Home » جامعہ بیت السلام کا تعلیمی وتربیتی نظام
احوال وآثار مدارس اور تعلیم

جامعہ بیت السلام کا تعلیمی وتربیتی نظام

All-focus

 

محمد عکاشہ

 

بیت السلام نے 2023 عیسوی کے وفاق المدارس کے امتحانات میں جو تاریخی نتیجہ قائم کیا، اس کے بعد سے جہاں  مسلسل مبارک باد  اور نیک تمناؤں کے اظہار کے پیغامات  سامنے آرہے ہیں، وہیں چند مخلص احباب کی طرف سے ایسی تحریریں بھی دیکھنے کو ملیں جن میں بیت السلام کے تعلیمی ڈھانچے اور اس کے تعلیمی نظام کو موضوع بنا کر بات کی گئی ہے۔ جن مخلص ساتھیوں نے  اپنی تحاریر میں بیت السلام سے متعلق تبصرے کیے یا اپنے خیالات کا اظہار کیا، اُن  میں اگرچہ اکثر درست باتوں کی طرف نشاندہی کی گئی تاہم چند ایک ایسے امور کی وضاحت ضروری ہے جنہیں  بیت السلام سے براہِ راست تعلق نہ رکھنے والے کے لیے سمجھنا  اور جانناضروری ہے۔

اس ادارے سے براہِ راست تعلق کی بدولت یہ تحریر میرے لیے ایک فریضہ کا درجہ بھی رکھتی تھی اور اسی فریضے کو میں غنیمت سمجھتے ہوئے انجام دے رہا ہوں تاکہ وہ ساتھی جو اپنے اداروں یا دوسرے تعلیمی اداروں کے لیے بھی اسی نصب العین، مقصد، مشن اور طریقہ کار کی تلاش میں ہیں جو بیت السلام کا طرہ امتیاز ہے تو وہ اِس  تحریرسے   نفع اٹھاسکیں۔

اس وقت اگرچہ لکھی جانے والی کئی تحریروں کا موضوع سال 2023 عیسوی کے وفاق المدارس کے امتحانات میں حاصل کردہ 42 پوزیشنیں ہے تاہم وفاق المدارس کے امتحانات میں پوزیشنوں  کا یہ سلسلہ کوئی نیا  نہیں ہے بلکہ گذشتہ سال بھی بیت السلام نے کل 24 پوزیشنیں حاصل کی تھیں جن  کی حیثیت اس لحاظ سے نہایت اہمیت کی حامل تھی کہ محض  دس سال پہلے قائم  ہونے والے ادارے کے لیے یہ ایک طرح کا تاریخی نتیجہ تھا۔ ویسے بھی بیت السلام کے  قیام  کے بعد سے اب تک بہترین تعلیمی   نتیجے کی ‘روایت’ ایک تسلسل کے ساتھ چلی آرہی ہے اور الحمدللہ ہر سال کی طرح اس بار بھی  جامعہ بیت السلام کراچی  اور جامعہ بیت السلام تلہ گنگ دونوں میں ممتاز (80 فیصد سے زائد نمبر لینے والے) طلباء کی تعداد نہایت غیر معمولی رہی ہے۔ اب ہم اُن چند امور پر نظر ڈالیں گے جو اس ادارے کی خصوصیات کہلانے کے قابل ہیں۔

  • داخلہ پالیسی:

کسی بھی  نظام کو استحکام بخشنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا حصہ بننے  والے افراد کو داخلے سے پہلے ہی کچھ اس طرح پرکھ لیا جائے کہ جہاں وہ فرداُس نظام میں داخل ہوجانے کے بعد بھرپورفائدہ اٹھائے، وہیں اُس  فرد کی ‘آمد’ سے اُس نظام کے  استحکام  کو بھی سہار املے ۔ اس لیے بہترین اداروں میں ہمیشہ سے داخلہ پالیسی کے موقع پر ایک مکمل منظم انداز اختیار کیا جاتا ہے اور کسی بھی طرح کی کوئی لچک  باقی نہ رکھی جاتی کہ جس سے فائدہ اٹھاکر نااہل افراد نظام کے اندر داخل ہوکر اس کی جڑیں کھوکھلی کریں اور ایک عرصے سے جاری محنت کو خاک میں ملادیں۔ بیت السلام کی داخلہ پالیسی میں بھی اسی نکتے کو سامنے رکھا گیا ہے اور یہاں کسی  تخصیص اور خصوصیات  کے   بغیر داخلہ کاروائی مکمل کی جاتی ہے ، ایسے میں اگر کسی قسم کے معیار کو روا رکھا جاتا ہے تو وہ   دو عناصر ہیں ۔ایک استعداد یعنی قابلیت اور دوسرے نمبر پر محنت ۔

  • محنتی افراد کی قدر:

ادارے میں ایک عرصہ گزارلینے کے بعد مشاہدے میں آیا ہے کہ بیت السلام  کے ہاں محنتی افراد کی نہایت قدر ہے، ہمارے بڑے استادجی (حضرت جی مولانا عبدالستار صاحب حفظہ اللہ)  اکثر اپنے بیانات میں ایک بات ارشاد فرماتے ہیں کہ:

” ایک غبی( کندذہن )لیکن محنتی طالب علم ہمیں دل و جان سے قبول ہے اور ایسا  بچہ ہمارے  ادارے کے لیے باعثِ برکت ہوگا  البتہ دوسری طرف  کوئی ذہین  بھی ہو، صاحبِ استعداد بھی ہو لیکن محنت سے جی چراتا ہے تو اس کے لیے ادارے کی طرف سے کسی قسم کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی۔”

ایک اور بات جو اکثر حضرت جی دامت برکاتہم   ارشاد فرماتے ہیں  اور بہت سے   طلباء کے لیے حوصلہ افزا بھی  ثابت ہوتی ہے ، وہ یہ کہ :” اللہ تعالیٰ کے ہاں فیصلے اختیاری چیزوں پر ہوتے ہیں، غیر اختیاری چیزوں پر نہیں ،اور  چونکہ حافظہ اور ذہانت غیراختیاری چیز ہے لہذا صرف   اس کی بنیاد پر اللہ تعالٰی کسی کو نہیں  نوازتے  بلکہ قدرت کے ہاں یہ  دیکھا جاتا ہے کہ ‘ محنت’، جو ایک اختیاری عمل ہے، اس کا آدمی نے کتنا دھیان رکھا ہے۔”

الغرض کوئی کتنا ہی ذہین اور ذی استعداد کیوں نہ ہو لیکن اگر محنت کی مشقت سے کنی کتراتا ہے تو بیت السلام میں  اس کے لیے کوئی خاص مقام نہیں البتہ اگر کوئی کند ذہن ہے لیکن محنتی بھی ہے تو ادارہ اس کی خوب حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ اسی وجہ سے تعلیمی ماحول میں ‘محنت’ کی ایک فضا  پورے تسلسل سے قائم رہتی ہے اور داخلے کے وقت بھی اس نکتے کا  خاص خیال رکھا جاتا ہے۔

  • بیت السلام میں داخلے کا میرٹ:

چند ساتھیوں نے یہ رائے قائم کی کہ یہاں پر  داخلے کے وقت صرف ذہین طلباء کو رکھاجاتا ہے ،، جس کی وجہ سے تعلیمی معیار بلند ہے۔اس ضمن  میں پہلی بات تو یہ ہے کہ بیت السلام نے محض  ‘ذہین بچوں’ کے لیے خاص طور سے کوئی داخلہ کاروائی نہیں رکھی ہوئی بلکہ اس بیاباں میں قائم مدرسے کا بہترین تعلیمی نظام، یہاں کے اساتذہ کی محنت اور پھر اسی محنت کے نظر آنے والے ثمرات  ہی  ہر باشعور فرد کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچے کو یہاں تعلیم دلوائے۔ لہذا یہاں کسی بھی  قسم کی خصوصیت نہیں برتی  جاتی بلکہ بیت السلام کی داخلہ کاروائی  مکمل طور پر اپنے معیارکے مطابق ہوتی ہے،اور ہر وہ بچہ جو معیار پر پورا اترے، اُسے نہایت آسانی سے داخلہ دے دیا جاتا ہے۔

  • بیت السلام کے تعلیمی ڈھانچے کی خصوصیات:

بیت السلام کے تعلیمی نظام کو ترتیب دیتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا گیا  کہ یہاں کے   نصاب و نظام کو برت کرکے آگے بڑھنے  والا طالب علم ملک وملت کے لیے ایک عظیم سرمایہ بن کر ابھرے اور اس کی بدولت جہاں علم و آگہی کے خشک سوتے پوری طرح پھوٹیں ، وہیں معرفت اور عرفانِ نفس کی صفات بھی اس کے اندر اس طرح سے مکمل طور پر موجزن ہوں کہ اس میں  موجود امانت و دیانت کی جامع صفات سے ایک عالم نفع اٹھائے۔

اقبال کے الفاظ میں یہاں کے طالب علم کو صرف” خاک کی آغوش میں تسبیح و مناجات” کا پابند نہیں بنایا جاتا  بلکہ اس کا مسلک و مشرب اُن’ مذہبِ مردانِ خودآگاہ و خدا مست ‘ سے میل کھاتا ہے جن کی سوچ و فکراور نطریہ ‘وسعتِ افلا ک میں تکبیرِ مسلسل’ کا قائل اور حامل ہے۔

یہاں کے تعلیمی نظام کی سب سے بڑی خوبی اس کا سہل پسندی کی روایت کو توڑنا اور  ہر طرح کے جمود کی حالت کو پاش پاش کرنا ہے۔

یہاں کا طالب علم جب آدابِ سحر گاہی کی رعایت رکھتے ہوئے تہجد کے مبارک وقت میں بیدار ہوتا ہے تو اپنے رب سے راز و نیاز میں مصروف رہنے کے بعد نمازِ فجر تک اس کے اندر بشاشت کی ایک لہر جاری رہتی ہے۔ پھر فجر   کے بعد خاص طور سے ورزش کا اہتمام کروایا جاتا ہے  تاکہ طالب علم اپنی پڑھائی کے دوران چست رہے، اور اس کی یکسوئی میں خلل نہ آئے۔ چنانچہ صبح کے مبارک اوقات کا آغاز ہوتے ہی  یہاں کے طلباء اور اساتذہ درس و تدریس کے مشغلے میں لگ جاتے ہیں۔ اس بابرکت وقت کی قدردانی کی بدولت علم و عرفان کے چشمے پوری طاقت سے پھوٹتے ہیں اور روح کو اس طرح سے سیراب کرڈالتے ہیں کہ حصولِ علم میں مشغول یہ شخص بے اختیار کہہ اٹھتا ہے،

؂    روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی

  • بیت السلام کے تربیتی نظام کی خصوصیات:

اسی طرح تربیتی حوالے سے دیکھا جائے تو یہاں پر طلباء کے اندر عبادات کا ذوق پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ معاملات اور معاشرت میں اچھا برتاؤ کرنے کا شوق بھی دلایا جاتا ہے۔ قرآن کی تلاوت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اللہ سبحانہ و تعالٰی کے کلام سے تعلق اور وابستگی پیدا کرنے  کے لیے  جہاں مختلف انداز کے مسابقے اور مقابلے منعقد کروائے جاتے ہیں، وہیں پر نماز سے پہلے اور بعد میں تلاوت کا وقت  بھی دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ایک طالب علم روزانہ  کم ازکم  تین پاروں کی تلاوت مکمل کرلیتا ہے۔یوں  نماز سے پہلے تلاوت میں شریک ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ بھی  ہوتا ہے کہ سوفیصد طلباء کی جانب سے تکبیرِ اولیٰ کی پابندی دیکھنے میں  آتی ہے۔

پھر اگر اخلاقیات اور معاشرت کے باب  کو دیکھا جائے تو تربیت کے اِن تمام گوشوں میں سب سے مؤثر اقدام مہینے میں ہونے والے وہ تین بیانات ہوتے ہیں جن میں بڑے استادجی (حضرت جی مولانا عبدالستار صاحب) حفظہ اللہ طلباء سے خطاب کرتے ہیں۔ اِن بیانات کا اثر نہایت دیرپا ہوتا ہے اور اِن کے موضوعات بے حد مفید۔  یہ تمام تر بیانات دھیمے انداز سے شروع ہوکر اِسی انداز میں ختم ہوجاتے ہیں مگر سننے والوں پر ایک ‘بھاری’اثر چھوڑجاتے ہیں۔ اِن بیانات کے موضوعات کے عنوان اتنے کم ہیں کہ اس کا احاطہ کرنے کے لیے میں بآسانی ‘ادب،اخلاق. تقویٰ ،اکابر پر اعتماد، مدرسے کا مقصد، مدرسے کی اہمیت اور مدرسے میں گزرنے والے وقت کی قدروقیمت’  جیسے نام گنواسکتا ہوں لیکن موضوعات کی پہنچ  کا احاطہ کرنے   کے لیے میرا قلم جواب دے جائے گا کیوں کہ اُس کا صحیح اندازہ کرنے کے لیے مقرر کا درد  صفحات پر منتقل کرنا ہوگا جو میرے لیے ہی نہیں ہر تحریر نگار کے لیے ایک ناممکن عمل ثابت ہوگا۔

  • اساتذہ کے لیے تربیتی نشستوں کا اہتمام:

حضرت جی دامت برکاتہم کے اِن  مؤثر بیانات کا سلسلہ صرف طلباء کے حلقے تک  ہی محدود نہیں رہتا بلکہ جامعہ کے تمام تر اساتذہ کے درمیان بھی ہر ماہ تربیتی نشست کا اہتما م کیا جاتا ہے جس کے تحت اساتذہ میں ‘اکابر پر اعتماد ،اکابر کا اخلاص اور زہد، اور اکابر کا طلباء سے شفقت و محبت کا  عمل’ جیسے موضوعات پر بات کی جاتی ہے۔

  • عربی اور انگریزی کا بہترین ماحول:

جامعہ کے اندر درسِ نظامی کے طلباء کے لیے عربی اور عصری علوم کے طلباء کے لیے انگریزی بولنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔طلباء کے علاوہ  اساتذہ بھی اس کا خوب اہتمام کرتے ہیں۔

  • لائبریری کا سازگار ماحول:

تعلیمی قابلیت کے حصول میں ذاتی مطالعے کا ذوق نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ مطالعے کے اسی ذوق کو جلا بخشنے کے لیے طلباء کو مطالعہ کا نہایت سازگار ماحول فراہم کیا جاتا ہے ۔

  • انعامات کا ایک سلسلہ:

تعلیمی نظام کے معیار  کو صرف سطحی انداز  میں ہی  منظم نہیں  کیا گیا بلکہ طلباء کے دل و دماغ میں اس کی اہمیت جاگزیں کرنے کے لیے خطیر رقوم اور اعلیٰ کتب پر مشتمل انعامات کا ایک سلسلہ بھی رکھا گیا ہے، اس عمل سے جہاں ایک طالب علم کے اندر  تعلیمی میدان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے ، وہیں حوصلہ افزائی سے اس کے اندر مسلسل اچھے سے اچھا کردکھانے کی  ایک تحریک بھی جنم لیتی رہتی ہے۔

اور پھر انعامات کا یہ سلسلہ محض طلباء تک ہی محدود نہیں بلکہ ادارے کے اساتذہ کو بھی بہترین کارگردگی پر انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے۔

  • جہدِ مسلسل اور چھٹیوں میں دوروں کا انعقاد:

بیت السلام میں اساتذہ اور طلباء کو میسر آنے والی  سہولیات  شاید غیرمعمولی تو نہیں ہیں ہاں البتہ اُن کی ضرورت سے متعلق  تمام چیزیں انہیں  فراہم کی جاتی ہیں مگر ساتھ میں اساتذہ اور طلباء  دونوں سے کام بھی خوب لیا جاتا ہے ۔ادارے کی کوشش ہوتی ہے کہ اساتذہ اور طلباء کے اوقات کو فارغ نہ رکھا جائے بلکہ کوئی  مناسب کام اور ذمہ داری  اُن کے حوالے کردی جائے لہذا رمضان میں بھی، جب کہ دوسرے  مدارس میں تعطیلات کے دن ہیں،   یہاں کے اساتذہ اور طلباء اپنے آپ کو کسی نہ کسی مفید دورے میں شریک رکھتے ہیں  جیسے کہ انگلش اور عربی کا دورہ، اصولِ فقہ اوراصولِ حدیث وغیرہ۔ چونکہ ادارے کے مہتمم  اور بڑے استادجی  کی اپنی زندگی  ایک  جہدِ مسلسل،  جواں ہمتی،    لگن اور مسلسل کام سے عبارت ہے اس لیے ادارے کے  اساتذہ بھی اپنے آپ کو اسی رخ پر ڈال دیتے ہیں اور  مسلسل کام میں مشغول رہ کر خدمات انجام دیتے ہیں۔

  • امتحانی نظام:

کسی بھی تعلیمی نظام میں وہاں کے امتحانی نظام کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اگر امتحانی نظام کمزور رہ جائے تو پورے تعلیمی ڈھانچے پر اس کے خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے بیت السلام کے امتحانی نظام کو حددرجے مستحکم اور منظم رکھاگیا ہے اور کوئی ایسی گنجائش ہی نہیں رکھی گئی جس کی بنا پر یہاں کے استحکام میں کسی قسم کا شگاف ڈال کرنظامِ تعلیم کی کشتی ڈبودی جائے۔

  • ادارے کا محل ِ وقوع :

ادارے کے محلِ وقوع کے بارے میں بھی تجزیہ کیا گیا ہے کہ چونکہ یہاں کا ماحول ایک شہر سے  باہر ہے لہذا خوب یکسوئی ملتی ہے ۔ یہ بات یقیناً درست ہے کیوں کہ اس طرح کا ماحول ایک طالب علم کے لیے یقیناً سازگار ہوتا ہے اور وہ بھری پری جگہ کی بنست زیادہ آسانی سے تقویٰ کا اہتمام کرسکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام کو اس خوبصورت انداز سے ترتیب دے کر اُس میں محنت کے عنصر کو اس منفرد انداز سے سمودیا گیا ہے کہ یہاں پر وقت ضائع کرنے والے کا رہنا دوبھر ہوجاتا ہے اور وہ مناسب ماحول نہ ملنے کی بدولت یہاں سے خود ہی رخصت ہوجاتا ہے ۔

  • بیت السلام مساجد اور مکاتب کا منفرد نظام:

بیت السلام کی یہ تعلیمی خصوصیات صرف مدرسوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ اگر بیت السلام کی زیرِ نگرانی چلنے والے دیگر تعلیمی اداروں کا جائزہ لیا جائے تو وہاں بھی یہ تمام خصوصیات نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔ اس کے عصری اداروں پر نظر ڈالی جائے تو جہاں اِنٹیلکٹ اسکول کے اندر اعلیٰ اور معیاری انداز کا نظامِ تعلیم دیکھنے کو ملتا ہے ، وہیں پر بیت السلام کا قائم کردہ اِنٹیلیکٹ کیڈٹ کالج بھی اِن تمام صفات کا حامل ہے۔ اس کے علاوہ بیت السلام کی طرف سے مساجد اور مکاتب کا ایک منفرد نظام ترتیب دیا گیا جس  میں تربیتی اور تعلیمی پہلوؤں کی مکمل رعایت رکھی جاتی ہے اور ملک بھر میں پھیلے سینکڑوں مکاتب کو بیت السلام کی موبائل ایپ کے ذریعے کنٹرول کرکے وہاں کا تعلیمی نظام فعال اور منظم رکھا جاتا ہے۔

  • بیت السلام ویلفیئر ٹرسٹ:

آخر میں اس بات کا تذکرہ بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ بیت السلام کی یہ خدمات صرف تعلیمی حلقے تک ہی  محدود نہیں بلکہ اس کی رفاہی سرگرمیوں سے  اب تک کروڑوں لوگ فائدہ اٹھا چکے ہیں اور مزید یہ سلسلہ جاری ہے۔ بیت السلام ویلفیئر ٹرسٹ کے حوالے سے میں چند جملے معروف کالم نگار جاوید چوہدری کے نقل کرنا چاہوں گا جو انہوں نے اپنے کالم’دوسرا پاکستان ‘ میں  درج کیے ہیں :

“یہ ادارہ کراچی کی ایک معتبر مذہبی شخصیت شیخ عبدالستار حفظ اللہ نے بنایا تھا‘ شیخ صاحب مولانا سیلم اللہ خان سے متعلقہ وفاق المدارس العربیہ سے فارغ التحصیل ہیں‘ ڈیفنس کراچی فیز 4 کی جامع مسجد بیت السلام میں فکری اور تربیتی نشستیں کرتے ہیں‘ مولانا نے 2008ء میں دی انٹلیکٹ سکولز کے نام سے تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان اداروں کی تعداد چار سو ہو گئی اور ان میں 40 ہزار طالب علم تعلیم حاصل کرنے لگے‘ مولانا خواتین کے نو مراکز بھی چلا رہے ہیں

اور ان میں ساڑھے چھ سو خواتین بھی زیر تعلیم ہیں‘ مولانا تلہ گنگ میں کیڈٹ کالج بھی چلا رہے ہیں‘ یہ لوگ سائبان کے نام سے یتیم بچوں اور بیوہ خواتین کے سنٹرز بھی بنا رہے ہیں‘یہ 20 لاکھ لوگوں میں ہر سال قربانی کا گوشت تقسیم کرتے ہیں‘ کورونا کے دوران اس ٹرسٹ نے 85 کروڑ روپے کی امدادی رقم تقسیم کی۔”

یہ  چند گزارشات تھیں  جن سے متعلق میں اتنا ہی کہوں گا کہ

ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا

صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے

 

7 رمضان المبارک 1444 ھجری

29 مارچ 2023 عیسوی

منتظمین

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • بیت السلام کے ماحول اور نتائج نے اس پر فتن دور میں دینی اور عصری تعلیم میں ہم آہنگی کی مثال قایم کی ہے… اس طرز پر پاکستان کے دیگر شہروں میں مزید اداروں کے قیام کی اشد ضرورت ہے…
    انتہائی پر اثر اور معلوماتی تحریر..