بزرگ جناب ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری کے مابین ہوا تھا۔ حقانی صاحب ان دنوں پاکستان میں تھے۔ اسی دوران ہمارے مجلے شش ماہی السیرہ کا والد صاحب اجرا کرچکے تھے، اور یہی مجلہ خود حقانی صاحب سے بھی ہماری ملاقات کا سبب بنا تھا۔ یوں ڈاکٹر نثار صاحب سے ملاقات کی سبیل پیدا ہوئی اور ہم دونوں وقت طے کرکے کراچی یونیورسٹی میں شعبہ اسلامی تاریخ پہنچ گئے۔
ڈاکٹر صاحب حقانی میاں قادری سے خوب گرم جوشی سے ملے، ہاتھ ہم سے بھی ملایا، مگر مکمل التفات انھی کی جانب رہا۔مگر یہ چند لمحوں کا وقفہ تھا۔ جب حقانی صاحب نے ہمارا تعارف کرایا اور السیرہ کے اس وقت تک چھپے ہوئے چند شمارے پیش کیے تو ملاقات کا موسم مکمل طور پر تبدیل ہو گیا۔ پہلے اگر حقانی صاحب کے والدِ گرامی جناب نعمت اللہ قادری مرحوم کا تذکرہ چل رہا تھا تو اب اس میں ہمارے دادا مولانا سید زوار حسین شاہ رحمہ اللہ کا ذکر بھی پورے جوش کے ساتھ شامل ہو گیا اور ضمنی تذکروں میں تو پھر ڈاکٹر ایوب قادری، حاجی محمد اعلیٰ صاحب (مکتبہ مجددیہ)، جناب ثناء الحق صدیقی اور نہ جانے کون کون شامل ہوتے چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے چھوٹے سے مگر کتابوں سے اٹے کمرے میں اپنی یادیں بکھیرتے رہے اور ہم انھیں جرعہ جرعہ اپنے اندر اتارتے رہے۔
ڈاکٹر صاحب قدرے بذلہ سنج بھی تھے۔ ہم جیسوں سے تو لطائف سنتے بھی اور ان سے محظوظ بھی ہوتے، لیکن گھوم پھر کر کام کی بات پر فورا آجاتے۔ البتہ ان کی یادوں کی پٹاری ہر وقت مختلف نوع کے واقعات سے لبالب بھری رہتی۔کسی بھی موضوع پر بات شروع ہونے کی دیر ہوتی، وہ اس سے کچھ نہ کچھ نکال کر پیش کرنا شروع کردیتے اور ہم جیسے ماضی میں جینے والوں کی دل بستگی کا سامان مسلسل بہم ہوتا چلا جاتا۔
لیکن یہ ہماری ڈاکٹر صاحب سے پہلی ملاقات نہیں تھی۔ ڈاکٹر صاحب سے پہلی ملاقات یا یوں کہیے کہ ان کی زیارت اسلام آباد میں قومی سیرت کانفرنس کے موقع پر 1996 میں ہوئی تھی۔ اتفاق کہیے کہ وہ اس نوعیت کے کسی پروگرام میں ہماری شرکت کا پہلا موقع تھا۔ ہم نے وزارتِ مذہبی امور کی جانب سے سالانہ مقابلۂ مقالاتِ سیرت کے اعلان پر والد صاحب کی تشویق سے ایک مضمون تحریر کیا، اور ہماری قسمت نے یاوری کی اور اس پر سندھ سے ہمیں دوسرے انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔ اس موقع پر پہلا انعام ڈاکٹر صاحب کا تھا، یوں انھیں ہم نے وہاں پہلی بار دیکھا اور سنا۔ اس سے قبل چوں کہ ان کے کئی ایک مضامین نظر سے گزر چکے تھے، اس لیے نام اور شخصیت سے اجنبیت بالکل نہیں رہی تھی۔ البتہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ الگ سے بیٹھنے کا موقع بعد میں 2001 کے قریب کسی وقت آیا ،جس کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے رجحانات میں سیرتِ طیبہ بطور فن بہت پہلے شامل ہو چکی تھی۔ آپ نے بہت پہلے ”سحاب رحمت“ نامی کتاب مرتب کرکے اپنے اس ذوق کا اظہار کیا اور پھر ساٹھ کی دہائی میں ”نقشِ سیرت“ جیسی کتاب مرتب کی۔ یہ کتاب فنی اعتبار سے سیرت طیبہ کے عنوان سے مرتب ہونے والی کتب میں نمایاں اور فائق حیثیت رکھتی ہے۔ اردو میں اگرچہ سیرت نمبروں کی روایت بڑی مضبوط ہے، اور ان کی حیثیت ایک مرتب شدہ کتاب کی سی ہوتی ہے، لیکن ایسی کتب میں، جن میں سیرت کا بیان ایک خوب صورت گل دستے کی صورت میں آگیا ہو، نقش سیرت کا کوئی مقابل نہیں۔اس مجموعے کو ایک اعزاز یہ بھی حاصل ہے کہ ا س میں سیرت طیبہ کے حوالے سے اپنے وقت کے تمام ہی اہم اہل قلم کی نگارشات شامل ہیں۔
ڈاکٹر صاحب سے ایک سے زائد بار اکھٹے سفر کا اتفاق بھی رہا۔ ایک بار تو 2011 میں اسلام آباد میں ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی بین الاقوامی سیرت کانفرنس کے موقع پر اور کم از کم دو بار علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے تحت منعقد ہونے والی کانفرنسوں میں۔ ایک بار ڈاکٹر صاحب نے اصرار کرکے ہمیں اپنے کمرے میں ٹھہرا لیا۔ہم عام طور پر کوشش یہ کرتے تھے کہ دیگر سینئر حضرات کی طرح ڈاکٹر صاحب کے لیے بھی الگ کمرہ مختص کر لیا جائے، تاکہ رہائش میں انھیں کچھ سہولت مل سکے۔ اس موقع پر ایسا نہ ہو سکا۔ ڈاکٹر صاحب کی وہاں شاید ہم سے ہی شناسائی تھی، انھوں نے کہا کہ میرے ساتھ کمرے میں آجاؤ، میں نے پیشکش قبول کر لی۔ رات کو سوتے ہوئے ایک لطیفہ ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ رات میں راہداری میں جلنے والی لائٹ جلتی رہنے دی جائے۔میں مصر ہوا کہ نہیں جناب، میں تو مکمل اندھیرے میں سونے کا عادی ہوں، اس لیے یہ لائٹ بجھائی جائے گی۔ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ میں تو لائٹ جلا کر سونے کا عادی ہوں، مکمل اندھیرا ذرا درست نہیں، مجھے رات کو اٹھنا ہوگا، تب اندھیرے میں بہت دشواری ہوگی۔ ہم نے ڈاکٹر صاحب کو چھیڑنے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ ایسا کرتے ہیں قرآن کریم سے فیصلہ کر لیتے ہیں۔ وہ حسبِ توقع جھلا کر بولے کہ یہاں قرآن کریم درمیان میں کہاں سے آگیا۔ اس مسئلے کا قرآن سے کیا تعلق۔ہم نے عرض کیا کہ مومن کے ہر لمحے کا قرآن سے گہرا تعلق ہے، دیکھیے سورۂ نبا میں اللہ تعالی نے رات کو لباس قرار دیا ہے۔ لباس انسان کے ہر ہر پہلو کو مکمل طور پر چھپا لینے کا نام ہے تو کیسے ممکن ہے کہ اُس رات کو رات کہا جائے جس میں اتنا بڑا بلب روشن ہو اور کمرے میں خوب روشنی پھیلی ہوئی ہو۔
یوں بات مزاح میں ختم ہوگئی اور وہ رات ہمیں اپنے سروں پر موجود روشن بلب کے ساتھ بسر کرنی پڑی۔
ڈاکٹر صاحب کا کراچی میں اپنے سر گرم دور میں بہت سے اہلِ علم سے رابطہ رہا، جن میں ایسے حضرات بھی شامل ہیں، جو آج مشاہیر کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔ اسلام آباد کے کسی ایسے ہی سفر میں جناب ڈاکٹر انیس احمد، سابق ڈائریکٹر جنرل دعوہ اکیڈمی اور وائس چانسلر رفاہ یونیورسٹی، کسی سیشن کی صدارت کر رہے تھے، ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میں پچھلی صفوں میں موجود تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے انیس صاحب کو دیکھا تو کہنے لگے: واہ ماشاء اللہ! ڈاکٹر انیس بھی موجود ہیں۔ بہت عرصے بعد ان کو دیکھا، پتا نہیں، یہ اب ہمیں پہچان بھی پائیں گے یا نہیں۔ میں نے ایسے ہی گرہ لگاتے ہوئے کہا کہ کیوں نہیں،آپ کا اتنا وقت اکھٹے گزرا ہے، ایسا کیسے ممکن ہے کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو پہچانیں گے نہیں۔اتفاق سے ڈاکٹر انیس صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو وہیں سے دیکھ لیا اور اسٹیج سے اترتے ہوئے سیدھے ان کے پاس چلے آئے، اور بولے: مولانا کیسے ہیں آپ،کب آئے،کب تک قیام ہے، ملاقات ہونی چاہیے، گھرتشریف لائیے، اور یہ کہہ کر جلد روانہ ہو گئے کہ میں ایک پروگرام میں جا رہا ہوں، مجھے اپنا نمبر دیجیے۔ ملاقات ہوتی ہے۔ اس طرح ہمیں ڈاکٹر صاحب کو چھیڑنے کا ایک بہانہ ہاتھ آ گیا۔
ڈاکٹر صاحب نے ایک بھرپور زندگی گزاری اور لکھنے پڑھنے کے ساتھ ساتھ ہومیوپیتھک ڈاکٹر کے طور پر اپنا مطب بھی چلاتے رہے۔ جب تک آپ سمن آباد گلبرگ میں قیام پذیر رہے، شام کے اوقات میں اور بعد میں معلوم ہوا کہ صبح کے اوقات میں بھی پابندی کے ساتھ ایک دکان میں قائم کردہ مطب میں بیٹھتے رہے۔ جب علالت زیادہ ہوتی، تب اس معمول میں ناغہ ضرور ہو جاتا، لیکن اس کے علاوہ آپ پورا اہتمام فرماتے تھے کہ مطب کے وقت میں وہاں بیٹھنے کی پابندی کی جائے۔
ڈاکٹر نثار احمد 1941 میں اٹاوا یو پی انڈیا میں پیدا ہوئے۔ وہیں اسلامیہ ہائی اسکول سے آپ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد آپ کراچی منتقل ہوگئے۔ اور جون 1948ء میں پاکستان آنے کے بعد پہلے ماڈل ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ 1956ء میں میٹرک کا امتحان دیا۔ 1961ء میں اسلامیہ کالج کراچی سے بی اے اور 1961ء میں شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی سے ایم۔اے۔ (اسلامی تاریخ) فرسٹ کلاس سیکنڈ پوزیشن میں مکمل کیا۔ اس کے بعد 1966ء میں ایم۔اے۔ (علوم ِ اسلامی) میں بھی فرسٹ کلاس سیکنڈ پوزیشن حاصل کی۔ 1976ء میں “عہد نبویﷺ میں ریاست کا نشو و ارتقا” کے موضوع پر اپنے استاد ڈاکٹر محمد سلیم کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی اور 1978ء میں ایل ایل بی کا امتحان (فرسٹ کلاس) میں پاس کیا۔
آپ نے تعلیمی سلسلے کے ساتھ ہی اپنی تدریسی مصروفیت کا بھی آغاز کردیا تھا۔چناں چہ آپ نے باقاعدہ تدریس کا آغاز 1969ء میں ماڈرن بک کالج کراچی سے کیا۔ اور یہاں آپ نے دوسال تک تدریس کے فرائض سر انجام دیے۔ پھر اکتوبر 1964ء میں آپ بہ حیثیت اسسٹنٹ لیکچر شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی سے منسلک ہوگئے۔ اسی دوران کچھ عرصے آپ نے ادارہ معارفِ اسلامیہ میں بھی تالیفی و تحقیقی خدمات انجام دیں۔ یہ دورانیہ کوئی پانچ برس کو محیط تھا۔ یہاں آپ پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری، اور ڈاکٹر ممتاز احمد جیسے مشاہیر اہل علم اوراہل قلم کے ساتھ علمی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ آپ اس دوران اسسٹنٹ پروفیسر، ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پھر پروفیسر کے مناصب پر فائز رہتے ہوئے 2001ء میں بحیثیت پروفیسر و صدر شعبہ اسلامی تاریخ و رئیس کلیہ فنون و تجارت، جامعہ کراچی ، ملازمت سے سبک دوش ہوئے۔
1988 میں آپ کو نقوش ایوارڈ دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وزارت مذہبی امور حکومت پاکستان کی جانب سے آپ کی متعدد کتب اور مقالات پر آپ کو سیرت ایوارڈ دیے گئے۔
یوں ڈاکٹر صاحب کی تدریس کا بہت بڑا دورانیہ اور تعلیم و تحقیق کا سلسلہ یا کراچی یونیورسٹی سے وابستگی میں گزرا یا انفرادی طور پر اپنے ذوق کے نتیجے میں۔ لیکن آپ شروع دن سے لکھتے رہے اور تسلسل کے ساتھ ان کی چیزیں سامنے آتی رہیں۔لکھنے والوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی پیش آتا ہے کہ یا تو ان کی تحریریں شائع نہیں ہو پاتیں، یا ان کی تحریروں میں کثرت کے سبب موضوعی یکسانیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریریں مسلسل چھپتی بھی رہیں اور موضوعی اعتبار سے ان کی انفرادیت بھی برقرار رہی۔ آپ کی مرتب کردہ اور تحریر فرمودہ مستقل کتب تو پانچ ہیں:
نقشہ سیرت، عہد نبوی میں ریاست کا نشو و ارتقا، خطبہ حجۃ الوداع، دعوت نبوی اور مخالفت قریش، النقوش المنورہ۔
لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سا مواد موجود ہے، جو مضامین کی شکل میں بکھرا ہوا ہے، یہ مواد بھی کئی جلدوں کی ضخامت رکھتا ہے۔
آپ کو اپنے معاصرین میں بھی نیک نامی حاصل تھی، کتنی ہی بار ڈاکٹر سید محمد ابو الخیرکشفی اور پروفیسر علی محسن صدیقی سے ہم نے آپ کی تعریف سنی۔ علی محسن صدیقی صاحب مرحوم و مغفور تعریف کرنے میں نہایت محتاط تھے بلا سبب کسی کا مبالغے کے ساتھ ذکر کرنا ان کی سرشت میں ہی نہیں تھا، لیکن وہ یہ بات زور دے کر کہتے کہ ڈاکٹر نثار نے سیرت کو تخصص کے طور پر اپنایا ہے۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری، پروفیسر خورشید احمد، نیز ڈاکٹر ممتاز احمد اورحکیم محمود برکاتی یہ حضرات چونکہ تمام کے تمام جماعت اسلامی سے بھی وابستہ رہے تھے، اور ان میں سے کئی ایک کا ادارہ معارف اسلامی میں کچھ وقت اکٹھے بھی گزر چکا تھا، اس لیے بھی یہ سب آپ کے لیے بلند الفاظ میں کلمات ستائش کہتے۔
ڈاکٹر صاحب عام طور پر تقریبات میں آتے جاتے کم کم ہی دکھائی دیتے، مگر علمی نشستوں میں کئی بار انہیں مدعو کرنے کا موقع ملا، ایک آدھ بار کسی اور کی تقریب میں بھی ملاقات رہی۔
جب لاہور میں کتاب سرائے کی بنیاد پڑ رہی تھی، تب پروفیسر عبد الجبار شاکر مرحوم کراچی تشریف لائے۔ وہ اپنی خورد نوازی کے سبب سے مشاورت ضرور کرتے تھے، انہوں نے دو اہم کام یہ تفویض کیے کہ ایک تو کراچی میں کتابوں کے کاروبار سے وابستہ کسی فرد سے کتاب سرائے کا رابطہ، جو برادرم جمال الدین افغانی دیکھ رہے تھے، دوسرے ایسے لکھنے والوں سے رابطہ، جن کی کتب ادارہ شائع کرسکے۔ چناں چہ ایسے کسی موقع پر پروفیسر عبد الجبار شاکر مرحوم کو ڈاکٹر صاحب سے ملوانے کا خوش گوار فریضہ بھی ہمارے کاندھوں پر آیا۔ شاکر صاحب کراچی تشریف لائے، تو ڈاکٹر صاحب کو بتایا، ان سے ملاقات کا وقت طے ہوا، ہم شاکر صاحب کو لے کر ڈاکٹر صاحب کے گھر پہنچ گئے، گپ شپ ہوئی، چائے اور مفرحات کا دور چلا، کتابوں کی بات ہوئی، خاص طور پر ڈاکٹر صاحب کے مقالہ پی ایچ ڈی کا ذکر آیا، اور طے ہوا کہ یہ مقالہ کتاب سرائے سے شائع ہوگا۔ چناں چہ اس پر کام شروع ہوگیا، اور بالآخر یہ مقالہ “عہد نبوی میں ریاست کا نشو ارتقا” کے عنوان سے شائع ہو گیا۔ کتاب کی اشاعت پر شاکر صاحب نے چند نسخے ڈاکٹر صاحب تک پہنچانے کا فریضہ بھی ہمیں سونپا، اسی موقع پر شاکر صاحب نے یہ تجویز بھی دی کہ کراچی میں اس کتاب کی کوئی مختصر سی تقریب رونمائی منعقد ہوجائے تو بہت اچھا ہو، ہم نے اس وقت کے اکادمی ادبیات کے سندھ کے ریزیڈینشل ڈائریکٹر جناب آغاز نور محمد پٹھان سے رابطہ کیا اور ان کے دفتر میں شام میں ایک نشست کا اہتمام کرلیا گیا، مقررہ تاریخ کو پروفیسر عبد الجبار شاکر صاحب مرحوم و مغفور کراچی تشریف لے آئے، اور مختصر سے احباب اور بزرگوں کے ساتھ بہت عمدہ نشست رہی۔ اس موقع پر ایک لطیفہ بھی ہوا۔ہمارا خیال تھا کہ اس موقع پر کتاب پر اصل گفتگو تو شاکر صاحب ہی کریں گے، مگر وہ اسٹیج پر آئے، افتتاح کے طور پر چند جملے ادا کیے اور بغیر کسی پیشگی اشارے کے میرا نام پکار دیا، اور فرمایا کہ کتاب پر گفتگو کروں۔ اچانک یہ اعلان سن کر ظاہر ہے کہ ہمارے اوسان کہاں بہ حال رہتے، مگر بات تو کرنی پڑی، لیکن اطمینان یہ ہوا کہ ہماری وہ ارتجالا کی جانے والی گفت گو خود صاحب کتاب ڈاکٹر نثار صاحب نے بھی پسند کی۔
اس سفر کے بعد بھی پروفیسر عبدالجبار شاکر صاحب کئی بار کراچی تشریف لائے اور تقریباً ہر بار ہی ڈاکٹر نثار صاحب کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ یہی ترتیب رہتی کہ شاکر صاحب اسلام آباد سے اپنی آمد کے بارے میں مطلع کرتے، میں ڈاکٹر صاحب سے وقت طے کرتا، شاکر صاحب عام طور پر ایئرپورٹ سے سیدھے میرے پاس تشریف لاتے اور ہم اکٹھے ڈاکٹر صاحب کے گھر پہنچ جاتے۔ چائے اور مفرحات کا دور چلتا، گپ شپ بھی ہوتی اور لطیفے بازی بھی، درمیان درمیان میں کام کی باتیں بھی طے پاجاتیں۔
چناں چہ پھر ڈاکٹر صاحب کی کتاب خطبہ حجۃ الوداع بھی کتاب سرائے نے ہی شائع کی۔
ڈاکٹر صاحب کو اپنے زمانے کے بہت بڑے بڑے حضرات سے قربت رہی، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، مولانا عبدالقدوس ہاشمی، ثناءالحق صدیقی، محمد طفیل، مدیر نقوش اور نجانے کون کون۔ اس لیے ڈاکٹر صاحب جب موڈ میں ہوتے اور ان کی یادوں کی پٹاری کھل جاتی تو بڑے مزے مزے کے واقعات سننے کو ملتے۔ ڈاکٹر صاحب بھی گزرے دور کو بیان کرتے ہوئے ایک گونہ جذب کی کیفیت میں آ جاتے اور ان حضرات سے وابستہ یادیں خوب تازہ کرتے۔ جب ہم نے تعمیر افکار کے مولانا سید زوار حسین شاہ نمبر کا ارادہ کیا اور اس سے بھی بہت پہلے جب علامہ طاسین نمبر شائع کیا، تب ڈاکٹر صاحب نے ان دونوں حضرات سے اپنی یادیں خوب تازہ کیں، بل کہ ان مضامین میں ضمنی تذکرے بھی بہت تھے، ڈاکٹر صاحب بات سے بات اور یاد سے یاد نکالنے کا فن جانتے تھے، یہ خوبی آپ کے شخصی مضامین میں خوب کھلتی، اورآپ کے اس نوع کے مضامین کسی ایک فرد کا یاد نامہ نہ رہتے، بل کہ وہ آپ کی یادوں کی بارات بن جاتے۔
آخر چند برسوں میں انڈیا سے ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی صاحب کا تواتر سے کراچی آنا ہوا، آپ جب بھی آتے ڈاکٹر صاحب کو اہتمام سے یاد کرتے اور ہماری کوشش ہوتی کہ ان دونوں حضرات کی ایک ملاقات ضرور ہو جائے۔ ایک آدھ بار ایسا ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت ناساز تھی بلکہ وہ ہسپتال میں داخل تھے، اس لیے ملاقات نہ ہو سکی، لیکن جب ملاقات ہوئی تو وہ لمحے ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔ گفتگو، گپ شپ، یادیں، قصے، لطیفے، قہقہے اور علمی نکات کے ساتھ تکلف سے بھرپور کھانا یا مفرحات سے مزین چائے۔سب کچھ یادگار ہوتا۔
ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی صاحب کی ڈاکٹر نثار صاحب سے آخری ملاقات بھی اسی نوعیت کی رہی۔ یہ شاید 2020 کا قصہ ہے۔ ڈاکٹر یاسین صاحب کی شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی میں نشست تھی، جناب ڈاکٹر سہیل شفیق اس کے نگران تھے، طے یہ ہوا کہ وہ نشست کے بعد ڈاکٹر صاحب کو لے کر ڈاکٹر نثار صاحب کے گھر پہنچیں گے، اور میں بھی اپنے دفتر سے جلد اٹھ کر کھانے میں ان حضرات کے ساتھ شریک ہو جاؤں گا۔ اتفاق ہوا کہ ہم ایک ہی وقت میں ڈاکٹر صاحب کے گھر پر پہنچے اور اکٹھے ہی ان کے مہمان خانے میں داخل ہوئے۔ ڈاکٹر نثار صاحب چشم براہ تھے، جلد ہی کھانا چن دیا گیا، اور کھانے کے ساتھ ہی ان حضرات کے قہقہوں کا بھی آغاز ہو گیا۔
آہ دیکھتے ہی دیکھتے اس قدر جلد سب کچھ لپٹ گیا، یہ تاریخ کے چند صفحات نہیں لپٹے، یہ تو پورے باب کا باب ہی الٹ دیا گیا۔اطمینان یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات بھرپور زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے، اور جب تک رہے، مسلسل سرگرم عمل و سرگرم قلم رہے۔ جانے سے مفر کس کو ہے، مگر ایسے کچھ کر کے جانے کا مزا ہی اور ہے۔

ڈاکٹر سید عزیز الرحمن

ڈاکٹر سید عزیز الرحمن، دعوہ اکیڈمی کے ریجنل سنٹر، کراچی کے انچارج اور شش ماہی السیرۃ عالمی کے نائب مدیر ہیں۔

syed.azizurrahman@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں