احمد جاوید صاحب وقتاً فوقتاً مختلف شخصیات اور ان کی فکر کے متعلق اپنے تاثرات پیش کرتے رہتے ہیں۔ جناب جاوید احمد غامدی کے حوالے سے اس سے پہلے بھی ان کے بعض تاثرات سامنے آ چکے ہیں، تاہم ان کا حالیہ اظہار خیال ان کے معتقدین یا ان سے فکری مناسبت رکھنے والے بہت سے حلقوں کے لیے موجب حیرت تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے احمد جاوید صاحب کے بقول غامدی صاحب سے براہ راست تعلق نہ رکھنے والوں کے لیے ان کی شخصیت یا فکر کو درست تناظر میں سمجھنا مشکل ہے، اسی طرح احمد جاوید صاحب سے دور کا یا غائبانہ تعلق رکھنے والوں کے لیے بھی ان کی شخصیت یا انداز فکر کو سمجھنا مشکل ہے۔ جو ان کو قریب سے جانتے ہیں، وہ غامدی صاحب کے متعلق ان کے انداز نظر کو بھی جانتے ہیں، لیکن ان کے لیے ان تاثرات کا عمومی ابلاغ موجب اضطراب ہے۔
احمد جاوید صاحب کے اس تبصرے سے ان کی شخصیت کا جو اہم ترین پہلو سامنے آتا ہے، وہ ہے اپنے ایک معاصر کے بارے میں شخصی یا حزبی تعصب سے بالاتر ہونا۔ غامدی صاحب کے ناقدین میں فکری پس منظر کے لحاظ سے بہت تنوع ہے۔ جہاں ان سے سنجیدہ اور دیانت دارانہ فکری اختلاف رکھنے والے موجود ہیں، وہاں ایسے ناقدین کی کمی نہیں جن کا بنیادی مسئلہ معاصرت یا گروہی وابستگیوں سے جنم لینے والا تعصب یا مختلف قسم کی دوسری رنجشیں ہیں۔ غامدی صاحب بہت سے مروج مذہبی بیانیوں کے ناقد ہیں، چنانچہ ایسے تمام حلقوں میں ان کی “شخصیت” ناپسندیدہ اور مبغوض ہے۔ شخصیت کے ناپسندیدہ ہونے کی صورت میں نفسیاتی طور پر اس کی فکر کا معروضی یا متوازن جائزہ لینا ظاہر ہے، بہت مشکل ہوتا ہے۔
احمد جاوید صاحب بھی غامدی صاحب کے فکری ناقد ہیں، لیکن شخصی معاصرت اور فکری حزبیت سے بلند ہونے کی وجہ سے ان کے ہاں غامدی صاحب نے ایک “ناپسندیدہ شخصیت” کی حیثیت اختیار نہیں کی۔ اسی وجہ سے وہ ان کی فکر کو ہمدردانہ انداز میں دیکھنے کی اور اس میں دین کے لیے جو خیر ہے، اس کو appreciate کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ بلاشبہ ایک بہت نادر خوبی ہے جس سے ان کے بہت سے معتقدین چاہے بدمزہ ہوئے ہوں، لیکن ان کا شخصی وقار اس سے بہت بلند ہوا ہے۔ فالحمد للہ
معاصرت اور حزبیت کے ساتھ ساتھ احمد جاوید صاحب ایک اور وبائی مرض سے بھی اللہ کے کرم سے محفوظ ہیں، اور وہ ہے اپنے دائرہ اختصاص میں فکری بے حوصلگی۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی صاحب فکر ایک خاص دائرے میں اختصاصی مطالعے سے کچھ مہارت یا بصیرت پیدا کر لے تو پھر اس باب میں اپنے سے مختلف کسی زاویہ نظر کو ہمدردانہ دیکھنے کی گنجائش اس کے ہاں باقی نہ رہے۔ یہی چیز، اگر اس کے ساتھ معاشرے میں اثر ورسوخ یا طاقت حاصل کرنے کی خواہش شامل ہو جائے تو پیشہ ورانہ رقابت کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ ہمارے ہاں مختلف مذہبی جتھوں نے دین کے مختلف عقائد کے تحفظ کی جو اجارہ دارانہ ذمہ داری اٹھا رکھی ہے، وہ اسی وبا کے مظاہر ہیں۔
احمد جاوید صاحب دین کے عالم اور دینی روایت کے اسکالر نہیں۔ اس پہلو سے وہ غامدی صاحب یا کسی دوسری معاصر شخصیت سے حریفانہ کشاکش نہ رکھتے ہوں، یہ آسانی سے سمجھ میں آتا ہے۔ ان کے خصوصی مطالعہ کا میدان جدیدیت اور اس کی پیدا کردہ دنیا ہے جس کا وہ اپنا ایک خاص فہم رکھتے ہیں۔ لیکن اس خاص دائرے میں بھی ان کا رویہ اجارہ دارانہ نہیں جس کی وجہ سے وہ خود سے مختلف انداز ہائے فکر پر فتوے بازی یا ان کی تجہیل کا اسلوب اختیار نہیں کرتے۔ اسی وسعت کی بدولت وہ یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ غامدی صاحب کی مجموعی فکر کا ناقد ہونے کے باوجود یہ سمجھ سکیں کہ وہ (ان کے تجزیے کے مطابق) ایک مختلف زاویے سے جدیدیت کے پیدا کردہ سوالات ومسائل کو ایڈریس کرنا چاہتے ہیں۔
یہ اسوہ خاص طور پر ان کے معتقدین یا رد جدیدیت کے باب میں پچھلے چند سالوں میں ابھرنے والے دوسرے مختلف حلقوں کے لیے راہ نما ہے جو اس کو ایک علمی وفکری سرگرمی سمجھنے کے بجائے جدیدیت اور رد جدیدیت کے حوالے سے اجارہ دارانہ پوزیشنیں لینے میں زیادہ دلچسپی رکھتے اور چھوٹے چھوٹے ہم خیال حلقے بنا کر ان میں باقی حلقوں پر فتوے بازی سے خود کو شادکام کرتے رہتے ہیں۔
احمد جاوید صاحب کی شخصیت کے کچھ اہم پہلوؤں کی نشان دہی کے بعد ان کے تجزیے پر بھی اختصاراً کچھ عرض کرنا مناسب ہے جو انھوں نے غامدی صاحب کی تعبیر دین کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ تجزیے کا بنیادی حوالہ جدید ذہن کے سامنے دین کا مقدمہ اس طرح پیش کرنا ہے کہ اس کے لیے قابل فہم ہو۔ اس ضمن میں عموماً غامدی صاحب کی تعبیر دین سے متعلق دو تنقیدی تاثرات پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ انھوں نے جدید ذہن کے لیے دین کو قابل قبول بنانے کے لیے دین کو مختصر کر دیا ہے، اور دوسرا یہ کہ کئی امور کی تعبیر بدل کر انھیں ایسی شکل دینے کی کوشش کی ہے جو جدید ذہن کے لیے قابل قبول ہو سکے۔
احمد جاوید صاحب کے حالیہ تبصرے میں ان میں سے پہلے تاثر پر بات کی گئی ہے۔ تاہم اس پر کچھ معروضات پیش کرنے کے بعد ہم موقع کی مناسبت سے دوسرے تاثر کے متعلق بھی اپنی تفہیم بیان کریں گے۔
دین کو مختصر کرنے کے لیے آج کل minimalism کی ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ دینی روایت کے مکمل اور جامع ڈھانچے میں سے صرف ان نہایت بنیادی چیزوں کو الگ کر لیا جائے جن کی حیثیت ضروریات (essentials) کی ہے تاکہ جدید ذہن کو دینی روایت کو اس کی مجموعیت میں سمجھنے اور اس کو قبول کرنے میں جس تاریخی وتہذیبی دباؤ کا سامنا ہے، اس کو کم سے کم کیا جا سکے۔ احمد جاوید صاحب نے اس تاثر کی تائید کی ہے، البتہ انھوں نے اس کے محرکات کے حوالے سے کوئی منفی ججمنٹ دینے کے بجائے اس کو حکمت دعوت اور مخاطبین کی رعایت جیسے اصولوں پر مبنی قرار دیا اور کہا جا سکتا ہے کہ بڑی حد تک اس کی تائید کی ہے۔
ہمارے نزدیک اگرچہ اس پہلو سے بھی دین کی تفہیم وتعبیر کا یہ اسلوب جائز دینی بنیادیں رکھتا ہے، تاہم اس کو minimalism سے تعبیر کرنا کم سے کم غامدی صاحب کے معاملے میں درست ترجمانی نہیں۔ اس معاملے کا ایک دوسرا بہت اہم پہلو ہے جس کے لیے minimalism کی تعبیر بھی نادرست ہے اور احمد جاوید صاحب کے تجزیے میں بھی اس کا ادراک مفقود ہے۔
احمد جاوید صاحب نے غامدی صاحب کی تعبیر دین میں minimalism کے تاثر کی تائید کی، البتہ اسے دعوتی حکمت پر مبنی قرار دیا ہے۔ اس کو انھوں نے یوں تعبیر کیا کہ غامدی صاحب جدید ذہن کے سامنے دین کا وہ انتہائی ضروری حصہ پیش کرنا چاہتے ہیں جس کو ماننا اور اس پر عمل کرنا دین کا کم سے کم تقاضا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، اگر غامدی صاحب کا مطمح نظر واقعی یہی ہو تو بھی حکمت دعوت کے لحاظ سے اس کا پورا جواز ہے، تاہم یہ ان کے اپنے زاویہ نظر کا درست بیان نہیں۔ دوسرے لفظوں میں، یہ احمد جاوید صاحب کا ذاتی تاثر یا تجزیہ ہو سکتا ہے، لیکن خود غامدی صاحب کا اپنی تعبیر دین کے بارے میں موقف یہ نہیں ہے۔
غامدی صاحب کا اپنا بیان کردہ موقف یہ ہے کہ وہ اس دین کو بیان کرنا چاہتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم امت کو دے کر دنیا سے رخصت ہوئے، جو ہر اعتبار سے مکمل ہو چکا ہے اور جس میں کوئی کمی بیشی یا ردوبدل نہیں کیا جا سکتا۔ غامدی صاحب کے نقطہ نظر سے اس کی ضرورت اس پہلو سے ہے کہ امت کی تاریخ میں اہل علم نے اپنے فہم واجتہاد سے فقہ وکلام اور دیگر علوم کی صورت میں جو اضافے کیے ہیں، رسول اللہ کے چھوڑے ہوئے دین کو ان سے ممتاز کر کے اس خالص شکل میں پیش کیا جائے جو ’’الیوم اکملت لکم دینکم“کا مصداق تھا۔
اس کا لازمی مطلب علما وفقہا کے اضافات کو کلیتاً رد کرنا یا اس کو ایک ناجائز سرگرمی قرار دینا نہیں۔ اس کی تحقیق وتنقید ایک الگ سوال ہے اور اس میں تائید یا اختلاف کے دونوں امکانات موجود ہیں۔ تاہم غامدی صاحب کی تعبیر دین کا بنیادی ہدف دین کو اس شکل میں پیش کرنا ہے جو صرف ماثبت عن الرسول پر مبنی ہو اور علماء کے اجتہادی اضافہ جات، قطع نظر اس سے کہ وہ قابل اتفاق ہیں یا قابل اختلاف، اس میں شامل نہ ہوں۔ یہ زاویہ نظر epistemically اس اپروچ سے مختلف ہے جس کو minimalism کہا جاتا ہے۔ اس کے متعلق کوئی یہ تاثر رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے، لیکن اصولی طور پر یہ دو مختلف باتیں ہیں۔
اسی طرح یہ بھی واضح ہے کہ غامدی صاحب نے ماثبت عن الرسول اور اس پر کیے جانے والے اضافات کی تنقیح کا جو کام کیا ہے، اس کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ ماثبت عن الرسول کہیں کسی جگہ پر خالص شکل میں لکھا ہوا تھا اور انھوں نے اس کو تاریخی تحقیق سے دریافت کر لیا ہے۔ نہیں، اس عمل میں ان کا فہم واجتہاد اور تحقیق پوری طرح شامل ہے، یعنی انھوں نے اپنے غور وفکر اور تحقیق کے نتیجے میں یہ متعین کرنے کی کوشش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس دین کی پابندی امت پر ہمیشہ کے لیے لازم چھوڑ کر گئے تھے، وہ کیا ہے۔ اسی لیے ان کا کام ’’دین کی ایک تعبیر“ ہے جس میں فہم کے ارتقا، غلطی اور نتائج فکر سے اختلاف کی گنجائش کے سب پہلو موجود ہیں۔ غامدی صاحب اس کے حتمی ہونے کا دعوی نہیں کرتے اور اس کو ایک انسانی کاوش ہی سمجھتے ہیں۔ تاہم ان کے زاویہ نظر سے رسول اللہ سے ثابت دین اور روایت میں اس پر ہونے والے اضافات وتفریعات کو ایک دوسرے سے ممتاز رکھنا دین کی اصالت اور استناد کے پہلو سے نہایت ضروری ہے۔
ہم نے دیکھا کہ احمد جاوید صاحب، غامدی صاحب کی تعبیر دین کو ایک خاص دعوتی پہلو سے ہمدردی کی نظر سے دیکھتے اور اس کو نامکمل یا شاید غلط سمجھتے ہوئے بھی ان کی حسن نیت کی تحسین کرتے ہیں۔ البتہ ان کی یہ رائے کہ غامدی صاحب ارادتاً دین کے ان کم سے کم مطالبات کو پیش کرنا چاہتے ہیں جو دین کے دائرے میں رہنے کے لیے ضروری ہیں، درست بیان واقعہ نہیں ہے۔ غامدی صاحب کا مطمح نظر دین کے اس ’’پورے “ محتوی کو بیان کرنا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم امت کو دے کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کی فکر میں تنقیح کا یا اختصار کا جو عمل ہوا ہے، وہ اس پہلو سے نہیں ہے جو احمد جاوید صاحب نے ذکر کیا، بلکہ رسول اللہ کے دیے ہوئے دین کو دینی روایت کے ’’اضافوں “ سے ممتاز کرنے کے پہلو سے ہے۔
اب اس انداز نظر سے کئی پہلووں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے جن میں سے کچھ ہمارے ہاں معروف ہیں، لیکن کچھ ایسے ہیں جن کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔
ایک پہلو تو یہی ہے کہ ’’تنقیح “ کا عمل بذات خود اجتہادی ہے اور اس کی نوعیت ایک انسانی کاوش کی ہے جس سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے اور خود غامدی صاحب کی فکر میں اس حوالے سے کئی پہلو سے ارتقا ہوا ہے تو پھر اس کا فائدہ کیا ہوا؟
دوسرا پہلو وہ ہے جو غالباً احمد جاوید صاحب کا نقطہ نظر بھی ہے، اور وہ یہ کہ موجودہ تہذیبی تناظر میں مسلمانوں کی علمی ضرورت نہ صرف دین کا بلکہ دینی روایت کا بھی دفاع کرنے اور اس کے تسلسل کو قائم رکھنے کی ہے اور یہ کہ دینی روایت کو نظر انداز کر کے دین کی تفہیم وتعبیر کا عمل ازسرنو شروع کرنا حکمت عملی اور نتائج کے لحاظ سے موجودہ تناظر میں دینی مقاصد کے لیے نقصان دہ ہے۔ روایتی مذہبی طبقوں کی عمومی تنقید غامدی صاحب پر یہی ہے اور اس کے مقدمات معروف اور قابل فہم ہیں۔
ان دونوں تنقیدات میں جزوی وزن ہونے کے باوجود انھیں کلی طور پر درست کہنا اس لیے ممکن نہیں کہ ان میں اس بنیادی سوال کا کوئی واضح جواب نہیں دیا جاتا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تلقی کے ذریعے سے ملنے والے دینی محتوی کو تاریخ میں تشکیل پانے والی دینی روایت سے ممتاز کرنا خود دین کی دعوت اور تفہیم کے لیے ضروری ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو روایتی فکر میں اس کا کیا بندوبست ہے؟ خاص طور پر یہ کہ جزوی patchwork کے علاوہ کیا اس کا کوئی جامع اور اصولی consistent منہج روایتی مذہبی فکر اب تک پیش کر پائی ہے؟
روایتی مذہبی فکر کے علاوہ غامدی صاحب کی تنقیح وامتیاز پر مبنی دینی فکر سے اختلاف کے، کم سے کم تین اور اہم زاویے ہمارے ہاں موجود ہیں جن پر بات ہونی چاہیے۔
پہلا زاویہ اس فکری طبقے کا ہے جو دینی روایت کا ناقدانہ جائزہ لینے اور رسول اللہ سے ثابت دینی محتوی سے بعد کے اجتہادات واضافات کو الگ کرنے کا اصولی طور پر قائل ہے، لیکن اس کے نتیجے میں اس کے ہاں جو دینی تعبیر تشکیل پائی ہے، اس میں اور غامدی صاحب کی تعبیر میں بہت اہم اختلافات ہیں۔ اس مکتب فکر کو عموماً ’’سیاسی اسلام“ کا عنوان دیا جاتا ہے اور اس کا اہم ترین فکری ماخذ مولانا مودودی کا علمی کام ہے۔ دینی روایت کو نقد وانتقاد کا موضوع بنانے اور اصل مآخذ کی روشنی میں دین کی براہ راست تعبیر وتفہیم کے حوالے سے مولانا کا موقف کم وبیش وہی ہے جو غامدی صاحب کا ہے، بلکہ بعض حوالوں سے مولانا کے تنقیدی تبصروں کی شدت غامدی صاحب سے کہیں بڑھی ہوئی ہے، تاہم مولانا کی فکر دین کو بطور نظام پیش کرنے پر استوار ہے اور اس میں سیاسی پہلو فطری طور پر غالب اور نمایاں ہے۔
غامدی صاحب نے چونکہ مولانا کی تعبیر کو علمی طور پر بھی نقد کا موضوع بنایا ہے، اس لیے سیاسی اسلام کے حلقوں میں غامدی صاحب کی فکر ناقابل قبول ہے۔ ان میں سے بعض حلقوں اور افراد کے ہاں یہ چیز فکری اختلاف سے آگے بڑھ کر شخصی ناپسندیدگی کی حد تک پہنچ چکی ہے اور ’’جیالوں “ کی ذہنی سطح رکھنے والے کئی اہل قلم غامدی صاحب کو ڈس کریڈٹ کرنے کے لیے عموماً مغربی ایجنڈا اور استعمار کا فکری ایجنٹ وغیرہ کی وہی اصطلاحات وتعبیرات استعمال کر کے خود تسکینی کا سامان کرتے رہتے ہیں جو ایک دور میں خود مولانا مودودی کے متعلق روایتی مذہبی طبقوں کی طرف سے کی جاتی تھیں۔ اس قماش کے ایک نیم مذہبی مجلے کے تازہ شمارے میں احمد جاوید صاحب کے حالیہ تبصرے پر جس تلملاہٹ اور رنج واضطراب کا اظہار کیا گیا ہے، وہ دیدنی اور اس طبقے کی نفسیاتی ساخت کا غماز ہے۔
ماتلقی عن الرسول اور دینی روایت میں امتیاز پر مبنی غامدی صاحب کی تعبیر کو جہاں روایتی مذہبی فکر کی طرف سے تنقید کا سامنا ہے، وہاں بالکل متضاد اسباب سے دین کی نئی تعبیر کرنے والے کچھ دوسرے حلقے بھی اس سے اختلاف رکھتے ہیں۔ اس اختلاف کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ یہ حلقے ماتلقی عن الرسول میں بھی مختلف انداز کے ایسے امتیازات قائم کرنا چاہتے ہیں جو دینی روایت سے جوہری طور پر مختلف ہیں، جبکہ غامدی صاحب کی تعبیر اس حوالے سے دینی روایت کے ساتھ ہم آہنگ یا اس کے بہت قریب ہونے کی وجہ سے دین کی تشکیل نو کے ان مختلف پراجیکٹس کے لیے قابل قبول نہیں۔
برصغیر کے تناظر میں خصوصاً اور باقی دنیا میں عموماً، اگر ان پراجیکٹس کی ایک درجہ بندی کی جائے تو یہ منظرنامہ بنتا ہے:
۱۔ دینی مآخذ کی فہرست سے احادیث یا اخبار آحاد کا اخراج، چاہے وہ ذخیرہ حدیث پر عدم استناد کا مجموعی حکم لگانے کی صورت میں ہو یا مختلف دوسری شکلوں میں۔
۲۔ سنت کے اصولی طور پر ماخذ دین ہونے کی نفی اور حکم الٰہی کا واحد ماخذ قرآن کو قرار دینے کا موقف۔
۳۔ قرآن میں بیان کی گئی شریعت کے ظاہری ڈھانچے کو ایک مخصوص سماج کی ضروریات کی تکمیل سمجھنا اور اس کی ظاہری پابندی کو اسی تک محدود قرار دینا، جبکہ شریعت کی آفاقیت کو احکام کی تہہ میں کارفرما بعض اخلاقی اصولوں میں مضمر قرار دینا جن کی تطبیق مختلف سماجی سیاقات میں بانداز نو کی جا سکتی ہے۔
۴۔ دین کو ایک تاریخی شناخت تک محدود کر دینا جس کے لیے بنیادی طور پر روحانیت، عبادات اور انفرادی اخلاقیات وغیرہ کی پابندی کافی ہے، جبکہ سماجی، سیاسی، اور تہذیبی معاملات میں دینی اقدار اور احکام کو غیر اہم اور غیر متعلق تصور کرنا۔
غامدی صاحب اخبار آحاد کی توثیق کے حوالے سے ایک خاص معیار مقرر کر کے انھیں اصولاً بھی حجت مانتے ہیں اور بحیثیت مجموعی ذخیرہ حدیث کو بھی مستند تسلیم کرتے ہیں۔ اسی طرح سنت ان کے نزدیک قرآن کے بالکل متوازی ایک مستقل ماخذ ہے اور قرآن میں بیان کردہ بعض سماجی وسیاسی احکام (مثلاً جہاد اور حجاب وغیرہ) کی نوعیت کے حوالے سے روایتی دینی تعبیر سے اہم اختلافات کے باوجود وہ اصولی طور پر شریعت کو (خصوصاً خاندانی قوانین، سود کی حرمت اور شرعی حدود کو) ابدی طور پر واجب الاتباع قرار دیتے اور سیاست، معیشت اور معاشرت کی تشکیل میں دینی احکام واقدار کے بنیادی کردار پر اصرار کرتے ہیں۔ ان سب پہلووں سے ان کی تعبیر، دین کی ایک ریڈیکل تعبیر کے مذکورہ مختلف منصوبوں کے لیے باعث اطمینان نہیں ہے۔
اور آخر میں اس طبقے کے ردعمل کا ذکر بھی ضروری ہے جو مختلف تاریخی، سیاسی اور نفسی اسباب سے مذہب سے نفور اور بے زار ہو چکا ہے اور مسلم معاشرے میں مذہب کے وجود اور مذہبی اظہارات کو کلی طور پر سیکولر طاقت اور سیکولر اخلاقیات کا پابند بنا دیے جانے کی خواہش رکھتا ہے۔ اس طبقے میں شامل لوگوں کی ذہنی اور فکری سطح کافی مختلف ہے، تاہم معاشرے کے مذہبی شعور اور شناخت پر حملہ آور ہونے کی بنیادی حکمت عملی مشترک ہے جس میں جدید سیکولر علمیات اور سیکولر اقدار کو معیار بنا کر مذہبی عقائد، اعمال ورسوم، احساسات اور تاریخی ومعاشرتی مظاہر کی ’’پس ماندگی“ اور ’’از کار رفتگی“ نمایاں کرنے کو بنیادی پتھر کی حیثیت حاصل ہے۔
غامدی صاحب کا، ماتلقی عن الرسول اور دینی روایت کو باہم ممتاز کرنے اور ماتلقی عن الرسول کی براہ راست تفہیم وتعبیر کا پراجیکٹ اس طبقے کے لیے اس وجہ سے موجب اضطراب ہے کہ مذہبی شناخت کی تحقیر اور تنقید کا زیادہ موزوں ہدف بدیہی طور پر وہ ملغوبہ ہو سکتا ہے جسے ایک عام آدمی کی ذہنی سطح پر ’’مذہب “ سمجھا جاتا ہے۔ اس ملغوبے میں ماتلقی عن الرسول سے کہیں زیادہ دینی روایت کا اور اس سے بھی کہیں بڑھ کر عوامی تصورات وتخیلات کا حصہ ہوتا ہے جس کی ترجمانی مقبول عام واعظین کی زبانی اور پاپولر مذہبی لٹریچر میں ہوتی ہے۔ اس تناظر میں مذہب کو اصل مآخذ کی روشنی میں ڈیفائن کرنے کی کوئی بھی کوشش، اس طبقے کے مقاصد میں رکاوٹ بنتی ہے۔
ایسا نہیں کہ ’’مستند “ مذہب پر وارد کرنے کے لیے ان کے پاس اعتراضات باقی نہیں بچتے، لیکن جتنی آسانی اور آزادی سے اور علمی شرائط کو جتنا بالائے طاق رکھ کر پاپولر مذہب کو سامنے رکھتے ہوئے مذہب مخالف بیانیہ بنایا جا سکتا ہے، مذہب کی مستند علمی تعبیر پر حملہ آور ہونے میں اتنی آسانی نہیں ہوتی۔ خاص طور پر اس پہلو سے کہ اس سطح پر بات کرنے کے لیے سطحی دانش وری سے اوپر اٹھ کر مذہبی علم میں ایک قابل لحاظ مہارت پیدا کرنی پڑتی ہے جو ظاہر ہے، مشکل کام ہے۔
یہ وہ چند معروضات ہیں جو احمد جاوید صاحب کے تبصرے کی مناسبت سے پیش کرنا مفید معلوم ہوا۔ امید ہے کہ اس سے غامدی صاحب کے کام کی تفہیم اور اس پر نقد وتبصرہ کا ایک وسیع تر سیاق سامنے آئے گا جس میں اس گفتگو کو مزید آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
ہذا ما عندی واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم
کمنت کیجے