Home » ہارون الرشید کے لیے باندی کو حلال کرنے کے واقعے کا تاریخی استناد
تاریخ / جغرافیہ

ہارون الرشید کے لیے باندی کو حلال کرنے کے واقعے کا تاریخی استناد

 

قاضی ابویوسفؒ کا ایک واقعہ ہمارے ہاں زبان زد عام ہے اور بہت سی تحریروں میں اس کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم نے بھی ایک مجلس میں بیان کیا اور یاسر پیرزادہ صاحب نے بھی اپنے ایک کالم میں اسے نقل کیا ہے۔ واقعے کے مطابق خلیفہ ہارون الرشید کو اپنی ایک باندی پسند آ گئی، لیکن باندی نے بتایا کہ خلیفہ کے والد مہدی اس سے ہم بستری کر چکے ہیں، اس لیے وہ خلیفہ کے لیے حلال نہیں۔ خلیفہ نے اس پر قاضی ابویوسف سے کہا کہ وہ کوئی فقہی جواز پیدا کریں۔ قاضی صاحب نے کہا کہ یہ تو بہت آسان معاملہ ہے۔ باندی کی بات یا گواہی معتبر نہیں، اس لیے اس کے کہے پر فقہی حکم جاری نہیں کیا جا سکتا، لہذا وہ خلیفہ کے لیے حلال ہے۔

یہ واقعہ تاریخی ثبوت کے اعتبار سے بہت محل نظر اور مشکوک ہے۔ عربی مآخذ میں یہ ابن عساکر کی تاریخ دمشق (ج 73 ص 312) اور سیوطی کی تاریخ الخلفاء (ص 344) میں امام عبد اللہ ابن المبارک کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے جو دوسری صدی ہجری میں حدیث کے جلیل القدر امام تھے۔ تاہم ان میں سے پہلا ماخذ یعنی ابن عساکر کی تاریخ دمشق چھٹی صدی ہجری کی جبکہ سیوطی کی تاریخ الخلفاء نویں، دسویں صدی ہجری کی کتاب ہے۔

ابن عساکر نے اس واقعے کی کوئی سند بیان نہیں کی، بلکہ صرف ابن المبارک کا نام لے کر نقل کر دیا ہے، جبکہ دونوں کے مابین تقریباً‌ چار صدیوں کا فاصلہ ہے۔ اس کا متن حسب ذیل ہے۔

سیوطی نے اسے ابو طاہر السلفی کی ’’الطیوریات’’ کے حوالے سے نقل کیا ہے جو چھٹی صدی ہجری کی کتاب ہے۔ متن درج ذیل ہے۔

سیوطی نے لکھا ہے کہ الطیوریات کے مصنف نے عبد اللہ بن المبارک تک اپنی سند بھی بیان کی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ الطیوریات کا جو نسخہ اس وقت مطبوع ہے، اس میں یہ روایت نہیں ملتی۔ یوں اس حوالے سے تیقن سے کچھ کہنا ممکن نہیں کہ چھٹی صدی ہجری میں ابو طاہر السلفی تک چار صدیاں پہلے کا ایک واقعہ کس سند سے پہنچا اور اس کی استنادی حیثیت کیا ہے۔

تاریخی ثبوت کے سوال کے علاوہ یہ پہلو بھی اہم ہے کہ فقہی حیلوں سے متعلق ائمہ احناف کا موقف محدثین اور فقہاء کے طبقے میں بہت تفصیل سے نقد وجرح کا موضوع رہا ہے۔ امام شافعی، امام احمد، امام بخاری، ابن حزم اور ابن القیم رحمہم اللہ جیسے اکابر اہل علم نے اس کے مختلف پہلووں پر سخت نقد وجرح کی ہے اور بہت سی ایسی مثالوں کا بھی ذکر کیا ہے جو ناقدین کے خیال میں بہت قابل اعتراض ہیں۔ تاہم اس سارے ذخیرے میں ہمیں اس مثال کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ پانچویں صدی ہجری کے معروف محدث امام خطیب بغدادی نے اپنی کتاب ’’تاریخ بغداد’’ میں خاص طور پر ائمہ احناف پر کیے جانے والے مطاعن ومثالب سے متعلق مواد تفصیل سے جمع کیا ہے، لیکن اس واقعے کا تاریخ بغداد میں بھی کوئی ذکر نہیں۔ اس لیے اس پورے تناظر میں اس واقعے کی تاریخی صحت کو تسلیم کرنا تاریخی معیارات کے لحاظ سے مشکل دکھائی دیتا ہے۔

واللہ اعلم

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • بہت عمدہ میں اکثراس کے بارےمیں سوچتا رہتا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ امام ابو یوسف جیسا جلیل القدر عالم اس طرح کا فتویٰ دے سکتا ہے پھر اما جلال الدین سیوطی جیسے شخصیت کا حوالہ زہن میں آ یا تو تشویش اور بڑھ گئی ۔لیکن مان ابو یوسف کی شخصیت کا خیال آ تا تو میں اس واقع پر محض ایک تاریخی حوالہ کی بنیاد پر دل و دماغ ماننے کو تیار نہیں ہوتا تھا ۔قریبی دوست جب بھی ڈاکٹر جاوید اقبال کی نسبت اسکا زکر کرتے تو جواب کے لئے کوئی مستند حوالہ نہیں تھا بس اگر کوئی دلیل تھی تو ہ امام ابو یوسف کی شخصیت تھی ۔ظاہر ہے علم کی دنیا میں یہ ایک جذباتی دلیل سوا کچھ نہیں تھا۔اج آپنے اس اہم نقطے کو مختصر لیکں جامع انداز میں واضح کیا۔بہت شکریہ حقائق کو آسی طرح سامنے لانےپہ اللہ آپکو جزائے خیر دے آمین۔