Home » علم کلام کی علمی اور دینی حیثیت -1
اسلامی فکری روایت فلسفہ کلام

علم کلام کی علمی اور دینی حیثیت -1

 

ڈاکٹر خضر یاسین

 

۱۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ تمام انسانی علوم کی طرح علم کلام کی روایت اور تاریخ اس علم “علمی حیثیت” متعین کرنے کا معیار ہے اور نہ دلیل ہے۔ روایتی تسلسل اور تاریخی طوالت انسان کے وضع کردہ کسی بھی نظام فکر و عمل کے درست ہونے علامت یا دلیل کبھی نہیں ہوتا۔ انسانی فکر و عمل میں ارتقاء کا پراسیس فکر و عمل کے جن حشو و زوائد کو کاٹ کر ایک طرف پھینک دیتا ہے، ان میں سے بعض، اپنے وقت کے دورانیے میں حیران کن یقین کے حامل نظام فکر و عمل ہوا کرتے ہیں۔ لیکن پھر وہ وقت آ جاتا ہے جس میں فکر کے ارتقائی عمل کے ذریعے وہ تمام تصورات اور مسلمات لغو اور بیہودہ ہفوات بن جاتے ہیں اور تاریخ کے کباڑ خانے دفن ہو جاتے ہیں۔ علم کلام بھی فکر انسانی کے ان تصورات اور مسلمات میں سے ایک ہے جنہیں علمی و ایمانی حشو و زوائد سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں ہے۔ علم کلام کے اصول و مبادی کی relevancy and validity اب صرف ان لوگوں کے ہاں باقی ہے جن کو یہ غلط فہمی ہے کہ روایت اور تاریخ کا طویل دورانیہ اس کے درست اور برحق ہونے کی دلیل ہے۔

علم کلام جس بنیادی اصول پر اپنی عمارت اٹھاتا ہے، وہی اصول اس علم کی غایت کا قاتل ہے۔ جن لوگوں کو اس علم کے مقدمات کا شعور ہے اور غایت کا ادراک ہے، وہ یہ سمجھنے میں خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں کہ یہ علم علمی یا دینی لحاظ سے کار آمد ہے۔ اب پہلے ہم اس علم کی وہ غایت جس کے حصول کا یہ علم ذریعہ ہے، اسے ان لوگوں نے بیان کیا ہے جنہیں اس علم کے اساطین مانا جاتا ہے۔

اس علم کی غایت، “دینی معتقدات” کو عقل نظری کے اصولوں پر درست ثابت کرنا اس علم کی اصل غایت ہے۔ گویا جو حقائق علم بالوحی ہیں انہیں انسانی استعداد کے زائیدہ علم سے ہم آہنگ ظاہر کرنا اس علم کا مقصد ہے۔ علم بالوحی باعتبار یقین و ایمان جس درجے کا حامل ہے، اس کے ہوتے ہوئے، ایمان و یقین کے حصول کے لئے کسی دوسرے علم کی طرف متوجہ ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایمان و یقین کا وہ دوسرا سورس اگر وحی سے زیادہ قابل اعتماد سورس نہیں تو کم از کم اس کے برابر ضرور ہے۔

علم کلام اس preconceived Metaphysical assumption پر کھڑا ہے کہ ہمارا دین و ایمان صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مقدس پر اعتماد پر نہیں کھڑا، ہمارے پاس ان معتقدات کو درست ثابت کرنے کے اور وسائل بھی ہیں۔ گویا مسلمانوں کے نزدیک جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مقدس سے زیادہ اہم سورس دریافت ہوئے تو وہ ان کے ذریعے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کو درست ثابت کرنے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں یہ نام نہاد “علم” سامنے آیا۔  اس علم کا کمال یہ ہے کہ ایمان النبی کے محتویات درست ثابت کرنے کے لئے ایمان بالنبی قربان پڑتا ہے۔

٢ – زوال سیرت دراصل زوال ایمان کا نتیجہ ہوتا ہے یا یوں کہیں کہ زوال ایمان زوال سیرت کو مستلزم ہوتا ہے۔ مسلم معاشرت میں زوال کا آغاز کب سے شروع ہوا، اسے طے کرنا، مشکل بلکہ جان جوکھوں میں ڈالنے والی بات ہے۔ اجتماعی زندگی کا اثر فرد پر پڑتا ہے اور دھیرے دھیرے اس کی زندگی ایمان کی حدود سے خارج ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ دین و ایمان نام کی حد تک باقی رہتا ہے اور حقیقت بالکل نسیاً‌ منسیاً‌ ہو جاتی ہے۔

مسلم معاشرت کے دینی زوال کو دینی کلچر کے اوتادوں نے جب محسوس کرنا شروع کیا، اس وقت تک وہ خود زوال سیرت کا شکار ہو چکے تھے۔ اس دور زوال میں دین و ایمان کو بچانے کے لئے جتنے علاج معالجے تیار کیے گئے تھے، وہ سب اسی زوال کی پیداوار تھے۔ دینی معتقدات کی حفاظت کے لئے ایمان بالنبی اور ایمان بالنبوت کی اہمیت اجاگر کرنے کے بجائے، ایمان بالغیب کو ایک فطری نقص کا حامل عقیدہ سمجھا گیا اور اس کے ازالے کے لئے ایک نیا ہتھیار تیار کرنا پڑا اور ہتھیار علم کلام تھا۔

علم کلام جن دینی معتقدات کو عقلی استدلال سے ثابت کرنا چاہتا ہے، وہ معتقدات مخالف کے لئے قابل قبول نہیں ہیں۔ مکالمہ و مباحثہ جس شرط پر بارآور ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ فریقین قدر مشترک سے اپنے مکالمے کا آغاز کریں گے۔ لہذا متکلم یا علم کلام کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والے کے لئے سب سے پہلے ایمان بالغیب کے تمام محتویات کو اٹھا کر ایک طرف رکھنا ہے۔ وہ دینی معتقدات کو مسلمات فکر و نظر نہیں بناتا۔ اسے مخاطب کو فکری رعایت دینی ہے اور دین کو یہ رعایت نہیں دینی۔

متکلم چاہتا ہے کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے بات کا آغاز نہ کرے بلکہ ایک عقل مند انسان کی حیثیت سے مخاطب ہو کر اس نتیجے پر پہنچے کہ دینی معتقدات جن پر اس کا ایمان بالغیب ہے، مخالف کے دینی معتقدات نہ رہیں بلکہ عقلی مسلمات اور عقلی حقائق بن جائیں۔ لیکن اگر یہ درست ہے کہ دینی معتقدات عقلی حقائق اور فکری مسلمات کی شکل اختیار کر سکتے ہیں تو دین کا یہ مطالبہ کہ اس پر ایمان بالغیب واجب ہے، ایک تکلف بن جاتا ہے۔  لیکن ایک متکلم چونکہ اپنے کام کی حقیقت سے واقف ہی نہیں ہوتا، اس لئے وہ سمجھتا ہے کہ دین کی یہ بہت بڑی خدمت ہے۔

٣ – علم کلام دراصل دین پر غیرمشروط اعتماد و ایمان کے خلاف پیدا ہونے والی فضا کے خاتمے کی جدوجہد تھی۔ جس میں جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر غیرمشروط ایمان و اعتماد کے خلاف تشکیک و تذبذب کو مسلم مفکرین نے غیرایمانی طریقے سے ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مقدس پر غیرمشروط ایمان و اعتماد کی فضیلت اور افضلیت پیدا کرنے کے وسائل کی طرف توجہ مرکوز کی جاتی۔ لیکن متکلمین نے غیرمشروط ایمان و یقین میں اضافے کے وسائل ڈھونڈنے چھوڑ کر ایسے وسائل اعتماد تلاش کرنے میں پڑ گئے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان بالغیب کے سواء تھے۔ اس نقص کو اس کی حالت پر برقرار رھنے دیا اور اصلاح احوال کی وہ جدوجہد کی جانے لگی جو ایمان بالغیب کو غیراہم بنا دیتی تھی۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مقدس پر ایمان و اعتماد کو نظرانداز کر دینا، حیران کن بات تھی اور یہ ایمانی طرز عمل بھی نہ تھا۔

دین کا پہلا اور آخری مطالبہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سچا نبی ماننا ہے، اس تصدیق کے سواء دین و ایمان کسی شے کا نام نہیں ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان بالغیب اصل دین ہے۔ ایمان کے باقی تمام محتویات اس کے بعد قابل قبول ہیں۔ وجود باری تعالی، توحید باری تعالی، ایمان بالانبیاء، ایمان بیوم الاخرہ، جنت و دوزخ وغیرہ یہ ایمان بالنبی کے وہ محتویات ہیں جن کی اصل ایمان بالنبی ہے۔ متکلمین اگر اپنے کلام سے لوگوں کو ایمان بالغیب کی طرف بلا رہے تھے تو عقلاً‌ خود یہ بے ربط اور لایعنی بات تھی۔ اس لئے کہ عقلی وجود “استحضار محض” mere presence ہے۔ ایمان بالغیب کا مقدمہ نہیں بن سکتا کیونکہ عقلی وجود خارج میں موجود میرے جیسے ایک انسان ک پر غیرمشروط ایمان و یقین کو کبھی مستلزم نہیں ہو سکتا۔ متکلمین کی یہ خواہش نہ صرف عقلمندی نہ تھی بلکہ عملاً‌ بھی واقعہ ہونے کی اہلیت سے محروم تھی۔

اگر متکلمین کی پوری جدوجہد بالآخر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان بالغیب کی طرف لاتی ہے تو عقل کی یہ ساری جدوجہد لغو اور لایعنی ہو جاتی ہے۔

بالعموم کہا جاتا ہے کہ متکلمین مخاطب کے تفہیمی فریم ورک میں بات کرنا چاہتے تھے۔ مخاطب کی رعایت کرتے ہوئے اس کے مقولات فہم میں اپنا مدعا بیان کرتے تھے۔ مخاطب کی رعایت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر غیرمشروط ایمان و اعتماد کی قربانی مانگے تو کیا آپ دے دیں گے؟ ممکن ہے ایک متکلم کا جواب اثبات میں ہو، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ دین پر عقل کی برتری ثابت کرنے کے سواء ایک متکلم کی کوئی غایت نہیں ہوتی۔

الوہیت اور انسانیت کے مابین کوئی اشتراکی نسبت ہوتی تو اللہ تعالٰی کی تشبیہی اور تنزیہی صفات کا کوئی مسئلہ پیدا ہوتا۔ الوہیت انسانیت کی سو فیصد نفی ہے، اسی طرح انسانیت الوہیت کی سو فیصد نفی ہے تو صفات باری تعالی میں یہ تقسیم غیرضروری تھی بلکہ غلط تھی۔ جو صفت الوہیت کی طرف منسوب ہو، اس کی ادنی درجے کی نسبت بھی انسانیت کی طرف ممکن نہیں ہے اور اسی طرح جو صفت انسانیت کی طرف منسوب ہو، اس کا الوہیت سے ادنی درجے کا تعلق ممکن نہیں ہے۔ الوہی صفات محض “صفات اللہ” ہونے کی وجہ سے، انسان کی صفات سے ممتاز و منفرد ہیں۔ متکلمین کی یہ تقسیم جو صفات الہیہ کے حوالے سے تنزیہی اور تشبیہی کے نام سے کی گئی ہے، اس غلط فہمی پر مبنی تھی کہ انسانی صفات اور الوہی میں اشتراک ممکن ہے۔

٤ – الوہیت اور انسانیت میں نوعیت کا فرق نہیں ہے بلکہ ماہیت کا فرق ہے۔ ان دونوں میں قوت و ضعف، صغر و کبر، تقدم و تاخر اور نقص و کمال کے مدارج کا ہی نہیں ہے، ماہیتوں کا فرق بھی ہے جو مذکور ماقبل مدارج کی تقسیم خود بخود غیرضروری بنا دیتا ہے۔ الوہیت اور انسانیت دونوں موجود ہیں مگر اس طرح سے ایک دوسرے آمنے سامنے نہیں کہ ایک کا تقابل دوسرے سے ممکن ہو۔ اللہ تعالی موجود ہے اور اس کی موجودیت انسان اور انسان کی حقیقت یعنی انسانیت کی تحدید ہے اور نہ الوہیت کی تحدید ہے۔ انسان کا علم، اخلاق، آرٹ اور مذہبی تصورات، الوہی علم، تخلیق، قدرت، اختیار اور ارادے سے متصادم نہیں ہیں۔ متکلمین نے بلاوجہ یہ تصور بنا رکھا ہے کہ وجود باری تعالی اور اس کی صفات، انسان اور اس کی حقیقت سے متصادم ہیں اور اس تصادم کو ہم نے رفع کرنا ہے۔

وحی کے تمام محتویات انسان کا ادراک ذاتی نہیں ہے۔ اللہ تعالی کی تمام صفات بذریعہ وحی انسان کو معلوم ہوئی ہیں۔ چونکہ وحی، انسان کا معمولی یا غیرمعمولی وسیلہ علم و ادراک نہیں ہے، اس لئے اس کے بیان تک محدود نہ رہنا اور عقلی قیاس کے ذریعے اس بیان کو بڑھانا اور گھٹانا عقلمندی ہے اور نہ دینی ضرورت ہے۔

انسانی کے علم و ادراک کا انتہائی تجزیہ ultimate analysis عامیانہ عقل و شعور کے بس کی شے نہیں ہے، یہ غیرمعمولی ذہنی استعداد رکھنے والے کا کام ہے۔ یہ تجزیہ صرف فلسفیانہ شعور کی تربیت یافتہ انکوائری سے ممکن ہوتا ہے۔ میں نے بعض عقل مندوں سے ملا ہوں جو سمجھتے ہیں، جن فلاسفہ نے مقولات categories کا چارٹ ورک آؤٹ کیا ہے، اپنی طرف سے مقولات وضع کی ہیں۔ ان عقلمندوں کو معلوم نہیں ہے کہ categories یا مقولات، شعور کی فلسفیانہ انکوائری کے دوران منکشف ہوتی ہیں اور چارٹ تیار کرنے والا انہیں خود سے نہیں بناتا بلکہ تمام مقولات اور ان کے متعلقہ ذیلی مقولات دریافت کی انکوائری کے دوران میں دریافت ہوتی ہیں۔ خیر یہ دوسرا موضوع ہے۔

علم کلام میں صفات باری تعالی پر اس طرح سے بحث کی جاتی ہے جیسے وہ انسان کا ادراک ذاتی ہو۔ الوہی صفات کو انسانی صفات سے محض الوہیت و انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے ممتاز نہ مانا جائے یا الوہی صفات کو انسانی صفات پر کسی بھی حوالے سے قیاس کیا جائے تو عقلی تناقض intellectual dichotomy سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ باری تعالی کی ہر صفت الوہی صفت ہے، اس لئے وہ منزہ عن المخلوق ہے۔ تناقض کا ہر وہ معیار لغو و لایعنی ہے، جس کا اطلاق انسانی مدرکات میں امکان کی سطح پر ہی قابل قیاس کیوں نہ ہو۔

باری تعالی اور اس کی مخلوق میں جن جن صفات میں “بیانی مماثلت” expressional analogy پائی جاتی ہے، وہ محض بیانی مماثلت ہے۔ اس مماثلت کو حقیقی مماثلت ماننا یا اسے حقیقت پر محمول کرنے کی غلطی نے بڑے بڑے فکری مغالطے پیدا کئے ہیں۔ ان فکری مغالطوں کو بدقسمتی سے دین و ایمان میں تناقض سمجھ لیا گیا اور ان کو رفع کرنے کے پیچھے بڑے بڑے مسلم ذہن برباد ہو گئے ہیں۔

باری تعالی کی ذات و صفات الوہی ذات و صفات ہے، اس ذات و صفات کے متعلق انسان کا علم ایمانی نہ ہو اور وہ ان کی طرف علمی ایمان سے بڑھنے کی کوشش کرے تو اس مصیبت میں ضرور بالضرور پڑ جاتا ہے، جس میں گروہ متکلمین پڑے ہیں۔

٥ – جس طرح ہم انسان وجود باری تعالی کے لئے علم بالوحی کے محتاج ہیں، بعینہ صفات باری کے لئے بھی علم بالوحی کے بغیر یہاں بھی ایک قدم نہیں چل سکتے۔ باری تعالی کی ذات و صفات انسان کا تجربہ ہے اور نہ “منزل اخبار کے سواء اس کے پاس وسائل فہم و ادراک ہیں۔ عقل و شعور کے وسائل سے باری تعالی کی ذات و صفات میں کمی بیشی نہیں کی جا سکتی۔ صفات باری تعالی کی نسبت یہ حکم کہ وہ ازلی و ابدی ہیں، خالص عقلی نوعیت کا حکم ہے۔ منزل اخبار میں اس حکم کی تائید پائی جاتی ہے اور نہ تردید آئی ہے۔ ازل اور ابد دونوں جب عقلی ادراک میں آتے ہیں تو عقل ان کے متعلق یہ فیصلہ دیتا ہے کہ یہ زمان و مکان کی قیود سے باہر کچھ ہے، جسے زمانی کہا جا سکتا ہے اور نہ مکانی کہا جا سکتا ہے۔ جبکہ عام لسانی بلکہ لسانیاتی مکالمے اور محاورے میں ازل و ابد، زمانی اعتبار سے غیرمعمولی مدت یا دورانیے کے لئے بولا جاتا ہے۔

اللہ تعالٰی کی وہ صفات جن کا علم بذریعہ وحی ہم تک پہنچا ہے جیسے حیات، علم، قدرت، ارادہ، سمع، بصر،کلام، جلال، اکرام، جود و سخا، انعام، عزت، عظمت یہ سب صفات اس کی ذات میں ہیں مگر ان کے اثبات و تشکیل میں انسان کے ذاتی فہم و ادراک کو دخل نہیں۔ صفات باری تعالی کا انسان خود سے مثبت ہے اور نہ منکر ہے، ان پر ایمان رکھتا ہے یا ان کا انکار کرتا ہے۔ متکلمین کے دو گروہ ہیں ایک صفاتیہ کہلاتے ہیں اور دوسرے معطلہ کہلاتے ہیں۔ صفاتیہ ہوں چاہے معطلہ ہوں، دونوں وجود باری تعالی اور اس کی صفات میں انسان عقل کو سیکھنے اور سمجھنے والی سمت نہیں رکھتے۔

میں اللہ تعالی کی ہستی اور اس کی انہیں صفات پر سو فیصد قانع ہوں اور مطمئن ہوں جو وحی کے وسیلے سے مجھ تک پہنچی ہیں، ان کی صداقت پر میں ایمان رکھتا ہوں۔

مالك بن انس رضى الله عنه کی طرف ایک قول منسوب ہے،

الاستواء معلوم و الكيفية مجهولة و الإيمان به واجب و السؤال عنه بدعة.

میری گزارش یہ ہے کہ کیفیت کی جانب آپ کی توجہ مرکوز ہو گی تب آپ یہ کہیں گے کہ و الکیفية مجهولة۔ الاستواء، یدین، اعین جن کا ذکر وحی خداوندی میں آیا ہے، ان کے متعلق آپ اسی حد میں رہیں جہاں تک بیان کیا گیا ہے۔ الستواء کے متعلق سوال کو اسلاف بدعت مانتے تھے، لیکن ہمارے ہاں پائے در پائے لایعنی سوال اور وہ بھی صفات اللہ کے متعلق علم و ہنر مانا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک متکلم اس وقت تک مطمئن نہیں ہوتا جب تک وہ صفات باری تعالی کو مقولہ کیف کے تحت لا کر نہ رکہے۔

ذات و صفات باری تعالی کو مقولہ کیف کے تحت لانے والے اولین کلامی مکاتب میں اختلاف کی اصل وجہ کیفیت کا اختلاف تھا۔ اگر کیفیت کو کسی درجے میں آپ سوالیہ نشان بنا دیتے ہیں تو یہ خود ایک ایسا موقف ہے جس میں اختلافات کی گنجائش خود بخود پیدا ہو جاتی ہے۔

٦ – اسلام کے اساسی معتقدات میں، راس العقائد یہ عقیدہ ہے کہ الوہیت اور انسانیت میں ادنی ترین درجے کا اشتراک محال ہے۔ انسان کسی معنی اور کسی لحاظ الوہیت سے متصف نہیں ہے اور اللہ تعالٰی کسی معنی اور کسی لحاظ سے انسانیت کے عنوان کے ماتحت نہیں ہے۔ لیکن متکلمین نے جب اتنے اہم اور راس العقائد “ایمانی تصور” کو بالکل نظرانداز کیا تو جن مسائل اور فکری مشکلات کا انہیں سامنا کرنا پڑا، ہماری تاریخ عقلیات میں اس سے زیادہ حیران کن اضطراب کسی دوسرے ڈسپلن میں کم ہی نظر آئے گا۔

خلق قرآن کے مسئلے پر متکلمین کے دونوں گروہ یعنی صفاتیہ اور معطلہ میں سے کسی ایک کا موقف بھی درست نہیں تھا۔ وجہ وہی تھی جو اوپر بیان کی ہے، دونوں الوہیت اور انسانیت میں چند صفات مشترک مانتے تھے۔ اہل سنت نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کلام کو دو قسموں یا نوعوں میں تقسیم کیا۔ کلام نفسی اور کلام لفظی، کلام نفسی کیا ہے؟ اس کا معنی و مدلول کلام لفظی کے معنی و مدلول سے کن اصول و شرائط پر مختلف ہے؟ ان تمام سوالات کا تشفی بخش جواب بالفرض دے دیا جائے تب بھی وہ مشکل حل نہیں ہوتی جسے وہ حل کرنا چاہتے تھے۔

کلام نفسی ایسے کلام کو کہا جاتا ہے جو صرف متکلم کے شعور تک محدود ہو اور اس سے دوسرا کوئی آگاہ نہ ہو بلکہ دوسرا کوئی آگاہ نہ سکتا ہو۔ لیکن نفس میں ایسے معنی کا وجود ممکن نہیں ہے، جس کے مقابل، اظہار کے لئے لفظ نہ ہوں۔ لفظ کے بغیر معنی اور معنی کے بغیر لفظ ممکن نہیں ہے۔ لفظ نہیں ہو گا تو معنی بھی نہیں ہو گا، اگرچہ ایسا لفظ ممکن ہے جو کسی معنی پر دلالت نہ کرتا ہو۔ لیکن ایسا معنی ممکن نہیں ہے جس کے اظہار کے لئے لفظ نہ ہو۔ لہذا ہر نفسی کلام بہرحال لفظی ہوتا ہے لیکن ہر لفظی کلام نفسی کلام نہیں ہو سکتا۔ اہم بات یہ ہے کہ کلام کی یہ انواع انسانی کلام کے لئے تو ممکن ہیں مگر نفس الہیہ کے لئے ان انواع کو جائز خیال کرنا، کیونکر ممکن ہو گا، متکلمین اس سوال سے تعرض نہیں کرتے۔

متکلمین کے نزدیک الوہیت اور انسانیت کی تقسم مقدم ہوتی تو سب سے پہلے الوہی کلام اور انسانی کلام کی تقسیم پیش کرتے۔ کلام اللہ کو کلام الانسان سے الوہیت اور انسانیت کی تقسیم کے حوالے سے ممتاز و منفرد کیا جاتا تو مابعد کے مسائل خود بخود غیرضروری ہو جاتے، جن پر بہترین اذہان نے اپنی اعلی صلاحیتوں کو برباد کیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ قدم اور حدوث، انسانی مدرکات کی صفات ہیں۔ یہ معروض کی صفات نہیں ہیں۔ قدم وجود ذہنی کی ایک صفت ہے اور حدوث وجود خارجی کی ایک صفت ہے۔ متکلمین نے قدم اور حدوث کو معروض کی صفات بنا دیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ ماونٹ ایورسٹ سے بڑی غلطی تھی اور اس سے بڑی غلطی یہ ہے کہ قدم کو ذات باری تعالی کی صفت قرار دے ڈالا ہے۔

٧ – مسلم متکلمین آج کے جدیدیت پسندوں کی طرح یہ فرض کرتے رہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی انسانی شخصیت اور کردار، آپ علیہ السلام کے دعوی نبوت کی سچائی کے لئے پیش کرنے کا اہل نہیں ہے یا کم از کم اس سے زیادہ بڑے ثبوت ہمارے ہاتھ میں ہیں۔ آپ علیہ السلام کی نبوت کے محتویات کو مابعد الطبیعیاتی فلسفہ بنا کر پیش کرنا، متکلمین کے نزدیک زیادہ موثر اور زیادہ قرین قیاس طریقہ ہے۔ لیکن قدیم و جدید متکلمین یہ حقیقت سمجھنے میں ناکام رہے کہ عقلی مابعد الطبیعیات میں پیش کئے جانے والے تمام دلائل دو دھاری تلوار ہوتے ہیں۔ جس منہج پر کسی عقلی مفروضے کا قرار ثابت کیا جا سکتا ہے، اسی منہج پر اتنی ہی شدت کے ساتھ اس کا انکار بھی ثابت ہو جاتا ہے۔ مزید برآں یہ ہے کہ عقلی ادراک کی تمام داخلی ضروریات بالفرض پوری کر دی جائیں اور تمام تناقضات رفع ہو جائیں تب بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان عقلی مدرکات کے بالمقابل خارج میں حقیقت بھی ویسی ہی ہے جیسی بیان کی گئی ہے یا کم از کم ان عقلی مدرکات کے مقابل کوئی حقیقت واقعتا موجود ہے۔

وجود باری تعالی اگر ایک مابعد الطبیعی مسلمہ ہے تو اس مسلمے کا اقرار و انکار صرف اور صرف آپ کے میلان طبع پر منحصر ہے۔ آپ کا میلان اقرار کی جانب ہے تو نتیجہ مثبت ہے اور اگر انکار کی طرف ہے تو نتیجہ منفی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ کا میلان طبع یہاں کوئی رول ادا نہیں کرتا۔

لیکن جب یہ سوال کیا جائے کہ وجود باری تعالی کے اس ثابت شدہ تصور اور ذات باری تعالی میں ہم آہنگی کیسے ثابت ہو گی؟ تو متکلمین کے پاس اس کے جواب کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے۔

واقعہ یہ ہے، دین و ایمان کی بیخ کنی میں خاموش زہر slow poisoning کا جو کردار علم کلام کے جواز و نشوونما نے ادا کیا ہے ہے وہ تو صریح کفر نے بھی نہیں کیا۔ اس لئے کہ اس سے جس اصل الاصول اور جوہر الجواہر کو بطور خدا پیش کیا جاتا ہے، وہ مذہب کا بیان کردہ خدا نہیں ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ واجب الوجود ایک ایسا تصور ہے جو ہر اعتبار سے واجب ہے اور امکان کو اس میں دخل نہیں ہے۔ اس کا علم و ادراک اور ارادہ، بالفعل موجود ہوتا ہے۔ اس میں مستقبل نہ بطور امکان موجود ہے اور نہ اس طور موجود ہے کہ کچھ اس میں اپنے ظہور کا منتظر پڑا ہو۔ واجب الوجود بالقوہ اور بالفعل امکان سے مبرا ہے۔ اب اگر متکلمین کا ثابت کیا ہوا، خدا واجب الوجود ہے تو انسان کے اعمال میں دخل انداز نہیں ہو سکتا۔ خدا کے مقابل انسان امکانی ہستی ہے۔ دونوں میں ربط و تعلق کی کوئی صورت ممکن ہی نہیں ہے۔

کم از کم انسان اس سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرنے میں حق بجانب نہیں ہو سکتا۔ اس لئے کہ مغفرت اور عقوبت دونوں اس کے اختیاری اور ارادی اعمال نہیں ھیں۔ اس کے وجوب ذات کا تقاضا ہے کہ وہ مجبور ہو کر انسانوں کو جزا دے یا سزا دے۔

٨ – علم کلام کی دینی حیثیت کا تعین اس شرط سے مشروط ہے کہ اس علم کے مقدم مفروضات preconceived assumptions کیا ہے؟ یعنی اس علم یا ڈسپلن میں داخل ہونے سے پہلے کیا فرض کرنا پڑتا ہے؟ گذشتہ نکات میں ہم انہیں مشکلات کو مختلف طریقوں سے بیان کرتے آئے ہیں۔ یہ علم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مقدس پر غیرمشروط اعتماد زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھا جا سکتا، لہذا دیگر وسائل اعتماد کی طرف متوجہ ہونے کی ہمیں ضرورت ہے۔ علم کلام کی رو سے یہ وسائل اعتماد، خبر، حس، عقل و منطق اور فکر و نظر یا استدلال ہیں۔

علم کلام کی دینی حیثیت یہ ہے کہ یہ دین کو “منزل من اللہ” حقائق و فضائل مان کر اپنی انکوائری آگے نہیں بڑھاتا بلکہ پہلے دین کو ایک عقلی نظام فکر و نظر بناتا ہے اور آخر تک یہی ثابت کرنے میں مصروف رہتا ہے کہ دین ایک complete comprehensive system of thought ہے۔ یہ درست ہے کہ علم کلام اپنی نہاد میں مذہبی ڈسپلن ہے مگر اس کی پوری انکوائری اور پروسیڈنگ، نظریاتی اور نظری تصورات پر کھڑی کی جاتی ہے۔

جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ علم کلام کے ماہرین الوہیت اور انسانیت میں ماہیت کا فرق نہیں مانتے بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ الوہیت اور انسانیت میں نوعیت کا فرق ہے۔ بندے اور  خدا کے مابین وجودی سطح ایسے مشترکات پائے جاتے ہیں، جن پر ایک جیسے کلمات کا مفہوم و مدلول یکساں اطلاق پذیر ہو سکتا ہے۔ مثلا “ید اللہ” اور ید الانسان میں مضاف الیہ کی نسبت سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لہذا اصل شے نسبت نہیں بلکہ منسوب ہے۔

قدیم متکلمین کے سربرآوردہ کتب میں ماتریدی رحمہ اللہ کی کتاب التوحید پڑھ کر آپ آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ سبل العلم، یعنی وہ وسائل جن سے انسان اشیاء کی حقیقت کا علم حاصل کر سکتا ہے، تین بتاتے ہیں۔ خبر، حس اور استدلال۔ خبر سے ان کی مراد “خبر عن اللہ” ہے۔ اس خبر کی سچائی کے پرکھنے کا معیار وہی ہے جو انسان کے وسائل امتحان کے دائرے میں آ سکتی ہے۔ لیکن “خبر عن اللہ” کی صحت کو پرکھنے کا معیار وہ کبھی نہیں ہو سکتا جو انسان اور اس کے ماحول کے متعلق خبر کو پرکھنے کے لئے کار آمد ہوتا ہے۔ انسان جب کسی خبر کی سچائی کی جستجو کرتا ہے تو اس کا سب سے پہلا وسیلہ حس ہوتا ہے۔ ایک حس کے دائرے میں جو خبر درست ثابت ہوتی ہے، اس سے باہر اس کے درست ہونے کا دعوی تو کیا جا سکتا ہے مگر اس سے “حکم مطلق” کا انتزاع محل نظر ہوتا ہے۔ جیسے نظریہ ارتقاء کی بنیاد ذی حیات جسم کی نشو و نما ہے۔ یہ درست ہے کہ ایک ذی حیات ہستی کا آغاز جرثومے سے ہوتا ہے اور ترقی کرتے کرتے ایک قائم بالذات شخص بن جاتا ہے۔ جیسے ایک بچہ جوان ہو جاتا ہے، یوں ایک ذی حیات جسم کی نشوونما قابل مشاہدہ حقیقت بن کر ہمارے مابین موجود ہوتی ہے۔ لیکن نظریہ ارتقاء کا ماننا ہے کہ ارتقاء صرف ایک ذی حیات جسم نہیں ہے بلکہ پوری اقلیم حیات میں پایا جاتا ہے۔ اب یہ ایک دعوی ہے جو صرف فکری ولولے کا نتیجہ ہے۔ اس سے پوری اقلیم حیات میں ارتقاء ثابت نہیں ہو جاتا۔

ہمارے دائرہ حواس میں تغیر حدوث کی علت ہے تو اس سے پوری کائنات کیسے حادث ثابت ہو جائے گی؟ اس سے کل کائنات کا نہ حدوث و قدم ثابت ہوتا ہے اور کل کائنات کے حدوث و قدم کی نفی ثابت ہوتی ہے۔

“خبر عن اللہ” کو درست ثابت کرنا، استدلال کے بس کی بات نہیں ہے اور نہ ہی عالم کا حدوث و قدم استدلال سے ممکن الحصول ہے۔ عالم کے حدوث و قدم پر دی جانے والی ہر دلیل اسی طرح کے مغالطے پر قائم ہوتی ہے، جسے متکلم بلاوجہ فرض کر لیتا ہے کہ کائنات کے حدوث و قدم پر اس دعوی بلا دلیل نہیں ہے۔

“خبر عن اللہ” کے سلسلے میں نظری فکر جس حقیقی مشکل کا شکار ہوتا ہے، جدید و قدیم متکلمین اس کا درست شعور حاصل کر سکے ہیں اور نہ اس کا حقیقی اندازہ لگا پائے ہیں۔ “خبر عن اللہ” پر ایمان بالغیب کیوں ضروری ہے؟ اس لئے کہ ہم اس زندگی میں اس کی سچائی کا مشاہدہ نہیں کر سکتے۔ نبوت سے لیکر جنت و دوزخ کے دخول و خلود تک کچھ بھی ہمارے مشاہدے میں نہ ہے اور نہ اس حیات دنیوی آ سکتا ہے۔

“خبر عن اللہ” کی سچائی کا صرف ایک ہی معیار ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مقدس پر غیرمشروط اعتماد کیا جائے۔

(جاری)


ڈاکٹر خضر یاسین  اقبال اکادمی لاہور کے ساتھ بطور ریسرچ اسکالر وابستہ ہیں اور فلسفہ اور  دینی علوم پر اظہار خیال کرتے ہیں۔

(6) Khazir Yasin | Facebook

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں