?What Went Wrong
Western Impact and Middle Eastern Response
By Bernard Lewis
برنارڈ لیوس نے اسلامی تاریخ و ثقافت پر کثرت سے لکھا ہے۔اسلام پر لکھنے والے یہودی مستشرقین اور اسکالرز میں سے جس طرح گولڈ زیہر نے حدیث لٹریچر سے متعلق خاص طور پر مغرب کے حلقہ ہائے علم وفکر پر گہرے اثرات مرتب کیے، اسی طرح برنارڈ لیوس نے اسلام کی سیاسی و ثقافتی فکر کے حوالے سے معاصر مغربی ذہن کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ لیوس کا اسلامی تاریخ و ثقافت کا مطالعہ بہت وسیع ہے جس کی ایک بڑی وجہ متعدد مشرقی زبانوں سے ان کی واقفیت اور براہ راست ان سے استفادے کی صلاحیت ہے۔
لیوس کی زیر نظر کتاب کئی حیثیتوں سے اسلامی فکر وثقافت کی نمائندہ جدید اسلامی نسل کے لیے قابل مطالعہ ہے۔اس میں خاص طور پر اس سوال کو زیر بحث لانے کی کوشش کی گئی ہے کہ آخرعالم اسلام کے قلب مشرق وسطی میں، جو خلافت عثمانی کے قلم رو میں تھا،( بالواسطہ طور پر عالم اسلام میں)ایسا کیا ہوا ۔مسلمانوں خاص طور پر خلافت عثمانیہ کی طرف سے ایسی کون سی کمیاں رہیں کہ مسلم تہذیب کی پر شکوہ عمارت مغربی تہذیب کے جھونکے برداشت نہ کرسکی اور زمیں بوس ہوگئی؟ اس سوال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسلم دنیا نے جدیدیت کے جلو میں مغرب کی طرف سے پیش آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ کس طرح کیااور اس کی مجموعی صورت و نوعیت کیا رہی؟
لیوس کی نظر میں عالم اسلام کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ رہا کہ یہاں مغرب کے حوالے سے شدید بے خبری اور خود مسلط کردہ نا واقفیت کی کیفیت چھائی رہی۔وہ اس کی سیاسی، سائنسی اور فکری طاقتوں کا اندازہ نہیں کرپایا۔اسے اپنی کمزوری کا احساس1798 میں نیپولین کے مصر پرحملے سے ہوا۔اس حملے نے مسلم دنیا کی کمزوری کو مغربی طا قتوں پر عیاں کردیا۔1492 میں اسپین کے مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد 1554 میں روس نے”استراخان”پر قبضہ کرلیا، جس کے ذریعے وہ بحر قزوین کے سواحل اور بحر اسود کے شمالی حصے تک پہنچ گیا۔یہ پیش رفت مسلم علاقوں پر روسی قبضےکا اہم پیش خیمہ تھی،لیکن مسلم دنیا کے مرکزی علاقے روس کی اس غیر معمولی پیش رفت سے ناواقف اور بے پروا رہے۔
( ص، 8)1563میں سماترا کے علاقے Atjehکے مسلم حکمراں نے پرتگیزیوں کی پیش رفت کو روکنے کے لیے عثمانی حکومت سے اپیل کی لیکن اس کو اس کی کوئی پروا نہ ہوئ۔سلیمان اعظم کے وزیر لطفی پاشا نے ترکی خلافت کو متنبہ کیا کہ یورپ کی بحری راستوں میں برتری اس کے لیے بڑے خطرے کا الارم ہے لیکن حکومت نے اس کا کوئ نوٹس نہیں لیا۔18ویں صدی تک ہندوستان اور انڈونیشیا وغیرہ سے مسلمان حج کے لیے برطانوی ڈچ اور پرتگیزی جہازوں پر سفر کرتے تھے۔
مصنف کے بقول مسلمانوں کی طرف سے اس بے خبری کی متعدد وجوہات ہیں۔مغرب نے تحریک استشراق کے ذریعے مسلم زبان اور تاریخ و ثقافت کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی لیکن مغربی دنیا کو سمجھنے کی ایسی کوششیں مسلمانوں کی طرف سے نہیں ہوسکیں۔18 ویں صدی سے قبل بمشکل اطالوی زبان کو بحر متوسط کے شمالی حصے میں بعض لوگ سمجھتے تھے اور مشرق و مغرب کے درمیان وہی رابطے کی زبان تھی۔(ص،41)مغرب میں مختلف علمی میدانوں میں علم وایجاد کا غلغلہ تھا۔لیکن مسلمانوں کی توجہ اس طرف مبذول نہ ہوپائی۔ وہ یورپ کی تاریخ وثقافت سے بے خبر رہے۔
یورپی حکومتیں اپنا مستقل سفارت خانہ مسلم دنیا کے مختلف حصوں میں رکھتی تھیں۔اس کے مقابلے میں مسلم حکومتوں کا طرزعمل یہ تھا کہ وہ اپنا قاصد یا سفیر اسی وقت کسی یورپی حکومت کے پاس بھیجتی تھیں،جب انہیں اپنا کوئی پیغام پہنچاناہوتا تھا۔یہ قاصد بھی بکثرت عیسائ اور یہودی ہوتے تھے۔ متعلقہ قاصد اپنی حکومت کا پیغام پہنچا کر واپس لوٹ آتا تھا۔ اس صورت میں تبدیلی اٹھارویں صدی میں پیدا ہوئی۔(ص،29)
مغرب سے دوری بنائے رکھنے اور اس کی فکر و ثقافت سے عمومی بے خبری کے رویے میں اس فقہی تصور کا بھی دخل رہا کہ مسلمانوں کے لیے دار الکفر میں اقامت جائز نہیں ہے۔(ص،40) اس تعلق سے انہوں نے یہ دل چسپ بات لکھی ہے کہ مسلم حلقہ ہایے فکر میں یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر مسیحی حکومت مسلمانوں کے ساتھ رواداری کا برتاؤ رکھنے والی ہواور انہیں اپنے مذہبی اعمال کی اجازتِ دیتی ہو تو کیا اس صورت میں مسلمانوں کے لیے وہاں اقامت جائز ہے؟ مراکشی مالکی عالم الونشریسی کا موقف تھا کہ یہ صورت مزید خطرناک ہے کیوں کہ ایسے ماحول میں ارتداد کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔( ص،40)۔
کتاب کے تیسرے بابSocial And Cultural Barriers میں لیوس نے سماجی وثقافتی حوالے سے مشرق ومغرب کے مواقف میں پائے جانے والے فرق کا جائزہ لیا ہے۔ مصنف کے مطابق مغرب کے مقابلے میں مسلم معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ خواتین کے ساتھ اس کا غیر منصفانہ برتاؤ تھا۔ لیوس کا یہ نکتہ قابل غور ہے کہ اسلامی روایت اور قانون کے مطابق سماج کے تین طبقات کو قانونی اور مذہبی سطح پر مساوی پوزیشن حاصل نہیں ہے: کافر ،غلام اور عورت۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان تینوں میں عورت کی پوزیشن سب سے زیادہ بدتر اور قابل رحم تھی ۔کیوں کہ کافر کے اسلام قبول کرلینے اور غلام کے آقا سے آزادی حاصل کرلینے سے ان کی پوزیشن تبدیل ہوکر بہتر ہوجاتی تھی،لیکن عورت کی سماجی صورت حال میں تبدیلی اور بہتری کی کوئی امکانی صورت نہیں تھی۔(ص،۷۵)۔ جدیدیت اور مغربیت کے درمیان مسلم ذہن میں جو فرق پایا جاتا ہے، اس کا مظہر یہ ہے کہ اس کے مطابق جدید ٹکنالوجی کا حصول تو جدیدیت کا تقاضا اور اس لیے ضروری ہے جس سے مفر نہیں لیکن جہاں تک خواتین کی آزادی کی بات ہے تو یہ محض مغربیت ہے جس سے سمجھوتا ممکن نہیں۔(ص،82) ان تینوں کمزورطبقات کے حوالے سے مسلم دنیا میں گفتگو انیسویں صدی سے قبل شروع نہیں ہوسکی۔
مصنف نے اسلام اورمسلم معاشرے میں غلامی سے متعلق تفصیل سے گفتگو کی ہے اور یہ کی کوشش کی ہے اسے کس طرح اسلامی قانون کی مکمل حمایت حاصل تھی اور اس کوکالعدم قراردینا شریعت کی بنیادی تعلیم کے خلاف تصور کیا جاتا رہا۔ چناں چہ بیسویں صدی کے اوائل تک عثمانی خلافت اور ایران میں غلامی باقی رہی۔اس طرح ان تینوں طبقات کی سماجی پوزیشن کوسامنے رکھتے ہوئے لیوس یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ مسلم دنیا کی ایک بڑی کم زوری سماجی عدم مساوات تھا جس نے سماج کی جڑیں کھوکھلی کردی تھی۔
اسلامی اور مغربی معاشرے کے درمیان موازنے میں وہ مختلف حوالوں سے اسلامی فکروثقافت کی تعریف کرتے ہیں۔مثلا اسلام کی فکرکی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ مسیحیت کی طرح وہاں مذہبی ہیرارکی کا کوئی وجود نہیں ہے۔اسی طرح مسیحی روایت کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح مسیحی روایت میں راسخ العقیدگی( orthodoxy) اور بددینی یا دین سے انحراف(Heresy) کی مطلق انداز میں صریح تعبیرکی گئی ہے اور یوں دونوں کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دی گئی ہے،اسلامی روایت اس سےخالی ہے اور وہاں یہ فکری تنگی نہیں پائی جاتی۔(ص،112) یہ اعتراف بھی قابل ملاحظہ اور مصنف کی غیرجانب دارانہ انصاف پسندی پردلالت کرتا ہے کہ مغرب کے موجودہ جمہوری معاشرے سے قطع نظر اگر عہد وسطی کے مسلم اورمغربی معاشروں کے درمیان اس تعلق سے موازنہ کیا جائے کہ دوسرے مذاہب اوراہل مذہب کے ساتھ ان کا رویہ کیسا تھا اور وہ کس حد تک روادار تھے،اندازہ ہوگا کہ مثلاً اسپین میں مسیحیوں نے مسلمانوں اور یہودیوں کوجس طرح ظلم وتعذیب کا نشانہ بنایا،مسلم تاریخ اس سے خالی ہے۔(ص،127)۔لیوس کا انداز نظر اسلامی تہذیب کے زوال میں خلافت عثمانیہ کی کم نظری اور جدید حالات سے بے خبری کو بھی ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور اسلامی دینی فکر کی پسماندگی کو بھی، جو جدید تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنے میں ناکام رہی۔
بہرحال برنارڈ لیوس کی یہ کتاب کئی اعتبارات سے قابل مطالعہ ہے۔مصنف کے بعض نظریات سے اختلاف ضرور کیا جاسکتا ہے۔لیکن مصنف کا اسلوب بہت سنجیدہ،علمی اور تجزیاتی ہے جو ایک علمی کتاب کا بنیادی وصف ہے۔
کمنت کیجے