Home » طریقۃ الفقہاء و المتکلمین کا فرق: چند ملاحظات
اسلامی فکری روایت فقہ وقانون

طریقۃ الفقہاء و المتکلمین کا فرق: چند ملاحظات

 

اصول فقہ میں عام طور پر دو مناہج کا عنوان طریقۃ الفقہاء اور طریقۃ المتکلمین ہے۔ عام طور پر ان سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ فقہاء (بالخصوص احناف) اپنے ائمہ سے منقول جزیات کا استقراء کرتے ہوئے اصول و قواعد فقہ اخذ کیاکرتے تھے جبکہ متکلمین جزیات کا لحاظ کئے بغیر نظری بحث کرکے قواعد و اصول فقہ وضع کرتے تھے۔ اسے عام طور پر کتابوں میں یوں بھی بیان کیا جاتا ہے کہ متکلمین “پہلے” اصول وضع کرتے اور پھر جزیات اخذ کرتے تھے جبکہ فقہاء پہلے سے موجود جزیات سے اصول کشید کیا کرتے تھے۔ اصول فقہ کے ان دو مناہج کی تقسیم کی اولین نسبت علامہ ابن خلدون (م 1406 ء) کی طرف کی جاتی ہے۔ ہماری دانست میں اس تقسیم کو بیان کرنے کا یہ انداز نہ مفید ہے اور نہ ہی درست بلکہ گوں نا گوں غلط فہمیوں کا باعث ہے۔ اگر یہ بات درست ہو کہ متکلمین زمانی اعتبار سے “پہلے “قواعد بناتے تھے تو اس سے لازما دو نتائج اخذ ہوتے: (1) مالکی، شافعی وحنبلی اصولیین اپنے ائمہ سے منقول بہت سی جزیات بدل دیتے کیونکہ یہ منہج ان سب میں مشترک ہے، نیز (2) ان متکلم اصولیین کی اپنی کوئی الگ مشترک فقہ بھی ہوتی ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں ہی نتائج روبہ عمل نہیں ہوئے، یعنی شافعی متکلم اصولیین فقہ کے لحاظ سے شافعی رہے اور مالکی اصولیین مالکی ہی رہے، اتنا ہی نہیں بلکہ یہ سب فقہ کے معاملے میں اپنے ائمہ ہی کی جزیات کا دفاع کرتے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ متکلمین (زمانی لحاظ سے) “پہلے” اصول بناتے تھے اور پھر جزیات، یہ بات امر واقعہ کے مطابق نہیں۔ اسی طرح اس انداز بیان سے احناف کے بارے میں یہ تاثر ابھرتا ہے گویا انہوں نے پہلے بغیر اصول جزیات بنالیں اور پھر ریورس انجینیئرنگ کرتے ہوئے ان جزیات کے دفاع کے لئے اصول بنا لئے۔

یہاں ہم اختصار کے ساتھ اس حوالے سے اس تقسیم کی حقیقت بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے لئے گروہ متکلمین کے انداز فکر اور اس سے ابھرنے والے طرز تحریر کی چند خصوصیات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے، یہ خصوصیات علم منطق و الہیات (فلسفہ) کے ساتھ ان کے گہرے شغف کی بنا پر تھیں۔

1) ان کے منہج کی پہلی خصوصیت یہ تھی کہ یہ حضرات کسی دلیل میں برتے جانے والے خاص مواد (matter) یا کنٹنٹ سے بحث کرنے کے بجائے خود دلیل کی ساخت اور اس کی صحت پر زیادہ فوکس کیا کرتے تھے۔ یہ منطق کا انداز بحث ہے جہاں دلیل کی ساخت کو دلیل کے محتویات یا کنٹنٹ سے یکسر الگ رکھتے ہوئے اس سے بحث کی جاتی ہے۔ مثلا دلیل کی ایک مثال یہ ہے:

تمام انسان فانی ہیں

زید انسان ہے

لہذا زید فانی ہے

اس دلیل کو اگر انسان، فانی اور زید کے بجائے مجرد ساخت کے طور پر پیش کیاجائے تو یہ اس طرح ہے:

تمام الف ب ہیں

ج الف ہے

لہذا ج ب ہے

مناطقہ کا انداز بحث اول الذکر کے بجائے مؤخر الذکر ہوتا ہے، یعنی ان کے مطابق دلیل کی یہ ساخت لازما ایک ایسا نتیجہ پیدا کرے گی جو صحت (validity) کی صفت سے متصف ہوگا، چاہے اس کے اندر موجود تمام قضایا جھوٹ یا غلط ہوں۔ مثلا، اگر کہا جائے کہ:

سب مرغیاں کرسیاں ہیں

ٹیبل مرغی ہے

لہذا ٹیبل کرسی ہے

اگرچہ یہ دلیل اپنے مقدمات اور نتیجے کے لحاظ سے غلط (unsound) ہے تاہم اپنی مجرد ساخت (abstract form) کے لحاظ سے یہ ویلڈ ہے کیونکہ اس کا نظم وہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔ مناطقہ کی بحث کا زاویہ نگاہ لائق اعتماد قضایا و دلیل کی ایسی ساختوں سے بحث کرنا ہوتا ہے نہ کہ ان میں استعمال ہونے والے قضایا کے کنٹنٹ سے۔ چنانچہ متکلمین جب اصول فقہ سے بحث کرتے ہیں تو ان کی دلچسپی کا زیادہ محور ان اصول و قواعد سے برآمد اور ثابت ہونے والے فقہی مسائل نہیں ہوتے بلکہ وہ مجرد قواعد ہوتے ہیں جو ویلڈ ہیں : یعنی جنہیں جزئیات کے لئے مخصوص شرائط کے ساتھ بطور سند استعمال کرنا درست ہوسکتا ہے۔ اس معنی میں وہ فقہی جزئیات و اجتھادات کو جانچنے کے لئے معیار وضع کرنے کی کوشش کرتے ہیں، علی الرغم اس سے کہ ان اصولوں کو کونسا گروہ کس ترتیب و شرائط کے ساتھ برتے گا۔ یہی بات علامہ ابن خلدون نے لکھی ہے کہ متکلمین دراصل فقہی جزیات کے کنٹنٹ کے پس پشت دلیل کی مجرد (abstract) صورتوں و ساختوں سے بحث کیا کرتے ہیں اور یہی ان کے علمی مزاج کے مطابق تھا (والمتكلّمون يجرّدون صور تلك المسائل عن الفقه ويميلون إلى الاستدلال العقليّ ما أمكن لأنّه غالب فنونهم ومقتضى طريقتهم)۔ علامہ ابن خلدون کی اس عبارت کا یہ مفہوم نہیں کہ متکلمین “پہلے” اصول بناتے تھے اور پھر جزیات اخذ کرتے، یہ غلط العام مفہوم دیگر لوگوں نے اس میں پیدا کیا ہے۔ گروہ متکلمین میں ایسا کوئی اصولی نہیں گزرا جس نے یا اپنے فقہی مذہب کو ترک کرکے اصول فقہ پر بحث کی ہو اور یا اصول فقہ پر بحث کے بعد اپنا الگ فقہی مذہب بنا لیا ہو۔ اس کے برعکس گروہ فقہاء کا زیادہ زور فقہی جزیات کے اندر رہتے ہوئے اور اس کے شانہ بشانہ قواعد و اصولوں سے بحث کرنا تھا۔ ان کے ہاں از خود “مجرد ساخت” کی بحث پر اس طرح زور و صراحت نہیں ملتا جو متکلمین کا انداز بحث تھا، دوسرے لفظوں میں یہ مخصوص قضایا کہ کنٹنٹ پر زیادہ محنت صرف کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اصولی کتب میں فقہی جزیات (یعنی کنٹنٹ) کا استعمال زیادہ ہوا کرتا تھا اور وہ یہ واضح کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے کہ مخصوص فقہی جزیات کی صحت کن اصولی دلائل سے ماخوذ ہے نیز وہ اصولی دلائل ان جزیات کے پیش نظر کیوں کر درست ہیں۔

منہج متکلمین کی اس خصوصیت کی وضاحت ہم ایک مثال سے کرتے ہیں۔ کتاب “شفاء الغلیل” میں امام غزالی مسالک علت پر تفصیل سے بحث کرتے ہوئے انہیں منصوص اور مستنبط میں تقسیم کرتے ہیں۔ پھر منصوص میں دو کا ذکر کرتے ہیں: (الف) وہ جو لفظ کے معنی کی دلالت کے لحاظ سے علت یا سببیت کا فائدہ دیتے ہیں جیسے لفظ “کی” (اس لئے یا تاکہ)وغیرہ، (ب) وہ جو لفظ کی اپنی دلالت کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس سے معلوم ہونے والے معنی کی دلالت سے ظاہر ہو، یعنی وہ لفظ از خود علت کے معنی کے لئے وضع نہیں کیا گیا ہوتا تاہم جملے کی ترکیب و ساخت کی بنا پر جو مفہوم اس سے معلوم ہوتا ہے وہ سببیت کا مفہوم پیدا کرتا ہے۔ آپ اس کی پانچ ساختوں یاصورتوں پر بحث کرتے ہیں جن میں سے ایک صورت “شریعت کا کسی وصف فارق کو ذکر کرکے دو امور کا حکم الگ کرنا ہے”۔ ایسا بیان اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ یہاں وصف فارق کا حکم کے تعین میں کردار ہے۔ جیسے شارع نے فرمایا کہ مورث کا قاتل اس کا وارث نہیں بن سکتا، اس سے معلوم ہوا کہ “قتل ” یہاں وصف فارق ہے جو وارث کی وراثت سے محرومی کا سبب ہے۔ اسی طرح شارع کا یہ کہنا کہ لَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ (اپنی بیویوں کے پاس مت جاؤ یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہوجائیں)، یہاں “حتی ” کے بعد جو بات کہی گئی وہ بیوی کے ساتھ قربت جائز و ناجائز ہونے کے حکم میں فرق پیدا کرنے والا وصف ہے۔ اسی طرح قرآن میں آیا کہ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ (پھر اگر وہ طلاق دے اپنی بیوی کو تو وہ حلال نہ ہوگی اس پر یہاں تک کہ نکاح کرے کسی خاوند کے ساتھ)، یہاں بھی “حتی ” کے بعد “تنکح زوجا غیرہ” وصف فارق ہے۔

امام غزالی اس نوع کی پانچ ساختوں کی وضاحت کے بعد یہ واضح کرتے ہیں کہ یہ صورتیں کسی وصف میں صرف اس لحاظ سے سببیت کا مفہوم پیدا کرنے کا فائدہ دیتی ہیں کہ حکم میں ان کاعمل دخل ہے نیز ان اوصاف کو حکم کے تعین میں پوری طرح نظر انداز یا کالعدم قرار نہیں دیاجاسکتا۔ تاہم ان ساختوں سے یہ بات قطعی طور پر معلوم نہیں ہوتی کہ آیا متعلقہ وصف حکم کے لئے علت ہے یا شرط نیز یہ وصف از خود علت ہے یا علت اس کے ضمن میں کوئی دوسرا مفہوم یا وصف ہے۔ پھر آپ چند مثالیں دےکر یہ بتاتے ہیں کہ اس ساخت سے ظاہر ہونے والا متعلقہ وصف کس طرح کبھی علت بنتا ہے تو کبھی شرط وغیرہ۔ اسی ضمن میں بیان کردہ ایک مثال ہمارے مقصد کے لئے مفید ہے۔

اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر شوہر نے بیوی کو 3 طلاق دی اور بیوی نے دوسرے شوہر سے طلاق کے بعد پھر پہلے شوہر سے نکاح کیا تو پہلے شوہر کو پھر سے 3 طلاق تک دینے کا حق ہوگا۔ لیکن اگر ایک شخص نے بیوی کو ایک (یا دو طلاق) دی اور متعین مدت تک رجوع نہ کرنے کے باعث طلاق بائن ہوگئی، پھر اس کی بیوی نے دوسرا نکاح کرلیا اور دوسرے شوہر نے بھی اسے طلاق دے دی جس کے بعد اس عورت نے پھر پہلے شوہر سے شادی کرلی، اب سوال پیدا ہوا کہ کیا اب بھی پہلے شوہر کو 3 طلاق تک دینے کا حق حاصل ہوگا یا باقی مانندہ کا (یعنی اگر پہلے 1 دی تھی تو اب 2 کا اور اگر پہلے 2 دی تھیں تو اب 1 کا)؟ اس پر احناف و شوافع کا اختلاف ہے، احناف کے نزدیک پھر سے 3 کاحق حاصل ہوگا جبکہ امام شافعی کے نزدیک باقی مانندہ کا۔ اس مقام پر امام غزالی کا سائل (جو دراصل منکر قیاس ہے اور ان ساختوں سے علیت کے مفہوم پر مطمئن نہیں) سوال اٹھاتا ہے کہ درج بالا بیان کردہ اصول کی رو سے آپ کو چاہئے کہ آپ حنفی کی بات قبول کریں، اس لئے کہ “حتی تنکح زوجا غیرہ” کے الفاظ ظاہر کررہے ہیں کہ دوسرے شوہر کے ساتھ نکاح کرنے کے وصف کی تاثیر ہی کے سبب پہلے شوہر کے ساتھ نکاح کی حرمت حلت میں تبدیل ہوئی، تو جس طرح 3 طلاق کے بعد رجوع سے 3 طلاق کا حق ملتا ہے اسی طرح ایک یا دو طلاق کے بعد رجوع میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے جیسے کہ امام ابوحنیفہ کہتے ہیں۔ سائل کہتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اس ساخت سے سببیت کا مفہوم پیدا نہیں ہوتا، ورنہ آپ حنفی کی بات مان لیتے۔

اس کے جواب میں آپ کہتے ہیں کہ حنفی کے استدلال میں یہ خرابی نہیں کہ اس ساخت سے سببیت کا مفہوم پیدا نہیں ہوتا یا “حتی ” کے بعد آنے والے وصف کی حکم میں کسی لحاظ سے تاثیر نہیں ہوتی، بلکہ ہمارے اور ان کے مابین اختلاف “وجہ تاثیر” کا ہے۔ حنفی کے نزدیک وجہ تاثیر “تحریم نکاح کے حکم” کا ختم ہونا ہے جبکہ ہمارے امام (یعنی شافعی ) کے نزدیک یہاں “تحریم نکاح کی مدت” کی انتہاء بیان ہوئی ہے۔ یعنی اصول یہ ہے کہ “حتی تنکح زوجا غیرہ” حکم تحریم کی مدت کا بیان ہے، جونہی دوسرے زوج نے اسے طلاق دی وہ مدت ختم ہوگئی اور ساتھ ہی پہلے کے ساتھ نکاح بھی جائز ہوگیا۔ یوں یہ معاملہ اختتام مدت کے بعد اپنی اصل کیفیت پر واپس لوٹ آیا جہاں سے ختم ہوا تھا (اور ایک یا دو طلاق کے بعد اصلا بیوی کے ساتھ نکاح حرام ہوا ہی نہیں تھا، فریقین چاہتے تو مدت گزرنے کے بعد نکاح کرسکتے تھے)، لہذا شوہر کو اس مدت سے قبل دی گئی طلاق کا حق پھر سے نہیں ہوگا ۔ انتہائے مدت کا یہ مفہوم اسی طرح ہے جیسے کوئی شخص کچھ نہ کھائے پئے تب بھی بوقت اذان مغرب روزہ خود بخود افطار ہوجاتا ہے، گویا مغرب کا وقت کھانے پینے کی حرمت کی حد یا مدت کا بیان ہے( یا اس کی مثال یوں بھی ہے کہ احرام کھولنے تک بعض امور کی حرمت کا جو بیان ہے وہ مدت حرمت کا بیان ہے)۔

امام غزالی کی اس بحث کا مقصد شافعی موقف کا اثبات نہیں بلکہ اس ساخت کی تاثیر کے ضمن میں مختلف پہلووں کو سمجھانا ہے۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ امام غزالی ان ساختوں کو بیان کردینے کے بعد اپنے فقہی مذہب سے بے نیاز نہیں ہوگئے بلکہ انہی کے اندر رہتے ہوئے پوری طرح اپنے فقہی مذہب کا دفاع کرتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ متعلقہ ساخت ان کے فقہی مذہب میں کس طرح چلتی ہے نیز احناف اسے جس نظر سے دیکھتے ہیں وہ بھی اس لحاظ سے غلط نہیں کہ یہ ساخت اس مفہوم کا فائدہ نہیں دیتی بلکہ ان کی غلطی کی نوعیت ان کے نزدیک چند ضمنی امور کو اگنور کرنا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ اس طرح کے ضمنی امور ہر ہر مثال میں الگ الگ نوعیت کے ہوتے ہیں اور ایک اصولی کا وظیفہ یہ نہیں کہ وہ ہر ہر جزئی میں آنے والی تفصیلات سے تعرض کرے بلکہ اس کا کام کلیات و اجناس (کیٹیگریز) وضع کرنا اور ان کی خصوصیات پر بحث کرنا ہے، رہے ان کلیات کے تحت آنے والے انفرادی مسائل تو وہ بے انتہا ہیں اور ہر ایک میں الگ پہلو کارفرما ہوتے ہیں جن کے ساتھ فقہاء بحث کرتے ہیں (وعلى الجملة: لكل صورة من آحاد هذه الصور مذاق مخصوص، وللعقل فيها مجال مضطرب على وجه يخص تلك الصورة. فخصوص النظر في الآحاد ليس من شأن الأصوليين، وإنما [على الأصوليين] ضبط القواعد، وتأسيس الأجناس. ثم إدخال التفاصيل في الجمل من شأن الفقهاء الناظرين في تفاصيل المسائل)۔

الغرض متکلمین اس بات سے واقف ہیں کہ ایک کلی دلیل جب اجزاء میں ڈھلتی ہے تو اہنے اندر چند خصوصی پہلو بھی لئے ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کلی دلائل کے ایک مجموعے کو دو الگ لوگ الگ انداز سے برت کر الگ نتائج پیدا کرسکتے ہیں۔ آپ کی کتاب میں اس نوع کی مزید مثالیں بھی موجود ہیں، تاہم یہ مثال یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ متکلمین کا طرز بحث یہ نہیں ہوتا کہ وہ “زمانی لحاظ سے پہلے” چند اصول وضع کرتے ہیں اور پھر مسائل کی تخریج شروع کرتے ہیں۔

متکلمین تجریدی سطح پر دلیل کی ساخت و صورتوں کو نکھارنے پر کس طرح محنت کرتے تھے اور فقہاء کے ہاں کس طرح یہ عمل اس طرز پر موجود نہ تھا، یہ بات مشائخ احناف کی کتب میں مسالک علت کی بحث پڑھنے سے واضح ہوجاتی ہے۔ چنانچہ امام جصاص سے لے کر امام سرخسی و بزدوی تک مسالک علت نیزان کی ساختوں یا صورتوں پر تفصیلی بحث موجود نہیں، اگرچہ ان کی کتب میں قیاس پر ابواب بھی موجود ہیں ، اس سے متعلق اصولی بحثیں بھی ہیں اور ان کے تحت درجنوں مثالوں کا تجزیہ بھی۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ “احناف” کی خصوصیت تھی بلکہ متکلم اصولیین و غیر متکلم اصولیین کے انداز تصنیف اور فکری اپچ کا فرق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی ہم امام ابو منصور ماتریدی کی حنفی روایت سے تعلق رکھنے والے حنفی اصولی علامہ سمرقندی کی کتاب میں قیاس کی بحث دیکھتے ہیں تو وہ باقاعدہ اسی طرز پر مسالک علت اور ان کی ساختوں کو سمجھانے کی محنت کرتے نظر آتے ہیں جو متکلمین کا طرز تصنیف تھا۔

2) متکلمین کی دوسری خصوصیت تصورات کی لگی بندھی اور جامع مانع تعریفات  کی کوشش ہے۔  اس کا آغاز اس منہج کے بانی علامہ  باقلانی سے شروع ہوجاتا ہے جو فقہ و اصول فقہ کی تعریف مقرر کرکے اس میں شامل ہر ہر لفظ کی تعریف کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ تعریف میں فلاں لفظ کیوں رکھا گیا اور فلاں کیوں چھوڑ دیا گیا وغیرہ۔ تصورات کی تعریفات مقرر کرنے کا  یہ طریقہ بھی دراصل تجرید  (abstraction) کی میتھاڈولوجی کا اظہار تھا کیونکہ دلیل قضایا جبکہ قضیہ “تصور” کا محتاج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متکلمین کی کتب میں فقہ و اصول فقہ کی تعریفات پر طویل بحثیں ملتی ہیں، ہر ہر لفظ کے تحت بال کی کھال اتاری جاتی ہے۔ اس کے برعکس کسی تصور کو سمجھانے کے طریقہ یہ ہے کہ اس کے تحت آنے والے افراد کی مثالیں دی جائیں، اگرچہ  ان سب مثالوں  لگے بندھے الفاظ میں ترتیب نہ بھی دیا گیا ہو۔ یہ طریقہ بحث فقہاء کا تھا۔

3) متکلمین کی تیسری خصوصیت سب چیزوں کو ایک مجموعی علمیاتی منہج اور ترتیب میں پیش کرنے کی کوشش تھی اور اسی کوشش میں یہ “پہلے” اور  “بعد” جیسی ترتیب پر بحث کرتے نظر آتے ہیں، تاہم یہ ترتیب بحث “زمانی” نہیں بلکہ “منطقی” ہوتی ہے۔ یعنی دلیل کی باہمی ہم آھنگی اور ربط کے تقاضے  کے طور پر بعض امور کو منطقی طور پر بعض پر منحصر ماننا لازم ہے، لہذا  لازم ہے کہ ان منطقی طور پر مقدم تصورات  کو مقدم رکھنا ضروری ہے تاکہ دور (سرکولیرٹی) کے مسئلے سے بچا جاسکے۔ چنانچہ اسی کا اظہار ان  کے ہاں یوں ملتا ہے کہ ا”صل” کا مطلب کسی شے کی بنیاد یا ماخذ ہوتا ہے، اس لحاظ سے اصول فقہ کا مطلب فقہ کی اصل یا بنیاد ہوا ، یوں اصول فقہ اور فقہ میں اصل اور فرع کا تعلق پیدا ہوتا  ہے اور بنیاد منطقی طور پر فرع سے  مقدم ہوتی ہے۔ یوں اصول فقہ کا منطقی (نہ کہ زمانی) طور پر فقہ سے تقدم ثابت ہوتا  ہے اور اسی علمیاتی تناظر کے پیش نظر منہج متکلمین کے امام علامہ باقلانی کہتے ہیں کہ اصولی کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ وہ پہلے سے موجود جزیات یعنی کسی خاص فقہی مذہب  کو درست ثابت کرنے کے دلائل و اصول جمع کرے  کیونکہ اس منہج کا مطلب فرع کو اصل پر مقدم کردینا ہے۔ پس علمیاتی ہم آہنگی کا تقاضا یہی ہے کہ اصول کو فروع پر مقدم کیا جائے اور اصول مقرر کرنے کا مقصد فروع کی صحت جانچنے نیز نئے مسائل کی تخریج کے لئے “معیار  یا پیمانہ”مقرر ہونا چاہئے۔ اس علمیاتی تقدم کو لوگ زمانی تقدم کے ساتھ خطل ملط کرتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں  گویا “متکلمین پہلے اصول بناتے  تھے اور پھر جزیات” اور پھر اس میتھاڈولوجی کے نقائص (یا فضائل) بیان کئے جانے لگتے ہیں جبکہ یہ گفتگو کو غلط طور پر فریم کرنا ہے۔  جو لوگ علم کلام کی بحثوں سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہی متکلمین عقائد پر بحث کرتے ہوئے بھی اسی علمیاتی منہج کا لحاظ کرتے ہوئے ذات باری تعالی، اس کی بعض صفات اور اس کے افعال کی نوعیت سے متعلق امور پر ایمان بالنبوت سے “قبل” بحث کرتے نظر آتے ہیں، یہ تقدم بھی منطقی ہوتا ہے، یعنی دلیل کی ہم آہنگی کا تقاضا یہ ہے کہ ان امور کو مقدم کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ طریقۃ المتکلمین میں خود اصول فقہ کی علمیاتی بنیادوں پر پہلے بحث کی جاتی ہے اور  اسی لئے ان کے ہاں علم اور اس کی اقسام نیز ماقبل وحی امور کی نوعیت پر بحث سے گزرنے کے بعد  پھر اصول فقہ پر بحث شروع ہوتی ہے۔ گویا یہا ں بھی وہ بعض عقلی مقدمات پر بحث کو منطقی طور پر نصوص سے مقدم کرتے ہیں، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ متکلمین پہلے اسلام کے دائرے سے باہر نکلتے ہیں اور پھر ان عقلی مقدمات کو ثابت کرکے اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس طریقۃ الفقہاء اصول فقہ کو اس مجموعی علمیاتی نظام میں  رکھ کر پیش کرتے نظر نہیں آتے اور اسی لئے ان کی کتب میں وہ علمیاتی مباحث خال خال نظر آتے ہیں جہاں سے متکلمین بات کا آغاز کرتے ہیں۔ اس فرق کی وجہ  دراصل فکری  اپچ کا فرق تھاکہ چیزوں کو گرینڈ یا مجموعی کینوس میں دیکھا جانا چاہئے تاکہ اجزاء کی بہتر صورت گری ہوسکے۔ اسی بنا پر متکلمین کی اصول فقہ کی کتب نسبتاً زیادہ منظم اور موضوعات کی زیادہ بہتر ترتیب  پیش کرتی نظر آتی ہیں۔

الغرض متکلمین کے اصولی منہج کا یہ تعارف کروانا کہ یہ پہلے اصول اور پھر جزیات بنانے کے قائل تھے، ان کے مجموعی علمی مزاج اور پراجیکٹ سے ناواقفیت کا مظہر ہوتا ہے۔ چنانچہ طریقۃ المتکلمین اور فقہاء کے مابین اصل فرق انداز تصنیف اور اصول فقہ بطور ڈسپلن کی طرف اپروچ کا فرق ہے نہ کہ عام  طور پر بیان کردہ باتیں   کہ متکلمین پہلے اصول بناتے تھے اور پھر جزیات جبکہ فقہاء اس کے برعکس کرتے تھے۔ ان کے مابین فرق کے اس زاویے سے تشفی ممکن نہیں۔

ٹیگز

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں