Home » فاطمہ، فاطمہ ہے
پچھلے کچھ عرصے میں فیس بک کے کسی صفحے کے ذریعے ڈاکٹر علی شریعتی کے اقوال سے تعارف ہوا. ان کا نام شاید پہلے بھی کہیں پڑھ رکھا ہو، یہ تو یاد نہیں لیکن جتنا ان کے اقوال پڑھتی جا رہی تھی، ان کے بارے میں اور ان کے کام کو پڑھنے کا تجسس بڑھتا جا رہا تھا. یہ تو پتہ چل گیا تھا کہ یہ ایک بہترین شیعہ عالم ہیں مگر مزید کچھ نہیں معلوم کر سکی. چنانچہ جیسے ہی فرصت اور جیب نے اجازت دی، ان کی کتابوں کی ایک فہرست آن لائن آرڈر کر لی جس میں سے صرف دو کتب ہی فی الحال مل سکیں.
1. فاطمۂ فاطمۂ ہے
2. علی ایک دیو مالائی سچ
اس سے قبل، Shia side of the story کے حوالے سے میں نے صرف After the Prophet by Lazely Hazelton پڑھ رکھی تھی. باقی مجھے اہلِ تشیع کے بارے میں صرف وہی معلوم ہے جو اہل السنہ بتاتے ہیں اور جو کہ ان دونوں فرقوں کا پیدائشی طور پر عمومی رویہ ہے.
بہرحال میں نے ڈاکٹر صاحب کی ان کتب میں سے ابتداء “فاطمۂ فاطمۂ ہے” سے کی ہے.
یہ تو نہیں معلوم کہ اہلِ علم ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، (اور میں اہلِ علم کی رائے پڑھے بغیر ہی مختلف سکالرز اور علماء کو پڑھنے کی قائل ہوں) لیکن ٢٨٠ صفحات میں سے ابھی صرف ٨٩ پڑھنے کے بعد میں اس بات پر مطمئن ہوں کہ ان کو پڑھنے کا آغاز کیا. بہترین اور سادہ طرزِ تحریر کے ساتھ ساتھ اپنے ماحول اور زمانے کے مسائل، ان کو درپیش چیلنجز اور اپنوں کی ناعاقبت اندیشی کو اس قدر مدلل، متفکر اور دلسوز مگر پرامید انداز میں کمال سے پیش کرتے جا رہے ہیں!!
اس کتاب کا موضوع عصری اور قدیم سماج کی چپقلش اور تفاوت کے بیچ مسلمان عورت کے لئے اپنی انفرادیت کا تعین ہے. اس کے لئے وہ فاطمہ کو مثالی کردار کے طور پر پیش کر رہے ہیں. لیکن روایتی میلان کے برعکس وہ لکھتے ہیں:
“ہر خود آگاہ عورت اس بات کا شعور رکھتی ہے کہ وہ اپنی موجودہ حالت پر جو اسے ماضی سے ورثے میں ملی ہے قائم نہیں رہ سکتی لیکن ہ محض نقالی کے طور پر اپنے چہرے پر جدید مغزلی عورت کا خول چڑھانے کے لئے بھی تیار نہیں ہے بلکہ اس کی خواہش ہے کہ وہ اپنی حقیقت کو خود دریافت کرے. اپنے وجود کی تعمیرِ نو خود کرے، اپنے لئے چہرے کا انتخاب خود کرے اور اس چہرے کو خود آگاہی اور ذمہ داری کے ساتھ اس طرح آراستہ کرے کہ اس میں انسانیت کا حقیقی و فطری حسن نظر آسکے. لیکن یہ کام کیسے ہو؟ ہمارے دور میں خودآگاہ عورت کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے….. ” (ص ١٠)
اس کے بعد وہ اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ چونکہ ہماری مسلمان خواتین یہ سب جاننے اور سمجھنے کے لئے قدامت اور جدت پر راضی نہ ہونے کے باوجود اسلام سے بے نیاز اور بیگانہ نہیں رہنا چاہتی اس لئے اس کے ذہن میں یہ سوال موجود ہوتا ہے کہ فاطمۂ کی زندگی کیسی تھی. لیکن وہ ان گنی چنی معلومات پر جو ہمیں ان کے بارے میں بتائی جاتی ہیں، اظہارِ افسوس کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
“…. ہم جو دل و جان سے ان کی عظمت اور جلالت کے معترف ہیں اور ہم جو اپنے روح اور ایمان کی تمام گہرائیوں اور توانائیوں کے ساتھ ان سے عقیدت رکھتے ہیں، ایسی بےپایاں اور لازوال عقیدت جس سے زیادہ عقیدت رکھنا کسی انسانی گروہ کے لئے رکھنا ممکن نہیں ہے لیکن اس ہستی کے بارے میں جو ہماری عقیدتوں کا مرکز ہے ہماری معلومات افسوسناک حد تک محدود اور سطحی ہیں. ” (ص١٢-١٣)
اس کے بعد وہ فاطمۂ کے بارے میں مزید بات کرنے کے بجائے عوام میں شدتِ جذبات اور وفورِ محبت کے باوجود انحطاط کے وجوہات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.
اس کے کتاب کے دوسرے حصے میں ڈاکٹر صاحب دنیا کے قدیم قبائلی اور خاص طور پر عرب معاشرے میں ان کے اثرات کے تناظر میں مرد اور عورت کے درمیان قائم ہونے والے مراتب کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان مراتب کے قیام کی وجہ اقتصادی تھی. چونکہ روٹی حاصل کرنا ایک جہد طلب کام تھا اور اس کے ساتھ قبائلی رقابت کے لئے بھی جری جوانوں کی ضرورت ہوتی اس لئے نتیجتاً مرد اور عورت کے درمیان صنفی اختلاف طبقاتی اختلاف میں بدل گیا. مرد مالک اور حکمران طبقہ بن گیا ااور عورت محکوم اور مملوک، وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھی نہیں رہے بلکہ ان میں آقا اور غلام کا رشتہ قائم ہو گیا. وہ لکھتے ہیں:
“مرد چونکہ اقتصادی لحاظ سے طاقتور اور حاکم ہوتا ہے اس اعتبار سے تمام خوبیاں، اچھائیاں اور بزرگیاں اس کے حصے میں آتی ہیں جبکہ عورت حقارت، ضعف، پستی اور ذلت کی نشانی بن جاتی ہے”.
اس فرق کی بناء پر جو رویے، معاشرتی اور اخلاقی مسائل جنم لیتے ہیں ان سب کو وہ اس اقتصادی فرق کی پیداوار گردانتے ہیں. بیمار معاشرتی رویوں اور رسوم کا بے لاگ جائزہ لینے کے بعد وہ اس معاشرے میں فاطمہ اور خانۂ رسول میں موجود دیگر خواتین کے ساتھ رسولِ خدا کے برتاؤ کو ایک انقلابی ضرب سے تعبیر کرتے ہیں. اور لکھتے ہیں:
“…… یہ غیر معمولی رویہ تمام انسانوں کو اور ہر عہد کے انسانوں کو یہ سبق دیتا ہے کہ انسان کس طرح تاریخی عادات و اوہام اور فرسودہ روایات سے نجات حاصل کر سکتا ہے. یہ انسانوں کو فرسودہ اور غلط عادات و روایات سے نجات دلا کر اس بات کا سبق دیتا ہے کہ مرد اس تختِ جبروت و جباریت اور خشونت و فرعونیت کی بلندی سے نیچے اتریں جو انھوں نے اپنے لئے اختیار کر رکھی ہے. وہ عورتوں کے برابر کھڑے ہوں. اور اس طرح یہ عملِ پیغمبر عورت کو اس بات کا سبق دیتا ہے کہ وہ اس حقارت کی پستی سے جو قدیم دور سے جدید عہد تک اس کا مقدر رہی ہے نجات حاصل کرے اور انسانی وقار و عظمت کی بلندی تک صعود کرے”.
رسولِ خدا کی تمام پیغمبرانہ زندگی کے دونوں مکی و مدنی ادوار کے دوران حضرت فاطمہ کے کردار کے حوالے سے ڈاکٹر شریعتی تاریخی تسلسل کے ساتھ واقعات کا ذکر کرتے ہیں اور ان میں فاطمہ کے کردار کی وضاحت کرتے ہیں. اس سارے تسلسل کے دوران وہ فاطمہ کو رسول کی پیغمبرانہ ذمہ داریوں سے واقف اور فہم و فراست رکھنے والی خاتون کے طور پر پیش کرتے ہیں. رحلتِ رسول کے بعد علی کی معیت میں (اہلِ تشیع کے بیانیے کے مطابق) مدینے میں ان کی سرگرمیوں اور علی کے حقِ خلافت کے لئے پبلک opinion کو بنانے کے حوالے سے ان کے کردار کا ذکر کرتے ہیں. ان کی سیاسی بصیرت، ان کی معاملہ فہمی، اور اپنے ارد گرد حالات سے واقفیت اور ان میں اپنے کردار ادا کرنے کو وہ مسلمان خواتین کے لئے مشعلِ راہ کے طور پر پیش کرتے ہیں.
آخر میں وہ فاطمہ کا تعارف کرنے کے لئے ان کے مروجہ تعریف جو دیگر حوالوں پر مبنی ہوتی ہے، کے برعکس ان کی اپنی ذات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“میں نے چاہا کہوں: فاطمہ دخترِ محمد ہیں،
مگر دیکھا کہ یہ فاطمہ کی مکمل تعریف نہیں ہے.
سوچا کہوں: فاطمہ علی کی ہمسفر و ہم کفو ہیں.
دیکھا کہ یہ فاطمہ کی مکمل تعریف نہیں.
سوچا کہوں: فاطمہ حسین کی ماں ہیں.
دیکھا کہ یہ فاطمہ کی مکمل تصویر نہیں ہے.
سوچا کہوں: فاطمہ مادرِ زینب ہے.
مگر دیکھا یہ بھی فاطمہ کی مکمل تصویر نہیں ہے.
ہاں! یہ سب فاطمہ ہے مگر یہی سب کچھ فاطمہ نہیں ہے. فاطمہ فاطمہ ہے!!”
ہر کتاب کی طرح اس کتاب میں بھی یقیناً کچھ کمیاں اور کمزوریاں موجود ہوں گی. لیکن ایک اچھی کتاب کی طرح اس کتاب کی خوبیاں اس کی کمیوں پر حاوی ہیں. ڈاکٹر علی شریعتی سے یہ کتاب میرا پہلا تعارف ہے، اور مجھ پر اس کتاب نے ان کا ایک بہت اچھا تاثر ڈالا ہے. اہلِ تشیع کے بہت سے افکار کے حوالے سے ایک معتدل تشریح سامنے آئی ہے. اور ایک ذہنی و قلبی بُعد جو ان کے حوالے سے دل میں پیدا ہوتا ہے اس کو کافی حد تک ا ڈاکٹر صاحب کی اس تحریر نے کم کر دیا ہے. میسر ہو تو اس کتاب کو بھی پڑھیے گا، وقت ضائع نہیں جائے گا.

ڈاکٹر سیدہ حور العین

ڈاکٹر سیدہ حور العین نے تقابل مذاہب میں ڈاکٹریٹ کی ہے اور یونیورسٹی آف پشاور کے کالج آف ہوم اکنامکس میں تدریسی فرائض انجام دیتی ہیں۔
hoor.sadiq@uop.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں