Home » بر صغیر کے روایتی مدارس اور عالم اسلام کی دینی تعلیم
تاریخ / جغرافیہ مدارس اور تعلیم

بر صغیر کے روایتی مدارس اور عالم اسلام کی دینی تعلیم

مولانا طلحہ نعمت ندوی

بر صغیر کے روایتی مدارس مستقل اہل علم کی بحث وتحقیق کا موضوع بنتے رہتے ہیں اور ان کے حالات پر یہیں کی سابقہ روایات کی روشنی میں مذاکرہ وبحث کی جاتی ہے۔ ایک طرف حامیان مدارس کا دعوی ہے کہ یہی مدارس اسلام کے محافظ ہیں اور انہیں اپنی قدیم روایت پر ہی باقی رہنا چاہیے، دوسری طرف جدید اہل قلم بھی انہیں مدارس کی اصلاح کو موضوع بحث بناتے ہیں۔ لیکن اس سلسلہ میں یہ غور نہیں کیا جاتا کہ آخر عالم اسلام میں دینی تعلیم کا کیا نظام ہے اور کس حد تک کامیاب ہے، آج جب کہ دنیا کے فاصلے سمٹ کر محدود ہوگئے ہیں پورے عالم اسلام کے نظام تعلیم کا جائزہ لینا مشکل نہیں۔
اگر ہم عالم اسلام پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ قدیم روایتی نظام تعلیم عالم عربی میں کہیں رائج نہیں، جہاں جہاں قدیم مدارس تھے وہ یا تو اپ ڈیٹ ہوکر یونیورسٹیوں میں تبدیل ہوگئے یا ختم ہوگئے، جامع ازہر اس کی زندہ مثال ہے۔ مکہ مکرمہ میں مدرسہ صولتیہ ایک قدیم ادارہ تھا جس نے ایک زمانہ تک تعلیم کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا لیکن وقت کے ساتھ حکومت کے مطالبات قبول نہ کرنے کی وجہ سے حکومت نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا اور اب وہ صرف ایک ثانوی اسکول ہے جس سے اس کے بانی کے خاندان کا کوئی تعلق نہیں۔(گرچہ وہاں مدرسہ کا لفظ ہی سائن بورڈ پر ملے گا لیکن یہ عربی کا لفظ ہے اور اسکول کے معنی میں ہی مستعمل ہے،)۔
انڈونیشیا سے لے کر مراکش و الجزائر اور موریتانیا تک جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں شاید ہی قدیم مدارس ملیں، ترکی کے مشرقی علاقہ میں کچھ مدارس ہیں، ایران میں اہل تشیع کے مدارس جدید طرز تعلیم کے حامل ہیں، اہل سنت کے چند مدارس ہیں جو علمائے دیوبند کے مستفیدین کے قائم کردہ ہیں۔ پورے عالم اسلام میں جامع ازہر کو جو مرکزیت حاصل ہے وہ برصغیر کے کسی ادارہ کو حاصل نہیں۔
کیا ان مذکورہ ممالک میں اسلام اور اسلامی ودینی روایات کمزور ہیں، مدارس یا قدیم تعلیم کے عدم وجود سے اسلام کو خطرات لاحق ہیں؟؟۔
سوال یہ ہے کہ مدارس کا مقصد وہدف کیا ہے۔ دینی تعلیم کا فروغ، اسلام کا تحفظ، علماء جو اسلام کی قیادت کر سکیں، مسائل و چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں، امت کی رہنمائی کر سکیں، کیا عالم عربی اس میں مفلس ہے، صرف اگر سعودی عرب کی مثال ہی لے لی جائے جو ہندوستان سے کچھ ہی چھوٹا ہے تو وہاں کے علماء کی اتنی بڑی تعداد ہے جو کسی طرح یہاں سے کم نہیں، ان کو کم علم سمجھنا، رسوخ فی العلم سے بے بہرہ قرار دینا اور بے دین تصور کرنا بہت بڑا ظلم ہوگا۔ واقعہ یہ ہے کہ حرمین کی امامت وخطابت اور تدریس سے لے کر ہر مسجد اور جامعات شرعیہ کی امامت وخطابت وتدریس انہیں کے ذمہ ہے، سعودی کے جامعات میں جامعہ اسلامیہ مدینہ، جامعہ ام القری مکہ اور جامعہ الامام محمد بن سعود ریاض علوم اسلامیہ کے لیے مخصوص ہیں، لیکن نظام و منہج تعلیم کہیں بھی ہمارے مدارس کی طرح نہیں، نہ وہ اپنے ملک کے علاوہ کہیں تعلیم حاصل کرتے ہیں، نہ ہمارے مدارس کی طرح ان کی ڈگریاں عالم عالم وفاضل کی اصطلاح کی ہیں بلکہ وہاں گریجویشن اور ماسٹر کی اصطلاح ہی مستعمل ہے، لیکن ماہرین علوم شرعیہ کی جو تعداد وہاں سے نکل رہی ہے اس کا اندازہ ان کے دروس، ان کی تحقیقات وتصنیفی خدمات سے لگانا مشکل نہیں، ان کی تحقیقات وتصنیفی خدمات کے مقابلہ میں ہماری علمی کاوشیں صفر ہیں، موسوعۃ فقہیہ اور الفقہ الاسلامی جیسے دسیوں کام عالم عربی میں ہوئے ہیں جن کی ایک مثال بھی ہمارے یہاں مشکل ہی سے ملے گی۔ اور تقوی وطہارت اور تعلق مع اللہ میں بھی وہاں کے علماء کا تناسب (آبادی کے تناسب کو پیش نظر رکھتے ہوئے) ہمارے یہاں سے کم نہیں ہوگا۔ مصر وشام اور ترکی میں بھی ایسے علماء سیکڑوں کی تعداد میں ہیں جو قدیم روایت کے پاسدار ہیں، اور شریعت کی پابندی میں کسی طرح ہم سے پیچھے نہیں۔ اتباع سنت و راسخ العقیدگی اور تعلق مع اللہ میں بھی ہم سے کم نہیں، اور دیکھنے والے اس کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہتے۔ ماضی قریب سے لے کر اب تک کے متعدد نامور علماء ومحدثین اور محققین کو پیش کیا جاسکتا ہے جنہوں نے جامعہ ازہر یا عالم عربی کی کسی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی لیکن علم و دین کی خدمت میں ان کا نام سب سے نمایاں ہے۔ شیخ عبدالفتاح ابوغدہ، اور شیخ یوسف القرضاوی ان میں زیادہ نمایاں اور برصغیر میں مقبول ہیں۔
ایسی صورت میں برصغیر یا جنوبی ایشیا کے مدارس کا اپنے قدیم منہج پر اصرار، اور اس کو تحفظ دین کا قلعہ قرار دینے کی کوشش، اس سے سر مو انحراف نہ کر کے روایت اسلاف کی پابندی پر اتنا فخر سمجھ سے باہر ہے۔

جس طرح عالم عربی میں ثانوی مرحلہ تک مساوی تعلیم کے بعد جامعات میں اختصاص کے الگ الگ شعبوں میں داخلہ لے کر علوم شرعیہ کے ماہرین نکل رہے ہیں کیا عجب ہے اگر مدارس کے ذمہ داران بھی یہی طریقہ اپنا کر اس کو اسکول کا نام دے دیں، ثانویہ(ہائی اسکول) تک دونوں تعلیم ساتھ ہو،اس کے بعد مختلف مرحلوں میں سند دے کر بڑی تعداد کو فارغ کردیں اور اختصاص میں ٹسٹ کے بعد صرف چند طلبہ کو رکھیں، کیوں کہ جتنی بڑی تعداد مدارس سے تعلیم مکمل کرکے نکل رہی ہے ان میں دو تہائی افراد اعلی درجہ کی علمی استعداد سے عاری ہوتے ہیں۔
اگر یہ صورت اب بھی ہو سکے تو مدارس پر حکومت کی جو نظر کرم ہے امید ہے کہ اس سے نجات بھی ملے گی، اور ان کا وجود بھی باقی رہ سکے گا، ویسے یہ کام پہلے کرنے کا تھا۔


مولانا طلحہ نعمت ندوی، خدا بخش لائبریری، پٹنہ، بہار (انڈیا) کے ساتھ بطور تحقیق کار وابستہ ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں