تحریر: مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ
تحقیق وتخریج: ڈاکٹر انعام الحق غازی
تعارفی نوٹ:
برِصغیر پاک و ہند میں شریعت کی سر بلندی، بالخصوص نظامِ احتساب کی منظم ترویج، کے لئے علمی اور عملی جدو جہد کرنے والوں میں قاضی ضیاء الدین سنامیؒ ( 1243 تا 1319 عیسوی) کی شخصیت سر خیل کا درجہ رکھتی ہے۔ مولانا محمد علی صدیقیؒ (1910 تا 1992 عیسوی)نے اُن کے عہد، شخصیت، افکار، مرتبے اور کارہائے نمایاں پر خالص علمی اور تحقیقی انداز میں لیگل سائز کے تقریبا 160 صفحات پر مشتمل یہ کتاب تصنیف کی ہے۔ ۔ کتاب جہاں ہمیں قاضی صاحب سے متعارف کرواتی ہے وہیں اُن کے عہد کے علمی، سیاسی ، سماجی، ثقافتی، اور تمدنی حالات کی جزئیات سے بھی محققانہ آگہی فراہم کرتی ہے۔ راقم کے پاس اِس کتاب کا ایک مخطوطہ ہے، جسے پہلے مرحلے میں یہاں قسط وار پیش کیا جارہا ہے، بعد میں اُسے کتابی صورت میں شائع کرنے کا ارادہ ہے ۔ اُمید ہے آپ کو یہ سلسلہ پسند آئے گا۔ مصنف کی عبارت کو بغیر کسی تبدیلی کے بعینہ پیش کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے تاہم درج ذیل صورتیں استثنائی ہیں:
- عبارت کی تفہیم کے لئے نا گزیر وضاحت کو بریکٹ ( ) کے اندر لکھا گیا ہے۔
- کوشش کے باوجود کوئی لفظ پڑھا نہ جا رہا ہو تو تو اُس کی جگہ تین نقطے۔۔۔ لگائے گئے ہیں۔
- مصنف نے اصل متن میں جہاں حوالہ جات کے لئے نمبر لگائے اور حاشیے میں حوالہ نہیں دیا اُسے مکمل کرنے کی حتی المقدور کوشش کی گئی ہے۔
(ڈاکٹر انعام الحق غازی)
باسمه سبحانه
الحمد لله و السلام على عباده الذين اصطفى
قاضی ضیاء الدین سنامیؒ پر میسر مصادر ومراجع
قاضی ضیاء الدین سنامی کا زمانہ 641ھ سے 719 ھ تک ہے۔ اِس دور کا تاریخی سرمایہ طبقاتِ ناصری ہےمگر اُس میں بھی اُس دور کے معاشرتی، عمرانی، علمی اور اقتصادی حالات کا کوئی ذکر نہیں۔ صرف سیاسی حالات اور فوجی محاربات کا تذکرہ ہے۔ اِس لحاظ سے طبقاتِ ناصری میں معلومات بہت کم ہیں۔ فاضل مؤلف مولانا منہاج ( سراج جوزانی ) اپنے عہد کے ایک جید عالم ، صاحب ِدل صوفی اور ممتاز شاعر ہیں۔ اُن کا زمانہ 607(ھ ) سے 658(ھ ) تک ہے۔ ظاہر ہے کہ اُن( کو) اپنے معاصر علماء، مشائخ اور شعراء سے گہرا تعلق رہا ہوگا۔ لیکن افسوس ہے کہ اُن کا ذکر خال خال کرتے ہیں۔ اگر وہ اُن کا ذکر اُسی طرح کرتے جس طرح کہ ملا عبد القادر بدایوانی [1] نے منتخب التواریخ میں کیا ہے تو اُس دور کی علمی تاریخ بہت ہی روشن نظر آتی، لیکن اِن خامیوں کے باوجود یہ کتاب جس زمانے میں لکھی گئی ہے اُس کے لحاظ سے اِس کے محاسن میں کسی قسم کی کمی نہیں ہوئی اور ہندوستان کے مملوک عہد کے لئے یہ تاریخ بہت ہی قیمتی اور مستند ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔
یہ تاریخ 658ھ یعنی ( سلطان) ناصر الدین ( محمود) کی وفات سے پہلے ہی ختم کر دی گئی ہے اور فاضل مؤ لف غیاث الدین بلبن کی تخت نشینی کے وقت تک زندہ تھے لیکن انہوں نے 658ھ کے بعد کی تاریخ نہیں لکھی۔
مولانا ضیاء الدین برنی[2] نے تاریخِ فیرز شاہی بلبن کے زمانہ سے لکھنی شروع کی ہے، اس طرح 658ھ سے 664ھ تک کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ یہ آٹھ(چھ) برس کا زمانہ کسی معاصر تاریخ کے بغیر نظرآتا ہے۔ تاریخِ فرشتہ [3] میں عین الدین بیجاپوری کی تاریخ کا ملحقات ِناصری کے نام سے ذکر آتا ہے لیکن اب ملحقاتِ ناصری کا کہیں وجود نہیں ہے۔
اِن کے علاوہ باقی سب بزرگوں کے تذکرے میں کوئی جامع تاریخ نہیں ہے اور اِن تذکروں میں حالات سے زیادہ کرامتوں کا ذکر ہے۔
قاضی ضیاء الدین کا زمانہ 719ھ قطب ( الدین) مبارک (شاہ)کے عہد میں ختم ہو رہا ہے۔ ضیاء الدین برنی سے توقع تھی کہ ایک با انصاف مؤرخ کی طرح مؤرخانہ فرض ادا کرتا۔ مگر وہ اپنی تنگ نظری کی وجہ سے کسی ایسے شخص کا ذکر گوارا نہیں کرتے جس سے اُن کی نظریاتی ہم آہنگی نہ ہو۔ اس لئے قاضی ضیاء الدین پر کچھ لکھنے کے لئے ہمارے پاس صرف اولیاء اور علماء کے تذکرے ہیں۔ اُن ہی کی مدد سے قاضی صاحب موصوف کے حالات لکھ رہا ہوں ۔
نام اور لقب:
مولانا عبد الحی [4] نے نزهة الخواطر میں نام عمر بتایا ہے۔ والد کا نام محمد ہے اور دادا کا نام عوض ہے۔ مولانا محمد بن عوض کو برنی نے استاذ لکھا ہے اور مولانا عبد الحی نے طبقاتِ ناصری کے حوالہ سے اُن کو اپنے زمانے کے فضلاء میں شمار کیا ہے۔ مولانا موصوف نے خواجہ مہذب الدین ، نظام الملک اور محمد ابن عوض کوا یک ہی شخصیت بنا کر پیش کیا ہے۔ غالبا مولانا کے پیشِ نظر آقائے حبیبی [5] کا شائع کردہ طبقاتِ ناصری[6] کا نسخہ ہے، اِس میں دونوں نام ملا کر لکھ دیئے گئے ہیں۔ حالانکہ مہذب الدین وزیر الملک کا نام ہے۔ رضیہ سلطانہ نے نظام الملک جنیدی کو وزارت سے ہٹا کر مہذب الدین خواجہ کو وزارت کا منصب دیا۔ محمد بن عوض دوسرے صاحب ہیں جو مستوفی کے عہدے پر تھے۔ مستوفی اُس محاسب کو کہتے ہیں جو سب محاسبوں کا نگرانِ اعلی ہو۔ اِس عہدے پر ایسے شخص کو مقرر کیا جاتا تھا جو علمی صلاحیتوں میں ممتاز ہونے کے ساتھ تقوی اور دیانت میں بے مثال ہو۔ یہ مشاہیر علماء میں سے تھے اور بقول ضیاء الدین برنی استاذ تھے۔
قاضی ضیاء الدین کا نام عمر ہے ۔ والد کا نام محمد، داد کا نام عوض ہے ۔ سارے مؤرخین نے نام یہی بتایا ہے۔ صرف ہدیۃ العارفین[7] اور اس کی پیروی میں معجم المؤلفین [8] میں لقب عز الدین بتایا ہے اور بغیر نام کے صرف ابن عوض لکھ کر اُن کو مصری قرار دیا ہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔
قاضی ضیاء الدین کا نسب:
قاضی صاحب حضرت ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہونے کی وجہ سے تیمی، بکری اور صدیقی ہیں۔ اُن کا نسب نامہ یہ ہے:
قاضی ضیاء الدین عمر بن محمد بن عوض ابن محمد بن عبد اللہ ابن محمد ابن عبد اللہ عمویہ ابن سعد ابن الحسین ابن قاسم ابن نضر ابن قاسم ابن محمد ابن عبد اللہ ابن عبد الرحمن ابن قاسم ابن محمد ابن ابو ابکر الصدیق۔ یعنی قاضی صاحب 16 واسطوں کے ذریعے حضرت ابو بکر الصدیقؓ سے نسبی تعلق رکھتے تھے۔
ضیاء الدین برنی نے تاریخِ فیروز شاہی میں جہاں یہ بتایا ہے کہ لوگ ملعون چنگیز خان کے حادثہ سے متأثر ہو کر اِس ملکِ ہندوستان میں آئے، وہاں پہلے سادات ِسامانہ سادات۔۔۔ کا تذکرہ کیا ہے۔ اِس کے بعد علماء و فضلاء کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے:
“ہر ایک صحتِ نسب اور بزرگیٔ حسب میں بے مثال تھے۔ تقوی اور دیانت کے کمالی زیور سے آراستہ تھے”۔
قاضی صاحب موصوف کے اِس نسب نامہ میں پردادا ابو جعفر محمد بن عبد اللہ ہیں۔ اُن کے دو صاحبزادے ہیں ، ایک عوض اور دوسرے عمر ہیں۔ عمرکی کنیت ابو حفص ہے، اُن کا لقب شہاب الدین (ہے)۔ یہی ابو حفص شہاب الدین شیخ الشیوخ سہروردی ہیں۔ اُن ہی کے خلیفہ مشہور عارف شیخ زکریابن محمد ملتانی ہیں، جو شیخ الاسلام بہاء الدین ( کے نام ) سے سب میں جانے پہچانے ہیں۔ 666ھ میں ان کی وفات ہوئی ہے۔
شیخ شہاب الدین سہروردی شیخ الشیوخ کا سلسلہ ٔ نسب یہ ہے:
عمر ابو حفص ابن ابی جعفر محمد بن عبد اللہ ابن محمد ابن عبد اللہ عمویہ ابن سعد ابن الحسین ابن قاسم ابن نضر ابن قاسم ابن محمد ابن عبد اللہ ابن عبد الرحمن ابن قاسم ابن محمد ابن ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ۔
نسب نامہ میں الحسین بن قاسم بھی ایک شخصیت ہیں۔ الحسین کے صاحبزادے دو ہیں۔ ایک سعد جو قاضی ضیاء الدین کے نسبی سلسلے میں ہیں ۔ دوسرے صاحبزادے کا نام الحسن ہے۔ حسن کے صاحبزادے عمر اور عمر کے صاحبزادے محمد ہیں۔ یہی محمد بن عمر امام فخر الدین رازی ہیں۔ جن کے ایک شاگرد نجم الدین دمشقی کا برنی نے اُن علماء میں تذکرہ کیا ہے جو تاتاری سیلاب کی وجہ سے ہندوستان آ گئے تھے اور جن کی غیاث الدین بلبن بہت عزت کرتا تھا۔ امام فخر الدین رازی کا پورا نسب یہ ہے: محمد فخر الدین رازی ابن عمر ابن الحسن ابن الحسین ابن قاسم ابن نضر ابن قاسم ابن محمد ابن عبد اللہ ابن قاسم ابن محمد ابن ابو بکر ۔ اس سلسلۂ نسب میں ابو جعفر محمد کے بیٹے عبد اللہ ہیں ۔ اُن کے دوسرے صاحبزادے مشہور صوفی ابو النجیب عبد القاہر بن عبد اللہ ہیں۔ یہ بھی اُونچے درجے کے مشائخ میں (سے) ہیں۔ یہ سب مشاہیر ہیں (اور) اُن کے حالات اِن کتابوں میں ہیں۔
طبقات الشافعیہ الکبری ج8-6
سیر أعلام النبلاء ج21
البدایۃ و النہایۃ ج13
تذکرۃ الحفاظ ج 4
شذرات الذہب ج5
مرآة الجنان ج4
مرآة الزمان ج 8
النجوم الزاهرة ج 6
وفيات الأعيان ج 4
نفحات الأُنس
تاريخ ِفيروز شاہی
طبقاتِ ناصری
نزہۃ الخواطر
ا وروں کا پتہ نہیں مگر میرا خیال یہی ہے کہ قاضی ضیا ء الدین کے والد یا دادا چھٹی صدی کے درمیان میں ایران، ترکستان، اور عراق کے اُن خاندانوں کی ہمرکابی میں ہندوستان آئے جن کا سیلاب اِسی صدی میں آیا۔ اِس صدی کے اوائل میں نیم وحشی تاتاریوں نے عالم ِاسلام پر یورش کی۔ بخارا و سمرقند، رے، ہمدان، زنجان ، قزوین، مرو اور خوارزم سب اس فتنہ ٔ جاں سوز کی نذر ہو گئے۔ مولانا ضیاء الدین اور اُن کے والد محمد بن عوض کے ناموں کے ساتھ خواجہ کا لاحقہ ہے۔ یہ لفظ ترکستان میں ابو بکر الصدیقؓ، عمر فاروقؓ، اور علیؓ کی اُس اولاد کے لئے بولا جاتا تھا جو حضرت فاطمہؓ کے علاوہ دوسری بیویوں سے تھی۔ سُنام کے مشہور شاعر عمید بھی خواجہ عمید ہیں۔ سنام کے دوسرے شاعر شمسی ۔۔۔بھی خواجہ ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب ایک خانوادہ ہے ، ایک وقت ہندوستان آیا ہے اور ایک ہی جگہ سے آیا ہے۔ اسی لئے یہاں ہی سکونت ایک جگہ اختیار ہے یعنی سنام میں ۔ عمید شاعر کے نام کے ساتھ دیلمی بھی تاریخ میں آتا ہے۔ معلوم ہوا یہ سب علاقہ دیلم سے آئے ہیں۔ دیلم جغرافیائی حیثیت سے گیلان کی سطح مرتفع کا نام ہے۔ البلاذری اور دیگر مؤرخوں نے دیلم پر مسلمانوں کے سترہ حملوں کا ذکر کیا ہے جو حضرت عمر سے شروع ہو کر المأمون کے زمانے تک ہوئے۔ یہاں علوی خاندان کے ساتھ فاروقی اور صدیقی بھی آبا د تھے۔ علویوں کی حکومت تھی۔ قاضی ضیاء الدین کے والد عمید شاعر کے ہم عمر ہیں اور ملازمت بھی دونوں کی بلبن کے زمانے میں محاسبی میں ہے (تھی)۔ عمید اگر مشرف ہیں(تھے) تو محمد بن عوض مستوفی ہیں (تھے)۔
(جاری )
حوالہ جات
[1].ملا عبد القادر بدایونی (1540ء–1615ء) مغلیہ سلطنت دور کے مؤرخ ، بلند پایہ ادیب، انشا پردازاور مترجم تھے،جنہوں نے فارسی میں منتخب التواریخ نامی کتاب تالیف کی جو ا ُن کی وجہ ٔ شہرت بھی ہے۔منتخب التواریخ کا پہلا اُردو ترجمہ مولوی احتشام الدین مراد آبادی نے کیا جو مطبع نولکشور لکھنؤ سے 1889ء میں شائع ہوا۔ موجودہ اُردو تراجم میں دو ترجمے زیادہ شہرت کے حامل ہیں۔ پہلا ترجمہ محمود احمد فاروقی کا ہے جو شیخ غلام علی اینڈ سنز نے لاہور سے شائع کیا اور دوسرا اُردو ترجمہ ڈاکٹر علیم اشرف خان کا ہے جسے تین جلدوں میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی نے 2008ء میں شائع کیا۔
[2] . ضیاء الدین ( 1285ء ۔ 1357ء میں ہوئی برنی مشہور ہندوستانی مورخ ہیں۔ ۔ اُن کی معروف تصنیف تاریخِ فیروز شاہی ہے جو آغاز عہد ِبلبن 1266ء سے سلطان فیروز شاہ کے ابتدائی دور 1358ء تک سلاطین دہلی کی پچانوے 95 سال کی نہایت مستند و معتبر تاریخ مانی جاتی ہے ۔
[3] . محمد قاسم فرشتہ (1560ء–1620ء) مغلیہ سلطنت کے مؤرخ تھے۔ اُن کی وجۂ شہرت تاریخ فرشتہ ہے۔ محمد قاسم فرشتہ نے یہ کتاب ابراہیم عادل شاہ ثانی سلطانِ بیجاپور (متوفی 1627ء) کے حکم سےفارسی زبان میں تصنیف کی۔ صاحب کتاب نے اسے ’’گلشنِ ابراہیمی‘‘ کا نام دیا مگر عوام میں یہ تاریخِ فرشتہ کے نام سے مشہور ہوئی۔
[4] . علامہ حکیم سید عبد الحی حسنی (1869ء – 1923ء) مشہور ہندوستانی عالم مؤرخ اور ادیب ہیں۔ ضلع رائے بریلی کے گاؤں “تکیہ کلاں” میں دائرہ شاہ علم اللہ میں پیدا ہوئے۔ آپ ندوۃ العلماء کے ناظم بھی رہے۔ یہ مشہور کتاب نزهة الخواطر وبهجة المسامع والنواظر کے مؤلف ہیں۔دیکھیں: الإعلام بمن في تاريخ الهند من الأعلام (نزهة الخواطر وبهجة المسامع والنواظر) ، عبد الحي بن فخر الدين بن عبد العلي الحسني، دار النشر، دار ابن حزم – بيروت، لبنان، طبع اول، 1999ء جلد۔2 ، ص: 182
[5]. عبد الحی حبیبی ( 1910 ء۔ 1984 ء ) ایک مشہور افغان مؤرخ ہیں۔ ۔ ظاہر شاہ کے دور میں یہ افغان پارلیمنٹ کے رکن بھی رہے۔
[6] . طبقاتِ ناصری ایک تاریخی کتاب ہے جو قاضی منہاج سراج جوزجانی کی تصنیف ہے۔ اس کو سلطانِ دہلی ناصر الدین محمود کے نام پر طبقاتِ ناصری کا نام دیا جاتا ہے۔ سلطان ناصر الدین محمود کا عہدِ حکومت 1246ء تا 1266ء تک ہے۔ اس کتاب میں تخلیق آدم سے لے کر 1260ء تک کے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ دیکھیں: طبقاتِ ناصری، ابو عمر منہاج الدین عثمان معروف بہ منہاج سراج، ترتیب عبد الحئی حبیبی قندھاری، ترجمہ غلام رسول مہر، اُردو سائنس بورڈ، جلد دوم ، صفحات: 28، 30، 32، 44، 49، 320
[7] . هدية العارفين أسماء المؤلفين وآثار المصنفين، إسماعيل بن محمد أمين بن مير سليم الباباني البغدادي، دار إحياء التراث العربي بيروت – لبنان، جلد1، ص: 788
[8]. معجم المؤلفين، عمر رضا كحالة، مؤسسة الرسالة، 1993ء، جلد7، ص: 317
کمنت کیجے