محترم برادر عمار خان ناصر صاحب نے اس رائے کا اظہار کیاہے کہ محترم غامدی صاحب کے پیش نظر دینی احکام کے اس حصے کو جو گویا رسول اللہﷺ سے براہ راست ملے، اسے اس حصے سے الگ کرنا ہے جو مجتہدین نے اخذ کئے۔ اسی فرق کے لئے وہ شریعت و فقہ نیز اصل دین و فرع کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔ عمار خان ناصر صاحب کے نزدیک غامدی صاحب کی یہ کوشش اہمیت کی حامل ہے نیز روایتی فقہی فکر کے اندر اس سوال کا جواب معلوم کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں اور نہ اس کی کوئی شعوری کاوش موجود ہے۔ اس مقدمے پر ہمارے چند ملاحظات ہیں۔
کیا یہ واقعی بامعنی سوال ہے؟
کیا یہ سوال واقعی اہم ہے کہ ہم یہ معلوم کریں کہ دین کا کونسا حصہ ہے یا احکام شریعہ کی وہ کونسی تعداد ہے جو گویا آپﷺ نے “براہ راست” امت کو دئیے اور وہ جو امت نے آگے اخذ کئے؟ جب اس کے ساتھ یہ بات شامل ہوگئی کہ خود غامدی صاحب اور عمار صاحب کے نزدیک اول الذکر بھی “ایک اجتہادی کاوش” ہی سے عبارت ہے تو اس سوال کی اہمیت کیا اور کتنی رہی؟ اس پوری کاوش کا حاصل اس کے سواء کیا ہوگا کہ دو چار مجتہدین بس یہ دعوی کریں گے کہ “میرے نزدیک” یہ یہ اصل ہے اور وہ وہ فرع؟ ایک کے نزدیک ایک بات اصل ہوگی اور دوسرے کے نزدیک فرع، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک کے نزدیک جو اصل ہو دوسرے کے نزدیک وہ سرے سے دین ہی نہ ہو۔ چنانچہ اس سے مجموعی صورت حال میں کیا تبدیلی رونما ہوگی؟
پھر اسی ضمن میں اگلا سوال یہ ہے کہ یہاں “براہ راست” سے کیا مراد ہے؟ یعنی کیا دینی احکام کا کوئی حصہ ایسا بھی ہے جسے آپﷺ نے قرآن و سنت سے استنباط کرکے “میزان” جیسی ایک کتاب میں ابواب و فصول کی صورت ایک مبسوط فہرست کے ساتھ امت کو منتقل کیا ہو اور اس فہرست کا نام ہم “براہ راست” دین رکھنا چاہتے ہیں؟ یا براہ راست سے مراد غور و فکر کے ذریعے نصوص میں موجود احکام کو بیان کردینا ہے؟ اس سوال کا جواب اس کاوش کی ریلیونس متعین کرنے میں اہمیت کا حامل ہے۔
کیا غامدی صاحب نے اس کا کوئی منہج بتایا ہے؟
کیا واقعی غامدی صاحب نے ایسا کوئی “منہج” (نہ کہ احکام کی لسٹ) بیان کردیا ہے جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ دین کا کونسا حصہ آپﷺ نے براہ راست دیا اور کونسا ہم اخذ کررہے ہیں؟ کیا ان کے نزدیک قیاس کے سوا اخذ احکام کا جو بھی نظام موجود ہے وہ براہ راست میں شامل ہے اور صرف قیاسی احکام ہی اس سے باہر ہیں؟ یا وہ صرف عبارت النص ہی کو براہ راست دین کا مصداق کہتے ہیں؟ چنانچہ “براہ راست” و بالواسطہ کا پیمانہ ان کے نزدیک کیا ہے؟ کیا فراہی و اصلاحی صاحبان کا بیان کردہ نظم قرآن بھی آپﷺ نے براہ راست امت کو دیا؟ اگر اس کا جواب اس بنا پر اثبات میں ہے کہ یہ تو کلام اللہ کا داخلی نظم ہے اور ہر کلام نظم سے متصف ہوتا ہے، ہم نے صرف غور و فکر کرکے استقرائی ریزننگ سے اسے بس معلوم کرلیا ہے، لہذا اس نظم سے معلوم ہونے والے احکام بھی گویا آپﷺ ہی کی طرف “براہ راست” منسوب ہوں گے تو پھر اس کے بعد پیچھے کیا چیز ہے جسے براہ راست آپﷺ کی طرف منسوب نہ کیا جاسکے؟ مثلا مقاصد شرع والوں کا کہنا ہے کہ نصوص میں بیان کردہ احکام کا استقراء کرنے سے معلوم ہوا کہ شرع کے احکام پانچ مقاصد کی رعایت میں بند ہیں، لہذا ان سے جو معلوم ہوا وہ براہ راست نصوص ہی کا تقاضا ہے۔ ان دونوں باتوں میں آخر فرق کیا ہے؟ اور جب نظم قرآن اور مقاصد “براہ راست شارع” کی طرف منسوب ہوگئے تو قیاس تو ان دونوں سے زیادہ اس کا مستحق ہے۔
پھر مزید غور کیجئے کہ کتاب “میزان” میں “اصول و مبادی” کے نام سے اصل دین کی دریافت کے لئے جو اصول دئیے گئے ہیں، کیا وہ اصول بھی آپﷺ سے “براہ راست” منقول ہیں (یہاں پھر سے “براہ راست” کا مفہوم متعین کرنے کی ضرورت ہوگی)؟ اگر نہیں اور قطعا نہیں، بلکہ ان کے جواز کی بنیاد “فہم کلام کے علمی اصول” ہونا ہے اور اس بنا پر ان کے اطلاق سے معلوم شدہ سب احکام براہ راست آپﷺ کی طرف منسوب سمجھے جائیں گے تو بعینہہ یہی بات اصولیین کہتے کہ اصول فقہ دراصل کلام کی دلالتوں ہی کو واضح کرنے والے علمی ظروف ہیں اور یہ دراصل اصولیین کی “تھیوری آف لینگویج” ہے، یہاں تک کہ اخذ علت کے تمام مسالک بھی توقیف ہی سے عبارت ہیں۔ ایسے میں صرف کتاب “میزان” میں درج احکام ہی کیوں کر اصل دین کہلانے کے مستحق ہیں؟
اسکے برعکس ماہرین اصول فقہ کے نزدیک یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ دینی احکام کا وہ کونسا حصہ ہے جو قطعی ہے اور جس کا انکار کفر کو مستلزم ہے نیز اسے معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہونا چاہئے۔ یہ یقینا ایک زیادہ بامعنی عملی سوال اور علمی کاوش معلوم ہوتی ہے ۔
قیاس سے متعلق غامدی صاحب کی وضاحت اور ان کا تصور شریعت و فقہ
ماہنامہ “اشراق” (شمارہ مئی، 2022) میں اصول فقہ کے مباحث سے متعلق محترم غامدی صاحب کی چند توضیحات چھپی ہیں۔ یہ توضیحات پچھلے کچھ عرصے سے جاری سوالات و جوابات کے ضمن میں سامنے آئی ہیں جہاں غامدی صاحب سے بالخصوص قیاس سے متعلق ان کا موقف پوچھا گیا تھا۔ ان توضیحات میں درج ذیل امور لائق توجہ ہیں۔
1۔ قیاس کا سکوپ مقرر کرتے ہوئے آپ کہتے ہیں کہ دین میں قرآن و سنت کو اصل یا بنیاد کی حیثیت حاصل ہے اور جن سے اخذ احکام کے اصول کتاب “میزان” میں لکھ دئیے گئے ہیں۔ اس کے بعد وہ کہتے ہیں:
“اِن کے علاوہ تبعاً اگر کوئی چیز خدا کے منشا تک پہنچنے کا ذریعہ بن سکتی ہے تو وہ اجتہاد ہے۔ اِسی سے بہت سی دوسری چیزوں کے ساتھ ہم اُن احکام کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو براہ راست نصوص میں بیان نہیں ہوئے، مگر اپنی نوعیت کے لحاظ سے اُنھی کے اطلاقات ہیں، جو لوگوں کی رائے اور فہم پر چھوڑ دیے گئے ہیں۔ قیاس اِسی کی ایک قسم ہے۔ قرآن میں اِس کے لیے ’استنباط‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اِس سے جو چیز وجود میں آتی ہے، اُسے ہم ’فقہ‘ کہتے ہیں۔”
یعنی قیاس کا دائرہ کار قرآن و سنت میں جو احکام براہ راست درج نہیں انہیں قرآن و سنت میں بیان کردہ امور سے اخذ کرنا ہے۔ اس ضمن میں آپ وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“قرآن و سنت سے مراد اِس باب میں اُن کے احکام بھی ہیں، اِن احکام کے علل اور وہ قواعد عامہ بھی جن پر خدا کی شریعت مبنی ہے۔ اِس سے قطع نظر کہ وہ قواعد نصوص میں بیان ہوئے ہوں یا استقرا کے ذریعے سے متعین کیے جائیں۔ پہلی صورت کی مثال یہ ہے کہ ‘اللہ نے تمام طیبات کو حلال اور تمام خبائث کو حرام قرار دیا ہے‘۔ دوسری صورت کی مثال یہ ہے کہ ‘تمام عبادات اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندوں کے تعلق کا علامتی اظہار ہیں’۔ فقہ تمام تر اِنھی احکام و علل اور قواعد عامہ کی فرع ہے۔ اُسے ہر حال میں فرع ہی رہنا چاہیے۔”
گویا قرآن و سنت، جو کہ اصل دین ہیں، میں تین چیزیں شامل ہیں:
الف) ان کے الفاظ سے ثابت ہونے والے احکام
ب) ان احکام کی علتیں
ج) استقراء سے معلوم ہونے والے قواعد عامہ
اس توضیح کے مطابق یہ سب اصل دین میں شامل امور ہیں اور فقہ سے مراد ان کے “اطلاقی احکام” ہیں۔
علمائے اصولیین کی اصطلاح میں اسے یوں کہا جائے گا کہ فقہ یا قیاس سے غامدی صاحب کی مراد “تحقیق مناط (یا علت)” کے عمل کے بعد کسی فرع کو اصل سے متعلق قرار دینا ہے۔ اصولیین کے نزدیک قیاس کا عمل دو مراحل سے عبارت ہے: (1) اصل میں علت کا تعین اور (2) فرع پر اسے لاگو کرنا۔ پہلے مرحلے میں مجتہد یہ دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ شریعت کے دئیے گئے حکم کی علت کیا ہے جس کے ذریعے اسے ایک قاعدہ عامہ حاصل ہوتا ہے جیسے “ہر نشہ آور چیز حرام ہے” یا “ہر کیلی چیز ربوی ہے”۔ اس عمل کا تعلق تنقیح و تخریج مناط کے ساتھ ہے جو دراصل مسالک علت کی بحث ہے۔ اس کے بعد مجتہد یہ دیکھتا ہے کہ کیا پیش آمدہ صورت حال پر اس قاعدے کا اطلاق ہورہا ہے یا نہیں، یعنی وہ تحقیق کرتا ہے کہ آیا متعلقہ مناط یا علت یہاں پائی گئی یا نہیں (مثلا کیا بھنگ میں بھی اسکار ہے، کیا سگریٹ میں بھی اسکار ہے وغیرہ)۔ اس عمل کو تحقیق مناط کہتے ہیں۔ چنانچہ غامدی صاحب کی توضیح سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قیاس کے پہلے مرحلے کا حاصل قرآن و سنت یا اصل دین و شریعت کے مفہوم میں شامل ہے، صرف دوسرا مرحلہ اجتہاد و قیاس سے متعلق ہے۔ غامدی صاحب نے مسالک علت پر اگرچہ کوئی تفصیلی گفتگو نہیں کی، تاہم “استقرائی قواعد” کو قرآن و سنت کے مفہوم میں شامل کرکے انہوں نے اس بارے میں اپنا موقف کافی حد تک واضح کردیا ہے (اسی طرح حال ہی میں ایک ویڈیو میں بھی انہوں نے یہ بات کہی کہ ہمارے یعنی مکتب فراہی کے ہاں مسالک علت پر کوئی الگ موقف نہیں پایا جاتا بلکہ جو کچھ اہل مدرسہ کے ہاں پڑھا پڑھایا جاتا ہے ہم اس کے قائل ہیں۔ اگرچہ یہ بات تفصیل کی متقاضی ہے، تاہم اس سے ان کا مدعا کافی حدتک واضح ہوجاتا ہے کہ اس بارے میں وہ اہل روایت سے کوئی الگ موقف نہیں اپنانا چاہتے)۔
اس سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کا تصور دین و شریعت نصوص میں براہ راست مذکور احکام میں بند نہیں بلکہ ان کی علتوں اور قواعد عامہ سے حاصل ہونے والے اصولوں کو بھی محیط ہے، علی الرغم اس سے کہ یہ قواعد منصوص ہوں یا استنباطی (یعنی استقراء پر مبنی)۔
2۔ پس اگر استنباطی قواعد بھی قرآن و سنت ہی کے مفہوم میں شامل ہیں تو معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کا مقصد دین کے اس حصے کو الگ کرکے بیان نہیں جو گویا آپﷺ نے براہ راست امت کو عطا کیا ہو اور جس کے لئے برادر عمار خان ناصر صاحب نے “ماتلقی عن الرسولﷺ” کی اصطلاح استعمال کی۔ اگر ایسا ہوتا تو قرآن و سنت سے مراد صرف منصوص احکام ہوتے، اور بہت ہوگیا تو صرف منصوص علتیں ہی اس میں شمار ہوتیں (اور دلچسپ بات یہ ہے کہ منصوص علتوں والے قیاس کو منکرین قیاس بھی مانا کرتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک وہ قیاس تھا ہی نہیں بلکہ نص کے مفہوم میں شامل تھا)۔ چنانچہ احکام کی استنباطی علتیں اور بالخصوص استقرائی قواعد ماتلقی عن الرسولﷺ کے اس مفہوم میں شامل نہیں کئے جاسکتے جسے بیان کرنا عمار صاحب کے نزدیک غامدی صاحب کا مقصد ہے۔ اسی لئے ہم نے عمار صاحب کی پوسٹ پر یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا واقعی غامدی صاحب نے ایسا کوئی منہج بیان کیا ہے جو ماتلقی عن الرسولﷺ کو الگ کردینے والا ہے؟ ہماری رائے میں اس کا جواب نفی میں ہے اور اس حالیہ تحریر سے ہمارے اس نتیجے کو تقویت ملتی ہے کہ “اصل و فرع” کو الگ کرنے کے پس پشت غامدی صاحب کی اصل موٹیویشن کچھ اور ہے جس کا ذکر ہم آگے کرتے ہیں۔
3۔ تیسری بات یہ کہ اگر استقرائی قواعد عامہ بھی اصل دین و شریعت کے مفہوم میں شامل ہیں تو اس کے بعد تحقیق مناط کے سوا پیچھے کیا رہ گیا؟ استقرائی قواعد کو اصل دین و شریعت میں شامل کرنے کا مطلب “مقاصد شریعت” پر مبنی قواعد تک کو اس میں شامل کرنے کا دروازہ کھول دینا ہے کیونکہ اہل علم جانتے ہیں کہ وہ شرعی احکام پر مبنی استقرائی قواعد ہی ہیں۔ ان شاء اللہ کچھ مزید اصولی سوالات کا جواب سامنے آنے کے بعد “اصل و فرع” نیز “شریعت و فقہ” کا فرق مزید کم ہوتا جائے گا۔
اصل و فرع کا فرق: بنیادی موٹیویشن کیا ہے؟
پچھلے ایک عرصے میں بعض سوالات پر اپنی فکر سے متعلق اشکالات کا جواب دیتے ہوئے محترم غامدی صاحب نے حدیث کی حجیت نیز دین و شریعت اور فقہ کے فرق پر جو گفتگو کی ہے اس کے پیش نظر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ غامدی صاحب دراصل منکرین سنت و حدیث کے اس سوال کا جواب دینا چاہتے ہیں کہ “دیکھو حدیثوں کے معاملے میں اتنے اختلافات ہیں، نیز یہ اختلافات ظاہر کرتے ہیں کہ کچھ اخبار ہم تک پہنچی نہ ہوں اور اگر پہنچیں تو روایوں کی سند کی بنا پر ضعیف ہو کر بھی منتقل ہوئیں اور کثرت راویان کے فرق کے ساتھ بھی منتقل ہوئیں۔ ان سب امور سے یہ لازم آتا ہے گویا دین مختلف فیہ ہے اور آپﷺ سے جوں کا توں منتقل نہیں ہوا بلکہ بعض احکام منتقل ہونے سے رہ گئے یا اس طرح نہیں ملے جیسے صحابہ کو ملے۔” اس کا حل منکرین سنت کے نزدیک یہ ہے کہ سنت و حدیث کی حجیت کا انکار کیا جائے اور صرف قرآن تک محدود رہا جائے تاکہ دین کی اصل پر حرف نہ آئے۔ غامدی صاحب اس مسئلے کو اپنے تئیں یوں حل کرتے ہیں کہ اصل و فرع میں فرق کیا جائے اور یہ کہا جائے کہ اصل یا بنیاد (قرآن و سنت) جوں کے توں بغیر کسی اختلاف امت کو منتقل ہوئے جبکہ جو اختلافات ہوئے وہ فرع و شرح سے متعلق ہیں۔ چنانچہ یہ مان بھی لیا جائے کہ فرع سے متعلق کچھ امور ہم تک نہیں پہنچے تب بھی اس امت کے علماء اجتہاد کے ذریعے فروعات اخذ کرلیتے ہیں اور قیامت تک کرتے رہیں گے اور یہ اجتہادات (جنہیں وہ “فقہ” کہتے ہیں) بھی حکم اللہ ہونے کے لحاظ سے قابل عمل ہوتے ہیں، لیکن یہ فرع کہلائیں گے۔ اگر اس پر یہ اشکال پیدا ہو کہ کیا امت کے مجتہدین کی اخذ کردہ فروعات اور آپﷺ سے منقول فروعات شرعی اعتبار سے ایک ہی درجے کی ہیں، تو غامدی صاحب کا جواب نفی میں ہے۔
غامدی صاحب جب قرآن و سنت کو حدیث کے شمول کے بغیر اصل دین و شریعت کہتے ہیں تو اس سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی گویا قرآن و سنت تو ضروری، حقیقی و لائق اتباع دین ہے اور حدیث کا اس دین سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ قرآن و سنت (سنت سے مراد ان کے خاص مفہوم والی سنت) اصل یا بنیاد ہیں اور آپﷺ سے اخبار احاد میں جو امور منقول ہوئے وہ اس اصل کی شرح یا فرع ہیں۔ قرآن وسنت “اصل دین” ہیں کی اس ترکیب میں لفظ اصل غیر ضروری یا ناقابل حجت کے مدمقابل کے طور پر نہیں آتا بلکہ بنیاد یعنی فاؤنڈیشن کے معنی میں آتا ہے جس کے لحاظ سے حدیث فرع ہے۔لہذا فرع ہونے کے لحاظ سے یہ اصل سے الگ یا جدا نہیں کہ ان کا تعلق اصل سے ہے لیکن اس معنی میں الگ ہیں کہ یہ خود اصل نہیں (ان کے مطابق حدیث میں کوئی نیا حکم بیان نہیں ہوتا بلکہ حدیث قرآن و سنت میں موجود کسی اصل کی تفصیل ہوتی ہے)۔ چنانچہ جب وہ کہتے ہیں کہ حدیث سے دین میں کسی عقیدے و عمل کا اضافہ نہیں ہوتا تو اس سے مراد یہی ہوتی ہے کہ حدیث میں چونکہ اصل کی شرح بیان ہوتی ہے، لہذا اس سے اصل دین میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ اور حدیث میں مذکور یہ احکام چونکہ آپﷺ کے علم سے متعلق ہیں، اس لئے بطور حکم اللہ ہر کسی کے لئے واجب الاتباع ہیں کہ آپﷺ کے علم میں غلطی کا احتمال نہیں جبکہ عام مجتہدین کے علم میں اس کا احتمال موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح غامدی صاحب شریعت کی اصطلاح “اصل” دین کے لئے بولتے ہیں اور اصل سے ان کی مراد فاؤنڈیشن ہوتی ہے۔ اس کے سوا جو احکام حدیث سے معلوم ہوں ان کے نزدیک وہ چونکہ شرح و فرع کی نوعیت کی حامل ہیں لہذا وہ دین کی فاؤنڈیشن نہیں بلکہ فروعات ہیں۔ ان فروعات کو وہ “فقہ” کا نام دیتے ہیں۔ اس کے برعکس جسے وہ اصل و فرع کہتے ہیں، اہل روایت اپنی اصطلاح میں دونوں کے لئے “شریعت” کی اصطلاح بولتے ہیں۔ پس جب وہ احادیث میں بیان کردہ احکام کو فقہ کہتے ہوئے شریعت سے الگ کرتے ہیں تو اس مفہوم والی شریعت سے اسے باہر نہیں کرتے جسے اہل روایت شریعت کہتے ہیں۔ اصطلاحات کے اس فرق سے کچھ التباس پیدا ہوتا ہے جسے ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
کمنت کیجے