حنفی اصولی کتابوں کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ کتاب وسنت کی مباحث واضح کر نے کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ کتاب وسنت میں بیان کا احتمال ہوتا ہے۔ پھر وہ بتاتے ہیں کہ عربی زبان میں بیان یہ ہے کہ متکلم خود اپنی بات واضح کرے۔ (ظاہر ہے کہ چونکہ رسول ، اللہ تعالی کے پیامبر ہیں، اس لیے ان کی بات اللہ تعالی کی بات ہی کا بیان ہے)۔
بیان کے لغوی واصطلاحی معنے میں رشتہ:
چونکہ بیان لغت میں “تعریف واعلام اورایضاح ” [1]کو کہتے ہیں، اس لحاظ سے بیان میں تین پہلو ہوئے:
- تعریف واعلام کا فعل۔ بعض لوگوں نے اسی پہلو کی رعایت کرتے ہوئے بیان کو “مراد واضح کرنا “قرار دیا ہے۔چناچہ صدر الشریعہ صاحب توضیح نے فرمایا: ” وهو إظهار المراد”
- وہ امر یا نص وغیرہ جس سے بیان حاصل ہوتا ہے۔ اس معنے میں بیان “دلیل” کے برابر ہے۔اکثر اصولی حضرات بیان سے یہی مراد لیتے ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ بیان دلیل ہے۔
- اس دلیل سے حاصل ہونا والا علم۔ اسی پہلو کی وجہ سے بعض لوگوں نے بیان کی تعریف “علم” سے کی ہے۔ (النامي شرح الحسامي)
ان تینوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں بلکہ کسی نے ایک پہلو سے بات واضح کی اور دوسرے نے دوسرے پہلو سے۔ لفظ بیان چونکہ مصدر ہے اس لیے وہ متکلم کا عمل ہے اور اس لحاظ سے، اسے فعل (لغوی نہ کہ نحوی) قرار دیا گیا ۔نیز جس طرح، شکار کرنے کو “صید” کہتے ہیں، اس طرح جس چیز کا شکار کیا جائے، اسے بھی “صید” کہتے ہیں اور بات کرنے کو “کلام” کہتے ہیں اور جن الفاظ سے کلام کیا جائے (متکلم بہ) اسے بھی کلام کہہ دیتے ہیں، کھانا کھانے کو طعام کہتے ہیں، جو چیز کھائی جائے اسے بھی طعام کہتے ہیں۔ بالفاظ دگر، مصدر مفعول کے لیے (خواہ وہ براہ راست ہو خواہ کسی حرف کے واسطے سے) استعمال کیا جاتا ہے۔اسی طرح، اس نص یا دلیل کو بھی بیان کہا جاتا ہے جس کے ذریعے متکلم اپنی مراد واضح کرتا ہے، یعنی دلیل۔اور بعض لوگوں نے بیان کے ثمرہ کے لحاظ کیا اور اسے “علم” قرار دیا کہ متکلم اپنی بات کی وضاحت کے لیے جب دلیل لاتا ہے، تو سننے والے کو “علم” حاصل ہوتا ہے۔اسے حاصل بالمصدر کہتے ہیں۔
فقہائے بیان کے لغوی اور اصطلاحی معنے میں یہی رشتہ بیان کرتے ہیں۔
بیان کی اقسام، فقہائے احناف کے ہاں :
آگے بڑھنے سے پہلے ہم بیان کی اقسام پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
- ۱: بیان تقریر: اس سے مقصود یہ ہے کہ کلام سے ایک بات سمجھ آ رہی ہوجو ظاہر وباہر ہو لیکن دوسری بات کا کچھ امکان ہو اور متکلم واضح کر دے اس کا مقصود وہی ہے جو کلام سے سمجھ آ رہا ہے۔
- ۲: بیان تفسیر: جب کلام میں ایک سے زیادہ معانی کا امکان ہو اور ان میں سے کوئی بات بھی ظاہر یا غالب نہ ہو، تو متکلم کی طرف سے اس کی وضاحت بیان تفسیر ہے۔ یہی وجہ ہے مجمل ومشترک کی وضاحت بیان تفسیر ہے۔
- ۳: بیان تغییر: استثنا اور شرط اور قید کو کہتے ہیں۔ لیکن یہ اس وقت تک ہے جب تک وہ ایک ہی جملے میں ہوں (کلام متصل میں ہو)۔ اگر ایک جملہ کہہ کر پھر ایک جملے سے اس میں استثنا پیدا کیا جائے تو اسے تخصیص یا نسخ کہتے ہیں (ان لوگوں کے ہاں جو عام کے عموم کو قطعی کہتے ہیں اوراس کی نمائندگی علامہ دبوسی سے بزدوی تک ہے۔ لیکن جو لوگ اسے تسلیم نہیں کرتے ان کے ہاں ایسا نہیں جیسے احناف کی سمرقندی روایت اوراکثر شوافع)
- ۴: بیان تبدیل: یہ نسخ ہے (علامہ سرخسی کی اصطلاح اس حوالے سے الگ ہے جس پر گفتگو آگے آئے گی۔)
- ۵: بیان ضرورت: اس سے مقصود یہ ہے کہ کلام میں ایک بات بیان نہیں ہوئی لیکن لغوی یا متکلم کی حیثیت وعادت کی وجہ سے وہ بات مراد لی جائے جیسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی کو بیان مراد لینا۔ اگر اس بیان پر غور کیا جائے، تو یہ کوئی مستقل کلام نہیں ہوتا لیکن متکلم کا حال وغیرہ سے بات سمجھی جاتی ہے۔ گویا یہاں “متکلم کا حال” وہ “دلیل بیان “ہے جس سے نیا حکم حاصل ہوا۔اس کی علامہ سرخسی نے چار انواع لکھی ہیں۔
- ۶: بیان عطف:اس سے مقصود یہ ہے کہ معطوف کا وہی حکم ہے جو معطوف علیہ کا ہے۔ اسے بیان کہنے کی وجہ غالبا یہ ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ: “فهمت كتاب الله وحديث رسول الله صلى الله عليه وسلم” تو علمائے نحو کے مطابق یہ کلام یوں ہے: “فهمت كتاب الله، وفهمت حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم” اور عطف کی وجہ سے دوسرے فعل کو حذف کر دیا جاتا ہےاور اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ معطوف تکرار عامل کے حکم میں ہے یعنی وہ فعل یا عامل جو معطوف علیہ پر عمل کر رہا ہے، وہی معطوف پر عمل کر رہا ہے۔اب چونکہ فقہا “حکم” سے بحث کرتے ہیں، تو یہ کہیں گے کہ جو “حکم” معطوف علیہ کا ہے وہی معطوف کا ہے۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ یہ بیان ضرورت سے الگ نہیں۔
- ۷: بیان حال: اس سے مقصود متکلم کا حال ہے اور اوپر گزرا کہ اسے علامہ سرخسی وغیرہ نے بیان ضرورت کے تحت رکھا ہے۔
نسخ، بیان تبدیل اور علامہ سرخسی اور بزدوی میں اختلاف کی حقیقت :
علامہ سرخسی رحمہ اللہ تعالی نے بیان کی اصطلاحی تعریف اس طرح کی کہ:
إظهار المعنى وإيضاحه للمخاطب منفصلا عما تستر به
اس تعریف کی مندرجہ ذیل تین عناصر ہیں:
- بات واضح کرنا
- سننے والے کو کرنا
- جس بات کی وضاحت کی جا رہی ہے، اس سے الگ بات سے۔یہاں انہوں نے “عما تستر بہ” کہا جس سے مقصود یہ ہے کہ جس لفظ یا بات سے اس کی مراد میں پوشیدگی آئی ہے، اس سے جدا بات سے مقصود واضح کیا جائے۔ اور لفظ “منفصلا” میں بیان کی اصل کی طرف اشارہ ہے کہ بیان دو چیزوں کو الگ الگ کرنے کے معنے میں آتا ہے ۔
لیکن فخر الاسلام علامہ بزدوی ابو العسر رحمہ اللہ تعالی نے اس طرح تعریف نہیں کی، بلکہ اسے محض “اظہار” کے معنے میں لیا ہے۔
اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ علامہ سرخسی رحمہ اللہ تعالی نے نسخ کو بیان (بیان محض) میں شمار نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بیان کو کسی خاص سابقہ کلام یا حکم کے ساتھ خاص کیا ہے لیکن علامہ بزدوی نے نسخ کو بیان کی قسم گردانا ہے ۔ احناف کے ہاں (منار اور اس کی شروح وغیرہ میں)جو اصطلاح بعد میں رائج ہوئی، وہ دراصل علما بزدوی کی ہے، نہ کہ علامہ سرخسی کی۔ چناچہ اس کی نتیجہ ہے کہ:
- علامہ سرخسی کے ہاں بیان تغییر استثنا اور بیان تبدیل شرط سے معلق کرنا ہے۔ «أصول السرخسي» (2/ 35)
- لیکن علامہ بزدوی کے ہاں یہ دونوں امور بیان تغییر سے ہیں جبکہ بیان تبدیل سے مراد نسخ ہے۔ «كشف الأسرار شرح أصول البزدوي» (3/ 154)
ایک جگہ علامہ سرخسی فرماتے ہیں کہ بیان کسی واقعے کا ابتدائی حکم واضح کرنے کو کہتے ہیں جبکہ نسخ کسی حکم کے ثابت ہونے کے بعد، اسے ختم کرنے سے عبارت ہے۔
« فإن حد البيان غير حد النسخ لأن البيان إظهار حكم الحادثة عند وجوده ابتداء والنسخ رفع للحكم بعد الثبوت» [بیان کی تعریف نسخ سے الگ ہیں کیونکہ بیان کسے واقعے کا حکم ابتدائی طور سے واضح کرنے سے عبارت ہے جبکہ ایک حکم ثابت ہونے کے بعد اسے ختم کرنا نسخ ہے۔]«أصول السرخسي» (2/ 35)
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس اصطلاح میں فرق کے باوجود دونوں حضرات کے ہاں احکام میں فرق نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علامہ سرخسی بیان سے “بیان محض” مراد لے رہے ہیں جسے ہم “بیان ابتدائی” کہہ سکتے ہیں لیکن علامہ بزدوی اس سے بیان ابتدائی اور بیان مدت (کہ نسخ میں کسی حکم کی مدت ہی بیان کی جاتی ہے۔ اس کے سوا، کچھ نہیں)۔ یہی وجہ ہے کہ بعض جگہوں پر علامہ سرخسی خود “بیان محض” کی اصطلاح اختیار کرتے ہوئے اسے نسخ سے الگ کرتے ہیں۔دین(مذہب) میں اختلاف کی وجہ سے میراث کے نہ ملنے پر تبصرے کرتے ہوئے علامہ سرخسی فرماتے ہیں کہ: “یہ نسخ ہے، بیان محض نہیں”
«فأما تقييد حكم الميراث بالموافقة في الدين فهو زيادة على النص وهو يعدل النسخ عندنا فلا يكون بيانا محضا»[جہاں تک میراث کے حکم کو دین ومذہب میں ہم آہنگی سے خاص کرنے کا تعلق ہے، تو یہ نص پر اضافہ ہے اور ہمارے ہاں یہ نسخ کے ہم پلہ ہے۔اس لیے، یہ نرابیان نہیں۔]«أصول السرخسي» (2/ 34)
دلچسپ بات یہ ہے کہ علامہ بزدوی جب بیا ن تغییر کی طرف آتے ہیں تو وہی تعبیر اختیار فرماتے ہیں جو علامہ سرخسی نے کی کہ
«لأن حد البيان ما يظهر به ابتداء وجوده فأما التغيير بعد الوجود فنسخ وليس ببيان»اصول البزدوي في ضمن «كشف الأسرار شرح أصول البزدوي» (3/ 118)
یہی وہی عبارت ہے جو اوپر علامہ سرخسی نے نسخ اور بیان میں فرق کے لیے فرمائی لیکن دوسری طرف، علامہ بزدوی بیان تبدیل میں نسخ کو رکھتے ہیں جب کہ علامہ سرخسی ایسا نہیں کرتے۔ اس کی وجہ وہی ہے کہ بیان سے ان کے ہاں بیان محض مراد ہے۔چناچہ دو حنفی شراح کی بات پر غور کیجیے جو اس اختلاف پر تبصرہ کرتے ہیں:
۱: علامہ بخاری رحمہ اللہ تعالی نے علامہ بزدوی کے کلام تبصرہ کرتے ہوئے جو تطبیق دی اس کی بنیاد یہ ہے کہ اگر نسخ کی ماہیت دیکھی جائے، تو وہ بیان ہے کہ اس میں اللہ تعالی کی طرف سے ایک سابقہ حکم کی مدت بیان ہوتی ہے، لیکن چونکہ ہمیں پہلے سے اس کی مدت معلوم نہ تھی اس لیے ہمارے حق میں ایک سابقہ حکم ختم ہوا، نہ کہ بیان ہوا۔
«ووجه التوفيق بينهما أنه إنما جعل النسخ من أقسام البيان باعتبار أنه عند الله تعالى بيان انتهاء مدة الحكم ولم يجعله بيانا هاهنا باعتبار الظاهر فإنه في الظاهر رفع الحكم الثابت وإبطاله فلا يكون بيانا له»[ان میں تطبیق یہ ہے کہ (وہاں )علامہ بزدوی نے نسخ کو بیان اس زاویے سےقرار دیا جاتا ہے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے حکم کی انتہائی مدت کی وضاحت ہے اور یہاں اس لحاظ سے بیان سےالگ کیا کہ بظاہر یہ ثابت شدہ معین حکم کو ختم کرنا ہے، اس حکم کا بیان نہیں۔]«كشف الأسرار شرح أصول البزدوي» (3/ 119)
۲: حسامی کے محشی صاحب “نامی” علامہ بزدوی وسرخسی کے اختلاف پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اسے اختلاف نہیں قرار دینا چاہیے کیونکہ جنہوں نے نسخ کو بیان میں شامل کیا، انہوں نے بیان کو “محض متکلم کا مقصود” واضح کرنے کے معنے میں لیا، لیکن جنہوں نے نسخ کو اس سے نکالا انہوں نے اسے “کسی معین سابقہ کلام کا مقصود واضح کرنے کے معنے میں لیا” (جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا کہ علامہ سرخسی کا “منفصلا عما تستر به” سے یہی مقصود ہے )
أقول: النزاع ليس على ما ينبغي لأن من أدخله في البيان أراد بالبيان مجرد إظهار المقصود. فعلى هذا النسخ بيان كما لايخفى، ومن أخرجه أراد بالبيان إظهار ما هو المراد من كلام سابق. فعلى هذا هو ليس ببيان. فتأمل. [میں کہتا ہوں کہ یہاں کوئی (حقیقی)اختلاف نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جنہوں نے نسخ کو بیان میں شامل کیا، ان کی مراد محض مقصود واضح کرنا ہے۔اور بلاشبہ اس لحاظ سے، نسخ بیان کا حصہ ہے اور جنہوں نے نسخ کو بیان سے الگ کیا، ان کی مراد خاص کسی سابقہ بات کی وضاحت ہے۔ اس لحاظ سے، نسخ بیان نہیں۔ پس غور کر لو!]«النامي شرح الحسامي» (165)
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ علامہ سرخسی وبزدوی کے ہاں “بیان ” کے تذکرے میں ژولیدگی ہے اور اگر کوئی اس سے غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے، تو قابل ملامت نہیں۔ اسی وجہ سے، بعد کے حنفی ائمہ نے جو تنقیحات کی ہیں، ان کی روشنی میں انہیں دیکھنا ضروری ہے کہ حنفی روایت ایک مسلسل روایت ہے۔ لیکن یہ امر بھی شک وشبہ سے بالا تر ہے کہ بیان کے حوالے سے علامہ سرخسی وبزدوی کا باہمی اتفاق ہے کہ تفسیر، تقریر اور نسخ تینوں بیان ہی کی اقسام ہیں۔
نتائج :
اس پوری گفتگو سے چند نتائج سامنے آتے ہیں:
- بیان کی گفتگو میں، جو اقسام اہم ہیں وہ تین ہیں: بیان تقریر، بیان تفسیر اور بیان تبدیل (یا نسخ)اور بیان کی معاصر گفتگو میں انہیں پر بات ہوتی ہے۔
- بیان دو طرح کا ہے: ابتدائی بیان اور بیان مدت ۔ ابتدائی بیان میں تقریر وتفسیر وغیرہ آتے ہیں اور بیان مدت نسخ ہے۔
- دونوں ہی فقہائے احناف کے ہاں بیان ہیں اور دونوں ہی عربی معلی کے مطابق”بیان” کا تقاضا ہیں کہ نسخ میں بھی متکلم کا مقصود ہی واضح ہوتا ہے کہ فلاں حکم کی ایک مدت ہے وہ ہمیشہ کے لیے نہ تھا۔اس لیے، ان میں سے کسی ایک کو بھی بیان سے باہر نکالنے کے لیے اس کی دلیل دینی ہو گی کہ آیا عربی زبان میں کوئی ایسی بات ہے جو بیان مدت یا بیان تبدیل یا نسخ (تینوں اصطلاحات ایک ہی معنے پر دال ہیں) بیان کے لغوی معنے سے باہر ہے کیونکہ لغت نے بیان کو “مقصود کے اظہار” کے معنے میں لیا ہے کسی “معین سابقہ کلام کی مراد ” کے ساتھ خاص نہیں کیا۔
- علامہ سرخسی اور بزدوی حضرات کے ہاں نسخ کو بیان قرار دینے میں کچھ اختلاف ہے۔ لیکن یہ محض اصطلاح کا اختلاف ہے جس کا کوئی ثمرہ نہیں اور علامہ سرخسی خود “بیان محض” کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جس سے واضح ہے کہ ان کے ہاں نسخ بیان ہے پر بیان محض نہیں۔ علامہ بزدوی بھی ایسا کرتے ہیں لیکن وہ واضح طور سے بیان تبدیل کو بیان کی قسم گردانتے ہیں۔
[1] «تاج العروس من جواهر القاموس» (34/ 297)، المفردات في غريب القرآن ، باب بين.
کمنت کیجے