Home » علم کلام کی علمی اور دینی حیثیت -2
اسلامی فکری روایت فلسفہ کلام

علم کلام کی علمی اور دینی حیثیت -2

 

ڈاکٹر خضر یاسین

٩ – تاریخ گواہ ہے، علم کلام کا مین ٹارگٹ غیرمسلم دنیا نہیں رہی۔ اس کے برعکس اس علم اور اس کے ماہرین کا مرکزی ہدف مسلم دنیا رہی ہے۔ مختلف فرقوں کے باہمی اعتقادی تضاد و تخالف کی حقانیت اور بطلان اس علم کی علمیت کا محور و مرکز بنا رھا ہے۔ غیرمسلم مذہبیوں سے مسلمانوں کے ایسے مباحثے یا مکالمے آپ کو بہت کم ملیں گے جن میں علم کلام کے بنیادی موضوعات زیر بحث ہوں۔ زیادہ تر وہ مباحث علم کلام میں موضوع بنے رہے ہیں جن کا بلاواسطہ یا بلاواسطہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں سے تعلق تھا۔ آج بھی کلامی کتب کے زیادہ تر مباحث باہمی تنازعات پر مشتمل ہیں اور وہی دینی مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں۔ ان مباحث میں دین کے منکرین اور یہود و نصاری کے ساتھ بحث مباحثے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ علم کلام کے مسائل میں معتزلہ کا تنازعہ اہل روایت سے رہا ہے، اشاعرہ کا ٹارگٹ معتزلہ تھے اور یہ جوابی حملہ تھا جو روایتی اسلامی عقائد رکھنے والوں کی طرف کیا گیا تھا۔ معتزلہ اور اشاعرہ کے مابین تصفیہ اور تالیف ماتریدیہ کے ہاں ملتی ہے۔ امامیہ متکلمین کا ٹارگٹ، وہ سنی متکلمین تھے جو اہل سنت کی سیاسی تحریک کو بچا رہے تھے۔ ان کے باہمی معتقدات اجمال و تفصیل دونوں میں ایک دوسرے سے صرف مختلف نہیں بلکہ بعض تصورات ایک کی ضد ہیں اور ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔

لیکن تمام مذہبی فرقوں کے متکلمین میں یہ ایک بات مشترک رہی ہے کہ اللہ تعالی کی ذات و صفات سے ہی اپنے کلامی مباحث کا آغاز کرتے تھے۔ جیسے گویا وجود باری تعالی صفات سمیت انسان کا بلاواسطہ موضوع بحث بن سکتا ہے۔ انسان باری تعالی کے متعلق جو بھی تصور قائم کرتا ہے، اس کا مبداء اگر وحی نہیں ہے تو وہ ایک خیال ہے۔ لیکن متکلمین اس اصول کی طرف توجہ دیتے ہیں اور نہ اس مبحث کو چھوڑتے ہیں۔

مذہبی معتقدات کا امتیازی وصف یہ ہے کہ ان میں سے ہر عقیدہ جس تصور کا احصاء کرتا ہے یا اس پر دلالت کرتا ہے، اس کا انکار، پورے ایمان کا انکار ہے اور یہ کفر سے کم کوئی شے نہیں ہے۔ مثلاً‌ ایمانیات میں وجود باری تعالی کا انکار اور شیطان کے وجود کا انکار ایک جیسا کفر ہے باوجودیکہ شیطان مخلوق ہے اور باری تعالیٰ خالق ہے، لیکن دونوں کا انکار ایک جیسے کفر کا باعث ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان خبر پر منحصر ہے، وہ نظر کا محتاج ہے اور نہ نظر کی پیداوار ہے۔

توحید باری تعالی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شخصیت کا انکار بالکل ایک جیسا کفر ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شخصیت میں ثنویت بمعنی مثنی کا قائل اور باری تعالی کے مثنی کا قائل بالکل ایک جیسا کافر ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی انسانیت کا منکر اور باری تعالی کی الوہیت کا منکر ایک جیسا مشرک ہے۔ منزل خبر پر ایمان و اعتقاد کی بنیاد ہی قائم نہیں ہوتی، اس میں کمی بیشی کفر اور پورے کفر کی نمائندگی کرتی ہے۔

علم کلام میں نبوت کے امکان پر دلائل قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اسی طرح وجود باری کے امکان کو دلائل سے منوانے کی سعی کی گئی ہے۔ حالانکہ ہر دو صورتوں میں امکان کے بجائے یقین کا مبداء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مقدس پر غیرمشروط اعتماد ہے۔ جب آپ ایمان و یقین کو چھوڑ کر امکان کے پیچہے دوڑتے ہیں تو دراصل آپ ایمان و یقین کی بیخ کنی کرتے ہیں۔

علم کلام کی علمی حیثیت سامنے رکھی جائے تو سب سے پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ علم ہے کیا؟ پھر یہ دیکھیں کہ علم کیا نہیں ہے۔ جب آپ علم کے مفہوم و مدلول میں غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں تو “تا ثریا می رود دیوار کج” کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ علم کا دائرہ کار اور حدود صحت خیال اور مفروضہ سے بالکل الگ ہے اور ممتاز ہے۔ متکلمین نے اپنی انکوائری کی علمی حدود متعین کئے بغیر بے منزل راہ پر سرپٹ گھوڑے دوڑائے ہیں۔ خیال سے علم کا مفاد ممکن ہے اور نہ علم سے خیالی تصورات کی تصدیق و تکذیب ممکن ہے۔

١٠ – علم کلام کے مختلف مکاتب ہیں، جب آپ ان مکاتب کی عملیاتی تحقیق و جستجو epistemological inquiry کرتے ہیں تو یہ حقیقت کھلتی ہے کہ ان تمام کلامی مکاتب کے پیچہے اس فن کے ماہر کی افتاد طبع کو بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے فلسفیانہ افکار کی وضع و تشکیل میں فلسفی کی افتاد طبع، اس کے پورے نظام فکر میں اصل محرک ہوتی ہے۔ عقلی افتاد طبع کا متکلم ہمیشہ بسیط اور کلی تصورات کو ترجیح دے گا اور حسی افتاد طبع کا متکلم مرکب اور جزوی تصورات کو ترجیح دے گا۔ عقلیت اور حسیت دونوں منہاج فکر و عمل ہیں۔ ان کا تعلق ادراک کی ہستی سے ہے۔ یہ مدرک یا معلوم کی ہستی سے تعلق نہیں رکھتے۔ جزوی اور کلی ادراک ہوتا ہے، مدرک جزوی یا کلی نہیں ہوتا بالفاظ دیگر جزوی و کلی، واجب و ممکن، بسیط و مرکب اور حدوث و قدوم ادراک کی صفات ہیں، شے مدرک کی صفات نہیں ہیں۔ لیکن ایک عقلیت پسند متکلم اپنی افتاد طبع کے زیراثر مجبور ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ معروضات جو کلی، واجب، بسیط، مطلق اور ورائے زمان و مکان ہیں وہی حق اور حقیقت ہیں۔ اس کے بالکل برعکس ایک حسی افتاد طبع کا متکلم یہ سمجھتا ہے کہ جزوی، ممکن، مرکب، اضافی اور زمانی و مکانی حق اور حقیقت ہے۔

متکلمین میں جن حضرات نے وجود باری تعالی کو دیو ہیکل جسم مانا ہے اور نصوص سے اپنے موقف پر استشہاد کیا ہے، دراصل وہ حسی افتاد طبع کے لوگ تھے۔ وہ حسیات سے باہر کبھی نہیں جا سکتے تھے۔ اسی طرح جن متکلمین نے وجود باری تعالی کو ورائے زمان و مکان اور واجب الوجود بتایا ہے، دراصل وہ عقلی افتاد طبع کے لوگ تھے اور معقولات سے باہر جانا ان کے بس کی بات نہ تھی۔

واقعہ یہ ہے باری تعالی کی ذات و صفات کے متعلق یہ دونوں تصور، دراصل عقلی اور حسی ماخوذات ہیں، جنہیں محض اس لئے اپنایا گیا ہے کہ یہی کچھ ان متکلمین کی افتاد طبع کا تقاضا تھا۔ یہ تمام تصورات باری تعالی کی صفات ہیں اور نہ ہو سکتے ہیں۔ یہ تصورات انسان کے ادراک کی صفات ہیں اور بس۔ باری تعالی موجود فی الخارج حقیقت ہے اور واقعی حقیقت ہے۔ ہم اس کی طرف وجوب و قدوم کا انتساب کر کے اسی طرح افتراء علی الکذب کرتے ہیں جیسے طرح امکان و حدوث کا انتساب کر کے اللہ تعالٰی پر جھوٹ باندھتے ہیں۔

علم کلام کی ہر شکل باطل ہے اور خود ساختہ اور انسانی استعداد کے زائیدہ تصورات ہے۔ ہر فرقہ باطل ہے اور ہر فرقہ اپنے معتقدات کی جہت بطلان سے بے خبر ہے یا خود کو بے خبر رکھنا چاہتا ہے۔ حدوث و قدوم کے تصورات سے عالم حادث ثابت ہوتا ہے اور نہ محدث عالم یا خالق کائنات کی وجودی پوزیشن حدوث و قدوم سے متصف ہوتی ہے۔ جس طرح وجود باری تعالٰی دیو ہیکل جسم کا مصداق نہیں ہے، اسی طرح وجوب و اطلاق کی عقلی کیٹیگریز سے بھی وراء الوراء ثم وراء الوراء ثم وراء الوراء ہے۔

ہم انسان اس کی ہستی کا اپنی علم سے احاطہ نہیں کر سکتے۔ لیکن جب باری تعالٰی کی ہستی کے متعلق یہ ججمنٹ آپ دیتے ہیں کہ وہ واجب الوجود ہے تو دراصل آپ اس کی ہستی کے مکمل احصاء کا دعوی کر رہے ہوتے ہیں۔ واجب الوجود کی وجودی پوزیشن مکمل طور پر ہمارے احصاء ادراک میں نہ ہو تو ہم اسے واجب الوجود کبھی نہیں کہہ سکتے۔ نیز ایسا نہیں ہے کہ واجب الوجود کے ایک حصے کا ہم ادراک کریں اور ایک حصہ پردہ خفا میں رہے۔ ایسی صورت میں واجب میں ترکیب در آتی ہے۔ واجب میں ترکیب کا امکان، محال ہے۔ واجب میں جو کچھ ہے، وہ سب بالفعل ہے اور بالفعل واجب ہے۔ یہ ممکن الوجود کی خوبی ہے کہ وہ ترکیب کو اپنی ہستی میں جذب کر لیتا ہے۔ واجب ایسا نہیں کر سکتا۔

١١ – متکلمین کے اخلاص باللہ کو چیلنج کرنا میرا مقصود ہے اور نہ نیتوں پر حکم بننا انسان کا منصب ہے۔ متکلمین کا شعور علم اپنے دور کی تحدیدات سے ماوراء نہیں ہو سکتا تھا، یہی ایک گنجائش یا فیور favour ہے جسے ہم ان کے حق میں پیش کر سکتے ہیں۔ ورنہ متکلمین کے بیشتر مسائل اور ان کا حل “الجدل العقیم” non productive dialectic کے زیر عنوان آتا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ چوتھی صدی ہجری کے نصف اول میں بصرہ اور ماوراء النہر کے خطوں میں علی الترتیب اشعری اور ماتریدی مکاتب کلام کا ظہور ہوتا ہے، یہ دونوں مکاتب آگے چل اہل سنت کے کلامی معتقدات کے بنیادی نمایندہ chief Representatives قرار پائے۔ اشاعرہ کے کلامی معتقدات کے اساطین باقلانی، جوینی، غزالی اور آمدی رحمھم اللہ ہیں اور ماتریدی مکتب کے اساطین نجم الدین عمر، عبد اللہ النسفی، الصابونی، ابومعین النسفی، تفتازانی، ابن الھمام، ابن ابی شریف، شیخ زادہ رحھم اللہ وغیرہم ہیں۔

مذکورہ بالا کلامی مکاتب اور ان دونوں کے اساطین انہیں مسائل تک محدود رہے ہیں جو قرون وسطی میں اہم ترین علمی و دینی اہمیت کے حامل متصور ہوتے تھے۔ یہ حضرات جن دینی مسائل اور ان کا حل کے درپے تھے، حیران کن حد ایسے مسائل تھے جن کی relevace and validity پر ہوم ورک ضروری تھا۔ یعنی بامقصد سوال کا درجہ دے کر حل کی طرف متوجہ ہونے، سے پہلے یہ دیکھنا ضروری تھا کہ کیا یہ درست اور جائز سوالات ہیں بھی؟ اگر ان سوالات کے سوال ہونے پر انکوائری کی جاتی تو ان کے جواب پر اس قدر ذہنی انرجی کبھی ضائع نہ کی جاتی۔ مثلاً‌ متکلمین میں ایک سوال یہ ہے؛ ما ہو العالم؟ یعنی کائنات کیا ہے؟ اب سوال خود ہی بتا رہا ہے کہ کائنات ایک منظور موہوم کی حیثیت سے سوال کرنے والے کے سامنے ہے اور ایک ناظر کی حیثیت سے اس کے پورے وجود کا احصاء کرتے ہوئے خود سے یا اپنے جیسے کسی دوسرے انسان سے پوچھ رہا ہے کہ یہ کیا ہے؟

قبل اس کے کہ میں اس سوال کا جواب دوں کیا مجھ پر لازم نہیں ہے کہ میں اپنے سوال کے مضمرات implications اچھی طرح سے جان لوں؟ میرا سوال جن مضمرات کا احاطہ کرتا ہے، وہ یہ ہیں کہ مجھے معلوم ہونا چاہیئے کہ اس کائنات کا طول، عرض، عمق، ابتداء، انتہا اور غایت کیا ہے؟ تب میں اس سوال کہ طرف متوجہ ہونے میں حق بجانب ہو سکتا ہوں کہ کائنات کیا ہے؟ یہ حادث ہے یا قدیم ہے؟ واجب الوجود ہے یا ممکن الوجود وغیرہ وغیرہ

ایک ہستی جو اسی نوے سال روئے زمین پر زندہ رہتا ہے اور پھر مٹی میں مٹی بن جاتا ہے، وہ سوال اٹھاتا ہے؟ یہ کائنات کیا ہے؟ مزے کی بات یہ ہے کہ جو یہ فرض بھی نہیں کر سکتا کہ اس کائنات کا طول کتنا ہے، عرض کتنا ہے اور عمق کتنا ہے؟ وہ کائنات کے متعلق سوال اٹھاتا ہے کہ یہ کیا ہے؟ اور پھر اپنی انکوائری کے prerequisites کا ادراک حاصل کئے بغیر، ایسے سوال کا جواب دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے مشکل حل کر لی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جس سوال کے مضمرات کا انسان شعوری ادراک نہ کر سکتا ہو، اس کا جواب وہ کیوں کر دے سکتا ہے؟ کیا وہ جواب اس سقم سے عاری ہو سکتا ہے، جو اس سوال میں پوری قوت کے ساتھ موجود ہے، جس کا جواب دینے وہ چلا ہے؟

ایک جسمانی اور ذہنی معذور ہی اس سوال کو سوال مان سکتا ہے اور پھر اس کا جواب دینے کی کوشش کر سکتا ہے۔ نہیں یہ جسمانی اور ذہنی معذوری اس وقت اور زیادہ دو چند ہوتی ہے جب اس کائنات سے پرے اس کے خالق کے وجود و عدم پر وہ رائے زنی شروع کر لیتا ہے۔

١٢ – مسلم متکلمین اس خیال میں رہے ہیں کہ عقلی استدلال سے جو کچھ ثابت ہو جاتا ہے، وہ حقیقت ہوتا ہے یعنی وہ صرف معقول فی الذہن ہی نہیں ہوتا بلکہ موجود فی الخارج بھی ہوتا ہے۔ گویا عقلی وجود لازماً‌ خارجی وجود ہے، حالانکہ خارجی وجود کا اثبات، جب تک حواس سے فراہم نہ کر دیا جائے تو وہ محض خیال ہوتا ہے یا پھر رائے ہوتی ہے اور علم کبھی نہیں ہوتا۔ متکلمین کے نزدیک عقلی اور خارجی کے درمیان کوئی خلیج ہے تو عقلی استدلال سے برآمد ہونے والا نتیجہ، خود بخود اس خلیج کو پاٹ لیتا ہے اور بطور ثبوت اپنا ایجابی کردار ادا کر لیتا ہے۔ بالعموم عقلی افتاد طبع کا ہر مفکر یہی خیال کرتا ہے۔ لیکن اگر آپ ان سے پوچھیں کیا عقل کائنات کا خالق ہے یا کائنات کے ادراک کرنے والی ہستی ہے؟ بعض عقلی مفکر بلاتردد کہیں گے کہ عقل کائنات کا خالق نہیں ہے بلکہ کائنات کا ادراک کرتا ہے، حالانکہ وہ اپنے مابعد الطبیعیات میں عقل کو خالق عالم مان کر نظام فکر مرتب کر چکے ہوتے ہیں۔

فکر اور حقیقت کی عینیت identity of thought and being کا تصور اسی موقف کو ظاہر کرتا ہے کہ عقلی قضیہ جب پورے مضمرات سمیت تشکیل پا جاتا ہے تو وہ حقیقت سے عینیت پیدا کر لیتا ہے۔ علامہ اقبال نے ہیگل کے تتبع میں، اپنے خطبات میں یہی موقف اختیار کیا ہے اور بالکل درست کہا کہ وجود باری تعالی پر قائم کی جانے والی تمام دلیلیں صرف اس وقت کارآمد ہو سکتی ہیں جب یہ مان لیا جائے کہ فکر اور حقیقت اپنی اصل میں ایک ہیں۔ قدیم متکلمین غیرشعوری طور پر یہی سمجھتے رہے ہیں کہ فکر اور حقیقت دراصل عین یک دگر ہیں۔ عقل کے حاصلات خالص ہوں تو انہیں اپنے حقیقت ہونے کا ثبوت، حواس سے فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ خود حقیقت ہوتے ہیں اور حقیقت کا وجود ان سے ماوراء نہیں ہوتا۔ لیکن یہ موقف اس مفروضے پر مبنی ہے کہ کائنات کا وجود عقل کے حاصلات سے سو فیصد ہم آہنگ ہے، نہیں دونوں ایک ہی حقیقت کو بیان کئے جانے کے مختلف اسلوب ہیں اور کُچھ نہیں ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ عقل دراک عالم ہے یعنی recognising faculty of the universe ہے اور یہ کائنات کا خالق creator of the universe ہے اور نہ تخلیق کائنات میں فعال قوی میں شامل ہے۔ عقل خود کائنات کے مشمولات میں شامل افراد میں سے ایک فرد ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ عقل تکوین عالم سے قبل موجود تھا اور پھر جب کائنات وجود میں آئی تو یہ اس کا جائزہ لینے آ گیا ہے۔ لیکن عقلی افتاد طبع کا ہر مفکر شعوری یا غیرشعوری طور پر یہی سمجھتا ہے کہ کائنات کی تکوین و تخلیق سے قبل عقل موجود تھا۔ (عقول کے تصور سے تقابل کریں)

آپ متکلمین کے تصور عقل اور تصور مدرکات عقل کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ عقل اور مدرکات عقل کی موجود حقیقی واقعیت سے زیادہ، ان کی دلچسپی عقل بطور “شے فی نفسہ” سے تھی۔ چنانچہ عقل کیا ہے کا جواب ان کے ہاں لغت کے روز مرہ سے لے کر مابعد الطبیعیاتی تشکیلات تک کہیں بھی ایک واقعی حقیقت کے طور پر موضوع نظر نہیں آتا۔

عقل اور مدرکات عقل کی مابعد الطبیعیاتی تشکیل سے نکل کر یہ دیکھیں کہ اس کے ادراک شدہ تصورات کی ماہیت کیا ہے؟ متکلمین مدرکات عقل کی ماہیت کے بجائے عقل فی نفسہ کے تعین کی طرف چل پڑتے ہیں۔ آخری نتیجے تک پہنچتے پہنچتے وہ اس جگہ آ کر رکتے ہیں کہ عقل کائنات سے قبل موجود تھا اور اس کا ادراک حقیقت کا درست ترین ادراک ہے۔ حالانکہ خالق جل مجدہ نے کائنات کی تخلیق کے ساتھ عقل پیدا فرمایا ہے۔ عقول عشرہ کا نظریہ کسی نہ کسی شکل میں متکلمین پر حاوی رھا ہے اور وہ سمجھتے رہے ہیں کہ ہم نے تنزیہ ذات میں شرک و شرکت کو محو کر دیا ہے۔

١٣ – ابو الحسن الاشعری رحمہ اللہ اور ابو منصور الماتریدی رحمہ اللہ اہل سنت کے کلامی مکاتب کے ائمہ ہیں۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ ان دونوں مکاتب کے اساطین الگ الگ ہیں۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ سنی علم کلام کا حقیقی بانی ابو الحسن الاشعری کے بجائے ابو منصور الماتریدی ہے۔ ابو الحسن الاشعری کے مقابلے میں الماتریدی کا کلامی منہج اور کلامی کتب جو ہم تک پہنچی ہیں، کہیں زیادہ وقیع ہیں اور علم کلام کے اہم ترین مسائل کا احاطہ کرتی ہیں۔ الماتریدی اپنی کتاب التوحید کے آغاز میں مصادر المعرفة یعنی وہ وسائل علم و معرفت جن کے ذریعے انسان اشیاء کی حقیقت ادراک کر سکتا ہے، بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ تین ہیں اور یہ حواس، خبر اور نظر ہیں۔ مدرکات حواس کے حاصلات سے یہ نتیجہ برآمد کرتے ہیں کہ اشیاء کا دائمی تغیر ان کے حدوث کا ثبوت ہے۔ لہذا کائنات حادث ہے۔

حواس کی تحدیدات کا درست ادراک انسان کو اس نتیجہ پر کبھی نہیں پہنچا سکتا، جس پر الماتریدی پہنچا رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حواس کا ادراک زمان و مکان میں ہوتا ہے۔ جو شے زمان و مکان میں نہ ہو، حواس اس کا ادراک نہیں کر سکتے۔ حسی ادراک کے ذریعے ماقبل ادراک اور مابعد ادراک تک رسائی کیونکر ممکن ہو سکتی ہے؟ دوسری اہم بات یہ ہے کہ حواس کا ادراک ہمیں صرف یہ بتاتا ہے کہ شے محسوس اس طرح ہے۔ جیسے گھاس سبز ہے، دھوپ تیز ہے۔ پانی ٹھنڈا ہے وغیرہ۔ حواس ہمیں یہ کبھی نہیں بتا سکتے کہ محسوس حقیقت ہمیشہ اس طرح ہو گی یا ہمیشہ اس طرح نہیں ہو گی، حواس سے کلی اور وجوبی قضیہ خلق نہیں کیا جا سکتا۔ حواس کا ادراک جزوی اور امکانی ہوتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ کیونکر برآمد ہو سکتا ہے کہ کائنات حادث ہے؟ ہمارے سامنے تغیر کی حرکت کسی حتمی نتیجے تک رہنمائی کرتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ پھر غیرمحسوس اشیاء تک حسی مشاہدے کا پھیلاؤ یا احصاء کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟

الماتریدی حواس کے حاصلات سے جو نتیجہ برآمد کرنا چاہتے ہیں، وہ صرف حواس اور مدرکات حواس کے ناقص تجزیے سے ممکن ہے۔ حواس اور مدرکات حواس کا کامل و مکمل تجزیہ انسان کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے حواس کے زد میں آنے والی اشیاء جو پوری کائنات کا اتنا چھوٹا سا حصہ ہے کہ اس کی حیثیت متعین کرنے میں پائی کو مزید پائیوں باٹ کر بھی درست نتیجے تک پہنچنا ممکن نظر نہیں آتا۔

الماتریدی نے الالھیات، النبوات اور السمعیات مذکورہ تینوں کلامی عنوانات میں حواس، خبر اور نظر سے اپنے دلائل اور منہج پر سائر حاصل بحث کی ہے۔ لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حواس کو بطور ایک وسیلہ علم قبول کرتے وقت وہ حواس اور مدرکات حواس سے ایک ایسا قضیہ اٹھانا چاہتے ہیں، جس کا امکان کم از کم حواس کے مدرکات سے میسر نہیں آتا تو خود علم کلام کی علمی حیثیت پر سوال کھڑا ہو جاتا ہے، حتی کہ یہ علم مشکوک ہوتا نظر آتا ہے۔

تشکیل علم میں حواس کے کردار کی نفی ممکن نہیں ہے۔ انسان کے علم کا آغاز حواس اور مدرکات حواس ہوتا ہے اور انہیں مدرکات پر ختم ہوتا ہے۔ لیکن حواس کے مدرکات سے مابعد الطبیعیاتی قضیہ کی تشکیل کا امکان بے حد مشکل ہے۔ بالفرض آپ ایسا کوئی قضیہ بنا لیتے ہیں، کیا اس قضیے کے متوازی خارج میں حقیقت کے ہونے اور بالکل اسی طرح ہونے کا دعوی کیا جا سکتا ہے، جیسی قضیہ میں بیان ہوئی ہے۔

حواس اور مدرکات حواس انسان کی سطح ادراک سے بہت فروتر شے ہے۔ یہ حیوان کی سطح ادراک ہے۔ حواس سے اوپر اٹھنا ہے تو حواس کی بنیاد پر حاصل شدہ ادراک کا درست تجزیہ، ضروری ہے۔

الماتریدی کہتے ہیں؛ العقل و النقل مصدران من مصادر المعرفة۔ عقل کے ماتحت جن مدارک علوم تک رسائی حاصل کرتے ہیں، ان میں حواس کو ایک وسیلہ علم و معرفت ظاہر کرتے ہیں۔ پھر عقل ہی کو یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ حواس اور ان ادراک کی تحدید کر سکے۔

١٤ – جیسا کہ عرض کیا تھا، اہل سنت کے کلامی معتقدات میں الماتریدی رحمہ اللہ کے کلامی تصورات، الاشعری رحمہ اللہ کے کلامی معتقدات کی نسبت زیادہ قابل اعتماد اور قرین قیاس معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کلامی معتقدات، الماتریدی کے ہوں چاہے الاشعری کے ہوں، علمی و دینی اعتبار سے جن مشکلات پر استوار ہیں، کسی طرح سے بھی وہ قابل تحسین ہیں اور نہ قابل قبول ہیں۔ جب آپ آغاز ہی میں یہ فرض کر لیتے ہیں کہ وحی اور غیروحی میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے اور نہ نتائج کے اعتبار سے دونوں ایک دوسرے سے ممتاز و منفرد ہیں تو یہ بات آپ کے شعور کے کسی نہاں خانے میں ضرور پڑی ہوتی ہے کہ نبوت یا وحی کا ہونا اور نہ ہونا ایک شے ہے۔

اب دیکھئے؛ الماتریدی رحمہ اللہ کے نزدیک “خبر” ایک ذریعہ علم ہے، اس کے ذریعہ علم ہونے کو دلائل سے ثابت کرنے کے بعد، اس کی تین اقسام بیان کرتے ہیں، اخبار الرسل، الخبر المتواتر، الخبر الواحد۔ ان کا خیال ہے بطور ذریعہ علم یہ تینوں مفید العلم وسائل ہیں۔ خاص طور پر ان کے نزدیک اخبار الرسل اور الخبر المتواتر سے “سچی معرفت” یا المعرفة الصادقة کے وسائل ہیں۔ گویا جب کوئی خبر “حد تواتر: کو پہنچ جاتی ہے تو اس کی تصدیق و تکذیب بھی اخبار الرسل کی طرح کفر و ایمان کا سبب بن سکتی ہے۔ ظاہر ہے، الماتریدی، بحیثیت ایک مسلمان مفکر اس پوزیشن کو کبھی قبول نہیں کریں۔ لیکن ان کا علمی موقف اس نتیجے کو پیدا کئے بغیر رہ نہیں سکتا۔

متکلمین نے ایمان اور علم کے فرق کی طرف کبھی توجہ نہیں دی، اگر دیتے تو اخبار الرسل اور خبر متواتر دونوں کو یکساں مفید العلم کبھی نہ مانتے۔ ایمان بالغیب بہت مختلف شے ہے جبکہ علم بالحواس بہت مختلف شے ہے۔

ایمان بالغیب کے مفہوم و مدلول نہ سمجھنے سے عجب قسم کی غلط فہمیاں وجود میں آ جاتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں، اس وجہ سے آپ علیہ السلام پر ہمارا ایمان بالغیب ہے، یہ ایک غلط دعوی ہے اور غلط فہمی پر مبنی ہے۔ آپ علیہ السلام کی زندگی میں بھی آپ علیہ السلام پر جو لوگ ایمان لائے تھے، ان کا ایمان بھی، ایمان بالغیب ہی تھا۔ حیات دنیوی میں غیابت زمانی ہو چاہے مکانی ہو، اس غیابت سے اسے کیا نسبت جو غیابت، موضوع ایمان ہے۔ ان دونوں میں غیابت صغری اور غیابت کبری والی نسبت بھی نہیں ہے۔ نیز علم اور ایمان دونوں یکساں مفید العلم بھی نہیں ھیں۔ وہ علم جسے انسان اپنے فطری وسائل natural avenues سے حاصل کرتا ہے، اشیاء کے زمانی و مکانی مظاہر spatiotemporal appearances تک محدود ہوتا ہے۔ شے فی نفسہ اس کا موضوع بن سکتی ہے اور نہ اس کی گرفت میں کبھی آ سکتی ہے۔ اس کے برعکس علم بالوحی جسے الماتریدی رحمہ اللہ اخبار الرسل کا نام دے رہے ہیں، وہ حقیقت نفس الامری کا علم ہے۔ پھر یہ خبر متواتر اور اخبار الرسل بحیثیت ذرائع علم یکساں مفید علم کیونکر ہو سکتے ہیں؟

خرابی کی جڑ وہی ہے جو پہلے ہم عرض کر چکے ہیں۔ علم کلام کا یہ مفروضہ اولیہ ہی باطل ہے کہ دینی محتویات کی تصدیق و تکذیب کا وسیلہ نبی علیہ السلام کے دعوی نبوت کی تصدیق و تکذیب کے سواء ممکن ہے۔ ایمان کے محتویات کو تاریخ کے محتویات پر قیاس کرنا عقل مندی ہے اور نہ ہی یہ علمی دیانت کا مظاہرہ ہے۔ ماضی کے واقعات کی تحقیق اور اس کے نتیجے میں حاصل تحقیق کی تصدیق و تکذیب محتمل الوجوہ ہوتی ہے۔ اس کے متعلق تامل و تفتیش انسان کی ذاتی پسند و ناپسند کی مرہون منت ہوتی ہے۔

علم بالوحی یا اخبار الرسل کی تصدیق و تکذیب اگر آپ کی خواہش یا پسند و ناپسند پر مبنی ہے تو یہ بہت عارضی شے ہے۔ دین اور شعور دین میں یہ تصدیق و تکذیب بے معنی ہے۔ الماتریدی رحمہ اللہ ہی نہیں، تقریباً‌ ہر متکلم اس مشکل کا ادراک کرتا ہے اور نہ اسے اہمیت دیتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے، ان تمام عقلی توانائی بے نتیجہ رہ جاتی ہے۔ ایمان اور علم دو مماثل فضائل ہیں، دونوں کے مابین فرق پیش نظر نہ رکھا جائے تو التباس پیدا ہو جاتا ہے۔ علم التباس گزیدہ ہو تو گزارہ ہو جاتا ہے جبکہ ایمان میں التباس بہت زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

(جاری)


ڈاکٹر خضر یاسین  اقبال اکادمی لاہور کے ساتھ بطور ریسرچ اسکالر وابستہ ہیں اور فلسفہ اور  دینی علوم پر اظہار خیال کرتے ہیں۔

(6) Khazir Yasin | Facebook

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں