گھر کے کام (Homework) کی کاپیاں دیکھنے کے دوران جونہی ایک طالب علم نے میرے سامنے کاپی رکھی تو جھَٹ میں اس سے پیچھے کھڑا طالب علم نے صدا بلند کی سر جی ! اس کے ہوم ورک کا اگلا صفحہ بھی ذرا دیکھیے گا ! میں نےہوم ورک کاپی پر دستخط کرنے کے بعد جونہی صفحہ پلٹا تو اس پر کچھ اشعار لکھے تھے میں نے انہیں بغور پڑھنا شروع کیا تو ایک دو اشعار کے علاوہ باقی سب اشعار انتہاٸی بیہودہ و واہیات قسم کے الفاظ پر مشتمل تھے ۔
اس کے بعد میں نے جونہی متعلقہ طالب علم کی جانب ترچھی نگاہ سے دیکھا تو وہ ایک دم بول پڑا کہ سرجی ! یہ اشعار میں نے نہیں لکھے بلکہ میرے چھوٹےبھائی نےلکھے ہیں ۔اس کی بات سن کر میں نے ان اشعار کے رسم الخط(لکھائی ) اور اس طالب علم کے رسم الخط کا موازنہ کیا اور پھر چند ہی لمحوں میں متعلقہ طالب علم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا جی ! یہ بات تو پکّی ہے کہ یہ لکھائی آپ ہی کی ہے۔ اب آپ اگلی بات کا جواب دیجیے کہ آپ نے اس قدر بہیودہ اشعار اپنی ہوم ورک کی کاپی پر کیوں لکھے ؟
ابھی تفتیش جاری ہی تھی کہ اس کے قریب ڈیسک پر بیٹھا ایک تیسرا طالب علم کہنے لگا سرجی ! اس طالب علم نے یہ بیہودہ اشعار چند دن قبل میرے سامنے لکھے تھے ،جس پر میں نے اسے روکا بھی تھا کہ بھائی! دیکھو یہ کام نہ کرو ، تو اس پر اس نے میری بات سُنی ان سُنی کر دی تھی اور کہنے لگا کہ کچھ نہیں ہوتا ۔ اس تیسرے طالب علم نے پھر ایک چوتھے طالب علم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سرجی! جب یہ بیہودہ الفاظ پر مبنی اشعار لکھ رہا تھا تو اس وقت اس کے ساتھ وہ بھی بیٹھا ہوا تھا ،میں اس چوتھے طالب علم کی جانب متوجہ ہوا ، اس طالب علم کا شمار محنتی اور شریف طلبہ میں تھا۔ میں نے کہا کہ بیٹا ! اس قدر غلیظ حرکت پر آپ نے کیوں چُپ سادھے رکھی ؟ وہ کہنے لگا سر دراصل اس نےمجھے قَسم دی تھی کہ تم یہ بات کسی کو مت بتلانا اس لیے میں آج تک خاموش رہا۔
تین چشم دید گواہوں کی گواہی کے بعد میں نے متعلقہ طالب علم کو اپنا اسکول بیگ لانے کے لیے کہا ، اور ایک طالب علم کی مدد سے اس کی تمام کتابیں اور کاپیاں یہ جاننے کے لیے دیکھنا شروع کیں کہ آیا کسی اور جگہ بھی اس نے کوٸی نامناسب الفاظ لکھے ہیں یا نہیں ۔ میں نے جونہی اس کا اسکول بیگ کھولا تو اس میں سے سب سے پہلے ریاضی کی کتاب نکلی ،میں نے اس کتاب کے ورق پلٹنے شروع کیے تو یہ دیکھ کر دَنگ رہ گیا کہ اس ریاضی کی کتاب کے اکثر و بیشتر صفحات پر اسی قسم کے بیہودہ الفاظ پر مشتمل اشعار لکھے ہوٸے تھے ، اب مجھے مزید غصہ آیا کہ ہوم ورک کاپی کے علاوہ ٹیکسٹ بک پر بھی اس نے انتہاٸی نامناسب اشعار اور باتیں لکھ ڈالیں ۔ اسکول بیگ میں موجود تمام کتابیں اور کاپیاں تسلی سے دیکھی گئیں مگر ایک خراب لائٹر کے علاوہ کوئی اور منفی مواد برآمد نہیں ہوا ۔
پہلے تو میرے دل میں آیا کہ کلاس انچارج اور ہیڈ ٹیچر کو معاملہ سے آگاہ کروں مگر پھر یہ خیال آیا کہ اس طالب علم کی اس سے قبل پڑھائی میں عدم دلچسپی کے علاوہ کبھی کسی غیر اخلاقی حرکت کی شکایت موصول نہیں ہوئی ، لہذا خود ہی تفتیش مکمل کر کے تنبیہ کر دی جائے ۔ میں اس طالب علم کو کمرہ جماعت سے باہر لے گیا اور تنہائی میں اس سے پوچھا کہ بیٹا ! سچ سچ بتلاٶ آپ نے یہ نامناسب الفاظ پر مشتمل اشعار کہاں سے نقل کیے ؟ میرے سوال پر وہ کہنے لگا کہ سر میں نے یہ تمام نامناسب مواد اپنی ریاضی کی کتاب سے نقل کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ریاضی کی پرانی کتاب میں نے ایک سابق طالب علم سے خریدی تھی۔ میں حلفیہ کہتا ہوں کہ میں نے اس کتاب پر کوئی جملہ خود سے نہیں لکھا ۔
میں نے طالب علم کی بات سن کر اسے وہ کتاب اپنے سامنے کھولنے کو کہا چنانچہ اس نے میرے سامنے اس کتاب کی ورق گردانی شروع کی اور مختلف صفحات پر لکھے نامناسب اشعار اور جملوں کی طرف نشاندہی کی ، میں نے دیکھا کہ اس طالب علم کی بات بالکل درست ہے اور اس نے واقعی اسی کتاب سے اشعار نقل کیے تھے ۔
اب سارا مدعا سامنے آگیا تو میں نے اس طالب علم کو مخاطب کرتے ہوٸے کہا کہ بیٹا ! جب آپ کو معلوم تھا کہ میری ریاضی کی کتاب میں نامناسب باتیں لکھی ہوئی ہیں تو پھر آپ نے پہلے ہی دن اس کتاب کو خریدنے سے انکار کیوں نہیں کیا یا پھر نامناسب باتوں کو مٹا کیوں نہیں دیا ۔ بلکہ آپ نے تو ان نامناسب اشعار کو آگے شیئر کر کے مزید گھٹیا حرکت کی ہے۔ میں نے کہا کہ اگر آپ اجازت دو تو میں ان اشعار میں سے ایک دو اشعار آپ کے ہم جماعت ساتھیوں کو بھی سنا دوں ،تو وہ ایک دم چونک کر کہنے لگا نہیں سر نہیں ، ایسا مت کیجیےگا ، اس نے شرمندگی سے سر جھکا دیا اور معافی مانگتے ہوئے منت سماجت کرنے گا کی سرجی ! اللہ کا واسطہ مجھے معاف کر دیں میں آٸندہ کبھی بھی ایسی غلیظ حرکت نہیں کروں گا۔
میں نے اس طالب علم کے خاندانی پس منظر بارے تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ اس بچے کا والد مزدوری پیشہ ہے۔ میں نے اس طالب علم سے کہا کہ بیٹا! تمہارا والد ایک مزدور آدمی ہے جو خون پسینے کی کمائی سے تم سب بہن بھائیوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کر رہا ہے مگر آپ کو اس کی قدر نہیں، آپ اپنے والد کی خون پسینے کی حلال کمائی سے خریدے گئے مبارک قلم و کاغذ سے نامناسب و ناپاک باتیں لکھتے ہو آپ کو اس پر شرمندہ ہونا چاہیے ۔ اگر آپ کے والد کو یہ پتہ چلے کہ اس کی کماٸی سے خرید کر دیے گئے قلم سے آپ گالی گلوچ پر مبنی بیہودہ باتیں لکھتے ہو تو اس بیچارے پر کیا بیتے گی ۔ بیٹا ! آپ کا والد آپ کی ہر ضرورت و حاجت پوری کرنے کے لیے سخت سردی وگرمی میں کام کرتا ہے۔اپنا پیٹ کاٹ کر آپ کے اخراجات پورے کرتا ہے ، آپ کو جیب خرچ تک دیتا ہےمگر آپ خیانت کے مرتکب ہو ۔
اس کے بعد اس واقعہ کی خبر دینے والے طالب علم کی میں نے بھرپور حوصلہ افزائی کی، اس کے لیےتالیاں بجوائی گئیں اور نقد انعام بھی دیا گیا ، اور سب بچوں کو مخاطب کرکے کہا ! کہ عزیز طلبہ ! اپنے ساتھیوں کی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنا اچھی بات ہے مگر جب کوئی بندہ کسی ایسے کام کا ارتکاب کرے کہ جس میں خود اس کی ذات اور دیگر لوگوں کے نقصان کا خطرہ ہو تو اگر ممکن ہو تو فورا اسے اس غلط کام سے روک دیں ، اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو زبان سے منع کردیں یا فوری طور پر اپنے استاذ محترم کو اس بات سے آگاہ کر دیں تاکہ وہ اور دیگر کسی بڑے نقصان سے بچ سکیں ،
معزز والدین ! جس طرح آپ اپنے بچوں کو برے دوستوں کی صحبت سے بچاتے ہیں اسی طرح انہیں برے دوستوں کی کاپیوں ، کتابوں ، کھیل کود سے بھی بچاٸیں اپنے بچوں کو پرانی کتابیں خرید کر دینے سے قبل ان کتابوں کی اچھی طرح ورق گردانی کرکے تسلّی کرلیں کہ خدانخواستہ اس میں کسی قسم کی کوئی نامناسب باتیں اور لغویات تو نہیں لکھی ہوئی ۔
معزز اساتذہ کرام ! آپ سے بھی التماس ہے کہ وقتا فوقتا طلبہ کرام کی کاپیوں اور کتابوں کو دیکھتے رہا کریں کہ اس میں کوئی نامناسب بات ، جملہ ، شعر یا نعرہ تو نہیں لکھا گیا جس کا طالب علم کی تعلیم و تربیت پر منفی اثر پڑے ۔
کمنت کیجے