Home » مصحف عثمانی کی تدوین: چند تحقیق طلب سوالات
اسلامی فکری روایت تاریخ / جغرافیہ

مصحف عثمانی کی تدوین: چند تحقیق طلب سوالات

 

قرآن مجید کے متن کی جمع وتدوین اور امت کو قرآن کے ایک متفقہ متن پر مجتمع کرنے کے حوالے سے خلیفہ سوم سیدنا عثمان ﷜کے عہد ِحکومت میں کی جانے والی کوشش کو قرآن کی تاریخ میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ تاریخی روایات کے مطابق خلیفۂ سوم کے حکم پر قرآن مجید کا ایک مصحف مرتب کروا کر اس کی نقول عالمِ اسلام کے مختلف علاقوں میں بھیجی گئی تھیں اور لوگوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ اسی متن کے مطابق قراء ت کریں،  جب کہ  اس کے علاوہ دوسرے تمام نسخوں کو تلف کر دیا جائے۔ اس واقعے سے متعلق بنیادی ماخذ سیدنا انس بن مالک﷜ کی روایت ہے جو حدیث وسیرت کے اکثر مآخذ میں نقل کی گئی ہے۔ انس بن مالک ﷜کہتے ہیں:

أن حذيفة بن اليمان، قدم على عثمان وكان يغازي أهل الشأم في فتح أرمينية، وأذربيجان مع أهل العراق، فأفزع حذيفة اختلافهم في القراءة، فقال حذيفة لعثمان: يا أمير المؤمنين، أدرك هذه الأمة، قبل  أن يختلفوا في الكتاب اختلاف اليهود والنصارى، فأرسل عثمان إلى حفصة: «أن أرسلي إلينا بالصحف ننسخها في المصاحف، ثم نردها إليك»، فأرسلت بها حفصة إلى عثمان، فأمر زيد بن ثابت، وعبد الله بن الزبير، وسعيد بن العاص، وعبد الرحمن بن الحارث بن هشام فنسخوها في المصاحف “، وقال عثمان للرهط القرشيين الثلاثة: «إذا اختلفتم أنتم وزيد بن ثابت في شيء من القرآن فاكتبوه بلسان قريش، فإنما نزل بلسانهم» ففعلوا حتى إذا نسخوا الصحف في المصاحف، رد عثمان الصحف إلى حفصة، وأرسل إلى كل أفق بمصحف مما نسخوا، وأمر بما سواه من القرآن في كل صحيفة أو مصحف، أن يحرق.([1])

حذیفہ بن یمان، عثمان ﷜کے پاس آئے۔ اس وقت اہل شام، اہل عراق کے ساتھ مل کر ارمینیہ اور اذربیجان کی فتح کے لیے جہاد کر رہے تھے۔ حذیفہ کو ان کے مابین قراء ت کے اختلاف نے پریشان کر دیا۔ حذیفہ نے عثمان سے کہا کہ اے امیر المومنین، اس امت کو سنبھال لیجیے، اس سے پہلے کہ یہ اللہ کی کتاب کے متعلق یہود ونصاریٰ کی طرح اختلاف کرنے لگیں۔ اس پر عثمان نے سیدہ حفصہ کو پیغام بھیجا کہ آپ وہ اوراق ہمیں بھیج دیں (جو سیدنا ابوبکر نے لکھوائے تھے) تاکہ ہم انھیں مصاحف میں نقل کر کے آپ کو واپس لوٹا دیں۔ حفصہ نے وہ اوراق عثمان کو بھیج دیے۔ عثمان نے زید بن ثابت، عبد اللہ بن زبیر، سعید بن العاص اور عبد الرحمن بن حار ث بن ہشام کو مامور کیا اور انھوں نے ان اوراق کو مصاحف میں نقل کر دیا۔ عثمان نے تینوں قریشیوں سے کہا کہ اگر تمھارا اور زید بن ثابت کا قرآن کے کسی لفظ کے متعلق اختلاف ہو تو اسے قریش کے لہجے کے مطابق لکھنا۔ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ جب وہ اوراق کو مصاحف میں نقل کر چکے تو عثمان نے اوراق واپس حفصہ کو لوٹا دیے،  جب کہ  جو مصاحف ان حضرات نے نقل کیے تھے، ان میں سے ایک ایک مصحف ہر علاقے میں بھجوا دیا اور حکم دیا کہ اس کے علاوہ کسی بھی صحیفے یا مصحف میں جو قرآن لکھا ہوا ہو، اس کو جلا دیا جائے۔

واقعے سے متعلق مختلف مآخذ میں منقول روایات میں بعض جزوی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً بیشتر روایات کے مطابق سیدنا عثمان کو اس کام کی طرف سیدنا حذیفہ نے متوجہ کیا تھا،  جب کہ  بعض روایات میں یہ بیان ہوا ہے کہ مسلمانوں کے مابین قراء ت کے اختلافات کو دیکھتے ہوئے سیدنا عثمان نے خود ہی اس ضرورت کو محسوس کیا۔([2]) اسی طرح بعض روایات کے مطابق قراء ت کے مذکورہ اختلافات کا موقع کوفہ کو بتایا گیا ہے،([3]) جب کہ  بخاری کی مذکورہ روایت کے مطابق سیدنا حذیفہ نے یہ اختلافات ارمینیہ اور آذربائیجان کے محاذ جنگ پر مشاہدہ کیے۔ تاہم یہ اختلافات ناقابل تطبیق نہیں اور تمام روایات کو سامنے رکھتے ہوئے واقعات کی ترتیب یہ فرض کی جا سکتی ہے کہ سیدنا حذیفہ جب کوفہ اور بصرہ میں مقیم تھے تو اسی وقت لوگوں کو الگ الگ قراء تیں پڑھتے ہوئے دیکھ کر اضطراب کا شکار ہوتے تھے اور اپنی نجی مجالس میں ابن مسعود اور ابو موسیٰ اشعری ﷠کے سامنے اپنا یہ احساس بھی بیان کرتے رہتے تھے کہ قراء ت کے اختلاف کو ختم کر کے امت میں ایک ہی قراء ت کو رائج کر دینا چاہیے۔ اس کے بعد جب ایک موقع پر انھوں نے محاذ جنگ پر مختلف شہروں سے آئے ہوئے لوگوں کے مابین قراء ت کے اختلافات اور ان کی بنیاد پر باہمی نزاع اور تکفیر کا منظر دیکھا تو ان کا یہ احساس مزید قوی ہو گیا اور وہ باقاعدہ سفر کر کے سیدنا عثمان کو اس صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے مدینہ منورہ گئے۔ سیدنا عثمان کے سامنے بھی اس طرح کے بعض اختلافات آ چکے تھے اور وہ گویا اپنے طور پر اس ضرورت کا احساس رکھتے تھے۔ سیدنا حذیفہ کی تحریک پر انھوں نے اس ضمن میں اقدام کرنے کا فیصلہ کر لیا اور دیگر صحابہ کے مشورے سے یہ طے کیا کہ امت کو اختلاف وافتراق سے محفوظ رکھنے کے لیے قرآن کے متن کی قراء ت کے حوالے سے پائے جانے والے اختلافات کا سدباب کر کے امت کو ایک ہی مصحف پر جمع کر دیا جائے۔

بہ ہرحال مذکورہ جزوی اختلافات سے قطع نظر، عہد عثمانی میں مصحف کی تیاری کے حوالے سے چند اہم علمی وتاریخی سوالات سامنے آتے ہیں جو علوم ا لقرآن کی کتابوں میں روایتی طور پر دیے جانے والے جوابات کے غیر تشفی بخش ہونے کے تناظر میں مزید تحقیق کے متقاضی ہیں۔ ذیل کی سطور میں اس نوعیت کے چند اہم سوالات کی وضاحت کی کوشش کی جائے گی۔

تدوینِ مصحف کی نوعیت؟

سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا سیدنا عثمان نے محض سیدنا ابوبکر کے جمع کیے ہوئے مصحف کی نقول تیار کروا کر مختلف شہروں میں بھیجی تھیں یا ازسر نو قرآن کے متن کی جمع وتدوین کروائی تھی؟ بعض روایات سے پہلی بات معلوم ہوتی ہے اور بعض سے دوسری، مثلاً بخاری میں انس بن مالک ﷺ کی روایت میں ہے کہ:’’فأرسل عثمان إلى حفصة: «أن أرسلي إلينا بالصحف ننسخها في المصاحف … حتى إذا نسخوا الصحف في المصاحف، رد عثمان الصحف إلى حفصة، وأرسل إلى كل أفق بمصحف مما نسخوا.‘‘ ([4])(عثمان نے سیدہ حفصہ کو پیغام بھیجا کہ آپ وہ اوراق ہمیں بھیج دیں (جو سیدنا ابوبکر نے لکھوائے تھے) تاکہ ہم انھیں مصاحف میں نقل کر لیں… جب وہ اوراق کو مصاحف میں نقل کر چکے تو عثمان نے اوراق واپس حفصہ کو لوٹا دیے،  جب کہ  جو مصاحف ان حضرات نے نقل کیے تھے، ان میں سے ایک ایک مصحف ہر علاقے میں بھجوا دیا ۔)اسی طرح زہری سے ایک روایت میں منقول ہے کہ:’’فوفق الله عثمان فنسخ تلک الصحف في المصاحف فبعث بها إلى الأمصار وبثها في المسلمین.‘‘ ([5])(اللہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کو توفیق دی اور انھوں نے ان اوراق کو مصاحف میںنقل کروا کر مختلف شہروں میں بھجوا دیا اور انھیں مسلمانوں میں عام کر دیا۔)

بعض اہل علم نے اسی بنا پر جمع عثمانی کی نوعیت محض یہ قرار دی ہے کہ انھوں نے مصحف صدیقی کی مختلف نقول تیار کروا کر امصار واطراف میں بھیج دی تھیں۔ تاہم بعض دیگر روایات میں صورت واقعہ اس سے مختلف بیان ہوئی ہے۔ مثلاً ابن ابی داود نے کتاب المصاحف میں مصعب بن سعد سے نقل کیا ہے کہ:

سمع عثمان قراء ة أبيّ وعبد الله ومعاذ فخطب الناس، ثم قال: إنما قبض نبیکم منذ خمس عشرة سنة وقد اختلفتم في القرآن وقد عزمت علی من عندة شيء من القرآن سمعه من رسول الله صلی الله علیه وسلم لما أتاني به فجعل الرجل یأتيه باللوح والکتف والعسب فيه الکتاب فمن أتاه بشيء قال: أنت سمعت من رسول الله؟. ([6])

عثمان ﷜نے ابی بن کعب، عبد اللہ بن مسعود اور معاذ کی قراء تیں سنیں تو لوگوں کو خطبہ دیا اور پھر کہا: تمھارے نبی کو دنیا سے رخصت ہوئے ابھی پندرہ سال گزرے ہیں اور تم لوگوں نے قرآن میں اختلاف کرنا شروع کر دیا ہے۔ جس شخص کے پاس قرآن کا کوئی بھی حصہ ہو جو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو تو میں اس پر لازم ٹھہراتا ہوں کہ وہ اسے لے کر میرے پاس آئے۔  چناں چہ  لوگ ان کے پاس تختیاں، مونڈھے کی ہڈیاں اور کھجو ر کی چوڑی ٹہنیاں لے کر آنے لگے جن میں قرآن کی آیات لکھی ہوتی تھیں۔ جو شخص بھی کوئی آیت لے کر آتا تو عثمان اس سے پوچھتے تھے کہ کیا تم نے یہ آیت خود رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے؟

سیوطی نے ابن اشتہ کے حوالے سے انس بن مالک کی یہ روایت نقل کی ہے کہ:

اختلفوا في القراءة على عهد عثمان حتى اقتتل الغلمان والمعلمون فبلغ ذلك عثمان بن عفان فقال: عندي تكذبون به وتلحنون فيه… يا أصحاب محمد اجتمعوا فاكتبوا للناس إماما. فاجتمعوا فكتبوا فكانوا إذا اختلفوا وتدا رءوا في آية قالوا: هذه أقرأها رسول الله صلى الله عليه وسلم فلانا فيرسل إليه وهو على رأس ثلاث من المدينة فقال له: كيف أقرأك رسول الله صلى الله عليه وسلم آية كذا وكذا؟ فيقول: كذا وكذا، فيكتبونها وقد تركوا لذلك مكانا. ([7])

عثمان ﷜کے زمانے میں لوگوں کا قرآن میں اختلاف ہو گیا، یہاں تک کہ لڑکے اور معلمین باہم دست وگریبان ہو گئے۔ اس کی اطلاع عثمان بن عفان تک پہنچی تو انھوں نے کہا کہ تم میری موجودگی میں اس قرآن کو (پڑھنے میں ایک دوسرے کو) جھٹلاتے ہو اور قرآن پڑھنے میں غلطیاں کر رہے ہو؟ اے اصحاب محمد، جمع ہو جاؤ اور لوگوں کے لیے ایک ’امام‘ لکھ دو۔  چناں چہ  اصحاب جمع ہوئے اور انھوں نے لکھنا شروع کر دیا۔ جب ان لوگوں کا کسی بھی آیت کے متعلق باہم اختلاف اور بحث ہوتی تو وہ کہتے تھے کہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں شخص کو پڑھائی تھی۔ وہ شخص (بسا اوقات) مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر ہوتا تواس کو پیغام بھیج کر بلوایا جاتا اور پوچھا جاتا کہ رسول اللہ ﷺنے تمھیں فلاں فلاں آیت کیسے پڑھائی تھی؟ وہ بتاتا کہ یوں اور یوں پڑھائی تھی۔  چناں چہ  یہ حضرات اس کو لکھ لیتے،  جب کہ  انھوں نے اس آیت کے لکھنے کے لیے جگہ خالی چھوڑی ہوتی تھی۔

اسی طرح مالک بن ابی عامر بیان کرتے ہیں:’’کنت في من أملی علیهم فربما اختلفوا في الآية فیذکرون الرجل قد تلقاها من رسول الله صلی الله علیه وسلم ولعله أن یکون غائبا أو في بعض البوادي فیکتبون ما قبلها وما بعدها ویدعون موضعها حتی یجيء أو یرسل إليه.‘‘([8]) (میں ان لوگوں (یعنی کاتبوں) میں سے تھا جن کو قرآن لکھوایا گیا۔ بسا اوقات ان کا کسی آیت سے متعلق اختلاف ہو جاتا تو وہ اس شخص کا ذکر کرتے جس نے وہ آیت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سیکھی تھی۔ بعض اوقات وہ آدمی وہاں موجود نہ ہوتا یا کسی دیہات وغیرہ میں ہوتا تو یہ حضرات اس آیت سے پہلے اور اس کے بعد والی آیات (مصحف میں) لکھ لیتے اور اس آیت کی جگہ چھوڑ دیتے، یہاں تک کہ وہ شخص آجاتا یا اس کو پیغام بھیج کر بلوا لیا جاتا (اور پھر اس سے پوچھ کر متعلقہ آیت اپنے مقام پر درج کر دی جاتی۔)

اس کی مزید تائید بخاری کی روایت میں زید بن ثابت ﷜کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے:’’ نسخت الصحف في المصاحف، ففقدت آية من سورة الأحزاب كنت أسمع رسول الله ﷺ. ([9])يقرأ بها، فلم أجدها إلا مع خزيمة بن ثابت الأنصاري الذي جعل رسول الله َﷺ شهادته شهادة رجلين»، وهو قوله: من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه.‘‘  ([10])(میں نے اوراق کو مصاحف میں نقل کیا تو مجھے سورۂ احزاب کی ایک آیت نہیں ملی جو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتے ہوئے سنا کرتا تھا۔ مجھے وہ آیت صرف خزیمہ بن ثابت انصاری کے پاس ملی جن کی گواہی کو رسول اللہ َﷺ نے دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دیا تھا۔ وہ آیت یہ تھی: من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه. )یہ روایت بھی یہی بتاتی ہے کہ اس موقع پر قرآن کے متن کی تلاش، تحقیق وتفتیش اور جمع وتدوین کا عمل ازسرنو کیا گیا تھا،  کیوں کہ  اگر سیدنا ابوبکر کے مرتب کردہ مصحف پر انحصار کیا گیا ہوتا تو مذکورہ آیات کے مفقود ہونے اور پھر ان کی تلاش کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔

بہ ہر حال  اگر اس موقع پر متن قرآن کی ازسر نو جمع وتدوین کی گئی تھی تو پھر ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیدنا ابوبکر کے جمع کردہ متن پر سیدنا عثمان کو اعتماد نہیں تھا؟ اگر تھا تو قرآن کے متن کی تحقیق وتفتیش کے عمل کی تجدید  کرنے اور ازسرنو متن کی جمع وتدوین کی یہ ساری سرگرمی کیوں انجام دی گئی؟ علوم القرآن کے معاصر ماہرین نے اس اشکال کا جواب یہ دیا ہے کہ سیدنا عثمان نے ایسا ’’مزید احتیاط‘‘ کے طور پر کیا تھا ([11])یا یہ کہ وہ معترضین کو کسی بھی قسم کے اعتراض کا موقع نہیں دینا چاہتے تھے، لیکن یہ توجیہات اصل اشکال کو حل نہیں کرتیں۔ مزید احتیاط کی ضرورت وہیں پڑتی ہے جہاں پہلی کوشش میں کسی نقص کے رہ جانے کا امکان تسلیم کیا جائے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر کے جمع کردہ صحف کے مکمل اور جامع ہونے کے حوالے سے صحابہ کے ذہنوں میں کسی نہ کسی درجے میں کوئی شبہ یا عدم ِاطمینان موجود تھا؟ معترضین کے اعتراض سے بچنے کی بات بھی اسی صورت میں برمحل بنتی ہے جب یہ فرض کیا جائے کہ سیدنا ابوبکر کے مصحف کے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں پوری طرح اطمینان نہ پایا جاتا ہو۔ اگر اس پر لوگوں کا عمومی اطمینان تھا تو سیدنا عثمان کے لیے کسی بھی اعتراض سے بچنے کا زیادہ آسان طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے اوپر کوئی بھی ذمے داری لینے کے بجائے محض مصحفِ صدیقی کو نقل کروا کر اس کے نسخے عام کر دیتے۔ حاصل یہ کہ عہدِ عثمانی میں متن قرآن کی ازسرنو جمع وتدوین کی کوشش، اس سے پہلے عہد صدیقی میں کی جانے والی اسی نوعیت کی کاوش کے اعتبار واستناد اور اس کی حیثیت کے متعلق اہم سوالات کو جنم دیتی ہے جن کا بہ ظاہر کوئی معقول اور تشفی بخش جواب اس موضوع سے متعلق بحثوں میں نہیں دیا گیا۔

کس نوعیت کے اختلافِ قراء ت کا سد باب مقصود تھا؟

دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ قراء ات کے اختلاف، جنھیں سیدنا عثمان اس مصحف کے ذریعے سے ختم کرنا چاہتے تھے، متعین طور پر ان کی نوعیت کیا تھی اور ان کی یہ کاوش اس مقصد کے حصول میں کس پہلو سے مفید اور مددگار ہو سکتی تھی؟ عام طور پر علوم القرآن کے ماہرین نے اس نکتے کی توضیح پر زیادہ توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے ایک اہم اشکال ذہنوں میں باقی رہ جاتا ہے۔ اگر قراءات کے یہ اختلاف جن کا خاتمہ مقصود تھا، اس نوعیت کے تھے جو ہمیں علم قراء ات کے موجود ذخیرے میں نظر آتے ہیں (مثلاً یعلمون کی جگہ تعلمون یا ننشرها کی جگہ ننشزها پڑھنا) تو ان کے خاتمے کے لیے ایک مصحف مرتب کروا کر جس پر نہ نقطے لگے ہوئے ہوں اور نہ حرکات، مختلف شہروں میں بھیج دینے کا طریقہ بدیہی طور پر موثر نہیں ہو سکتا تھا۔ اس حوالے سے متعلقہ مواد کا جائزہ لینے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قراء ات کا جو اختلاف اس اقدام کا محرک بنا اور جسے ختم کرنے کی کوشش کی گئی، وہ بنیادی طور پر قرآن کے متن میں الفاظ کی تبدیلی یا کمی بیشی یا تقدیم وتاخیر کی نوعیت کا اختلاف تھا،  کیوں کہ  اسی نوعیت کے اختلاف کو ختم کرنے کے لیے لوگوں کو ایک متفقہ مصحف کی قراء ت کا پابند بنانا مفید ہو سکتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کوشش دراصل اختلافِ متن کو ختم کرنے کے لیے تھی، نہ کہ محض ایک لفظ کی مختلف قراء توں کے امکان کو ختم یا محدود کرنے کے لیے۔

بعض ر وایات میں اس اقدام کا باعث بننے والے اختلاف کی جو مثالیں نقل ہوئی ہیں، وہ اسی قیاس کی تائید کرتی ہیں۔  چناں چہ  ابن ابی داود نے یزید بن معاویہ نخفی سے نقل کیا ہے کہ حذیفہ ﷜نے ایک طرف ابو موسیٰ اشعری اور دوسری عبد اللہ بن مسعود کی قراء ت کے مطابق پڑھنے والوں کو باہم اختلاف کرتے دیکھا تو وہ گھبرا اٹھے اور سیدنا عثمان ﷜کے پاس حاضر ہو کر انھیں اس صورت حال سے مطلع کرنے کا عزم کر لیا۔ اس موقع پر قراء ت کے جس اختلاف کا حوالہ دیا گیا ہے، وہ یہ تھا کہ ایک فریق سورۂبقرہ کی آیت ۱۹۶ میں ’ وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ‘ کے الفاظ پڑھتا تھا  جب کہ  دوسرا فریق ’ وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلبیْت‘ کے الفاظ کی قراء ت کرتا تھا۔([12]) متعدد دیگر روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حذیفہ ﷜قراء ت کے جس اختلاف سے پریشان تھے، وہ ابو موسیٰ اشعری اور عبد اللہ بن مسعود﷠ کی قراء ت کے باہمی اختلافات تھے۔([13])  اور ابن مسعود کی قراء ت کے متعلق یہ بات ثابت ہے، جیسا کہ ہم آئندہ واضح کریں گے، کہ ان کی قراء ت میں بہت سے الفاظ عام قراء ت سے مختلف بھی تھے اور کئی مقامات پر الفاظ میں کمی بیشی بھی تھی۔ابن ابی داود نے عبد الاعلیٰ بن حکم الکلابی سے روایت کیا ہے کہ جب سیدنا عثمان نے اپنا مصحف مرتب کروا کر اہل کوفہ کی طرف بھیجا اور انھیں ہدایت کی کہ وہ اپنے مصاحف کو اس مصحف کے مطابق درست کر لیں تو ایک مجلس میں سیدنا حذیفہ اور ابو موسیٰ اشعری کے مابین مکالمہ ہوا، فقال أبو موسی: ما وجدتم في مصحفی هذا من زیادة فلا تنقصوها وما وجدتم من نقصان فاکتبوه،’’ فقال حذیفة: کیف بما صنعنا؟ … وکان حذیفة هو الذي أشار علی عثمان رضي الله عنه بجمع المصاحف علی مصحف واحد.‘‘([14]) (ابو موسیٰ نے کہا کہ تم میرے اس مصحف میں جو الفاظ زائد پاؤ، انھیں ختم نہ کرو، لیکن جو الفاظ کم ملیں، وہ (میرے مصحف میں) لکھ دو، لیکن حذیفہ نے کہا کہ پھر ہم نے جو کاوش کی ہے، اس کی کیا حیثیت رہی؟ … عثمان ﷜کو، تمام مصاحف کو ایک مصحف پر جمع کر دینے کا مشورہ حذیفہ نے ہی دیا تھا۔)

روایت سے واضح ہے کہ یہ دراصل الفاظ کی کمی بیشی کا اختلاف تھا جسے مصحف عثمانی کے ذریعے سے ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔سیوطی نے ابن اشتہ کے حوالے سے انس بن مالک کی جو روایت نقل کی ہے (جس کا متن اوپر نقل کیا جا چکا ہے)، اس میں بیان ہوا ہے کہ سیدنا عثمان کے مقرر کردہ کاتبین کا جب کسی بھی آیت کے متعلق باہم اختلاف ہوتا تو اس آیت کی جگہ خالی چھوڑ دی جاتی اور تحقیق کی جاتی کہ وہ آیت رسول اللہ ﷺنے کس شخص کو پڑھائی تھی۔ پھر اس شخص سے معلوم کیا جاتا کہ وہ آیت اس نے نبیﷺسے کیسے پڑھی تھی اور اس کے بیان کے مطابق وہ آیت لکھ لی جاتی۔([15]) اس روایت سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اختلاف کی نوعیت الفاظ میں تبدیلی یا تقدیم وتاخیر کی یا کمی بیشی کی تھی،  کیوں کہ  یہی وہ اختلاف ہے جس کا خاتمہ مصحف میں درج متن کو دیکھ کر کیا جا سکتا تھا۔ ایک ہی لفظ کو مختلف طریقوں سے پڑھنے کے اختلاف کی صورت میں نہ تو کسی ایک طریقے کو غیر منقوط رسم الخط کی مدد سے واضح کرنا ممکن تھا اور نہ کسی کے لیے ایسے متن کو دیکھ کر اس نوعیت کے اختلاف کو رفع کرنا ممکن تھا۔

انتخابِ قراء ت کا معیار؟

سیدنا عثمان کے مرتب کردہ مصحف سے متعلق تیسرا اہم اور بنیادی سوال یہ ہے کہ انھوں نے ایک متن مرتب کروا کر اس سے جزوی اختلاف رکھنے والے متون کو ختم کرنے کی جو کوشش کی، اس کی بنیاد کس اصول پر تھی؟ بالعموم اس سوال کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ان کے پیش نظر قراء ت کے صرف مستند اور جائز اختلافات کو باقی رکھتے ہوئے ان طریقوں کو ختم کرنا تھا جنھیں استناد حاصل نہیں تھا یا جو منسوخ ہو چکے تھے۔([16])  تاہم یہ جواب متعدد وجوہ سے محل نظر اور محل اشکال معلوم ہوتا ہے۔

ایک تو یہ کہ روایات میں ان کے اقدام کا جو محرک نقل ہوا ہے، وہ غیر مستند اختلافات کا شیوع یا ان کا خاتمہ نہیں، بلکہ محض یہ بات تھی کہ لوگ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے باہم جھگڑنا شروع ہو گئے تھے اور سیدنا عثمان اللہ کی کتاب کے معاملے میں مسلمانوں کو اختلاف سے بچا کر ایک مصحف پر انھیں جمع کرنا چاہتے تھے۔ روایات میں کہیں اس بات کا اشارہ تک نہیں ملتا کہ ان کے پیش نظر مستند اور غیر مستند اختلافات کا تصفیہ تھا۔ اگر محرک یہ بات ہوتی تو اس کے لیے لوگوں کے باہم جھگڑنے اور ایک دوسرے کی تکفیر کی نوبت آنے تک انتظار کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ایسی صورت میں تو یہ چاہیے تھا کہ جیسے ہی انھیں یہ معلوم ہوتا کہ کچھ لوگ غیر مستند قراء ات کے مطابق قرآن پڑھ رہے ہیں، وہ فوراً قرآن کے متن کی حفاظت کے جذبے سے سرگرم ہو جاتے۔

اس ضمن میں مختلف قراء ات میں تواتر اور عدم تواتر کی بنیاد پر فرق کا نکتہ بھی بہت بعید از قیاس دکھائی دیتا ہے،  کیوں کہ  اول تو روایات میں اس معیار پر قراء توں کو جانچنے کا اشارتاً بھی کوئی ذکر نہیں ملتا۔ پھر یہ کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور دیگر اکابر صحابہ کی قراء ات کو، جو انھوں نے خود رسول اللہ ﷺسے براہ راست سیکھی تھیں اور اب تک نہ صرف پورے اعتماد سے لوگوں کو اس کی تعلیم دے رہے تھے، بلکہ نماز میں بھی اس کی قراء ت کیا کرتے تھے، اس بنیاد پر مسترد کرنے اور خود ان حضرات سے بھی ان کو ترک کرنے کے مطالبے کا کوئی جواز نہیں تھاکہ وہ ’’متواتر‘‘ نہیں ہیں۔ جن صحابہ کرام کی قراء تیں سیدنا عثمان کے مصحف سے مختلف تھیں، وہ اپنے ذاتی علم اور تلقی کی بنیاد پر انھیں اختیار کیے ہوئے تھے اور ان میں سے بعض حضرات نے سیدنا عثمان کے فیصلے کے باوجود اپنی قراء ت کو چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔

اس وجہ سے روایات کو  بہ حیثیت  مجموعی سامنے رکھتے ہوئے صورت حال کی درست تصویر یہ بنتی ہے کہ سیدنا عثمان نے مختلف قراء توں کے جواز اور گنجائش کو اصولی طو رپر تسلیم کرتے ہوئے محض ایک عملی مصلحت یعنی امت کو قرآن کے متن میں اختلاف سے بچانے کے لیے یہ چاہا کہ سب لوگ کسی ایک متن پر اتفاق کر کے جزوی نوعیت کے اختلافات کو ترک کر دیں۔ یہ بات بعض روایات میں تصریحاً بیان بھی ہوئی ہے۔  چناں چہ  ایک موقع پر سیدنا عثمان نے اس حوالے سے معترضین کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ:’’أما القرآن فمن عند الله، إنما نهیتکم لأني خفت علیکم الاختلاف، فاقرؤوا علی أي حرف شئتم. ‘‘ ([17]) (قرآن تو اللہ کی جانب سے ہے۔ میں نے تمھیں صرف اس لیے (مختلف قراء توں سے) منع کیا کہ مجھے تمھارے اختلاف میں پڑ جانے کا ڈر تھا۔ سو تم جس طریقے پر چاہو، پڑھ لو۔)

مصحفِ عثمانی کی بنیاد جس قراء ت پر رکھی گئی، اسی سے متعلق سب سے اہم اور نازک ترین سوال یہ ہے کہ اس میں قرآن کا جو متن منضبط کیا گیا، اس کا  عرضۂ اخیرہ کی قراء ت سے کیا تعلق تھا؟ اس ضمن میں روایات متعارض نقل ہوئی ہیں۔ بعض صحابہ وتابعین سے منقول ہے کہ سیدنا عثمان نے اس مصحف کی بنیاد  عرضۂ اخیرہ کی قراء ت پر رکھی تھی۔ مثلاً سمرہ ﷜سے منقول ہے کہ:’’عرض القرآن علی رسول الله ﷺ عرضات فیقولون: إن قراءتنا هذه العرضة الأخیرة.‘‘([18]) (رسول اللہ ﷺ کو کئی مرتبہ قرآن سنایا گیا۔ سو لوگ کہتے ہیں کہ ہماری یہ قراء ت وہ ہے جو آپ کو آخری مرتبہ سنائی گئی۔)عبیدہ سلمانی کہتے ہیں کہ:’’قراء تنا التي جمع الناس عثمان عليها هي العرضة الأخری.‘‘([19]) (ہماری قراء ت جس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کیا، وہ  عرضۂ اخیرہ کی قراء ت ہے۔)دوسری روایت میں ہے:’’القراءة التي عرضت علی رسول الله ﷺ في العام الذي قبض فيه هذه القراء ة التي یقراها الناس.‘‘([20]) (رسول اللہ ﷺ کی وفات کے سال آپ کو جو قراء ت سنائی گئی، یہ وہی قراء ت ہے جو آج لوگ پڑھ رہے ہیں۔)بغوی نے شرح السنة میں ابو عبد الرحمن السلمی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:’’قرا زید بن ثابت علی رسول الله صلی الله عليه وسلم في العام الذي توفاه الله فيه مرتین وإنما سمیت هذه القراء ة قراءة زید بن ثابت لأنه کتبها لرسول الله وقراها عليه وشهد العرضة الأخیرة وکان یقرئ الناس بها حتی مات ولذلک اعتمده أبوبکر وعمر في جمعه وولاه عثمان کتبة المصاحف .‘‘([21])(جس سال نبی ﷺ کا انتقال ہوا، اس سال زید بن ثابت ﷜نے آپ کو دو مرتبہ قرآن پڑھ کر سنایا۔ اس قراءت کو زید بن ثابت کی قراء ت اس لیے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم پر اس کو لکھا تھا اور اسے آپ کو پڑھ کر سنایا تھا اور وہ عرضۂاخیرہ میں موجود تھے۔ وہ اسی کے مطابق لوگوں کو قراء ت سکھایا کرتے تھے اور اسی لیے قرآن کو جمع کرنے میں ابوبکر اور عمر نے ان پر اعتماد کیا اور عثمان نے انھیں مصاحف کو لکھنے کی ذمے داری سونپی۔)محمد بن سیرین سے بھی یہی بات منقول ہے، تاہم انھوں نے یہ بات محض ایک قیاس اور مفروضے کے طور پر بیان کی ہے۔  چناں چہ  وہ نقل کرتے ہیں:’’حدثني کثیر بن أفلح أنه کان یکتب لهم فربما اختلفوا في الشيء فأخروه فسالت لم تؤخروه؟ قال لا أدري، قال محمد فظننت فيه ظنا فلا تجعلوه أنتم یقینا، ظننت أنهم کانوا إذا اختلفوا في الشيء أخروه حتی ینظروا آخرهم عهدا بالعرضة الأخیرة فیکتبوه على قوله.‘‘([22]) (مجھے کثیر بن افلح نے بتایا کہ وہ صحابہ کے حکم پر مصحف لکھا کرتے تھے۔ بعض اوقات ان حضرات کا کسی آیت کے متعلق اختلاف ہو جاتا تو وہ اس کی کتابت کو موخر کر دیتے تھے۔ (محمد بن سیرین کہتے ہیں) میں نے پوچھا کہ وہ اسے کیوں موخر کر دیتے تھے؟ کثیر بن افلح نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ محمد بن سیرین نے کہا کہ میرا اس کے متعلق ایک گمان ہے، لیکن تم لوگ اسے کوئی یقینی بات نہ سمجھ لینا۔ میرا گمان یہ ہے کہ ان حضرات کا جب کسی آیت کے متعلق اختلاف ہو جاتا تو وہ اسے اس لیے موخر کر دیتے تھے تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ صحابہ میں سے کون  عرضۂ اخیرہ کے زمانے کے سب سے زیادہ قریب ہے اور پھر اس کے قول کے مطابق اس آیت کو لکھ لیں۔)

ابن سیرین کے قیا س کے برعکس بعض روایات میں یہ نقل ہوا ہے کہ کسی بھی آیت کی قراء ت میں اختلاف ہونے پر اس کی کتابت کو اس لیے موخر کیا جاتا تھا کہ کسی ایسے شخص سے اس کی تحقیق کر لی جائے جس کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو خود سکھائی تھی۔ مثلاً سیوطی نے ابن اشتہ کی المصاحف کے حوالے سے انس بن مالک ﷜کی یہ روایت نقل کی ہے کہ:فکانوا إذا اختلفوا وتدارءوا في أية آية قالوا هذا اقراها رسول الله صلی الله عليه وسلم فلانا، فیرسل إليه وهو علی رأس ثلاثة من المدینة فیقال له کیف أقراک رسول الله آية کذا وکذا فیقول کذا وکذا فیکتبوها وقد ترکوا لذلک مکانا.([23]) (جب ان لوگوں کا کسی بھی آیت کے متعلق باہم اختلاف اور بحث ہوتی تو وہ کہتے تھے کہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں شخص کو پڑھائی تھی۔ وہ شخص (بسا اوقات) مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر ہوتا تواس کو پیغام بھیج کر بلوایا جاتا اور پوچھا جاتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھیں فلاں فلاں آیت کیسے پڑھائی تھی؟ وہ بتاتا کہ یوں یوں پڑھائی تھی۔  چناں چہ  یہ حضرات اس کو لکھ لیتے،  جب کہ  انھوں نے اس آیت کے لکھنے کے لیے جگہ خالی چھوڑی ہوتی تھی۔)اسی طرح مالک بن ابی عامر بیان کرتے ہیں کہ:’’کنت في من أملي عليهم فربما اختلفوا في الآية فیذکرون الرجل قد تلقاها من رسول الله ﷺ ولعله أن یکون غائبا أو في بعض البوادي فیکتبون ما قبلها وما بعدها ویدعون موضعها حتی یجيء أو یرسل إليه.‘‘([24]) (میں ان لوگوں (یعنی کاتبوں) میں سے تھا جن کو قرآن لکھوایا گیا۔ بسا اوقات ان کا کسی آیت سے متعلق اختلاف ہو جاتا تو وہ اس شخص کا ذکر کرتے جس نے وہ آیت خود رسول اللہﷺکی زبان سے سیکھی تھی۔ بعض اوقات وہ آدمی وہاں موجود نہ ہوتا یا کسی دیہات وغیرہ میں ہوتا تو یہ حضرات اس آیت سے پہلے اور اس کے بعد والی آیات (مصحف میں) لکھ لیتے اور اس آیت کی جگہ چھوڑ دیتے، یہاں تک کہ وہ شخص آجاتا یا اس کو پیغام بھیج کر بلوا لیا جاتا (اور پھر اس سے پوچھ کر متعلقہ آیت اپنے مقام پر درج کر دی جاتی۔)

بہ ہر حال  مصحف عثمانی کے عرضۂ اخیرہ کی قراء ت پر مبنی ہونے سے متعلق ہمارے سامنے مذکورہ چار اقوال ہیں۔ ان میں سے سمرہ بن جندب ﷜کا قول امام حاکم کی نقل کردہ روایت کے مطابق خود ان کا اپنا قول ہے، لیکن دیگر تفصیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سمرہ کا قول نہیں، بلکہ سند کے ایک راوی حماد بن سلمہ کا قیاس ہے۔  چناں چہ  امام رؤیانی نے یہ روایت یوں نقل ہے:’’عن سمرة عن النبي ﷺقال: عرض عليّ القرآن ثلاث عرضات، قال حماد في هذا الحدیث أو غیره: فنری أن قراء تنا هي الأخیرة.‘‘([25]) (سمرہ﷜ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ مجھے تین مرتبہ قرآن سنایا گیا ہے۔ حماد بن سلمہ نے اس حدیث میں یا اس کے علاوہ کسی دوسری حدیث میں یوں کہا کہ ہمارا خیال یہ ہے کہ ہماری قراء ت، آخری قراءت ہے۔) ابن سیرین، جیسا کہ نقل کیا گیا، تصریحاً یہ کہتے ہیں کہ یہ بات محض ان کا ایک قیاس ہے۔ ابو عبد الرحمن السلمی کا قول امام بغوی نے بلا سند نقل کیا ہے۔ اس کے علاوہ میسر ومتداول مآخذ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا اور نہ اس بات کی کسی اور روایت سے تائید ہی ملتی ہے کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ  عرضۂ اخیرہ کی قراء ت کے موقع پر موجود تھے۔ اس کے بعد صرف عبیدہ سلمانی کا قول باقی بچتا ہے جسے صاحب کنز العمال نے نقل کیا ہے۔ اس کی استنادی حیثیت کے سوال سے قطع نظر، یہ بھی حتمی طورپر نہیں کہا جا سکتا کہ عبیدہ سلمانی یہ بات کسی روایت کی روشنی میں کہہ رہے ہیں یا پھر، ابن سیرین کی طرح، محض اپنے ذاتی قیاس کی بنیاد پر۔

مذکورہ تمام اقوال کے برعکس عبد اللہ بن عباس ﷠سے صحیح سند کے ساتھ اس بات کی تصریح منقول ہے کہ  عرضۂ اخیرہ کی قراء ت وہ نہیں جس کے مطابق عموماً لوگ تلاوت کرتے ہیں، بلکہ وہ تھی جو عبد اللہ بن مسعود ر﷜ضی اللہ عنہ لوگوں کو سکھاتے تھے اور انھی کی قراء ت، درحقیقت،  عرضۂ اخیرہ کی قراء ت تھی۔ ابن عباس کا یہ قول ان کے متعدد شاگردوں نے ان سے نقل کیا ہے۔ ابو ظبیان کی روایت ہے کہ عبد اللہ بن عباس رض﷠ی اللہ عنہما نے لوگوں سے پوچھا:’’أيُّ القراءتين تَعُدُّون أَوَّل؟، قالوا: قراءة عبد الله، قال: لا، بل هي الآخرة، كان يعْرض القرآن على رسول الله – ﷺ – في كل عام مرة، فلما كِان العامُ الذي قبض فيه عرض عليه مرتين، فشهد عبد الله، فعلم ما نُسِخَ وما بُدِّل.([26])‘‘ (تم کون سی قراء ت کو پہلی (یعنی ابتدائی دور کی) قراء ت سمجھتے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ عبد اللہ بن مسعود کی قراء ت کو۔ ابن عباس نے کہا کہ (نہیں)، ہماری قرا ء ت پہلے دور کی قراء ت ہے  جب کہ  عبد اللہ بن مسعود کی قراء ت، آخری دور کی قراء ت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر سال رمضان میں (جبریل کی طرف سے) ایک مرتبہ قرآن پڑھ کر سنایا جاتا تھا۔ جب آپ کی وفات کا سال آیا تو آپ کو دو مرتبہ قرآن پڑھ کر سنایا گیا۔ اس موقع پر عبد اللہ بن مسعود موجود تھے،  چناں چہ  قرآن کے جو حصے منسوخ کر دیے گئے اور جن میں تبدیلی کی گئی، وہ ابن مسعود کو معلوم ہو گئے۔)ابن عباس کے ایک اور شاگرد مجاہد سے روایت ہے: ’’عن مجاهد عن ابن عباس قال: قال:أيُّ القراءتين كانت أخيراً، قراءة عبد الله أو قراءةُ زيد؟، قال: قلنا: قرأءة زيد، قال: لا، إلا أن رسول الله – ﷺ – كان يعرِضٍ القرآن على جبرائيل كلّ عام مرة، فلما كان في العام الذي قُبض فيه عَرَضَه عليه مرتين، وكانت آخِرَ القراءة قراءةُ عبد الله.‘‘([27])(ابن عباس نے لوگوں سے پوچھا کہ تم لوگ کون سی قراءت کو آخری قراء ت سمجھتے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ زید بن ثابت کی قراء ت کو۔ ابن عباس نے کہا کہ نہیں۔ رسول اللہ ﷺہر سال جبریل علیہ السلام کو قرآن پڑھ کر سناتے تھے۔ جب آپ کی وفات کا سال آیا تو آپ نے جبریل کو دو مرتبہ قرآن پڑھ کر سنایا۔ (اس موقع پر ابن مسعود موجود تھے)، اس لیے ان کی قراء ت سب سے آخری قراء ت ہے۔)یہی بات زر بن حبیش نے بھی نقل کی ہے۔ کہتے ہیں:’’قال لي ابن عباس: أي القراءتين تقرأ؟ قلت: الآخرة قال: ” فإن جبريل عليه السلام، كان يعرض القرآن على النبي صلى الله عليه وسلم كل عام في رمضان. قال: فعرض عليه القرآن في العام الذي قبض فيه النبي ﷺ مرتين “، فشهد عبد الله ما نسخ منه، وما بدل، فقراءة عبد الله الآخرة.‘‘([28]) (ابن عباس نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون سی قراء ت پڑھتے ہو؟ میں نے کہا کہ آخری۔ ابن عباس نے کہا کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہﷺکو ہر سال رمضان میں قرآن پڑھ کر سناتے تھے۔ جب آپ کی وفات کا سال آیا تو جبریل نے آپ کو دو مرتبہ قرآن پڑھ کر سنایا۔ (اس موقع پر عبد اللہ بن مسعود موجود تھے)،  چناں چہ  قرآن کے جو حصے منسوخ کر دیے گئے اور جن میں تبدیلی کی گئی، وہ ابن مسعود کو معلوم ہو گئے۔ اس لیے (تمھاری قراء ت نہیں، بلکہ) ابن مسعود کی قرا ت، آخری قراء ت ہے۔)عرضۂ اخیرہ کے موقع پر اپنے موجود ہونے کا ذکر خود ابن مسعود ﷜نے بھی کیا ہے۔  چناں چہ  سیوطی نے ابن الانباری کے حوالے سے ان کے یہ اقوال نقل کیے ہیں:’’كان جبريل يعارض النبي ﷺ بالقرآن في كل سنة مرة وأنه عارضه بالقرآن في آخر سنة مرتين فأخذته من النبي ﷺ ذلك العام.‘‘([29]) (جبریل ہر سال ایک مرتبہ ﷺکے ساتھ قرآن کا دورہ کیا کرتے تھے۔ آخری سال انھوں نے آپ کے ساتھ دو مرتبہ قرآن کا دورہ کیا اور اس سال میں نے نبی ﷺسے قرآن مجید سنا۔)اسی بنیاد پر وہ کہتے تھے کہ:’’لو أعلم أحدا أحدث بالعرضة الأخيرة مني لرحلت إليه.‘‘([30])(اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ کوئی شخص  عرضۂ اخیرہ کے متعلق مجھ سے بھی تازہ معلومات رکھتا ہے تو میں سفر کر کے اس کے پاس چلا جاؤں گا۔)اگر حقیقی صورت حال یہی ہے جو ابن عباس اور ابن مسعود نے بیان کی ہے تو یہ بات کئی اہم سوالات کو جنم دیتی ہے جن میں سے اہم ترین سوال یہ ہے کہ سیدنا عثمان اور ان کے ساتھ جمہور صحابہ نے امت کے لیے متفقہ مصحف مرتب کرواتے ہوئے  عرضۂ اخیرہ کی حتمی اور نظر ثانی شدہ قراء ت کو کیوں بنیاد نہیں بنایا؟ او رخاص طور پر یہ کہ متن کو حتمی شکل دیتے ہوئے ابن مسعود کو کلیتاً نظر انداز کیوں کر دیا گیا جن سے قرآن سیکھنے کی تلقین نہ صرف یہ کہ نبی ﷺ نے خاص طو رپر لوگوں کو فرمائی تھی بلکہ وہ  عرضۂ اخیرہ کے موقع پر موجود ہونے کی وجہ سے منسوخ اور تبدیل شدہ مقامات کی بھی نشان دہی کر سکتے تھے؟ نہ صرف یہ کہ عقلی اورمنطقی طور پر بھی  عرضۂ اخیرہ ہی کی قراء ت کو بنیاد بنایا جانا چاہیے تھا، بلکہ یہ طریقہ مختلف قراء تیں پڑھنے اور سکھانے والے حضرات کو بھی ایک قراء ت پر متفق کرنے کے لیے ایک مضبوط استدلال کا کام دے سکتا تھا۔ ا س کے باوجود اس سے مختلف طریقہ کیوں اختیار کیا گیا، اس اہم اور نازک سوال کا کوئی جواب ہمیں روایات کے ذخیرے سے نہیں ملتا۔

یہاں ضمناً یہ نکتہ بھی واضح کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراء ت اور عام قراء ت کے مابین اختلاف کی نوعیت کیا تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض معاصر اہل علم کی تحریروں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید ابن مسعود کے مصحف اور مصحف عثمانی میں اختلاف بس اتنا سا تھا کہ ابن مسعود کے مصحف میں سورتوں کی ترتیب، مصحف عثمانی کی ترتیب سے مختلف تھی۔  چناں چہ  مولانا محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں:

حضرت عبد اللہ بن مسعود کا مصحف عثمانی مصاحف سے کچھ مختلف تھا اور آپ اسے محفوظ رکھنا چاہتے تھے، لیکن اس میں کیا چیزیں عثمانی مصاحف سے مختلف تھیں؟ اس کی صراحت صحیح روایات میں نہیں ملتی۔ بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مصحف میں بنیادی فرق سورتوں کی ترتیب کا تھا۔ … مثلاً اس میں سورۂ نساء پہلے اور سورۂ آل عمران بعد میں تھی اور حضرت ابن مسعود نے شاید اسی ترتیب کے ساتھ آنحضرت ﷺ سے قرآن کریم سیکھا ہوگا۔ ([31])

تاہم مواد کا جائزہ لینے سے یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔ پہلی بات تو یہ کہ سورتوں کی ترتیب میں اختلاف کا معاملہ کوئی ایسی چیز نہیں جس میں سیدنا عثمان یا جمہور صحابہ کسی ایک ہی متعین ترتیب پر اصرار کرنا چاہتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف اکابر صحابہ کے ہاں مصاحف میں سورتوں کی ترتیب مختلف تھی اور وہ اس چیز کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ مثلاً یوسف بن ماہک بیان کرتے ہیں کہ وہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود تھے کہ عراق سے آیا ہوا ایک شخص ان کے پاس حاضر ہوا اور کہا کہ مجھے اپنا مصحف دکھائیے۔ ام المومنین نے مقصد دریافت کیا تو اس نے کہا کہ :’’ لعلي أولف القرآن عليه، فإنه يقرأ غير مؤلف، قالت: وما يضرك أيه قرأت قبل؟ ” إنما نزل أول ما نزل منه سورة من المفصل.‘‘([32])(میں اس کے مطابق قرآن کو مرتب کرنا چاہتا ہوں،  کیوں کہ  قرآن کی تلاوت غیر مرتب طریقے سے کی جا رہی ہے۔ ام المومنین نے کہا کہ تم قرآن کا جو حصہ بھی پہلے پڑھ لو، تمھیں اس کا کیا نقصان؟ سب سے پہلے قرآن کا جو حصہ نازل ہوا تھا، وہ مفصل کی ایک سورت تھی۔) اس تناظر میں اگر مصاحف کے اختلاف کی نوعیت بس سورتوں کی ترتیب میں فرق کی تھی تو ابن مسعود کی طرف سے اس پر اتنی شدت سے انکار کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ابن مسعود کی قراء ت سے متعلق تفسیر وحدیث کے ذخیرے میں جو بکھرا ہوا مواد ملتا ہے، اس کو دیکھنے سے مذکورہ مفروضے کی قطعی تردید ہو جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ابن مسعود کے مصحف میں کئی مقامات پر قراء ت اس قراءت سے مختلف تھی جو مصحف عثمانی میں درج کی گئی ہے اور اس اختلاف کی نوعیت الفاظ میں تبدیلی، تقدیم وتاخیر اور کمی بیشی کی تھی۔ ابن ابی داود نے کتاب المصاحف میں اس نوع کی تمام مثالوں کو یک جا کر دیا ہے۔ نمونے کے طور پر چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

 

متن میں مختلف قراء توں کو سمو دینے کا مفروضہ

متن میں الفاظ کی کمی بیشی یا تبدیلی یا تقدیم وتاخیر کے اختلاف کے علاوہ، ذخیرۂ قراء ات میں ایک بڑا حصہ ایسے اختلافات پر مشتمل ہے جن میں ایک ہی لفظ کو حروف یا اعراب وغیرہ کی تبدیلی کے ساتھ مختلف طریقوں سے پڑھنے کی گنجائش ہوتی ہے۔  اس ضمن میں مصحف عثمانی سے متعلق اہم سوال یہ ہے کہ اس نوع کے اختلافات اور مصحف کے متن کا باہمی تعلق اور خاص طور پر مصحف کو مرتب کرنے والے حضرات کا زاویۂ نظر کیا تھا؟ متاخرین علماے قراء ت کی طرف سے عام طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ مصحف عثمانی کے رسم الخط میں تمام مستند قراء توں کو سمو دیا گیا تھا اور اس بات کا اہتمام کیا گیا تھا کہ نقطوں اور اعراب کے بغیر لکھے ہوئے نقوش مختلف طریقوں سے پڑھنے جانے کا تحمل کر سکیں۔([41])

یہ مفروضہ کئی بنیادی نوعیت کے سوالات واشکالات کو جنم دیتا ہے۔ مثلاً یہ بات کہ سیدنا عثمان نے مصحف کے متن میں تمام مستند قراء توں کو سمو دینے کا اہتمام کیاتھا، نہ روایات میں کہیں تصریحاً بیان ہوئی ہے او رنہ متقدمین کے ہاں اس کا کوئی ذکر ملتا ہے۔ یہ نکتہ بہت بعد میں متاخرین نے محض قیاساً بیان کیا ہے،  جب کہ  تاریخی لحاظ سے اس کا کوئی نقلی ماخذ روایات میں موجود نہیں۔

پھر یہ کہ مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے تمام مستند قراء توں کی تحقیق کیونکر ممکن تھی اور کس بنیاد پر یہ فرض کیا گیا کہ نبی ﷺ نے صحابہ کو جو قراء تیں سکھائیں، وہ سب کی سب مدینہ منورہ میں موجود قراء وحفاظ کے علم میں ہیں،  جب کہ  دور دراز شہروں کی طرف منتقل ہو جانے والے صحابہ کے پاس کوئی ایسی قراء ت نہیں ہوگی جس کو مصحف میں ثبت کرنے کی ضرورت ہو؟

سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ نوعیت کے اختلاف کے خاتمے کے لیے ایک مصحف مرتب کروا کر مختلف شہروں میں بھیج دینے کا طریقہ کیوں کر اس اختلافِ قراء ت کا خاتمہ کر سکتا تھا؟  کیوں کہ  مذکورہ نوعیت کے اختلاف کو ختم کرنے کے لیے ایک ایسا متن لکھوا کر بھیج دینا بدیہی طور پر کافی نہیں تھا جس پر نہ نقطے لگے ہوئے ہوں اور نہ اعراب۔ ایسا متن تو بہ ذات ِخود اس کا محتاج تھا کہ اسے کسی دوسرے طریقے سے معلوم طریقۂ قراء ت کے مطابق پڑھا جائے، چہ جاے کہ  وہ قراء ت کے اختلافات کا خاتمہ کرے۔اس ضمن میں ایک  دل چسپ  نکتہ آفرینی یہ کی گئی ہے کہ سیدنا عثمان نے دراصل ان مصاحف پر نقطے اور اعراب قصداً خاص اسی مقصد کے تحت نہیں لگوائے تھے کہ رسم الخط میں مختلف قراء توں کی گنجائش باقی رہے۔ زرقانی لکھتے ہیں:

أنه رضي الله عنه قصد اشتمالها على الأحرف السبعة. وجعلوها خالية من النقط والشكل تحقيقا لهذا الاحتمال أيضا. فكانت بعض الكلمات يقرأ رسمها بأكثر من وجه عند تجردها من النقط والشكل نحو {فَتَبَيَّنُوا} من قوله تعالى {إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَيَّنُوا} فإنها تصلح أن تقرأ فتثبتوا عند خلوها من النقط والشكل وهي قراءة أخرى وكذلك كلمة ننشرها من قوله تعالى {وَانْظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا} فإن تجردها من النقط والشكل كما ترى يجعلها صالحة عندهم أن يقرؤوها {نُنْشِزُهَا} بالزاي وهي قراءة واردة أيضا([42])

عثمان رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ یہ مصاحف ساتوں حروف پر مشتمل ہوں،  چناں چہ  اسی مقصد کے تحت انھوں نے ان مصاحف کو نقطوں اور اعراب سے خالی رکھا۔ یوں بعض کلمات کے نقوش کو، نقطوں اور اعراب سے خالی ہونے کی صورت میں، ایک سے زیادہ طریقوں سے پڑھا جا سکتا تھا۔ جیسے إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَيَّنُوا ‘‘ میں ’’ فَتَبَيَّنُوا ‘‘  کو اگر نقطوں اور اعراب کے بغیر لکھا جائے تو اسے ’’فتثبتوا‘‘ بھی پڑھا جا سکتا ہے جو کہ ایک دوسری قراء ت ہے۔ اسی طرح ’’وانظر إلى العظام كيف ننشزها‘‘ میں ’’ننشرها‘‘ کا کلمہ، جیسا کہ تم دیکھ سکتے ہو، نقطوں سے خالی ہونے کی صورت میں ان کے نزدیک زاء کے ساتھ ’’ ننشزها ‘‘ بھی پڑھا جا سکتا تھا اور یہ بھی ایک منقول قراء ت ہے۔

اس توجیہ کا بے بنیاد ہونا اس سے واضح ہے کہ اس وقت تک عربی زبان کے رسم الخط میں سرے سے نقطوں یا اعراب کا طریقہ وضع ہی نہیں ہوا تھا کہ ان کے نہ لگائے جانے سے وہ نتیجہ اخذ کیا جا سکے جو مذکورہ اقتباس میں اخذ کیا گیا ہے۔

بعض متاخرین نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ سیدنا عثمان نے ہر مصحف کے ساتھ ایک قاری بھی بھیجا تھا جو مستند قراء ت کے مطابق لوگوں کو قرآن کی تلاوت سکھائے۔([43]) تاہم مصحف کے ساتھ قاری بھیجے جانے کا تاریخی طور پر کسی روایت میں کوئی ثبوت نہیں ملتا اور کم سے کم اب تک کی تحقیق کی روشنی میں اس نکتے کو متاخرین کے ایک قیاسی مفروضے سے زیادہ کوئی حیثیت دینا مشکل ہے۔مولانا مناظر احسن گیلانی نے مذکورہ توجیہات کی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے سیدنا عثمان کے اقدام کی افادیت کو ایک اور پہلو سے متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ لکھتے ہیں:

حضرت عثمان ﷜نے اس نسخہ کی نقل کرانے کے لیے جو عہد صدیقی میں تیار ہوا تھا، حکومت کی طرف سے ایک سررشتہ قائم کر دیا۔ … حکم دیا گیا کہ کتابت کی حد تک قرآن کو اسی لہجہ اور تلفظ میں لکھا جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلفظ اور لہجہ تھا۔ … حضرت عثمان ﷜کا مسلمانوں پر بہت بڑا احسان ہے کہ لکھاوٹ یعنی نوشت وکتابت کی حد تک انھوں نے قرآن میں وحدت کا رنگ پیدا کر دیا۔ رہا تلفظ تو ظاہر ہے کہ اس میں وحدت اور یکسانی کا مطالبہ ان کے بس کی بات تھی بھی نہیں، اسی لیے اس مطالبہ کو نظر انداز کر دیا گیا اور آزادی بخشی گئی کہ جس کا جو تلفظ ہے یا تلفظ کی جس نوعیت پر جو قادر ہے، اسی تلفظ اور لب ولہجہ میں قرآن شریف کو وہ پڑھ سکتا ہے۔ ([44])

مذکورہ اقتباس میں ایک تو واضح داخلی تضاد دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً ایک طرف یہ کہا گیا ہے کہ ’’کتابت کی حد تک قرآن کو اسی لہجے اور تلفظ میں لکھا جائے جو رسول اللہ ﷺ کا تلفظ اور لہجہ تھا‘‘ اور دوسری طرف یہ کہ ’’تلفظ تو ظاہر ہے کہ اس میں وحدت اور یکسانی کا مطالبہ ان کے بس کی بات نہیں تھی‘‘۔  بہ ہر حال  بدیہی طور پر یہ دوسری بات ہی درست ہے،  کیوں کہ  یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ’’لہجہ اور تلفظ‘‘ کو نقطوں اور اعراب کے بغیر کتابت کی مدد سے کیسے واضح کیا جا سکتا تھا۔ جہاں تک اس نکتے کا تعلق ہے کہ سیدنا عثمان کی اس ساری کوشش کا مقصد محض قرآن کی لکھاوٹ یعنی رسم الخط میں یکسانی پیدا کرنا تھا ،تو یہ بات محلِ نظر ہے،  کیوں کہ  سیدنا عثمان کو جس اختلاف سے واسطہ تھا اور جس کو وہ امت کی وحدت کے لیے مضر سمجھتے ہوئے اس کے علاج کی کوشش کر رہے تھے، وہ قرآن کی کتابت کا نہیں، بلکہ اس کی قراء ت کا اختلاف تھا۔ اب یہ بڑی عجیب بات ہوگی کہ پیشِ نظر مسئلہ کچھ اور ہو، لیکن علاج اور مداوا کسی دوسری چیز کا شروع کر دیا جائے۔

بعض اہل علم نے مصحفِ عثمانی کے متن میں مختلف قراء توں کی قصداً گنجائش رکھے جانے کے مفروضے کے حق میں اس نکتے سے استدلال کیا ہے کہ سیدنا عثمان نے مختلف شہروں میں جو مصاحف بھجوائے، ان کے متن بعض مقامات پر باہم مختلف تھے اور اس کی وجہ یہی تھی کہ قراء ت کے جن اختلافات کو ایک نسخے میں سمونا ممکن نہیں تھا، انھیں متن کے اختلاف کی صورت میں مختلف نسخوں میں شامل کر دیا گیا۔([45]) لیکن اس پر ایک سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ تاریخی طو رپر اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ نسخوں میں یہ اختلاف قصداً اور اسی مقصود کے پیش نظر رکھا گیا تھا؟ کیا سیدنا عثمان یہ چاہتے تھے کہ کسی ایک علاقے کی طرف جو نسخہ بھیجا گیا ہے، وہاں کے لوگ صرف انھی قراء توں سے واقف ہوں جو اس نسخے کے رسم الخط کے مطابق ہیں،  جب کہ  دوسری قراء توں سے، جن کو کسی دوسرے نسخے کے رسم الخط میں سمویا گیا ہے، ناواقف رہیں؟ کیا یہ طریقہ قراء ت کے اختلاف کو ختم یا محدود کرنے کا تھا یا آگے چل کر مزید اختلاف کا باعث بننے والا؟ پھر یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ اختلاف قراء ت کو رسم کے اختلاف کے ذریعے سے محفوظ کرنے کا یہ طریقہ صرف گنتی کے چند مقامات پر کیوں اختیار کیا گیا،  جب کہ  بیشتر مقامات پر جہاں قراء ت کا اختلاف موجود ہے، سب نسخوں میں ایک ہی طریقے سے الفاظ درج کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر سورۂ فاتحہ کی آیت ۳ میں ’مالک یوم الدین‘ اور ’ملک یوم الدین‘ کی دو قراء تیں منقول ہیں، لیکن تمام مصاحف میں یہ لفظ الف کے بغیر ’ملک‘ ہی لکھا گیا ہے۔ یہاں قراء ت کے اختلاف کو واضح کرنے کے لیے بعض نسخوں میں اس لفظ کو الف کے ساتھ کیوں نہیں لکھا گیا؟ اسی طرح سورۂ بقرہ کی آیت ۹ میں ’وما یخدعون إلا أنفسهم.‘ کو باب مفاعلہ سے ’وما یخادعون‘ بھی پڑھا گیا ہے اور مجرد سے ’وما یخدعون‘ بھی، لیکن تمام مصاحف میں اسے الف کے بغیر ’یخدعون‘ ہی لکھا گیا ہے۔ اس نوع کی ان گنت مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔

خلاصۂ بحث

مذکورہ سطور میں مصحف عثمانی کی تدوین سے متعلق پیدا ہونے والا چند اہم سوالات اہل علم کے سامنے رکھے گئے ہیں تاکہ ان پر زیادہ ارتکاز کے ساتھ غور کیا جا سکے اور ان کی روشنی میں دستیاب ذخیرۂروایات کا زیادہ تفصیلی جائزہ لیا جا سکے۔ ان سوالات کے روایتی طور پر، اور بالعموم سرسری انداز میں، جو جوابات دیے گئے ہیں، وہ تشفی بخش نہیں۔ اگر تحقیق سے ان سوالات کے کوئی غیر روایتی جوابات سامنے آتے ہیں تو مصحف عثمانی کی تدوین اور علم قراء ات سے متعلق متعدد روایتی مفروضات وتصورات بھی نظر ثانی کے متقاضی ہوں گے۔ تاہم اصل سوالات سے متعلق کوئی حتمی بات سامنے آنے سے پہلے ان اضافی اور ملحقہ سوالات کو چھیڑنا قبل از وقت ہوگا۔ امید کی جاتی ہے کہ موضوع سے  دل  چسپی رکھنے والے اہل علم اپنے نتائج تحقیق سے مقالہ نگار اور قارئین کی راہ نمائی فرمائیں گے۔

 

حوالہ جات

[1] – محمد بن اسماعیل البخاری، صحيح البخاري، تحقیق: محمد زہیر بن ناصر الناصر ، كتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن، (دار طوق النجاة، 1422ھ )،  6: 183، رقم: 4987

[2] – عبد اللہ بن سلیمان بن الاشعث ابن ابی داود، کتاب المصاحف،تحقیق: محب الدین عبد السبحان واعظ(بیروت: دار البشائر الإسلامية ۲۰۰۲ھ)، 204، رقم: 74،  208، 209،  رقم: 82

[3] – نفسِ مصدر،  ص ۱۷۵، ۱۷۶، رقم: 38؛ ۱۷۹ تا ۱۸۱، رقم:45- 49

[4] – البخاری، صحیح البخاري، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن، 6: 183، حدیث: 4987

[5] – ابن ابی داؤد،مصدرِ سابق، ۲۰۸، رقم: 81

[6] – ابن ابی داؤد،مصدرِ سابق، ۲۰۸، ۲۰۹، رقم: 82

[7] – عبد الرحمن بن ابی بکر جلال الدین السیوطی، الإتقان في علوم القرآن، تحقیق: شعیب الارنووط ( بیروت: مؤسسة الرسالة، ۲۰۰۸ء)، 133

[8] – ابن ابی  داؤد،مصدرِ سابق، ۲۰۴، رقم: ۷۵

[9] – القرآن 38:20

[10] – القرآن 33: 23؛ البخاری، صحیح البخاري، کتاب الجهاد والسیر، باب قول الله تعالى: من المومنین رجال صدقوا ما عاهدوا الله علیه، 4: 19، رقم:۲۸۰۷

[11] – محمد تقی عثمانی، علوم القرآن(کراچی: مکتبہ دار العلوم کراچی، ۲۰۰۸ء)، 191

[12] – ابن ابی داؤد،کتاب المصاحف،  ۱۷۵، ۱۷۶، رقم: ۳۸

[13] – (دیکھیے: نفس مصدر ۸۳، رقم ۸۲: ۲۰۸، ۲۰۹

[14] – نفسِ مصدر، ۲۴۰، رقم: ۱۱۷

[15] – السیوطی، الإتقان،  ۱۳۳

[16] – محمد عبد العظیم الزرقانی ، مناهل العرفان في علوم القرآن،  تحقیق: فواز احمد زمرلی(بیروت: دارالکتاب العربي،۱۴۱۵ھ)، 1: 211

[17] – ابن ابی داؤد، مصدر سابق، ۲۴۴ ، رقم: ۱۲۱

[18] – ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ الحاکم،  المستدرک علی الصحیحین،تحقیق: مصطفی عبد القادر عطا( بیروت:  دار الكتب العلمية، ۱۴۱۱ھ)، 2: 250، رقم: 2904

[19] – علی بن حسام الدین  علاء الدین، کنز العمال في سنن الأقوال والأفعال،  تحقیق: بکری حیانی/صفوۃ السقا (بیروت:مؤسسة الرسالة ، ۱۴۰۱ھ )، 2: 599، رقم: 4832

[20] –  احمد بن الحسین بن علی البیہقی، دلائل النبوة،  تحقیق: د؍ عبد المعطی قلعجی ( بیروت: دار الكتب العلمية،  دارالريان للتراث،  ۱۴۰۸ھ)،  7: 155، 156

[21] – ابو محمد الحسین بن مسعود البغوی ، شرح السنة،تحقیق: شعیب الانؤوط؍ محمد زہیر الشاویش ( دمشق: المكتب الإسلامي،۱۴۰۳ھ)، 4: 525، 526

[22] – ابن ابی داؤد، کتاب المصاحف، ۲۱۳، رقم: 88

[23] – السیوطی، الإتقان، ۱۳۳

[24] – ابن ابی داؤد، مصدر سابق، 204، رقم: 75

[25] – ابوبکر محمد بن ہارون الرؤیانی ، المسند،  تحقیق: ایمن علی ابو یمانی (قاہرہ: مؤسسة قرطبة،  ۱۴۱۶ھ)،  2:55، رقم: 826

[26] – احمد بن حنبل، المسند،  تحقیق: شعیب الارنؤوط؍ عادل مرشد، مسند بني هاشم، مسند عبد الله بن العباس بن عبد المطلب، عن النبي صلى الله عليه وسلم (بیروت: مؤسسة الرسالة،  ۱۴۲۱ھ)،5: 395، رقم:3422

[27] – نفسِ مصدر، رقم: 2494؛ الحاکم، المستدرک، 2: 250

[28] – سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی،  المعجم الکبیر،تحقیق: حمدی بن عبد المجید السلفی،باب العين، زر عن ابن عباس، (قاہرہ: مكتبة ابن تيمية)، 12: 103، رقم: 12602

[29] – عبد الرحمن بن ابی بکر جلال الدین السیوطی، الدر المنثور(بیروت: دار الفکر، سن ندارد)۔ 1: 259

[30] -السیوطی، نفسِ مرجع، 1: 259

[31] – تقی عثمانی،علوم القرآن،  ۱۵۱، ۱۵۲

[32] – البخاری، صحیح البخاري، کتاب فضائل القرآن، باب تالیف القرآن، 6: 185، رقم: ۴۹۹۳

[33] – القرآن 2: 198

[34] – القرآن 2

[35] – القرآن 2

[36] – القرآن 3: ۴۳

[37] – القرآن4: 40

[38] – القرآن5: 64

[39] – القرآن 103

[40] – ابن ابی داود، کتاب المصاحف،1: 293- 303،  رقم :۱۶۴، ۱۶۵، ۱۷۰، ۱۷۲، ۱۷۴

[41] – الزرقانی، مناهل العرفان، 1: 211؛ صبحی صالح، مباحث في علوم القرآن (بیروت:  دار العلم للملایین، ۱۹۷۷ء)، 85

[42] – الزرقانی، مرجعِ سابق، 1: 211، 212

[43] – الزرقانی، مرجعِ سابق، 1: 396، 397؛ صبحی صالح،مرجعِ سابق، ۸۶

[44] – مناظر احسن گیلانی، تدوین قرآن( کراچی: مکتبۃ البخاری، 2005ء)، ۸۴، ۸۵

[45] – تقی عثمانی، علوم القرآن، ۱۵۶؛ محمد محمد محیسن، الفتح الرباني في علاقة القراء ات بالرسم العثماني (ریاض: جامعۃ الامام محمد بن سعود، ۱۴۱۵ھ)،77

(بشکریہ سہ ماہی تحقیقات اسلامی، اعظم گڑھ، انڈیا، اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۵ء)

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں