اگر توہینِ رسالت کے جرم کا ارتکاب مسلمان ملک کے اندر کیا جائے، یا جرم کا مرتکب کسی طرح مسلمان ملک میں پایا جائے، تو اس پر اسلامی قانون کے جن اصولوں کا اطلاق کیا جاتا ہے، ان کا ذکر پچھلی پوسٹ میں کیا گیا: ملزم مسلمان ہو، تو ارتداد کے احکام، اور غیر مسلم ہو تو سیاسہ کے احکام کا اطلاق۔ تاہم اگر اس فعل کا ارتکاب کسی غیر مسلم ملک میں کیا جائے، یا فعل کا مرتکب کسی غیر مسلم ملک میں پایا جائے، تو اس صورت میں یہ بات تو طے کہ وہاں کے قانونی نظام میں وہاں کی عدالتیں اسلامی قانون کے اصولوں کا اطلاق نہیں کریں گی۔ اس صورت میں اسلامی قانون کیا رہنمائی فراہم کرتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں پہلے ایک بنیادی اصول نوٹ کرلیں۔
توہینِ رسالت جرم بھی ہے اور جنگی اقدام بھی
دو صورتوں میں فرق ہے۔
توہینِ رسالت اگر کوئی ایک فرد یا چند افراد کریں تو یہ ایک جرم ہے جس پر فوجداری قانون (criminal law) کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے موقع پر یہ بحث کی جاتی ہے کہ کیا ملزم/مجرم ہمارے دائرۂ اختیار میں، یعنی ہمارے ملکی حدود کے اندر، ہے یا نہیں؟ یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ کیا ملزم/مجرم اس جرم سے قبل مسلمان تھا یا نہیں؟ مزید بھی کئی سوالات اس پہلو سے اٹھائے جاتے ہیں۔
توہینِ رسالت اگر ایک مضبوط جتھا کرے، جسے عسکری قوت حاصل ہو، تو اس صورت میں یہ محض جرم نہیں بلکہ جنگی اقدام (act of war) ہے اور اس پر قانونِ جنگ (law of war) کا اطلاق ہوتا ہے۔
یہی دوسری صورت اس وقت بھی ہوتی ہے جب یہ فعل کوئی ایک فرد یا چند افراد کریں لیکن انھیں بھرپور حکومتی تائید یا حفاظت حاصل ہو۔
اس جرم یا جنگی اقدام کے جواب میں کیا کریں؟
اگلا سوال یہ ہے کہ توہینِ رسالت کے مرتکب فرد کو اگر کسی ملک، یا ممالک، نے پناہ دی ہو، تو اس اقدام کے مقابلے میں کوئی مسلمان ریاست کیا کرسکتی ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مسلمان ریاست ایسے شخص کے خلاف اپنے ملک میں فوجداری عدالت کے ذریعے بھی کارروائی کرسکتی ہے اور اس کے خلاف، یا اسے پناہ دینے والی ریاست کے خلاف، جوابی جنگی اقدام بھی کرسکتی ہے۔ دونوں صورتوں میں کچھ تفصیلات پر غور کی ضرورت ہے۔ پہلے فوجداری مقدمے کے امکان کو لے لیجیے۔
اپنے ملک میں ایسے شخص کے خلاف مقدمہ
ایک راستہ یہ ہے کہ ایسے شخص کے خلاف مسلمان اپنے ہی ملک میں مقدمہ قائم کرکے اس کے خلاف ثبوت پیش کرکے عدالت سے اسے سزا دلوائیں۔
کسی زمانے میں ریاستیں صرف ان جرائم پر مقدمے چلاتی تھیں جن کا ارتکاب ان کی سرزمین پر ہوا ہو۔ اسے اختیار سماعت کا جغرافیائی اصول (principle of territorial jurisdiction) کہا جاتا تھا۔ پھر کچھ ریاستوں نے اس اصول کے دوسرے پہلو سے بھی مقدمات قائم کرنے شروع کیے، کہ اگر جرم کا ارتکاب ریاست سے باہر ہوا ہو لیکن اس کا اثر اس ریاست کی سرزمین پر، یا اس کے لوگوں پر، پڑا ہو۔ چنانچہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2006ء میں حکم دیا تھا کہ ڈنمارک میں گستاخانہ خاکے بنانے والوں اور انھیں اخبارات میں شائع کرنے والوں کے خلاف مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت ایف آئی آر کٹوائی جائے۔
ایسی صورت میں اگر صرف ایف آئی آر کٹوانے پر ہی اکتفا نہ کیا جائے، بلکہ باقاعدہ مقدمہ چلا کر اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے، تو اس کا اثر بہت زیادہ ہوگا۔ پھر اگر پناہ دینے والے ملک سے مجرم کی حوالگی کا مطالبہ کیا جائے، تو بات مزید آگے بڑھ سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی کسی حکومت نے ابھی تک اس نہج پر کوئی کام کیوں نہیں کیا؟ کئی مسلمان ممالک نے کئی غیر مسلم ممالک کے ساتھ مجرموں کے تبادلے (extradition) کے معاہدات کیے ہیں۔ ایسے معاہدات کا اطلاق توہینِ رسالت کے جرم پر کیوں نہیں کیا جاتا؟
جوابی جنگی کارروائی
اب آئیے جوابی جنگی کارروائی کی طرف۔
کیا اس جنگی اقدام کے مقابل میں جنگی کارروائی سے قبل مسلمان حکمران، یا حکمرانوں، پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کے مصالح کا خیال رکھے اور تب تک جنگی کارروائی نہ کرے جب تک اسے کم از کم اتنی قوت حاصل نہ ہو کہ وہ جنگ میں مقابلہ کرسکے؟ کیا ہر عبادت کی طرح جنگ کےلیے بھی استطاعت کی شرط ہے یا نہیں؟ کیا مصلحت کا لحاظ رکھے بغیر اقدام اجتماعی خودکشی کے مترادف نہیں ہوگا؟
مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری
کسی بھی مسلمان کی ذمہ داریوں میں ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ اس نے کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھانا جس سے مسلمانوں کو نقصان پہنچے۔ فقہاے کرام نے تصریح کی ہے کہ اگر دشمن کی قید میں موجود مسلمانوں پر شدید ظلم کیا جارہا ہو اور ان سے سخت مشقت لی جارہی ہو، اور ان میں کچھ مسلمان دشمن پر حملہ کرنے کا سوچیں تو حملہ کرنے سے قبل انھیں لازماً یہ دیکھنا ہوگا کہ کہیں ان کا یہ اقدام خودکشی تو نہیں ہے، اور اسی طرح انھیں یہ بھی لازماً دیکھنا ہوگا کہ کہیں ان کے اس اقدام کی وجہ سے باقی مسلمانوں کو زیادہ بڑی مصیبت کا سامنا تو نہیں کرنا پڑے گا؟ جہاد اور قتال میں ہر اقدام کے وقت مجاہد اور مقاتل کے سامنے یہ دو سوالات رہنے چاہئیں۔ شرح السیر الکبیر سے امام محمد کے متن اور امام سرخسی کی شرح کے ساتھ یہ جزئیات دیکھ لیجیے:
” اگر وہ اس سے سخت مشقت کے کام لیں اور اس پر وہ بہت بھاری گزرے جس کی وجہ سے وہ ان میں سے کسی کو قتل کرنے کے لیے اس پر حملہ کردے تو اگر اس کا یہ فعل ان کو دہشت زدہ کرنے کا باعث بنے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ اور اگر وہ جانتا ہو کہ اس طرح وہ انھیں دہشت زدہ نہیں کرسکے گا تو بہتر یہی ہے کہ وہ ایسا نہ کرے ، سوائے اس حالت کے جب وہ اس سے ایسا کام لیتے ہوں جو اس کی طاقت سے زیادہ ہو ( جس سے مقصود اسے سسکا سسکا کر مارنا ہو) اور اس کا گمان ہو کہاس طرح حملہ کرکے اسے نجات اور راحت ملے گی تو ایسی صورت میں نجات حاصل کرنے کی خاطر اس حملے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔”
“اور اگر وہ جانتا ہو کہ اس کے اس فعل سے ان کے قبضے میں موجود دیگر قیدیوں کو نقصان پہنچے گا تو بہتر یہ ہے کہ وہ ایسا نہ کرے، بالخصوص جبکہ وہ دشمن کو اتنا دہشت زدہ بھی نہیں کرسکتا جتنا ضروری ہے، کیونکہ مسلمانوں کے مصالح کا خیال رکھنا اور ان سے دشمن کے شر کو دور رکھنا اس کے لیے مندوب ہے ۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ مجاہد اسی مقصد کے لیے تو لڑتا ہے ؟ پس جب اس کا یہ فعل مسلمانوں کے لیے ضررکا باعث بنے گا کہ اس کی وجہ سے انھیں قتل کیا جائے گا یا سخت سزائیں دی جائیں گی تو بہتر یہی ہے کہ وہ ایسا نہ کرے ۔”
واضح رہے کہ فرد کو ایسی صورت میں پھر بھی کسی نہ کسی حد اقدام کی رخصت مل سکتی ہے لیکن حکمران کا معاملہ زیادہ سنگین ہے کیونکہ اس پر واجب ہے کہ وہ مسلمانوں کا تحفظ کرے اور انھیں نقصان نہ پہنچنے دے۔
جہاد کےلیے استطاعت کی شرط
جہاد کو ہماری رزمیہ شاعری کی وجہ سے صرف ایک جذباتی عمل سمجھ لیا گیا ہے، حالانکہ فقہاے کرام نے جس طرح اسلام کا تصورِ جہاد واضح کیا ہے، اس کی رو سے اس میں ہر ہر قدم پر عقل و منطق کا استعمال ضروری ہے۔ ہاں، جذبۂ ایمانی کے بغیر محض عقلی استدلال کسی کام کا نہیں ہے، لیکن عقلی تجزیے کے بغیر محض جذبۂ ایمانی کی بنیاد پر جہاد کی خواہش خودکشی کا باعث بن سکتی ہے۔
چنانچہ فقہاے کرام نے تفصیل سے واضح کیا ہے کہ کسی بھی فعل کی طرح جہاد کےلیے بھی استطاعت کی شرط ہے۔ چنانچہ مثلاً عدمِ استطاعت ہی کی وجہ سے نابینا اور دوسرے معذور افراد پر قتال کا فریضہ عائد نہیں ہوتا ۔ البتہ عدم قدرت کے لیے کوئی لگا بندھا اصول نہیں ہے کیونکہ حالات میں تبدیلی کے ساتھ حکم بھی تبدیل ہوتا ہے ، نیز مختلف زمانوں میں جنگ کے طریقے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور آلات حرب اور ہتھیاروں کی نوعیت بھی وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے ۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ ایک زمانے میں ایک شخص قتال کے نااہل سمجھا گیا ہو اور دوسرے زمانے میں وہی شخص قتال کی قدرت رکھتا ہو ، اور اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے ۔ سورۃ الانفال کی آیت ۶۶ سے بعض اہل علم نے یہ استدلال کیا ہے کہ جب تک مسلمان فوج کی تعداد دشمن کے مقابلے میں کم از کم دوگنا نہ ہو اس وقت تک ان پر جہاد فرض نہیں ہوتا۔ یہ رائے کئی وجوہ سے صحیح معلوم نہیں ہوتی ۔
مثلاً عددی نسبت کا لحاظ تو اس زمانے میں رکھا جاسکتا تھا جب افرادی قوت ہی میدان جنگ میں اہم کردار ادا کرتی تھی۔ موجودہ دور میں جبکہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے فرد کی اہمیت کو نسبتاً کم کردیا ہے کیا زیادہ اہم سوال یہ نہیں ہوگا کہ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے دشمن کہاں کھڑا ہے؟ اگر مسلمان فوج کی تعداد دس ہزار ہے مگر اس کے پاس روایتی بندوق ہیں اور دشمن کی تعداد سو ہے مگر اس کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں تو مقدرت کا اندازہ تعداد سے لگایاجائے گا یا اسلحے کی نوعیت سے ؟ امام سمرقندی نے کئی سو سال پہلے اس حقیقت کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے :
” مجاہدین کے لیے یہ مناسب نہیں کہ دو دشمنوں کے مقابلے سے ایک مجاہد فرارہو جائے ۔ بحث کا حاصل یہ ہے کہ معاملہ غالب گمان پر مبنی ہے ۔ پس اگر مجاہد کا غالب گمان یہ ہے کہ وہ مغلوب ہوجائے گا اور قتل کردیا جائے گا تو فرار ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ اور اس سلسلے میں عدد کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، یہاں تک کہ ایک نہتا مجاہد اگر دو مسلح دشمنوں یا ایک ہی مسلح دشمن سے فرار ہوجائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہوگی۔”
ابن رشد نے تصریح کی ہے کہ امام مالک سے بھی اس طرح کی روایت کی گئی ہے :
“ابن ماجشون کی رائے یہ ہے ، اور وہ اسے امام مالک سے روایت کرتے ہیں ، کہ دوگنے کا معیار قوت ہے نہ کہ عدد ، اور اسی وجہ سے جائز ہے کہ تنہا شخص کسی ایک شخص کے مقابلے سے فرار ہوجائے اگر وہ اسے بہتر گھوڑا ، اچھی تلوار یا زیادہ قوت رکھتا ہو۔”
امام سرخسی نے اس موضوع پر جو کچھ کہا ہے وہ یقینا قول فیصل کی حیثیت رکھتا ہے :
“اگر مسلمانوں کی تعداد مشرکین کے نصف کے برابر ہو تو ان کے لیے جائز نہیں کہ وہ فرار اختیار کریں ۔۔۔ یہ حکم اس صورت میں ہے جب ان میں جنگ کی قوت ہو ، یعنی ان کے پاس اسلحہ ہو ۔ پس جس کے پاس اسلحہ نہ ہو اس کے لیے اسلحہ رکھنے والے کے مقابلے سے فرار اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ اسی طرح اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ اگر اس کے پاس رمی کا آلہ نہ ہو تو وہ رمی کرنے والے سے فرار اختیار کرلے ۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس کے لیے جائز ہے کہ قلعے کے دروازے سے اور اس جگہ سے جہاں منجنیق سے گولے پھینکے جارہے ہوں فرار ہوجائے کیونکہ وہ اس جگہ ٹھہرنے سے عاجز ہوتا ہے؟”
اب آئیے اس پہلو کی طرف کہ اگر مسلمان ایسی قوم کے خلاف جنگ نہ کرسکتے ہوں، تو حکومت کے پاس اور کیا راستہ امکانات ہیں؟
دشمن کا مقابلہ، لیکن خود کشی کے بغیر!
کیا اس کے جواب میں صرف یہ کہنا کافی ہوگا کہ اس حساس ترین مسئلے پر ہمیں ہر طرح کی قربانی دینی چاہیے اور کسی کے ساتھ تعلقات کی پروا نہیں کرنی چاہیے؟ کیا واقعی ہماری قوم ایسی قربانی کےلیے تیار ہے؟ کیا واقعی ہماری قوم اس جذبۂ ایمانی سے سرشار ہے؟
اگر ان سوالات کے جوابات اثبات میں بھی ہوں، تو سوال یہ ہے کہ کیا جہاد کےلیے صرف جذبۂ ایمانی سے سرشار ہونا کافی ہے یا شریعت نے اس سلسلے میں استطاعت کی بھی شرط رکھی ہے ؟ جنگ کے دوران میں کسی وقت بے تیغ بھی لڑنے کا موقع مل سکتا ہے، کسی وقت تنہا دشمن کی صفوں کو چیر کر اندر تک گھسنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے، لیکن مجاہد کو کبھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ شریعت نے خودکشی حرام کی ہے۔ چنانچہ فقہاے کرام نے تو یہاں تک تصریح کی ہے کہ اگر دشمن کسی مجاہد کے سینے میں نیزہ گھونپے تو اس وقت مجاہد کو آگے بڑھ کر جوابی حملہ کرنے سے قبل سوچنا چاہیے کہ اس کا یہ اقدام خودکشی تو نہیں کہلائے گا؟ ذرا امام محمد کے متن اور امام سرخسی کی شرح میں یہ مقام تو دیکھ لیجیے۔
امام محمد فرماتے ہیں :
“اگر کسی مشرک نے کسی مسلمان کو نیزے سے زخمی کرکے نیزہ اس کے بدن میں گھونپ دیا اور پھر وہ مجروح مسلمان اس حملہ آور مشرک کو تلوار سے زخمی کرنے کے لیے اس کی طرف چلے جبکہ یوں وہ نیزہ مزید اپنے بدن میں گھونپ رہا ہوتا ہے تو: اگر اسے ایسا کرنے میں اپنی موت کا اندیشہ ہو اور نیزہ بدن سے نکل جانے کی صورت میں اسے زندگی بچ جانے کی امید ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ نیزہ سے نجات حاصل کرلے ۔”
امام سرخسی قانونی اصول ان الفاظ میں واضح کرتے ہیں :
“کیونکہ اس کی طرف حرکت کی کوشش میں وہ نیزہ مزید اپنے بدن میں گھونپ کر اپنے قتل میں اعانت کرتا ہے اور ہر شخص پر لازم ہے کہ پہلے اپنی جان بچائے اور اس کے بعد اپنے دشمن کو نقصان پہنچائے ۔”
امام محمد آگے اس مسئلے کے دیگر پہلووں کی وضاحت کے لیے مزید فرماتے ہیں :
“اگر اس (مجروح مسلمان) کے خیال میں دونوں صورتیں (دشمن پر حملہ اور بدن سے نیزہ نکالنا) اس لحاظ سے برابر ہوں کہ دونوں میں موت یقینی ہو ، یا دونوں میں بچ جانے کی یکساں امید ہو۔”
امام سرخسی وضاحت فرماتے ہیں :
” کہ دونوں صورتوں میں وہ اپنے زخم میں اضافہ نہیں کرے گا۔”
تو اس صورت میں امام محمد حکم کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں :
” تو اس حالت میں اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ بدن میں پیوست نیزے سمیت دشمن پر حملہ کرکے اس پر تلوار سے ضرب لگائے ؛ اور اگر وہ چاہے تو نیزے سے نجات حاصل کرلے۔”
امام سرخسی فرماتے ہیں :
“کیونکہ اس کے پاس کوئی راستہ اس کے سوا نہیں کہ نیزہ بدن سے نکالے خواہ آگے سے ہو یا پیچھے سے۔”
آگے امام سرخسی مزید واضح کرتے ہیں کہ اس صورت میں اور پہلی صورت میں فرق ہے اور اس فرق کو وہ امام محمد کے الفاظ میں ہی نقل کرتے ہیں:
“اور امام محمد رحمہ اللہ نے اس میں اور پچھلے مسئلے میں فرق کرتے ہوئے کہا: وہاں وہ اپنی جان کھوکر دشمن کو کوئی نقصان نہیں پہنچارہا ، جبکہ یہاں نیزے میں آگے حرکت کرنے سے وہ دشمن کو نقصان پہنچاسکتا ہے ۔ اس لیے یہاں اس کے لیے اقدام جائز ہوجاتا ہے۔”
ان جزئیات اور ان کے پیچھے موجود اصولوں کا یہ تجزیہ واضح کرتا ہے کہ جب فرد کےلیے بھی شریعت نے اتنی کڑی پابندیاں لگائی ہیں، تو نظمِ اجتماعی کو کیسے یہ اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی استطاعت کا جائزہ لیے بغیر ایک بھاری ذمہ داری اپنے اوپر اٹھائے اور نتیجے میں مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچانے کا باعث بنے؟
ایسے مجرم پر قاتلانہ حملہ (Assassination)
کئی ریاستیں اپنے مطلوب مجرموں کا تعاقب دوسرے ممالک میں کرتی ہیں اور خصوصی مشن بھیج کر انھیں وہاں قتل (assassinate) کردیتی ہے۔ ماضی میں اسرائیل نے یہ اقدام مختلف ممالک میں کیا۔ پچھلے ڈھائی عشروں سے امریکا نے کروز میزائل حملوں اور پھر ڈرون حملوں کے ذریعے یہ کام بارہا کیا ہے اور پھر بڑے فخر سے اعلان کیا ہے کہ justice has been delivered!
مسلمان ریاست کی جانب سے
کوئی مسلمان ریاست توہینِ رسالت کے کسی مجرم کے ساتھ ایسا کچھ کرے تو شرعاً اس قتل کرنے کو ناجائز نہیں کہا جاسکتا، بشرطے کہ اس مسلمان ریاست نے اس پناہ دینے والے ملک کے اس اقدام کو جنگی اقدام قرار دے کر اس کے ساتھ امن معاہدہ ختم ہونے کا اعلان کیا ہو۔ اگر اس کے برعکس وہ (مجبوراً ہی سہی) معاہدے کے باقی رہنے کی قائل ہو، تو پھر اس کی جانب سے کسی کو ایسی کیارروائی کےلیے بھیجنا ناجائز ہے۔ بظاہرامن کا معاہدہ مانا جائے اور درپردہ جنگی کارروائی کی جائے، تو یہ شریعت کے اصولوں کی رو سے قطعی غلط ہے۔ لیکن عملاً اس کے نتائج اور عواقب اگر مسلمانوں کے حق میں نہ ہوں، تو مسلمان حکمران سے شریعت کا تقاضا یہی ہوگا کہ وہ ایسے اقدام سے اجتناب کرے۔
انفرادی سطح پر
تو کیا کوئی فرد اپنے طور پر اس شخص کے خلاف کارروائی کرسکتا ہے جس نے توہینِ رسالت کا ارتکاب کرکے مسلمانوں کے خلاف جنگی اقدام کیا ہو اور پھر کسی غیر مسلم ملک میں پناہ لی ہو؟ اس صورت میں یہ دیکھا جائے گا کہ یہ فرد اس ملک میں چوری چھپے، بغیر امان لیے، داخل ہوا ہے یا باقاعدہ قانونی طریقے سے امان لے کر (اور امان دے کر) گیا ہے؟ پہلی صورت میں اس کارروائی کو جائز مانا جائے گا، اگرچہ اس کے نتیجے میں وہاں کے قانون کی رو سے اسے سزا ہوسکتی ہے اور اس کے ایمانی جذبے کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ وہ ایسی سزا ہنسی خوشی قبول کرلے۔
تاہم اگر یہ فرد وہاں باقاعدہ امان لے کر اور امان دے کر داخل ہوا ہے، تو اس پر لازم ہے کہ وہاں کے قوانین کی پابندی کرے اور ان کے اندر رہتے ہوئے ہی کوئی کارروائی کرے۔ اگر اس نے وہاں کے قانون کو توڑ کر اس دشمنِ دیں پر حملہ کیا، تو خواہ مومنوں کا دل ایسے حملے پر کتنا ہی خوش ہو، شرعاً اس کارروائی کو درست نہیں مانا جاسکتا۔
آزاد خطے میں موجود غیر ریاستی تنظیم کی جانب سے
ایک امکان یہ ہوسکتا ہے کہ کچھ مسلمان کسی ایسے آزاد خطے میں ہوں جہاں وہ کسی حکومت کے ماتحت نہ ہو اور وہ وہاں سے ایسی کوئی کارروائی کریں، جیسے حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے اہلِ مکہ کے خلاف جنگی اقدامات کیے باوجود اس کے کہ اہلِ مکہ اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان حدیبیہ کا معاہدہ ہوا تھا۔ تاہم یہاں یہ بات رکھنے کی ہے کہ اہلِ مکہ بھی مانتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے دیگر ساتھی، جن کے ساتھ امن کا معاہدہ ہوا تھا، ان حملوں کےلیے ذمہ دار نہیں ہیں کیونکہ یہ ایسے علاقے میں تھے جو مسلمانوں کی ریاست سے باہر تھا۔ دوسری بات جو زیادہ اہم ہے یہ ہے کہ حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی اہلِ مکہ کے ساتھ کھلی جنگ میں تھے اور انھوں نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ اہلِ مکہ کو امان دیں اور پھر ان پر حملہ کریں۔
عقدِ امان کی پابندی ہر صورت میں ضروری ہے
یہاں ہوسکتا ہے کہ کچھ کعب بن الاشرف کے خلاف صحابہ کرام کی کارروائی کی مثال دیں، لیکن امام محمد نے السیر الکبیر میں اس واقعے کی جو تفصیلات ذکر کی ہیں، اور پھر امام سرخسی نے ان تفصیلات کی جیسی شرح کی ہے، ان کی روشنی میں یہ بات طے ہے کہ حملہ کرنے والوں نے اسے امان نہیں دی تھی نہ ہی انھوں نے عقد امان کی کوئی خلاف ورزی کی۔
امام سرخسی واضح فرماتے ہیں کہ ابن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے جو اجازت طلب کی تھی وہ جھوٹ بولنے کی نہیں تھی بلکہ ایسے الفاظ بولنے کی تھی جن کا ایک مفہوم ابن اشرف کی مرضی کے مطابق رسول اللہ ﷺ کے خلاف جاسکتا تھا لیکن اس کا صحیح مفہوم بھی ممکن تھا اور ابن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی مراد وہی ہوتی ۔ چونکہ صحابۂ کرام کو رسول اللہ ﷺ سے بے حد محبت تھی ، اس لیے وہ معاریض اور توریہ میں بھی اس طرح کی بات کہنے سے ہچکچارہے تھے ۔ چنانچہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب کی:
“اے اللہ کے رسول! ہم اسے قتل کریں گے تو آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم بات کرسکیں کیونکہ اس کے بغیر چارہ نہیں ۔”
اس کی وضاحت امام سرخسی ان الفاظ میں کرتے ہیں:
“یعنی ہم اس سے ذومعنی باتیں اور بہ ظاہر آپ کے خلاف شکایت کرکے اس کے خلاف چال چلیں گے۔”
رسول اللہ ﷺ نے اس کی اجازت دی ۔ چنانچہ جب یہ لوگ ابن اشرف کے پاس پہنچے تو ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
“اس شخص کا آنا ہمارے لیے آزمایش ہے ۔”
امام سرخسی وضاحت فرماتے ہیں:
“ان کا اشارہ نبی ﷺ کی طرف تھا اور آزمایش سے مراد نعمت تھی کیونکہ کبھی آزمایش بول کر نعمت مراد لی جاتی ہے اور کبھی اسے تکلیف کے معنی میں استعمال کیاجاتا ہے کیونکہ یہ لفظ ابتلا کا مفہوم دیتا ہے جو نعمت اور تکلیف دونوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ چنانچہ صحابہ نے اسی مفہوم میں کہاتھا:سختیوں سے ہمیں آزمایا گیا تو ہم ثابت قدم رہے لیکن جب خوشیوں سے ہماری آزمایش کی گئی تو ہم ثابت قدم نہ رہ سکے۔”
ابونائلہ رضی اللہ عنہ نے مزید کہا:
“عربوں نے ہم سے جنگ کی اور ایک ساتھ ہوکر ہم پر حملہ کیا اور ہم پر راستے بند کردیے یہاں تک کہ ہمارے بدن تھک گئے ، خاندان گم ہوگئے ؛ اور دوسری جانب اس نبی نے ہم سے صدقہ لیا اور ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ۔”
ظاہر ہے کہ ان میں کوئی بات ایسی نہیں تھی جسے جھوٹ کہا جاسکے اور ان میں سے ہر بات کے دو مفاہیم تھے ۔ اسی بنا پر ان کی تاویل امام سرخسی کے اصولوں کے مطابق بہت آسان ہے۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ اگر مسلمانوں میں سے کوئی فرد توہینِ رسالت کے مرتکب کسی شخص پر حملے کےلیے اس ملک میں جاتا ہو جہاں اس نے پناہ لی ہے، تو ایسے مسلمان کےلیے ضروری ہے کہ وہ امان کا عقد کیے بغیر اور اس ملک کے قوانین کی پابندی کا عہد اور التزام کیے بغیر ہی ایسی کارروائی کرے۔ اگر وہ باقاعدہ ویزا لے کر گیا ہے، تو اس کےلیے ویزا کی شرائط کی پابندی ضروری ہے۔
پھر ایسے ملک میں مستقل مقیم مسلمانوں کےلیے تو وہاں کے قوانین کی پابندی من باب اولی لازم ہوجاتی ہے اور اگر انھوں نے وہاں کی شہریت بھی لی ہو، تو شہریت کی شرائط کے مطابق قانون کی حدود کی پاسداری ان کےلیے واجب ہے۔
پناہ دینے والے ملک کے مسلمان شہری کیا کریں؟
اب آئیے اس سوال پر کہ ایسے ملک کے شہری کیا کریں جس نے ایسے بد بخت کو پناہ دی ہو۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ انھیں جو کچھ بھی کرنا ہے قانون کے دائرے کے اندر رہ کر ہی کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں انھیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ وہ کسی مسلمان ملک میں نہیں ہیں جہاں اسلامی قانون کے مطابق فیصلہ ہوتا ہو۔ اس لیے ایسے ملک میں ایسے شخص کے خلاف ارتداد یا سیاسہ شرعیہ کے تحت کارروائی کا تو امکان ہی نہیں ہے۔ البتہ وہاں کے قانون کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور کیا جاسکتا ہے اور وہ ضرور کیا جانا چاہیے۔
البتہ اس مقام پر بہت ضروری ہوگیا ہے کہ اس مسئلے کے علمی پہلو پر اسلامی اور مغربی اقدار کے فرق پر گفتگو کی جائے۔ چنانچہ مشہور امریکی فلسفیِ قانون رونالڈ ڈوورکن کے ایک مضمون پر تبصرہ پہلے ملاحظہ کیجیے۔
مغربی اور اسلامی اقدار کا فرق
توہینِ رسالت کے مسئلے پر مغربی اقدار اور اسلامی اقدار کا فرق جب تک واضح نہ ہو، اس مسئلے کی نوعیت اور شدت کو سمجھا ہی نہیں جاسکتا ۔ “توہینِ مذہب کے حق “کے متعلق مغربی طرزِ فکر کو سمجھنے کےلیے زیادہ نہیں تو دو صفحات کا ایک مضمون پڑھنے کی تجویز دوں گا جو مشہور امریکی فلسفیِ قانون رونالڈ ڈوورکن نے The Right to Ridicule (تضحیک کا حق) کے عنوان سے نیو یارک ٹائمز کےلیے لکھا تھا اور 23 جون 2006ء کو شائع ہوا تھا۔ ڈوورکن کے مضمون کا پس منظر یہ ہے کہ 2006ء میں ڈنمارک کے بعض اخبارات نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق توہین آمیز خاکے شائع کیے تھے جس پر مسلم دنیا میں شدید ردعمل ہوا تھا۔ بعد میں بعض برطانوی اور امریکی اخبارات نے بھی یہ خاکے شائع کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم مسلمانوں کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے انھوں نے یہ فیصلہ منسوخ کردیا اور یہ خاکے شائع نہیں کیے۔
ڈوورکن یہ اہم سوال اٹھاتا ہے کہ خواہ عملی نتائج کے اعتبار سے کارٹونوں کی اشاعت روکنے کا فیصلہ حکیمانہ نظر آتا ہو ، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اظہار راے کی آزادی کے حق پر بالخصوص “کثیر الثقافتی معاشرے” کے تناظر میں قدغن لگائی جاسکتی ہے؟ کیا کسی مذہب کےلیے جو بات توہین آمیز یا مضحکہ خیز ہو ، اسے جرم قرار دیا جانا چاہیے؟ وہ پوری صراحت کے ساتھ یہ دعوی کرتا ہے کہ اظہار راے کی آزادی مغربی ثقافت کی کوئی امتیازی خصوصیت نہیں ہے جسے دوسری ثقافتوں کی خاطر، جو اسے نہیں مانتیں، محدود کیا جاسکے، بالکل اسی طرح جیسے مسیحی علامات کے ساتھ ہلال یا منارے کےلیے گنجائش پیدا کی جائے۔ اس کے برعکس اس کا کہنا ہے کہ اظہار راے کی آزادی حکومت کے جواز کی شرط ہے! (Free speech is a condition of legitimate government.)کوئی قانون اور کوئی پالیسی اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک اسے جمہوری طریقے سے نہ بنایا جائے اور جب کسی کو کسی قانون یا پالیسی کے متعلق اپنی راے کے اظہار سے روکا جائےتو جمہوریت بے معنی ہوجاتی ہے۔
وہ مزید کہتا ہے کہ تضحیک اظہار کا ایک خاص پیرایہ ہے اور اگر اس کی نوک پلک درست کرنے یا اصلاح کی کوشش کی جائے تو وہ پیرایہ غیرمؤثر ہوجاتا ہےاور اسی وجہ سے صدیوں سے اچھے یا برے ہر طرح کے مقاصد کےلیے کارٹون اور تضحیک کے ہتھیار استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ چنانچہ اس بنیاد پر ڈوورکن یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ جمہوریت میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے، خواہ وہ کتنا ہی طاقتور یا کتنا ہی کمزور ہو، کہ اس کی توہین یا تضحیک نہیں کی جائے گی۔
یہاں ڈوورکن اس بات کی وضاحت کےلیے ، کہ کیوں جمہوریت میں اظہار راے کے حق پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی، کہتا ہے کہ اگر کمزور اور غیرمقبول اقلیتیں یہ چاہتی ہیں کہ ان کے حقوق کا تحفظ ہو اور اکثریت محض اپنی اکثریت کی وجہ سے ان کے حقوق سلب نہ کرسکے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اظہار راے کے حق پر کوئی قدغن نہ مانیں خواہ اس کے نتیجے میں خود انھیں بھی تضحیک کا سامنا کرنا پڑے کیونکہ اقلیت میں ہونے اور کمزور ہونے کے باوجود اظہار راے کے حق کے ذریعے وہ کسی بھی قانون یا پالیسی کے خلاف کھل کر بات کرسکیں گے۔
اسی استدلال پر وہ مسلمانوں سے کہتا ہے کہ اظہار راے پر قدغن سے ان کو نقصان ہوگا ۔ اس ضمن میں وہ اس بات پر بھی بحث کرتا ہے جس کی طرف مسلمان عام طور پر توجہ دلاتے رہتے ہیں کہ کئی یورپی ممالک میں دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے قتل عام سے انکار کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا ہے اور اظہار راے پر اس قدغن کو عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ مسلمان بالعموم اسے دوغلی پالیسی اور منافقت سے تعبیر کرتے ہیں۔ ڈوورکن کہتا ہے کہ مسلمانوں کا یہ اعتراض بالکل درست ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اظہار راے پر ایک اور قدغن بھی مان لیں۔ اس کے نزدیک اس کا حل یہ ہے کہ مذکور قدغن بھی دور کردی جائے ۔
ڈوورکن مزید یہ کہتا ہے کہ اگر مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ ایسے قوانین اور پالیسیاں ختم کی جائیں جو مسلمانوں کی پروفائلنگ کو جواز دیں یا جن کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے سے دکھائی دینے والے لوگوں کی نگرانی کی جائے کیونکہ ان پر دہشت گردی کا شبہ ہوتا ہے ، تو پھر مسلمانوں کو اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی راے کو بھی برداشت کرنا پڑے گا جو انھیں دہشت گردی سے منسلک کرتے ہیں اور کارٹونوں کے ذریعے ان کی تضحیک کرتے ہیں، خواہ ان لوگوں کی یہ بات کتنی ہی بے بنیاد اور بذات خود مضحکہ خیز ہو !
آخر میں وہ ساری بحث کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کرتا ہے :
Religion must observe the principles of democracy, not the other way around. No religion can be permitted to legislate for everyone about what can or cannot be drawn any more than it can legislate about what may or may not be eaten. No one’s religious convictions can be thought to trump the freedom that makes democracy possible.
(مذہب پر لازم ہے کہ وہ جمہوریت کے اصولوں کی پابندی کرے ، نہ کہ الٹا جمہوریت کو مذہب کا پابند بنایا جائے۔ کسی مذہب کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ سب کےلیےیہ قانون بناسکے کہ وہ کیسا خاکہ بناسکتے ہیں اور کیسا نہیں، بالکل اسی طرح جیسے وہ ہر کسی کےلیے یہ قانون نہیں بناسکتی کہ وہ کیا کھاسکتے ہیں اور کیا نہیں ۔ کسی کے مذہبی اعتقادات کے متعلق یہ نہیں سوچا جاسکتا کہ وہ اس آزادی کو فتح کرلیں گے جو جمہوریت نے ممکن بنادی ہے ۔ )
ڈوررکن کے اس اقتباس کو بار بار پڑھیے اور اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا مذہب کو جمہوریت کے اصولوں کی پابندی اختیار کرنی چاہیے یا جمہوریت کو مذہبی قیود کی پابندی تسلیم کرنی چاہیے؟ جب تک اس بنیادی مسئلے پر بحث نہیں کی جائے گی، ضمنی سوالات پر بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اسی سوال پر بحث سے ناروے یا دیگر مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی مجبوریاں بھی سمجھ میں آجاتی ہیں اور یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ کیوں وہ صبر و تحمل اور اعراض کا رویہ اپنانے کی تلقین کرتے ہیں؟ یادرکھیے کہ ناروے ، یاکہیں اور ، پولیس یا دیگر ادارے اگر اس طرح کی حرکتیں روکنے کی کوشش کریں تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کے قانون کی رو سے “توہینِ مذہب” جرم یا ان کے اخلاقی پیمانے پر یہ برا کام ہے۔ ان کےلیے اصل معیار “جمہوریت” اور “حقوقِ انسانی” کا معیار ہے اور اس معیار پر اس کام کو وہ برا نہیں سمجھتے۔ یہ کام صرف تب برا بنتا ہے جب اس کی وجہ سے “خوفِ فسادِ خلق” پیدا ہو۔
توہینِ مذہب (Blasphemy) یا نفرت انگیز تحریر و تقریر (Hate Speech)؟
کچھ عرصہ قبل جب ناروے میں قرآن جلانے کی کوشش کی جارہی تھی اور ایک نوجوان شامی مسلمان عمر نے اس بدبخت پر حملہ کیا تھا، تو اس کے بعد ناروے پولیس نے جو کارروائی کی ، اس کا تعلق “توہینِ مذہب” سے نہیں، بلکہ “نفرت انگیز” تحریر و تقریر یا حرکات سے تھا، اور دونوں باتوں میں اصولی طور پر بہت بڑا فرق ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کےلیے صرف اس بات پر توجہ کریں کہ اگر ایسی تحریر و تقریر یا حرکات کو آپ ٹھنڈے پیٹوں قبول کرلیں ، یعنی ان پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے اعراض کا رویہ اختیار کرلیں، تو یہ معاشرے میں فساد پھیلانے کا باعث نہیں رہیں گی اور اس وجہ سے ان کو “نفرت انگیز” نہیں مانا جائے گا اور قانون ان کو تحفظ فراہم کرے گا۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو شامی نوجوان عمر نے جو کچھ کیا اس کا کم سے کم فائدہ یہ ہے کہ ایسی تحریر و تقریر و حرکات کو بدستور نفرت انگیز اور معاشرے میں فساد پھیلانے کا باعث سمجھا جاتا رہے گا اور اس وجہ سے پولیس ان کو روکنے پر خود کو مجبور پائے گی۔ اگر عمر کی طرح کے “جنونی ” اور “جذباتی” مسلمان مفقود ہوجائیں تو پھر ناروے کی پولیس یا دیگر ادارے کبھی اس کام میں مداخلت نہیں کریں گے بلکہ اس کام میں مداخلت کرنے والوں کو مجرم اور برا سمجھیں گے۔
ھذا ما عندی، والعلم عند اللہ۔
ماشااللہ بہت عمدہ جناب