ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر
علوم ومعارف کا نقطۂ آغاز بعینہٖ وہی ہے جو ‘انسانی’زندگی کا آغاز ہے۔ علوم کی تاریخ وہیں سے شروع کی جاسکتی ہے جہاں سے انسانی تمدن کی تاریخ کی ابتدا ہوتی ہے۔ انسان علم ،وعرفان کی پوری روشنی میں اس دنیا میں بھیجا گیا۔”علم آدم الاسماء کلہا۔”(اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام ناموں کی تعلیم دی)
جس دنیا میں آدم کو بھیجا گیا، وہاں کے تمام مظاہر کے ناموں کی اُنہیں تعلیم دی گئی تھی۔ سورج اوراس کی ماھیت وخصوصیت- ہوا اورا س کی صفات، پانی اور اس کا استعمال ، دن اور رات کا آنا جانا، آگ ،پانی اور ہوا کے فوائد ونقصانات،یہ سب باتیں آدم کو سکھا کر بھیجا گیا اوراسی طرف مذکورہ بالا آیت میں اشارہ ہے۔ اسی علم ومعارف کی وجہ سے انسان اس دنیا سےمانوس ہوا اور مختلف مظاہر پر قدرت سے خوف زدہ ہونے کے بجائے ان سے فیض یاب ہونا شروع کیا، یہیں سے اس کی تمدنی زندگی کا آغاز ہوا۔ آدم ؑ کو وحی کے ذریعہ جو کچھ سکھایا گیا ، اور دنیا میں آنے کے بعد جو کچھ انہوں نے اپنی عقل وفکر کوبروئے کار لا کر جانا- یہی علوم و معارف کی تاریخ کا نقطۂ آغاز ہے۔
پھر جیسے جیسے انسان ترقی کرتا گیا،ویسے ہی ویسے علوم کی تاریخ نشووارتقاء کاسفر کرتی رہی۔ یہ دوسری بات ہے کہ تاریخ اس کی تفاصیل پیش کرنے سے قاصر ہے۔
پھر جیسے جیسے انسان کی تمدنی ضروریات بڑھتی گئیں، ایجادات سامنے آنے لگیں، نئے نئے علوم کی بنیاد پڑنے لگی، روحانی اور مادی ضروریات کا دائرہ وسیع ہونےلگا، مذہب، فلسفہ،سائنس نے جنم لیا، تمدنی ترقی نے انسان کو خوشحالی عطا کی تو ادبیات ،فنون لطیفہ کی بنیاد پڑی- علوم کا دائرہ بتدریج بڑھتا رہا اور شاخ درشاخ تقسیم ہوتارہا، ایک شخص کےلیے یہ ممکن نہ رہا کہ وہ بیک وقت تمام علوم کا احاطہ کرسکے۔ توعلوم کی حدود متعین کی جانے لگیں۔
یہیں سے تنسیقِ علوم (Classification of Knowledge) کی بنیاد پڑی۔ انسان نے ضرورت محسوس کی کہ علوم کی تبویت وتنسیق کرکے مختلف علوم کی حدیں متعین کی جائیں،چنانچہ منسقین نے علوم کی حدبندیاں شروع کیں اور مختلف علوم کے درمیان ربط ونسبت کے امکانات پر روشنی ڈالی۔
علوم کی تنسیق مسلمانوں ہی کی ایجاد نہیں بلکہ علوم کی تقسیم کے مختلف طریقے ہردور میں پائے جاتے تھے، اسلام کے آنےسے پہلے بھی دنیا کے مختلف ممالک مختلف علوم وفنون میں مہارت کے حامل تھے۔یونان،ہندوستان، چین اور روم وغیرہ علمی حیثیت سے بڑے متمدن ممالک تھے،ان کے ہاں بڑے بڑے مدارس ،اکادمیاں اور کتب خانے موجودتھے۔ سقراط،افلاطون اور ارسطو کی اکادمیاں۔
اسکندریہ کا مدرسہ اور کتب خانہ، رُھا کا مدرسہ اور کتب خانہ، بیت اردشہر (ایران) مدرسۂ نصیبین (حران) طبی مدرسۂ جندی شاپور (ایران) وغیرہ علوم وفنون کے قابل ذکر مراکز تھے ـــ ان مراکز میں طب، فلسفہ، منطق، کیمیا، ادیبات(شاعری) ارضیات اور ریاضی وغیرہ کی تعلیم وتدریس ہوتی تھی۔ ان کے پاس بھی تنسیق علوم(Classification of Knowledge) کے کوئی نہ کوئی طریقے مروج رہے ہوں گے۔ تاریخ ان کے بارے میں مکمل معلومات تو فراہم نہیں کرتی ،لیکن قیاس چاہتا ہے کہ ایسا رہا ہوگا۔
افلاطون کے زمانے میں یہ تصور پیدا ہو چکا تھا لیکن خود افلاطون علم کی تقسیم کے نظریئے سے متفق نہیں تھا ۔اس کا خیال تھا کہ علم ایک معنی واحد ہے اور تمام علوم ایک حقیقت واحدہ کی طرف منتہی ہوتے ہیں ۔لہذا علوم کی تقسیم کرنا درست نہیں ۔
البتہ افلاطون کا شاگرد ارسطو اس باب میں اپنے استاد سے متفق نہیں تھا، اس کی رائے تھی کہ علم کی دو قسمیں ہیں ۔نظری ۔۔۔۔اور عملی۔علوم نظریہ کا موضوع “شئے ” ہے ،اپنی ماھیت کے لحاظ سے اور غایت ان علوم کی مجرد معرفت ہے ۔پھر وہ علوم نظری کو بھی تین شعبوں میں تقسیم کرتا ہے
1۔۔۔۔۔فلسفہ اولی
2۔۔۔۔۔ریاضیات
3۔۔۔۔۔۔طبیعات
پھر ریاضیات کی بھی اس نے دو قسمیں کی ہیں۔
علم العدد اور علم الہندسہ
ارسطو کے بعد اس کے شاگردوں نے بس اس قدر کیا کہ علوم میں ایک قسم “کتابیہ” (یعنی خطابت اور شعر ) کا مزید اضافہ کیا ۔
یہ نظام تنسیق تیسری صدی ہجری تک اسی شکل میں ملتا ہے۔
جب سیاسی قوت واقتدار مسلمانوں کی طرف منتقل ہوا اور انہوں نے ان میں سے بیشتر علاقوں کو فتح کرلیاتو نا صرف یہ کہ علوم وفنون کے ان مراکز کو قائم رکھا بلکہ نئے مراکز بھی قائم کیے، مسلمانوں کے نئے مراکز میں حجاز، بصرہ،کوفہ، بغداد، دمشق،قاہرہ،اسکندریہ،المغرب،فاس (مراکش)،نیشاپور، رے، قرطبہ، اشبیلیہ اور غرناطہ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
ان مراکز میں علوم وفنون کی سرگرمیاں شروع ہوئیں تو علوم کے درمیان کوئی واضح تقسیم نہیں تھی، تاریخ وحدیث خلط ملط تھے،فلسفہ اور عقیدہ گھلے ملے تھے، سائنس کی تمام شاخیں ایک ہی درجے میں شمار ہوتی تھیں وغیرہ۔ تیسری صدی ہجری/نویں صدی عیسوی میں” علم تقاسیم العلوم” کا رجحان مسلمانوں میں نظر آتا ہے اور پھر” تاریخ علوم” باقاعدہ ایک الگ شعبہ ٔعلم بن گیا۔
گزشتہ سطور میں ہم نے یہاں تک بات کی تھی کہ تنسیق علوم کی طرف مسلمانوں نے تیسری صدی ہجری /نویں صدی عیسوی میں باقاعدہ توجہ کی، اس سے پہلے مسلمانوں کے علوم ایک دوسرے میں گھلے ملے تھے، ان کی باقاعدہ تقسیم اور حد بندی نہیں ہوئی تھی ۔
تیسری صدی ہجری میں مسلمانوں نے علوم و فنون کی اقسام اور ان کی تاریخ پر کتابیں لکھنی شروع کیں ۔ان میں اولیت کا شرف یعقوب بن اسحاق کندی کو حاصل ہے۔
کندی(م 260ھج/873ء):
کندی کو مسلمانوں کا پہلا فلسفی مانا جاتا ہے، اس کا لقب “فیلسوف العرب” تھا، اسے “معلم ثانی ” بھی کہتے ہیں(معلم اول، ارسطو تھا ) ۔نسلا عرب تھا، کوفے میں پیدا ہوا جہاں اس کے والد عامل تھے۔اس نے بصرہ اور بغداد میں تعلیم پائی جو اس زمانے میں علوم و فنون کے بڑے مراکز تھے ۔عباسی خلفا مامون اور معتصم کے زمانے میں کندی ان مترجمین میں شامل تھا جو یونانی کتب کا عربی میں ترجمہ کر رہے تھے ۔ نظریاتی طور پر معتزلی تھا ۔
کندی کو یونانی علوم سے خاصا شغف تھا، خصوصا فلسفہ،ریاضی اور طبیعیات میں ۔ کندی کثیرالتصانیف مصنف تھا ۔قدری حافظ طوقان ، جنہوں نے “تراث العرب العلمی ” مرتب کی ہے، کندی کے 150 سے زائد رسائل کا ذکر کیا ہے جو اس نے فلسفہ،نجوم، ھئیت، مناظرہ، حساب، ہندسہ،طب،طبیعیات، موسیقی، اور منطق وغیرہ پر لکھے تھے ۔(دیکھئے قدری حافظ طوقان، تراث العرب العلمی، ص 166 تا 176،قاہرہ، 1963)
تنسیق علوم کے حوالےسے کندی کی ایک کتاب ” کتاب فی اقسام العلم الانسی ” کا ذکر فواد سیزگین نے اپنی کتاب “تاریخ علوم اسلامیہ ” جلد اول ،ص 1 پر کیا ہے ۔اور اسے تنسیق علوم کی پہلی کتاب قرار دیا ہے ۔ کندی ہی کی
اسی موضوع پر دوسری کتاب “کتاب فی ماھیت العلم واصنافہ ” تھی۔مگر یہ دونوں کتابیں ناپید ہونے کے وجہ سے ہم تک نہیں پہنچ سکیں ۔
ابو زید سھل بلخی(322ھج/934ء)
اس حوالےسے دوسرا نام ابو زید سھل بلخی کا ہےجنہوں نے تنسیق علوم پر ایک کتاب لکھی تھی ” کتاب فی اقسام العلوم ” کے نام سے ۔یہ کتاب بھی باقی نہ رہ سکی ۔
ابو نصر فارابی (م 339ھ/950ء)
اقسام العلوم پر تیسری اہم تصنف ابو نصر فارابی کی” احصاء العلوم” ہے ۔
یہ پوری کتاب پانچ فصلوں میں ہے۔ پہلی فصل علم اللسان اور اس کے فروعی علوم:لغت و نحو صرف وشعر، کتابت وقرآۃ کے بیان میں ہے۔ا س فصل کے مقدمے میں مولف نے ”قانون“اور”قاعدہ کلیہ“ کے معنی میں ایک عمومی بحث کی ہے۔اس کے بعد علم اللسان کے ان سات بنیادی اجزا پر روشنی ڈالی ہے جن سے علم اللسان کی تشکیل ہوتی ہے وہ سات اجزا یہ ہیں:
علم الالفاظ المفردہ،علم الالفاظ المرکیہ، علم قوانین الالفاظ، قوانین تصحیح الکتابۃ،قوانین تصحیح القرآۃ، قوانین تصحیح الاشعار۔
فارابی کی یہ بحث قواعد لغتہ میں ایک خالص علمی بحث ہے جواس نے کسی مخصوص زبان کا لحاظ کیے بغیر عمومی حیثیت سے کی ہے، اگر چہ مثالیں عربی زبان کی دی ہیں۔ سب سے اہم فصل اس کتاب میں وہ ہے جو فارابی نے علم منطق کے لیے مخصوص کی ہے،
اس فصل میں مولف نے منطق کی منفعت وضرورت اورا س کے موضوع پر روشنی ڈالی ہے اور منطق اورنحو کے درمیان وجوہ شبہ اور وجوہ خلاف کا ذکر کیا ہے۔آخرمیں ان مختلف قضایا کابیان ہے جن کا منطق میں استعمال کیا جاتا ہے: قضیہ برھانیہ،جدلیہ، سفسطائیہ، خطابیہ، شعریہ وغیرہ
تیسری فصل علم ریاضیات میں ہے،جس کو اس نے سات بڑے اجزا پر تقسیم کیا ہے:علم العدد، علم الہندسہ، علم المناظر (علم البصریات)،علم النجوم (علم الفلک)،علم موسیقی، علم الاثقال، علم الحیل۔
چوتھی فصل علم مابعد الطبیعۃاور علم طیعی اوران کے فروعی علوم کے بیان میں ہے۔
پانچویں فصل علم اخلاق وسیاست نیز علم الفقہ اور علم الکلام کے بیان میں ہے۔
خوش قسمتی سے فارابی کی یہ کتاب محفوظ رہی اور بعد میں آنے والے علما نے اس سے خوب استفادہ کیا اور اس پر اضافہ کیا ۔
حوالے کے لئے دیکھئے: فارابی، احصاء العلوم، دارالفکر العربی، 1949۔
الخوارزمی(م 387ھج/997ء )
ابو نصر فارابی کے بعد اقسام العلوم پر خوارزمی نے کام کیا ۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ علوم کی تاریخ میں دو خوارزمی گزرے ہیں، ایک تیسری صدی ہجری / نویں صدی عیسوی میں، محمد بن موسی خوارزمی جو مامون الرشید کے دربار سے وابستہ تھا، ریاضیات، نجوم،ھئیت اور تاریخ میں درک رکھتا تھا ۔ دوسرا محمد بن احمد بن یوسف الخوارزمی جو چوتھی صدی ہجری/دسویں صدی عیسوی کے علما میں شامل تھا، اور اسی کا ذکر مقصود ہے ۔
ابو عبداللہ محمد بن احمد بن یوسف۔ بلخ میں پیدا ہوا اسی وجہ سے اس کے نام کے ساتھ بلخی کا لاحقہ بھی لگایا جاتا ہے ۔خراسان میں قیام کی وجہ سے اسے مشرق کے حالات سے بہت واقفیت حاصل تھی۔ جغرافیہ اور ریاضیات پر مہارت رکھتا تھا ۔تنسیق علوم پر اس کی ایک کتاب “مفاتیح العلوم “(=علوم کی کنجیاں ) اس علم پر ایک اہم کتاب ہے جو دو مقالوں پر مشتمل ہے۔پہلا مقالہ سات ابواب کو محیط ہے، جس میں علوم شریعت کابیان ہے ۔یعنی ایسے علوم جو کسی نا کسی پہلو سے شریعت کو سمجھنے میں مددگار ہو سکتے ہیں ۔یہ علوم بالترتیب حسب ذیل ہیں: فقہ، کلام،نحو، شعر ،کتابت، علم عروض، علم اخبار۔(تاریخ )
گویا الخوارزمی شعر، عروض اور تاریخ کو علوم شریعہ میں جگہ دیتا ہے ۔
دوسر امقالہ نوابواب میں ہے۔ اس میں دیگر علوم کا احاطہ کیا گیا ہے ۔یہ علوم حسب ذیل ہیں: فلسفہ، منطق، طب، علم العدد، علم الہندسہ، علم النجوم،علم الموسیقی، علم الحیل(= خاص ایجادات )اور علم الکیمیا۔
خوارزمی کی اس کتاب میں فارابی کی” احصا ء العلوم” پر دو علم:طب اور کیمیا کااضافہ ہے۔ یہ کتاب لائیڈن سے 1895ء میں فان فلوتن von vloten نے شائع کرائی
خوارزمی کی مفاتیح العلوم کو مشرق ومغرب میں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی ۔مختلف مباحث کے متعلق معلومات کےلئے یہ کتاب بڑی قدر و قیمت کی حامل ہے ۔المقریزی نے اسے جلیل القدر تصنیف قرار دیا ہے ۔بعض اہل علم اسے مسلمانوں کا قدیم ترین دائرہ معارف قرار دیتے ہیں ۔
اخوان الصفا:
چوتھی صدی ہجری کے نصف آخر میں اخوان الصفا کے رسائل مرتب ہوئے۔ان میں بھی علوم کی تقسیم بڑی وضاحت سے نظر آتی ہے ۔
چوتھی صدی ہجری /دسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں 373ھج/983ء میں بصرہ میں ایک جماعت موجود تھی جو اپنےآپ کو “اھل الصفاء والایمان ” کہتے تھے اور جو تاریخ میں اخوان الصفا کے نام سے معروف ہوئے ۔ اس جماعت کے خیالات اور رجحانات پر غالی شیعیت بلکہ شاید زیادہ صحیح الفاظ میں یہ کہنا چاہئے کہ اسماعیلیت( قرمطیت ) کا رنگ غالب تھا ۔
ان کے اکٹھ کا مقصد یہ تھا کہ ایک دوسرے کی مدد کریں، اور ممکنہ ذرائع سے کام لیتے ہوئے، علم معرفت کی بدولت، اپنی غیر فانی روحوں کی نجات کےلئے کوشش کریں ۔ابتداء میں ان کی سیاسی سرگرمیاں نہیں تھیں، البتہ یہ وہ زمانہ ضرور تھا جب قرامطہ سیاسی طور پر بہت فعال تھے،مختلف علاقوں میں اپنا اثرورسوخ قائم کر رہے تھے جن میں عرب علاقوں کے علاوہ سندھ اور ملتان بھی شامل تھے ۔
لیکن اخوان الصفا کے اراکین نے اپنی توجہ علوم کی طرف ہی رکھی، وہ پوشیدہ طور پر ملتے، علمی بحث و مباحثے کرتے اور کسی نتیجے پر پہنچنے کے بعد انہیں قلم بند کر لیتے ۔یہ لوگ مختلف موضوعات پر اظہار خیال کرتے ۔یوں ان مولفین اخوان الصفا نے 52 رسائل مرتب کئے ۔
اخوان الصفا کے تمام اراکین کے نام نہیں ملتے البتہ کئ تذکرہ نگاروں نے چند نام متفقا گنوائے ہیں جن میں ابو سلیمان محمد بن مشیر البستی( جو مقدسی کے نام سے معروف ہے ) ،ابو حسن علی بن ھارون الزنجانی، محمد بن نہرجوری العوفی اور زید بن رفاعہ شامل ہیں ۔
ان کے خیالات عوام میں مقبول و مروج نہ ہو سکے اس کی پہلی وجہ تو یہی تھی کہ ان کے نظریات، سواد اعظم کے نظریات سے مختلف و متنازعہ تھے، لوگ معتزلہ کی وجہ سے ویسے ہی فلسفیانہ موشگافیوں اور عقل کے بے محابا استعمال سے بیزار اور متنفر تھے ۔
دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ یہ لوگ اپنے خیالات کا اظہار جس پیچیدہ انداز میں کرتے تھے وہ سب کی سمجھ میں آ بھی نہیں سکتی تھی ۔یہ جماعت یونانی فلاسفہ اور معتزلی عقائد و افکار کے بہت قریب تھی۔
رسائل اخوان الصفا میں علوم کی وہی تقسیم روا رکھی گئی ہے جو ارسطو نے اختیار کی تھی اور جو فارابی کے ذریعے مسلم دنیا تک پہنچ چکی تھی ۔یہ 52 رسائل چار اقسام پر اس طرح منقسم ہیں:
1۔۔۔۔۔ریاضیات ۔
2۔۔۔۔۔منطق ۔
3۔۔۔۔۔طبیعیات
4۔۔۔الہیات
پہلا حصہ 14 رسائل پر مشتمل ہے جن میں ریاضیات اور منطق کا ذکر بطور تمھید کے آیا ہے ۔
دوسرے حصے میں ۔۔۔۔جو17 رسائل پر مشتمل ہے ۔۔۔علوم طبیعیہ، نیز علم النفس کا ذکر آیا ہے ۔
تیسرے حصے میں ما بعد الطبعیات سے بحث کی گئ ہے ۔
اور آخری حصہ کے 11 رسائل میں تصوف،سحر اور نجوم کا بیان ہے، اسی حصے کے ایک رسالے میں اس جماعت کی نوعیت اور تنظیم سے بحث کی گئ ہے ۔
ان رسائل کی اشاعت ہو چکی ہے ۔کم از کم اردو میں اس کا کوئی ترجمہ میرے علم میں نہیں۔
ابن الندیم (م 385ھج/898 ء)
ابو الفرج بن اسحاق بن یعقوب الندیم البغدادی الوراق کی مشہور زمانہ کتاب “الفہرست ” تاریخ و تنسیق علوم کے حوالےسے جامع تصنیف ہے۔ جو آج ہماری دسترس میں ہے اور اہل علم اس سے متواتر استفادہ کرتے ہیں ۔
ابن الندیم کے اپنے حالات زندگی کم ہی معلوم ہیں ،اس کی تاریخ وفات میں بھی خاصا اختلاف ہے۔385ھج سے لے کر 438ھج کے درمیان اس کی تاریخ وفات بتائی جاتی ہے ، اور ظاہر ہے کہ یہ بہت بڑا فرق ہے ۔بہرحال ہدایت الاحباب کے حوالےسے اس کی تاریخ پیدائش جمادی الثانی 297ھج اور تاریخ وفات 385ھج ہے۔۔مسلکا ابن الندیم شیعہ تھا، پیشے کے اعتبار سے وراق تھا ،لہذا اسے کتابوں سے ہی سابقہ پڑتا تھا، اسی وجہ سے اس میں تاریخ علوم مرتب کرنے کا خیال اور دلچسپی پیدا ہوئی ۔
چوتھی صدی ہجری تک جتنے علوم وفنون بزبان عربی موجود تھے، الفہرست میں سب کا احاطہ کیا گیا ہے ۔اس میں کتب قدیمہ اور تصانیف یونان و فرس وہند کے بارے میں ایسی بیش قیمت معلومات درج ہیں جوکسی دوسرے ذریعے سے حاصل نہیں ہوسکتی۔د راصل یہ فہرست ایسے زمانے میں لکھی گئی جب مسلمان علمی حیثیت سے ایک ترقی یافتہ قوم بن چکے تھے اورا ن میں بڑے بڑے کتب خانے موجود تھے۔ مسلسل اور متواتر کتابیں تصنیف، تالیف اور ترجمہ ہو کر شائع ہو رہی تھیں۔ابن الندیم نے ان مصنفات کو علوم کی درجہ بندی کر کے محفوظ کیا ۔آج اگرچہ ان میں سے بیشتر کتابیں امتداد زمانہ اور انقلابات کے ہاتھوں ضائع ہوگئیں ،کتابوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ فتنہ تاتار کے ہاتھوں بھی تباہ و برباد ہوا،لیکن اس فہرست کے ذریعے سے ان کے نام اور ان کے بارے میں معلومات حاصل ہوجاتی ہیں جو موجودہ علمی دور میں اہل تحقیق کے لیے ایک نشان راہ کاکام دے سکتی ہیں اورا ن کے مطالعہ سے اسلامی علوم کی تاریخ کا ایک شاندار پہلو سامنے آتاہے۔یہ فہرست حسب ذیل دس مقالات پر مشتمل ہے:
مقالہ اول:
یہ تین فنون پر مشتمل ہے:
پہلا فن: اس میں علوم لسانیات ، انواع خطوط اور مختلف انداز کتابت پر بحث ہے۔
دوسرا فن : اس میں کتب آسمانی، توریت، زبور، انجیل اور دیگر صحائف سماویہ اور ان کے ماننے والوں کا تفصیلی بیان ہے۔
تیسرا فن : یہ فن قرآن اور علوم قرآنیہ اور ان پر کتب ، مصنفات، اخبار قرا اور اسماء روات وغیرہ کے بیان میں ہے۔
مقالہ دوئم :
یہ بھی تین فنون میں ہے۔
پہلا فن : علم نحو کے آغاز کی بحث، بصرہ کے نحویوں کے حالات اور ان کی تصنیفات پر
دوسرا فن : اس فن میں کو فی نحویوں کے حالات اور مصنفات کا ذکر ہے۔
تیسرا فن : اس میں نحوئین کی اس جماعت کا ذکر ہے جنہوں نے کوفی اور بصری نحویوں کے افکار کوباہم ملایا۔آخر میں ا ن کی کتابوں کے نام دیے ہیں۔
تیسرامقالہ :
اس کے بھی تین فن ہیں جو اخبار وآداب اور سیر وانساب پر مشتمل ہے۔
چوتھا مقالہ :
اس کے دو فن ہیں جو شعر وشاعری اور طبقات شعرا کے بیان پر مشتمل ہیں۔
پانچواں مقالہ :
یہ مقالہ حسب ذیل فنون پر مشتمل ہے:
پہلا فن : اس میں علم الکلام کے آغاز اور متکلمین معتزلہ ومرجۂ کا بیان ہے اور آخر میں ان کی مصنفات کے نام ہیں۔
دوسرافن : یہ فن متکلمین شیعہ وامامیہ،زیدیہ اور دوسرے غالی فرقوں، نیز اسماعیلیہ کے حالات واخبار اوران کی کتابوں کے عنوانات پر مشتمل ہے ۔
تیسرافن : اس فن میں متکلمین مجبرہ،بابیہ اور حشویہ نیز ان کی مصنفات کابیان ہے۔
چوتھا فن: متکلمین خوارج اور ان کے مختلف فرقوں پر نیزان کی مصنفات کے اسماء پر مشتمل ہے۔
پانچواں فن: یہ فن سیاحین، زھاد، عباد، متصوفہ کے حالات اوران کی کتابوں کے اسماء میں ہے۔
چھٹا مقالہ :
یہ مقالہ آٹھ فنون میں ہے جن میں علم،فقہ اور فقہاء ومحدثین اوران کے مصنفات کابیان ہے۔
ساتواں مقالہ :
یہ مقالہ تین فنون میں ہے اس میں فلسفہ اور علوم قدیمہ کابیان ہے۔
اٹھواں مقالہ :
تین فنون میں ہے جن میں خرافات ، سحر اورشعبدہ بازوں کابیان ہے نیز ان سے متعلق کتب مصنفات کے نام دیے ہیں۔
نواں مقالہ :
یہ دو فنون میں ہے جن میں مختلف مذاہب اور اعتقادات کابیان ہے۔
دسواں مقالہ :
اس مقالہ میں اہل کیمیاو اہل صنعت ،فلاسفہ، صوفیہ اور ان کی کتابوں کا تفصیلی بیان ہے۔
کتاب کا اردو ترجمہ محمد اسحاق بھٹی کے قلم سے ہو چکا ہے جسے ادارہ ثقافت اسلامیہ نے شائع کیا ہے ۔
ابن فریغون:
چوتھی صدی ہجری میں ہی ابن فریغون کا نام بھی ملتا ہے جو ابو زید احمد بن سحیل بلخی (م 322ھج ) کا شاگرد تھا ۔ابن فریغون کے حالات زندگی بہت کم ملتے ہیں البتہ اتنا کہا جاتا ہے کہ اس نے چوتھی صدی ہجری کے نصف آخر میں وفات پائی ۔
اقسام علوم پر اس کی کتاب “جوامع العلوم ” ہے۔ اس میں مختلف علوم کی اقسام کوشجر بندی(تشجیر ) کی شکل میں دکھایا گیا ہے ۔اس میں لغت، فن کتابت، سیاست ،جنگ ازمائ، اخلاقیات، عقیدہ، عبادات، ستارہ شناسی، علم الفراست ،سحر بندی، طلسمات اور کیمیا وغیرہ شامل ہیں، کتاب میں فلسفیانہ نقطہء نظر کارفرما ہے ۔کتاب کے مخطوطات ترکی اور اسکوریل لائبریری(اسپین ) میں محفوظ ہیں ۔
(حوالے کے لئے دیکھئے، فواد محمد سیزگین، تاریخ علوم اسلامیہ جلد 2 صفحہ 174)
بو علی سینا(428ھج/1037ء )
ابو علی حسین ابن عبداللہ جو ابن سینا کے نام سے معروف ہے، لاطینی میںAvicenna اور عبرانی میں Aven Sina ہے۔یہ جامع العلوم فلسفی،طبیب،ریاضی دان،ماہر فلکیات ،مائیہ ناز سائنس دان صفر 370ھج/980ء میں بخارا میں پیدا ہوا ۔دس سال کی عمر میں قران کریم حفظ کیا۔ شروع میں فقہ، کلام اور حساب کا علم حاصل کیا لیکن پھر اس کی توجہ طب کی طرف ہو گئ اور وہ ہمہ تن اس کی تعلیم کے حصول میں لگ گیا ۔ صرف 16۔۔۔17 سال کی عمر میں بخارا کے حاکم نوح بن منصور کا کامیاب علاج کیا، اس کے صلہ میں اسے کتب خانہ شاہی کا مہتمم مقرر کر دیا گیا، جہاں اسے اپنے مطالعہ کی عادت مستحکم کرنے کا موقع ملا ۔ اس نے ایک پریشان کن سیاسی زندگی گزاری لیکن اپنی علمی سرگرمیوں کو ہر حال میں جاری رکھا ۔فلسفہ،ریاضی، طبیعیات، طب،فلکیات،اور موسیقی پر اس کی بہت سی کتب و رسائل ہیں۔طب میں اس کی شہرہ آفاق تصنیف “القانون” نے اپنی اشاعت کے بعد مشرق و مغرب کے علماء کو جالینوس،رازی اور علی ابن عباس کی طبی تصانیف سے بے نیاز کردیا ۔
جہاں تک تنسیق علوم کا تعلق ہے، اس کی “کتاب الشفاء ” قابل ذکر ہے، اس میں اس نے ان تمام علوم کا ذکر کیا ہے جو اس سے پہلے فارابی کی “احصاء العلوم ” میں ملتے ہیں اور اسی انداز پر اس کی تقسیم کی ہے۔۔کتاب الشفاء کے علاوہ اس کا ایک مستقل رسالہ “اقسام العلوم العقلیہ ” کے نام سے مستقل اسی فن پر ہے۔اس رسالے میں اس نے علوم(حکمت ) کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے
1۔۔۔۔۔نظری
2۔۔۔۔۔عملی
اول الذکر کے تحت اس نے طبیعیات، ریاضیات اور الہیات(ما بعد الطبعیات ) کو مندرج کیا ہے ۔جبکہ ثانی الذکر کے تحت اخلاقیات، سیاست منزل(معاشیات ) اور سیاست مدن کو رکھا ہے ۔
رازی، فخر الدین محمد بن عمر (م ۶۰۶ھ/ 1209ء)
ساتویں صدی ہجری میں ہمیں تنسیق علوم کے حوالےسے فخر الدین رازی کا کام نظر آتا ہے،
اس نے اپنی کتاب” حدائق الانوار فی حقائق الاسرار”میں60علوم کاذکر کیاہے۔اس کے بعد شاہ ابن القناری نے اس پر 40 علوم کا اور اضافہ کیا ہے۔اس طرح اس سب کا مجموعہ سو ہوتاہے۔ یہ کتاب ” انموذج العلوم “کے نام سے مشہور ہے۔
سکاکی (م ۶۲۶ھ/1228ء)
ابو یعقوب یوسف بن ابی بکر جو 555ھج میں پیدا ہوئے ، کی کتاب “مفتاح العلوم”بھی اس ذیل میں قابل ذکر ہے۔اس میں اس نے علوم کو تین شعبوں پر تقسیم کیا گیا ہے۔علم صرف،علم نحو، علم معانی وبیان وبدیع۔ یہ تقسیم صرف ادب کے حوالےسے ہے ۔یہ کتاب علم ادب کی مشہور کتابوں میں ہے اور کثرت کے ساتھ ادباء نے اس کی شرحیں اور تلخیص لکھی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور جلال الدین فروینی خطیب دمشق (666۔739ھ) کی “تلخیص المفتاح” ہے۔
نویری :(م 733ھج/ 1332ء )
شہاب الدین احمد بن عبدالوہاب 677ھج میں پیدا ہوئے ۔ان کی کتاب “نہایۃ الارب فی فنون العرب “علوم وفنون کے بیان میں نہایت اہم کتاب ہے۔ مولف نے اس کو حسب ذیل پانچ فنون پر مرتب کیاہے۔
۱۔ السماء والاثار العلویہ والارض والعالم السفلی:یہ فن پانچ اقسام پر مشتمل ہے۔
۲۔ الانسان وما یتعلق بہ:یہ بھی پانچ اقسام میں ہے۔
۳۔ الحیوان الصامت:پانچ قسموں میں۔
۴۔ النبات :یہ فن چار قسموں میں ہے اس کے ذیل میں اس نے علم طب کو بیان کیا ہے۔
۵۔ التاریخ:یہ فن بھی پانچ اقسام پر مشتمل ہے۔
ابن الاکفانی (م 749ھ/1348ء)
شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن ابراہیم الانصاری۔ اس نے اپنی کتاب ” ارشاد القاصدالی اسنی المقاصد “میں مختصر طور پر اصناف علوم اور ان پر مصنفات کا ذکر کیا ہے۔طالب شکری زادہ کی کتاب” مفتاح السعادہ “کایہ اہم ماخذ ہے۔یہ کتاب متعدد بار چھپ چکی ہے۔
ابن خلدون (م ۸۰۸ھ/1405ء)
عبدالرحمن بن محمد بن خلدون،اسلام کا مایہ ناز مورخ اور مفکر ہے۔ا س نے اپنے مقدمے کا چھٹا باب بیان علوم کے لیے مخصوص کیا ہے۔ اس کی ابتدائی چند فصلوں میں اس نے اجمالی طور پر نشأۃ علوم پر روشنی ڈالی ہے جو نہایت مفید اور معلوماتی بحثیں ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ طلب علم انسان کی فطرت ہے۔نیز یہ کہ علوم فطری اورطبعی ضرورتوں سے پیدا ہوتے ہیں یعنی جیسے جیسے انسان کی احتیاج بڑھتی ہے،وہ اس کے حل کے لئے وسائل تلاش کرتاہے اس طرح علوم کی تشکیل میں عمران بشری کو پورا پورا دخل حاصل ہے،اس پس منظر کی روشنی میں وہ علوم کو دو بڑے شعبوں میں تقسیم کرتا ہے:
۱۔ علوم عقلیہ
۲۔ علوم نقلیہ
علوم عقلیہ وہ ہیں جو انسان کی فکری جدوجہد کا نتیجہ ہیں جیسے طبیعات،فلسفہ و حکمت وغیرہ اور چونکہ علوم عقلیہ انسان کے اندر طبعی حیثیت سے موجود ہیں اس لیے ان کو کسی خاص امت اور کسی مخصوص گروہ میں محدود نہیں کیا جاسکا۔
علوم نقلیہ وہ ہیں جو سلف سے ورثہ میں ملتے ہیں مثلاًعلم لغت، فقہ و شرائع وغیرہ۔
اس کے بعد اس نے ان دونوں علوم کی شاخوں کو بیان کیا ہے ۔مثلا علوم عقلیہ میں علم منطق، علم طبیعی (یعنی علم الانسان،علم الحیوان،علم النباتات، علم المعادن، علم الطب، علم الفلاحۃ وغیرہ ) علم الہٰی، ماوراء الطبیعہ، علم التعالیم (علم الھندسہ، علم الحساب، علم موسیقی، علم الفلک) شامل ہیں ۔
علوم نقلیہ میں علم التفسیر،(الناسخ والمنسوخ، علم اسباب النزول)،علم القرات (علم رسم خط القرآن)،علم الحدیث(الناسخ والمنسوخ، غریب الحدیث، الموتلف والمخلف)علم اصول الفقہ، علم الکلام،علم تصوف،علم تعبیر الرویا، علوم لسانیہ (علم اللغت، علم النحو، علم البیان، علم الادب) وغیرہ کو شامل کرتا ہے ۔
ابن خلدون کی یہ تقسیم علوم اتنی معروف ہوئ کہ اس کے بعد آنے والے علما مثلا مقدسی (م856ھ/1452ء)نے اپنی کتاب” شفاء المتالم فی آداب المعلم” میں کم و بیش اسی تقسیم کی متابعت کی ہے۔
ابن خلدون کے بعد مقدسی(م856ھ/1752ء)،بسطامی(م858ھ/1454ء)،طوقانی(م900ھ/1494ء) وغیرہ نے علوم کی تقسیم پر مختصر یا تفصیل سے کتابیں لکھیں ۔تاہم اس حوالے سے سب سے اہم نام طاشکبری زادہ کا ہے۔
طاشکبری زادہ (م 968ھج/1560ء)
عصام الدین ابوالخیر احمد بن المولی مصلح الدین مصطفےٰ۔ دسویں صدی ہجری کا مشہور اور بابصیرت مولف ہے۔اس کی کتاب مفتاح السعادہ اس پرنہایت اہم تالیف ہے جو تمام اصناف علوم پر حاوی ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ تنسیق علوم کے اب تک جتنے طریقے سامنے آئے ہیں ان میں سب سے زیادہ مکمل طاشگبری ز ادہ کی تنسیق ہے ۔ اس نے ایک خاص ترتیب او رمختلف علوم کے درمیان ان کے باہمی تعلق کے تقاضے کے مطابق عا م سے خاص اور خاص سے اخص کی طرف تقسیم کی ہے جس سے اصل اور فرع کا فرق واضح ہوتا چلا جاتا ہے۔
اُس نے علوم کو چھ درجوں میں تقسیم کیا ہے۔ہردرجے کو وہ دوحہ کہتاہے۔
دوحہ اول: علوم خطیہ ( یعنی کتابت سے متعلق مختلف علوم)
دوحہ ثانیہ:علوم الفاظ
دوحہ ثالثہ:علوم مافی الاذھان
دوحہ رابعہ: علوم المتعلقہ بالاعیان(اس میں علم الہی،علم طبیعی، ریاضی، وغیرہ شامل ہیں )
دوحہ خامسہ:حکمت عملیہ
دوحہ سادسہ:علوم شرعیہ
ان تمام دوحوں کو اس نے اُن کے متفرع علوم کے بیان کے لیے شعبوں میں تقسیم کیا ہے۔ہر ایک کی تفصیل دینا اس مختصر پوسٹ میں ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر علوم حکمیہ عملیہ کو وہ مزید ان گروپوں میں تقسیم کرتاہے۔
(الف) علم الاخلاق
(ب) علم تدبیر المنزل
(ج) علم السیاسة
(د) فروع حکمة عملیہ: علم آداب الملوک ووظائف السلطان، علم آداب الوزارة، علم الاحتساب ، علم قود العساکر و الجیوش۔
و علیٰ ھذا قیاس
طاشگبری زادہ کے بعد بھی اس موضوع پر چند علما نے قلم اٹھایا لیکن وہ طاشگبری زادہ کے تنسیق علوم کے دائروں میں کوئی اضافہ نہ کرسکے البتہ مغربی علما نے اس موضوع پر نشاۃ ثانیہ کے زمانے میں قلم اٹھایا اور مسلمانوں کی میراث علمی سے استفادہ کرتے ہوئے اس علم کو سائنٹیفک بنیادوں پر آگے بڑھایا جس کی سب سے ترقی یافتہ شکل ہمیں ڈیوی کی عشری تنسیق میں ملتی ہے۔تاہم یہ ایک دوسرا موضوع ٔبحث ہے۔
——————————————–
ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر، شعبہ تاریخ، جامعہ کراچی کی سابق صدر اور علمی وتحقیقی مجلہ ’’الایام’’ کی مدیر ہیں۔
کمنت کیجے