مولانا محمد عکاشہ
مدینہ منورہ جیسے مقدس اور مبارک شہر کو اسلامی اقدار و روایات کے اندر ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ جہاں بیت اللہ کی وجہ سے مکہ مکرمہ کو ایک خاص طرح کا تقدس حاصل ہے وہیں پر مدینہ منورہ کو روضہ رسول ﷺ سے تعلق اور نسبت کی بدولت ایک عظیم حیثیت میسر ہے۔اہلِ علم طبقہ اس پر خاصا کلام کرچکا ہے کہ مدینہ زیادہ افضل ہے یا پھر مکہ مکرمہ؟ امام مالک رحمہ اللہ کے قول کے مطابق مدینہ منورہ اس وجہ سے زیادہ فضیلت کا حامل ہے کہ یہاں پر آپ علیہ الصلوات والسلام کا جسدِ خاکی موجود ہے۔ دوسری طرف مکہ مکرمہ کو بیت اللہ کے حوالے سے جو حیثیت حاصل ہے، وہ ایک نسبت تشریفی کی ہے۔
اس نسبتِ تشریفی کی حقیقت یہ ہے کہ بیت اللہ کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذاتِ اقدس سے براہِ راست کسی قسم کا کوئی اتصال نہیں بلکہ اسے اللہ تبارک و تعالیٰ کا گھر ہونے کا ایک اعزاز حاصل ہے۔ چنانچہ بہت سے اکابرینِ امت اور مشائخ نے جہاں مدینہ منورہ کی ذاتی فضیلت کو واضح کیا ہے وہیں پر بعض پہلوؤں کے اعتبار سے اسے مکہ مکرمہ سے بھی افضل قرار دیا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی مدینہ منورہ کی افضلیت کو نہ بھی مانے تب بھی اس شہر کی اہمیت اور محض فضیلت سے کسی کو یکسر انکار نہیں ہوگا۔ لہذا یہ بات بالکل طے ہے کہ مدینہ منورہ میں رہائش یا زیارت کی خواہش اور اس سے عقیدت کا جذبہ یقیناً ایمانی زندگی کا خاصہ کہلانے کے لائق ہے ۔ ایسے موقع پر اسلاف کے اُن واقعات پر نظر دوڑانا بھی فائدے سے خالی نہیں ہوگا جن میں مدینہ منورہ سے عقیدت و وابستگی کا ایک والہانہ اور عارفانہ پہلو تو ہے ہی تاہم ہوش مندی اور خرد و جنوں کے مابین اعتدال کی بھی بھرپور رعایت دیکھنے کو ملتی ہے۔
اب یہ قضائے حاجت کے لیے مدینہ منورہ کی بستی سے باہر تشریف لے جانا ہو یا برہنہ پاکر مدینہ کی گلیوں میں اس غرض سے چلنا کہ جوتوں سے سرزمینِ مقدس کی گلیاں خاک آلود نہ ہونے پائیں۔
دوسری طرف کچھ مشائخ کی فکرِ ارجمند کا یہ حال کہ مدینہ کے باسی ہوتے ہوئے بھی وہاں سے نکل کسی دوسری بستی میں محض اس ڈر سے منتقل ہوجاتے کہ کہیں ساکنانِ مدینہ یا شہرِ مدینہ کے حوالے سے کوئی گستاخی نہ ہوجائے۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض اہلِ محبت کا یہ شیوہ کہ وہ میلوں سفر طے کرکے مدینہ منورہ میں آکر محض اس وجہ سے ڈیرے ڈال کر بیٹھ جاتے کہ جو کچھ ملے گا محبوب کے طفیل ہی میسر آئے گا۔
کسی آدمی کا محبوب کے مسکن کو محض یہ سوچ کرچھوڑدینا کہ
میرے محبوب میری ایسی وفا سے توبہ
جو تیرے دل کی کدورت کا سبب بن جائے
جب کہ دوسرے جانب مال و متاع لٹا کر اور مشقتیں جھیل کر محبوب کے در پر ٹھکانا بنالینا، یہ سب ‘الفت نہیں تو پھر اور کیا ہے؟’ اِن تمام تر محرکات کو ہم دل کی عقیدت، ذہن اور فکر کی بلندی اور روح کی پاکیزگی کا پیش خیمہ ہی قرار دے سکتے ہیں۔
ایسے اجلے نفوس اور پاکیزہ روحوں کی زندگیوں کا جائزہ لینے کے بعد ہمیں اس بات کا بخوبی احساس ہونا چاہیے کہ اس بابرکت شہر میں گزرا ایک ایک لمحہ قیمتی ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہاں زیارت کی توفیق کی شکل میں جو نعمت عطا ہوجائے تو اسے غنمیت سمجھتے ہوئے یہاں کے ہر ہر ذرے سے عقدت و محبت کا اظہار کیا جائے۔
ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس شہر کی بڑی غیرت تھی۔ آپ اس سے منسلک چیزوں کا بڑا احتر۱م فرمایا کرتے تھے۔ چناچہ مدینہ منورہ کی سرزمین، اس کے پھل، پیمانے اور مُد تک کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برکت کی دعاء فرمائی ہے:
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جب لوگ پہلا میوہ دیکھتے تو رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے آپ ﷺ اس کو لے کر فرماتے:
اللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي ثَمَرِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِي مُدِّنَا اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُکَ وَخَلِيلُکَ وَنَبِيُّکَ وَإِنِّي عَبْدُکَ وَنَبِيُّکَ وَإِنَّهُ دَعَاکَ لِمَکَّةَ وَإِنِّي أَدْعُوکَ لِلْمَدِينَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاکَ بِهِ لِمَکَّةَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ
اے پروردگار برکت دے ہمارے پھلوں میں اور برکت دے ہمارے شہر میں اور برکت دے ہمارے صاع میں اور برکت دے ہمارے مد میں، اے پروردگار ابراہیم نے جو تیرے بندے اور تیرے دوست ہیں اور تیرے نبی تھے دعا کی تھی مکہ کے واسطے تیرا بندہ ہوں اور نبی ہوں جیسے ابراہیم نے دعا کی تھی مکہ کے لئے اور اتنی اور۔
اس کے ساتھ (اشارہ کرکے) پھر آپ ﷺ سب سے چھوٹے بچے کو جو موجود ہوتا بلاتے اور وہ میوہ اس کو دے دیتے۔ (مؤطا امام مالک، حدیث نمبر 1513)
ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
جو کوئی مدینہ کی تکلیف اور سختیوں میں صبر کا مظاہرہ کرے گا میں اس کے لیے قیامت کے روز گواہ ہوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔ (مؤطا امام مالک،1514)
اسی طرح سے ایک اور طویل روایت بھی موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہھم اجمعین مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو ماحول موافق نہ ہونے کی وجہ سے بعض حضرات عوارض کا شکار ہوگئے۔ چنانچہ ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے فرمایا کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ابوبکر اور بلال بخارمیں مبتلا ہوگئے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبردی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعاء فرمائی: اے اللہ ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت پیدا فرما جیسا کہ ہمارے دلوں میں مکہ کی محبت ہے یا اس سے بھی زیادہ، اس کی آب وہوا کو درست کردیجیے اور ہمارے لیے برکت پیدا فرما اس کے صاع میں اور اس کے مد میں اور اس کے بخار کو جحفہ کی طرف منتقل کردیجیے۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ علیہ الصلواۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے مدینہ منورہ کے لیے مکہ مکرمہ سے زیادہ عقیدت و محبت پیدا ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ اس عمل سے نووارد صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا مدینہ جیسی نئی جگہ پر دل لگانا بھی مقصود تھا۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں مدینہ میں نہ طاعون داخل ہوگا اور نہ ہی دجال۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر: 3350)
یہ چند احادیث تھیں جو صرف یہ دکھانے کے لیے پیش کی گئی کہ ایک تو مدینہ منورہ کی صحیح فضیلت سمجھی جاسکی دوسرا رسولِ کریم سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں اس شہر کی جو قدر و منزلت تھی، اس کا ایک طرح سے اندازہ ہوجائے۔ ان احادیث سے یہ واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام مدینہ منورہ سے بےحد محبت فرماتے تھے اور اس شہر کی کسی چیز کی برائی آپ ﷺ کو بالکل بھی گوارا نہ تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تو مدینہ کی غیرت کا اس قدر خیال تھا کہ ایک بار فرمایا:
لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی اپنے چچازاد بھائیوں اور رشتہ داروں کو بلا کر کہیں گے کہ جس جگہ آسانی اور سہولت ہو اس جگہ کوچ کر چلو (یعنی لوگوں کے اندر ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرنے یا منتقل ہونے کا داعیہ پیدا ہوگا)اور (انہیں معلوم ہو) مدینہ ان کے لئے (ہجرت کے لیے) بہتر (جگہ) ہے کاش کہ وہ لوگ جان لیں۔ قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اللہ وہاں (مدینہ)سے کسی کو نہیں نکالے گا سوائے اس (شخص)کے جو وہاں سے اعراض کرے گا تو (ایسے میں )اللہ اس کی بجائے کسی بہتر آدمی کو وہاں آباد فرمائیں گے۔ آگاہ رہو کہ مدینہ ایک بھٹی کی طرح ہے جو خبیث چیز یعنی میل کچیل کو باہر نکال دیتا ہے اور قیامت تب تک قائم نہیں ہوگی جب تک مدینہ اپنے اندر میں سے برے لوگوں کو اس طرح سے باہر نکال پھینکے گا جیسے لو ہار کی بھٹی لوہے کے میل کچیل کو باہر نکال دیتی ہے۔ (صحیح مسلم،حدیث نمبر 3352 )
اس طویل حدیث میں آپ علیہ الصلواۃ والسلام نے پوری صراحت سے مدینہ سے اعراض برتنے اور اس کی برائی کرنے کا نتیجہ بیان فرمایا ہے جو یقیناً ایک ناخوشگوار عمل ہے۔
میں نے ایک واقعہ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کی زبانی سنا جس میں انہوں نے اپنے والد ماجد مفتی محمد شفیع عثمانی قدس اللہ سرہ کے حوالے سے ارشاد فرمایا کہ ایک صاحب نے اپنا قصہ سناتے ہوئے کہا:
ہم چند ساتھی مدینہ منورہ میں موجود تھے ۔ اسی دوران کھانے کا وقت ہوا اور ایک نے دہی کھاتے ہوا کہا کہ ‘ یہاں سے تو ہمارے ہاں کی دہی اچھی ہے۔’ رات کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی اور آپ نے تنبیہی انداز میں ارشاد فرمایا’ جہاں دہی اچھی ہوتی ہے، وہاں چلے جاؤ۔’
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مدینہ منورہ سے جس قدر غیرت، محبت اور عقیدت کا رشتہ تھا، اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی اس رشتے کی پاسداری کا مکمل خیال رکھیں۔ یہاں حاضری کے وقت آدمی کےپیشِ نظر رہے کہ میں کسی عام جگہ پر قیام پذیر نہیں ہوں بلکہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس اور مبارک شہر میں میرا ٹھہراؤ ہے۔ اس لیے مدینہ منورہ کے قیام کے دوران اتباعِ سنت کا پورا اہتمام ہونا چاہیے۔ ساتھ میں درود شریف کی کثرت ہو اور گناہوں سے بچنے کا مکمل اہتمام موجود ہو۔
نہایت اچنبھے کی بات ہےکہ جانے والا مقدس ہستی کے پڑوس میں جارہا ہے مگر تقدیس کی رعایت کے تمام پہلو اس کی آنکھوں سے یکسر اوجھل ہیں۔ وہ بڑے دھڑلے سے اس مبارک فضا میں بھی معصیتوں کا ارتکاب کرکے فضا کو غبار سے بھرتا چلاجارہا ہے۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ زائرینِ حرم اور عاشقانِ مدینہ اب اِن مقدس مقامات میں دھڑادھڑ تصویر کشی اور ویڈیو سازی کے عمل میں مشغول نظر آتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ عبادتوں کا عکس اپنے دلوں پر نقش کیا جائے، ہم کیمرے کی آنکھ سے اِن کی عکاسی میں مصروف رہتے ہیں۔ اِن روح افزا لمحات اور دل کے اندر اتر جانے والے مناظر کوہماری چشمِ دل تو درکنار دیدہءِ بینا بھی دیکھنے سے قاصر آچکی ہے۔یہاں پر حاضری اور اس کی زیارت کے آداب سے ہم واقف ہوتے ہوئے بھی سخت ناواقفیت کا اظہار کررہے ہیں۔
ہماری اداؤں میں سے عاجزی کا جوہر غائب ہورہا ہے اور نگاہوں کا وہ وصف بھی مفقود ہوچلا ہے جس کے بارے میں کہا گیا تھا:
بچھاؤ نظریں، جھکاؤ پلکیں، ادب کا عالی مقام آیا
ہم لوگ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس لیے سیلفیاں لیتے ہیں تاکہ بعد میں اِن روح پرور مناظر کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرسکیں۔ کس قدر حماقت ہے کہ انوار وبرکات کی اس بانٹ میں ہم اپنی چھتری یہ سوچ کر بند کردیں کہ بارش رکے گی تو سیراب ہولیا جائے گا۔ لوگ یہاں تک کہہ ڈالتے ہیں حرم ‘جلال’ کی جگہ ہے اور مدینہ منورہ میں ‘جمال ‘ہے۔ ہائے ہائے! یہ سن کر کلیجہ کٹ سا جاتا ہے۔ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ گویا ہم نے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت کو یکسر بھلاڈالا۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا:
مدینہ منورہ کے اندر جمال موجود ہے اور بے شک ہے لیکن سچ کہوں تو حرم میں اتنا ڈر نہیں لگتا جتنا یہاں حاضری کے وقت محسوس ہوتا ہے، وہاں آدمی اللہ تعالی کے سامنے مناجات کی جو صورت چاہے اپنا سکتا ہے، چاہے تو کعبے سے لپٹ جائے یا مطاف میں روتا پھرا۔ الغرض اس غفور ذات کے سامنے اپنے سارے ارمان نکال لے لیکن مدینہ منورہ میں تو یہ عالم ہونا چاہیے:
ادب گاہسیت زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
(آسماں کےنیچےحضرت محمد ﷺ کا شہر ایک ایسی ادب کی جا ہےجہاں جنید بغدادیؒ اور بایزید بسطامیؒ(جیسے عظیم الشان ولی بھی) سانس روک کر آتے ہیں۔ ( ادب سےاونچا سانس تک نہیں لیتےمدینہ کا حد درجہ ادب فرماتےہیں”
چنانچہ بندے نے اپنے بڑوں سے متعلق سنا اور پڑھا بھی کہ انہیں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آنے سے بڑی غیرت تھی۔ وہ یہ مانتے تھے کہ مواجہہ شریف میں ہم جیسے عاصی بھلا کس منہ سے سامنے حاضر ہوں؟
مفتی محمد شفیع عثمانی قدس اللہ سرہ کا جب مدینہ طیبہ جانا ہوتا اورروضہ اقدس پر سلام عرض کرنے کے لئے حاضری ہوتی تو عام معمول یہ تھا کہ مواجہہ شریف کی جالیوں سے کافی فاصلہ پر ایک ستون کے قریب سراپا ادب بن کر سرجھکائے کھڑے رہتے اور اس سے آگے نہیں بڑھتے تھے۔ مفتی شفیع صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دن میں اسی ستون کے پاس کھڑا تھا،دل میں شوق پیدا ہوا کہ آگے بڑھ کر مقدس جالیوں کے پاس پہنچ جاؤں،لیکن ہمت نہ ہوئی،اس پر حیرت سی ہونے لگی کہ لوگ آگے تک چلے جاتے ہیں اور میں دور کھڑا رہوں،اسی دوران یہ محسوس ہوا کہ روضہ اقدس سے یہ آواز آرہی ہے کہ کہہ دو کہ جو شخص ہماری سنتوں کا اتباع کرتا ہے وہ ہم سے قریب ہے،خواہ بظاہر کتنا ہی دور ہو اور جو شخص ہماری سنتوں کا تابع نہیں ہے،وہ ہم سے دور ہے،خواہ ہماری جالیوں سے چمٹ کر کھڑا ہو۔
اللہ اکبر! بس ایک دردمندانہ گزارش ہے کہ مدینہ منورہ میں حاضری کے موقع پر ہم اس کی منور فضاؤں کا احترام کریں۔ یہاں کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہوجائے جس سے ہمارا روحانی رشتہ اس مبارک سرزمین سے منقطع ہوجائے۔ ایسا نہ ہو کہ اس شہر میں پھوٹتے علم و آگہی اور عرفان و حکمت کے سوتوں سے ہم محروم رہ جائیں اور یہ محرومی یقیناً ایک بڑی محرومی کہلائے گی۔
حضرت سفیان بن ابی زہیر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب یمن فتح کیا جائے گا تو ایک قوم اپنے گھر والوں اور اپنے خادموں کو ساتھ لے گی۔ (پھر) اپنا سامان اٹھائے ہوئے (وہ) اپنے اونٹوں کو ہنکاتے ہوئے (مدینہ سے دور)چلی جائے گی لیکن کاش کہ وہ لوگ جان لیں کہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے ۔ پھر جب شام فتح کیا جائے گا تو ایک قوم (اسی طرح) اپنے گھر والوں اور اپنے خادموں کو لئے ہوئے اپنے اونٹوں کو ہنکاتے ہوئے (مدینہ سے باہر)چلی جائے گی لیکن کاش کہ وہ لوگ جان لیں کہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے۔ پھر جب عراق فتح کیا جائے گا تو ایک قوم (اسی طرح) اپنے گھر والوں اور اپنے خادموں کو لئے ہوئے اپنے اونٹوں کو ہنکاتے ہوئے (مدینہ سے باہر)چلی جائے گی لیکن کاش کہ وہ لوگ جان لیں کہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے۔ (صحیح مسلم 3365)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان ‘والْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ کَانُوا يَعْلَمُونَ’ کی اللہ تعالیٰ ہمیں قدر کرنے کی توفیق نصیب فرمائیں۔ آمین یارب العالمین۔
29 رمضان المبارک 1444 ھجری
20 اپریل 2023 عیسوی
_____________
مولانا محمد عکاشہ بیت السلام تلہ گنگ میں تدریسی وانتظامی فرائض انجام دیتے ہیں۔
کمنت کیجے