Home » طلبہ کے کابل میں آٹھ دن – 1
احوال وآثار

طلبہ کے کابل میں آٹھ دن – 1

 

27 جون سے 4 جولائی تک کابل میں ایک دفعہ پھر قیام کا موقع ملا۔ پچھلے دورے اور اس دورے کے درمیان 4 سال کا وقفہ آیا۔ پچھلے دورے کے بعد پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور کہیں کہیں تو پلوں کو بھی ساتھ بہا لے گیا ہے۔ اس لیے جب اس دورے کی دعوت ملی، تو ایک لمحے کی ہچکچاہٹ کے بغیر فوراً ہی دعوت قبول کرلی۔ کئی دوستوں نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اس دورے کی کچھ تفصیلات پیش کی جائیں اور کابل اور اس کے گرد و نواح میں جو کچھ دیکھا اور  محسوس کیا، اس کے بارے میں کچھ لکھا جائے۔ اس لیے کوشش کروں گا کہ تمام امور نہ سہی، کچھ بنیادی باتیں ضرور شیئر کرسکوں۔

اس دورے کی دعوت “جنیوا کال” (Geneva Call) نامی بین الاقوامی تنظیم کی جانب سے ملی تھی۔ اس لیے کچھ باتیں اس تنظیم کے متعلق بھی عرض کروں گا۔ اس تنظیم کے زیرِ اہتمام جو پروگرام کابل میں تھا، ضروری ہے کہ اس کے چند اہم نکات بھی پیش کیے جائیں۔ یہ پروگرام 3 دنوں کا تھا، 28 سے 30 جون تک، اور اس وجہ سے یکم جولائی کو واپسی کا پروگرام تھا، لیکن مجھے معلوم تھا کہ افغانستان میں میرے دوست اور شاگرد مجھے اتنی جلدی واپس نہیں آنے دیں گے، اس لیے میں نے یکم جولائی کا دن دوستوں سے ملاقاتوں کےلیے رکھا تھا۔ تاہم ہمارے دیرینہ دوست جناب ڈاکٹر احمد خالد حاتم نے، جو اس وقت کاردان یونیورسٹی، کابل، کے صدرہیں، اپنی یونیورسٹی میں بعض نہایت اہم اور افغانستان کے سیاق میں حساس موضوعات پر “محاضراتِ کابل” کے عنوان کے تحت  میرے لیکچرز رکھنے کا پروگرام بنایا۔ چنانچہ 2 اور 3 جولائی کو اس پروگرام کا بھی اضافہ ہوا اور پھر واپسی 4 جولائی کو ہوئی۔

اس دوران میں کابل میں طلبہ کی حکومت کے زیرِ اہتمام 3 ہزار سے زائد علماء اور سربرآوردہ شخصیات پر مشتمل “لویہ جرگہ”، یعنی بڑی اسمبلی کا اجلاس بھی ہوا، جو 3 دن تک جاری رہا۔ یہ موقع بہت اہم تھا اور سب لوگ لویہ جرگہ کے فیصلوں کا بے تابی سے انتظار بھی کررہے تھے۔ لویہ جرگہ کی وجہ سے کابل میں سیکیورٹی بھی بہت زیادہ سخت کردی گئی تھی اور اسی دوران میں ہم نے 30 جون کو کابل سے باہر قرغہ اور پغمان میں دوستوں اور شاگردوں کے ساتھ سیر کا پروگرام بنایا تھا۔ چنانچہ کابل سے باہر جاتے ہوئے اور واپس آتے ہوئے بھی بہت کچھ دیکھا اور بہت دلچسپ تجربات ہوئے۔

جنیوا کال کے 3 دن کے پروگرام میں بھی طلبہ کی حکومت کے بعض اہم ترین افراد شریک ہوئے اور کئی نامی گرامی علماے کرام اور شیوخ نے بھی شرکت کی۔ 3 دن تک ان کے ساتھ گفتگو، مکالمے اور بحث اور شام کی تفریح اور ڈنر میں بہت دلچسپ اور اہم باتیں سامنے آئیں۔ اس کے بعد محاضراتِ کابل کے 2 دن کے پروگرام بھی طلبہ کی حکومت کے اہم نمائندوں اور بعض ممتاز شیوخ نے شرکت کی اور یوں ایک دوسرے کو سمجھنے کا بہتر موقع ملا۔

کابل کی سڑکوں اور بازاروں میں عام آدمی کی زندگی کو بھی قریب سے دیکھا، تاجروں اور دکانداروں سے بھی باتیں ہوئیں، مسجداور پارک بھی دیکھے، ہوٹل اور ریستوران میں بھی وقت گزارا اور ایئرپورٹ پر آتے ہوئے بھی اور جاتے ہوئے بھی کئی چیزیں مشاہدے میں آئیں۔

میں کوشش کروں گا کہ ترتیب کے ساتھ کچھ اہم امور یہاں لکھ سکوں۔ وباللہ التوفیق!

جنیوا کال

ہماری میزبان تنظیم جنیوا کال تھی جو جنیوا، سویٹزرلینڈ، میں قائم کی گئی ہے اور اس کا مقصد جنگ کے دوران میں عام شہریوں کا تحفظ ہے اور اس مقصد کےلیے یہ غیر ریاستی مسلح گروہوں (Armed Non-State Actors/ANSAS) کو جنگ سے متعلق قوانین پر عمل کےلیے قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ جنیوا کال کے ساتھ میرا تعارف پہلی دفعہ 2015ء میں جنیوا میں ہوا جب ہم انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس کے ایک خصوصی کورس کےلیے گئے تھے۔ اس کورس میں جنیوا کال کی جانب سے محترمہ انیسہ بلال تشریف لائی تھیں اور جب انھوں نے یہ کہا کہ ان کی تنظیم غیر ریاستی مسلح گروہوں  کو آداب القتال کی پابندی پر قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے، تو کئی لوگوں کو بہت حیرت ہوئی اور ایک صاحب نے پوچھا کہ آپ داعش جیسی تنظیم کو کیسے بات چیت پر آمادہ کرسکتے ہیں؟ انھوں نے یہ جواب دے کر لوگوں کو مزید حیران  کردیا کہ ہم ان کو بات چیت پر آمادہ کرچکے ہیں! انھوں نے مزید یہ بھی بتایا کہ کئی غیر ریاستی مسلح گروہوں نے آداب القتال کے بین الاقوامی معاہدات، یا ان سے متعلق بعض امور، کو یک طرفہ طور پر اپنی جانب سے اعلان کرکے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے۔

یہ بات شاید کئی لوگوں کو معلوم ہو کہ اپنی عسکری مزاحمت کے دور میں افغانستان کے طلبہ کی جانب سے ایک “لائحہ” جاری کیا گیا تھا جس میں جنگ کے متعلق بعض امور پر اپنا موقف بتا کر اپنی تحریک سے وابستہ افراد سے اس کی پابندی کےلیے کہا گیا تھا۔ اس لائحہ میں مذکور آداب القتال کےلیے قرآن و سنت سے استدلال کیا گیا تھا اور اس استدلال سے بعض مواقع پر مجھے اختلاف بھی تھا لیکن یہ امر خوش آئند تھا کہ طلبہ کی تحریک نے اپنے آداب القتال کو تحریری شکل دے کر اس کا استدلال بھی واضح کرنے کی کوشش کی۔

بہرحال پچھلے مہینے جون میں جنیوا کال کی جانب سے مجھے بتایا گیا کہ افغانستان کے سیاق میں جنگ کے آداب کے متعلق بعض کتابچے جنیوا کال نے پشتو اور دری زبانوں میں تیار کیے ہیں اور ان میں استدلال کےلیے قرآن و سنت اور دیگر اسلامی مآخذ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ جنیوا کال نے خواہش ظاہر کی کہ ان کتابچوں پر تفصیلی نظرِ ثانی اور ان کے استدلال کو بہتر بنانے کےلیے میں بھی کابل میں منعقد کی جانے والی تین روزہ ورکشاپ میں شرکت کروں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کتابچوں پر طلبہ کے ساتھ ان کے دورِ مزاحمت میں ہی کافی بات چیت ہوچکی ہے اور اس کے بعد ہی ان کا پہلا مسودہ سامنے آیا۔ اب اس مسودے پر تفصیلی نظرِ ثانی کی ضرورت ہے اور اس مقصد کےلیے ورکشاپ میں طلبہ کے بعض شیوخ اور نمائندے بھی ہوں گے اور جنیوا کال کی کوشش ہوگی کہ ازہر اور دیوبند سے بھی بعض اہلِ علم کو لایا جاسکے۔ یہ سب معلوم ہونے پر میں نے تو یہی کہا کہ: ذَٰلِكَ مَا كُنَّا نَبۡغِ! چنانچہ میں نے تو فوراً ہی ہامی بھرلی۔

بعد میں معلوم ہوا کہ ازہر اور دیوبند سے اہلِ علم بعض سفری مشکلات کی بنا پر نہیں آسکے۔ پاکستان سے بھی ایک اور صاحبِ علم نے پہلے جانے کا ارادہ کرلیا تھا لیکن پھر اس بنا پرانکار کیا  کہ پاسپورٹ پر افغانستان کا ویزا ہو تو یورپ یا امریکا کے سفر میں مشکل پیش آئے گی۔ میں نے انھیں بتایا بھی کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر آپ کا اپنا پروفائل ٹھیک ہو، جس تنظیم نے آپ کو سپانسر کیا ہو اس کے ساتھ مسئلہ نہ ہو، اور جس مقصد کےلیے آپ گئے ہوں وہ قابلِ اعتراض نہ ہو؛ لیکن انھیں تشفی نہیں ہوئی۔ میں تو بہرحال یہ موقع ضائع نہیں کرسکتا تھا۔

پہلا دن

27 جون کو اسلام آباد سے فلائیٹ تھی جو ٹھیک وقت پر روانہ ہوئی اور وقتِ مقررہ سے قبل کابل پہنچ گئی۔ اپنے سفر کے ساتھیوں جناب احمد حسن، جناب تحمید جان اور جناب محمد جان اخونزادہ کو میں نے پہلے سے خبردار کیا تھا کہ 45 منٹ کی اس فلائیٹ میں ٹیک آف کے بعد بہ مشکل جوس ہی پی سکتے ہیں اور سینڈوچ ختم کرنے سے قبل ہی کابل میں اترنے کا اعلان کیا جائے گا۔ یہی ہوا۔

پچھلی دفعہ (2018ء میں) کابل ایئر پورٹ پر اترتے ہی سب سے پہلے کمانڈر احمد شاہ مسعود کی ایک دیوہیکل تصویر پر نظر پڑتی تھی۔ پھر ایئرپورٹ کے باہر بھی  قدم قدم پر ان کی بڑی بڑی تصویریں نظر آتی تھیں۔ اس دفعہ جہاز سے نکلنے کے بعد باہر نظر ڈالی، تو سب سے پہلے جس بورڈ پر نظر پڑی اس پر حدیث مبارک: لا ضرر و لا ضرار فی الاسلام لکھی ہوئی نظر آئی اور اس کے نیچے پشتو، دری اور انگریزی زبان میں اسلامی امارت کی اس خواہش کا اظہار کیا گیا تھا کہ وہ دنیا کی تمام اقوام کے ساتھ پر امن اور مثبت تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے۔

پچھلی دفعہ بھی امیگریشن میں کچھ خاص مسئلہ پیش نہیں آیا تھا لیکن عملے کی بدن بولی بہت جارحانہ تھی۔ اس دفعہ نہ صرف یہ کہ امیگریشن کا معاملہ آسانی سے ہوا بلکہ عملے کا رویہ بھی مثبت تھا۔ عملہ تو شاید پرانا ہی تھا لیکن ان کی نگرانی کےلیے بعض طلبہ پیچھے موجود تھے۔ یہ طلبہ کی پہلی جھلک تھی اور یہ جھلک اچھی تھی کیونکہ وہ ہنسنے مسکرانے والے طلبہ تھے۔ امیگریشن کاؤنٹر سے آگے بڑھے تو سامان کی طرف جاتے ہوئے ایک طالب نے روکا۔ اس کے ہاتھ میں غیر ملکیوں کےلیے فارمز تھے اور اس نے بہت  ادب کے ساتھ وہ فارم بھرنے کےلیے کہا۔ فارم میں معمول کی تفصیلات درج کرنی تھیں، نام، پاسپورٹ نمبر وغیرہ، لیکن تصویر بھی لگانی تھی اور تصویر کے پرنٹس میرے پاس نہیں تھے۔ اس نے کہا، کوئی بات نہیں اور فارم واپس لے کر مجھے آگے سامان کی طرف جانے دیا۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ میرے سمیت کسی مسافر کا فارم اس نے غور سے نہیں پڑھا کہ اس میں کیا لکھا، صحیح لکھا یا غلط لکھا۔ بہرحال، آگے بڑھ کر سامان وصول کیا اور باہر نکل گئے۔

جنیوا کال کے دوست باہر استقبال کےلیے موجود تھے اور ان میں ایک صاحب نے آگے بڑھ کر میرے نام سے مجھے پکارا۔ مجھے ان کا چہرہ جانا پہچانا لگا۔ پھر یاد آیا کہ ڈاکٹر شاہ فیصل سادات سے کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں ایک پروگرام میں ملاقات ہوئی تھی۔ انھوں نے باقی دوستوں سے تعارف کرایا۔ پھر ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں زندگی پچھلی دفعہ کے معمول کے مطابق ہی نظر آئی، سواے اس کے کہ بڑی بڑی تصویریں اب نظر نہیں آرہی تھیں اور جگہ جگہ بندوق بردار طلبہ نظر آئے جن میں بیشتر نے نیا یونیفارم پہنا ہوا تھا لیکن کئی ایسے بھی تھے جو عام لباس میں تھے۔ ایسے میں کسی عام افغانی اور طالب میں فرق بس شاید بندوق کے ہونے اور نہ ہونے کی بنا پر ہی کیا جاسکتا تھا۔ ہوٹل تک پہنچنے سے قبل دو تین جگہ گاڑی روکی گئی لیکن تنگ نہیں کیا گیا۔

ہوٹل وہی تھا جس میں پچھلی دفعہ بھی قیام کیا تھا۔ یہ ہوٹل کابل کے پوش علاقے شہرِ نو میں ہے اور اس کے قریب بعض سرکاری دفاتر بھی ہیں لیکن زیادہ تر بین الاقوامی این جی اوز کے دفاتر ہیں۔ ہوٹل کی سیکیورٹی کا یہ عالم ہے کہ پہلے دو بیریئر پار کرنے پڑتے ہیں اور ہر بیریئر پر گارڈ کھڑا ہے جو گاڑیوں اور پیدل چلنے والوں کو روکتا ہے اور پھر وضاحت پر مطمئن ہونے کے بعد چھوڑ دیتا ہے، یا غیر مطمئن ہونے پر روکے رکھتا ہے۔ دونوں بیریئر پار کرنے کے بعد ہوٹل کے داخلی دروازے پر پہنچتے ہیں تو پہلے سارے سامان کی سکیننگ کی جاتی ہے اور پھر ہر فرد کی جسمانی تلاشی لی جاتی ہے۔ جی ہاں، جسمانی تلاشی۔ سامان کےلیے سکینرز پر بھروسا کیا جاتا ہے لیکن انسانوں کےلیے سکینرز پتہ نہیں کیوں قابلِ اعتبار نہیں ہیں۔ پوری طرح مطمئن ہونے کے بعد آپ کےلیے دوسرا دروازہ کھولا جاتا ہے، پھر آپ تیسرے دروازے داخل ہوتے ہیں اور پھر چوتھے دروازے سے داخل ہو کر ہوٹل کی ریسپشن تک پہنچتے ہیں۔ اس کے بعد ہی آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ ہوٹل میں ہیں ورنہ اس سے قبل یہ خیال آتا ہے کہ شاید کسی قلعے یا فوجی اڈے میں داخل ہورہے ہیں۔ یہی کچھ 4 سال قبل بھی تھا۔ یہی کچھ اب بھی ہے۔ اس لحاظ سے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا ہے۔ ہوٹل کے اندر کئی ممالک کے جھنڈے ہیں لیکن پچھلی دفعہ بھی ان میں پاکستان کا جھنڈا نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے!

شام کے وقت ڈنر کےلیے باہر لے جانے سے قبل ہمارے میزبانوں نے ہمیں سیکیورٹی کے حوالے سے خصوصی بریفنگ دی۔ اس میں باقی باتیں تو معمول کے مطابق تھیں کہ کہیں جانے سے قبل گروپ میں ہمیں آگاہ کیا کریں۔ جہاں جارہے ہوں، اس کی تفصیل دیں۔ جس کے پاس جارہے ہوں، اس کا رابطہ نمبر اور دیگر تفصیلات دیں۔ واپسی پر پھر آگاہ کریں کہ آپ ہوٹل پہنچ گئے ہیں۔ پاسپورٹ اپنے پاس رکھیں تاکہ کوئی پوچھے تو آپ دکھا سکیں۔ ہمارے نمبر اپنے پاس رکھیں اور ضرورت پڑنے پر فوری رابطہ کریں، وغیرہ۔

البتہ دو امور نئے اور اہم تھے۔ ایک یہ کہ حکومتی گاڑیوں اور اہلکاروں سے دور رہیں اور دوسری یہ کہ ساڑھے نو بجے سے پہلے ہوٹل واپس پہنچیں۔ پہلی بات کی وضاحت یہ تھی کہ اگرچہ بظاہر کابل میں امن ہے لیکن داعش والوں کی جانب سے طلبہ پر حملے کے امکانات موجود رہتے ہیں۔ دوسری بات کی وضاحت میں بتایا گیا کہ کابل میں سٹریٹ کرائمز بڑھ گئے ہیں اور سنسان گلی میں رات کے وقت کسی بھی وقت کوئی آ کر موبائل، نقدی وغیرہ چھین سکتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ بروقت ہوٹل پہنچیں۔ اگر خدانخواستہ چھینا جھپٹی کا معاملہ پیش آئے، تو مزاحمت نہ کریں۔ جان بچی سو لاکھوں پائے۔ ہمیں اطلاع دیں اور اگر قریب کہیں طلبہ نظر آئے، تو ان کو بھی بتادیں۔ ایسے لوگ طلبہ کے ہتھے چڑھتے ہیں تو ان کا برا حال ہوتا ہے اور ان میں اکثر غائب کردیے جاتے ہیں، لیکن پھر بھی یہ سلسلہ جاری ہے، کہیں کم، کہیں زیادہ۔

طلبہ کی حکومت کے ایک اہم عہدیدار کی گفتگو

28 جون کو صبح 9 بجے ورکشاپ شروع ہونی تھی لیکن بہ مشکل ساڑھے 10 بجے شروع ہوئی کیونکہ حکومتی نمائندوں کے پہنچنے میں تاخیر ہوگئی تھی۔ حکومتی نمائندوں کے پہنچنے میں یہ تاخیر ہم نے اگلے کئی دن مختلف پروگراموں میں دیکھی اور اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ طلبہ کا لویہ جرگہ منعقد ہونا تھا اور حکومتی اہلکاروں کی زیادہ توجہ اسی کی طرف تھی۔ ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ کابل میں سیکیورٹی بہت سخت کردی گئی تھی اور آمد و رفت میں بہت وقت لگتا تھا، لیکن بہرحال ہر پروگرام میں حکومتی نمائندوں کے تاخیر سے پہنچنے سے اچھا تاثر نہیں بنا۔

ابتدائی پروگرام میں طلبہ کی حکومت کی ایک اہم شخصیت نے، جنھیں “سر مفتش” یا Supreme Investigator/Auditor  کا منصب دیا گیا ہے، بہت اہم گفتگو کی اور کہا کہ ہمارے لوگوں نے طویل جنگ لڑی ہے اور بہت زیادہ مصائب دیکھے ہیں اور اب ہم سب کو مل کر تعمیری کام میں لگ جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ جنگ ختم ہوچکی ہے اور اب نظام کی بات ہونی چاہیے ، آپ ہمیں اس سلسلے میں تفصیلی رہنمائی اور مشورے دیں اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم پورے دھیان سے آپ کی باتیں سنیں گے، آپ نصیحت کا حق ادا کیجیے، ہم آپ کی نصیحت پر عمل کی بھرپور کوشش کریں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہر چیز کو ، ہر کام کو اور ہر شخص کو شک کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے، مثبت رویہ اور زاویۂ نظر رکھنا چاہیے اور اس کا فائدہ سب کو ہوگا۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ “تصفیہ کے شعبے” کے سر مفتش تھے جن کا کام بنیادی طور پر یہ ہے کہ طلبہ کی صفوں میں در آنے والے مشتبہ افراد کی تحقیق و تفتیش کرکے فیصلہ کریں کہ کون واقعی طلبہ میں سے ہے اور کون صرف موقع سے فائدہ اٹھانے کےلیے در آیا ہے۔ کابل کی سڑکوں پر، اور پھر 2 دن بعد پغمان میں، ہم نے سیکڑوں کی تعداد میں طلبہ دیکھے اور کئی لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ طلبہ کی تعداد اتنی کبھی اتنی زیادہ نہیں رہی ہے اور یہ کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد اچانک ہی بہت زیادہ لوگ طلبہ بن کر سامنے آئے ہیں۔ یہ معاملہ اتنا سنگین ہوا کہ طلبہ کو باقاعدہ شعبہ قائم کرکے تصفیہ یا filtration کرنی پڑ رہی ہے۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ اس شعبے نے 9 ہزار کے لگ بھگ کالی بھیڑوں کو الگ کر لیا ہے۔ الگ کرنے کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوا، کسی کو کچھ خاص علم نہیں تھا۔ واضح رہے کہ اس طرح کے چیلنجز ہر انقلابی حکومت کو درپیش ہوتے ہیں اور مسلح تحریکوں پر نظر رکھنے والوں کےلیے اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے۔

سرمفتش صاحب نے ایک اہم بات یہ کی، جس سے حکومت اور نظام کے متعلق طلبہ کے نقطۂ نظر کی بخوبی وضاحت ہوجاتی ہے، کہ نظام تو خود بخود چلتا ہے، اس کےلیے حکومت کو زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، نہ ہی تفصیلی قوانین کی ضرورت ہوتی ہے، لوگ خود ہی سب کچھ کررہے ہوتے ہیں، بس حکومت کو ان پر نظر رکھنی ہوتی ہے کہ کوئی نظام میں خلل نہ ڈالے۔ ہمارے ایک دوست کو جب میں نے سرمفتش صاحب کی یہ بات بتائی تو انھوں نے کہ یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے کیونکہ “سب سے اچھی حکومت وہ ہوتی ہے جو سب سےکم حکومت کرے” (Least government is the best government)۔ تاہم بات بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ نظام اگر بہت حد تک خود بخود چل رہا ہے تو اس کی دو بڑی وجوہات ہیں: ایک یہ کہ پچھلی حکومتوں نے تفصیلی نظام کھڑا کیا ہے جو ان حکومتوں کے دھڑام سے گرنے کے بعد بھی چل رہا ہے، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے ذہن میں طلبہ کی جانب سے سخت سرزنش اور سزاؤں کا خوف ہے۔

ان دونوں وجوہات کی تفصیل میں جائیں تو ایک اہم حقیقت سامنے آجاتی ہے اور یہ اس وقت افغانستان میں حکومت کےلیے سب سے بڑا مسئلہ بھی ہے۔ وہ حقیقت یا چیلنج یہ ہے کہ افغانستان میں کئی عشروں سے، اور بعض امور میں تو صدی سے زائد عرصے سے، ہزارہا قوانین نافذ ہیں۔ طلبہ کی نظر میں ان قوانین کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ چنانچہ جہاں کہیں انھیں کوئی قانون غلط نظر آتا ہے، اسے رسمی طور پر منسوخ کرنے یا اس میں ترمیم کرنے کے بجاے اسے سرے سے نظرانداز کردیتے ہیں، جیسے اس کا وجود اور عدم برابر ہو؛ اور جہاں انھیں کسی قانون سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، وہاں معاملہ جوں کا توں جاری رہتا ہے۔ البتہ بعض امور میں انھوں نے تصریح کے ساتھ مداخلت کرکے قانون کو تبدیل کرلیا ہے (ٹریفک جرمانوں کی مثال آگے آرہی ہے) اور بعض میں پچھلے قوانین پر نہایت سختی سے عمل پیرا بھی ہیں (بعض ایسے قوانین کی مثال آگے ذکر کی جائے گی)۔ پھر قوانین یا نظام کی خلاف ورزی پر کسی کے ساتھ کیا کیا جائے گا، یہ معاملہ بھی بہت حد تک غیر واضح ہے۔ اس سب کچھ نے قوانین اور نظام کے متعلق ایک عجیب بے یقینی کی صورت پیدا کی ہے اور یہ بے یقینی بہت بڑے بحران کی علامت ہے، لو کانوا یعلمون!

(جاری)

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ شریعہ وقانون کے چیئرمین ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارہ شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

(mushtaq.dsl@stmu.edu.pk)

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں