وجدان بطور ذریعہء علم کافی متنازع مسئلہ ہے ۔ اور یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ ذرائعِ علم میں سب سے مشکل تفہیم اسی کی ہے ۔
سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ لفظِ وجدان کا اطلاق کس منبعِ علم پر کیا جاتا ہے ؟
یہ سوال اس لئے ضروری ہے کہ وجدان کا انگریزی متبادل Intuition ہے ۔ لیکن اردو میں وجدان جن معنی میں استعمال ہوتا ہے ، یعنی کسی علمی گرہ کا اچانک کلیۃ باطنی کیفیت سے کھل جانا جسے نہ استدلال سے ثابت کرنا ممکن ہو اور نہ ہی اسکی تحلیل کی جا سکتی ہو ، جبکہ Intuition کے معنی اس مفہوم سے بہت وسیع ہیں جس میں انسان کا قبل تجربی علم اور مفہوم کے مقولات بھی شامل ہیں ۔ جنکی باقاعدہ تحلیل بھی کی جاتی ہے اور ان سے تعمیمی اصول کی تخریج بھی ممکن ہے بلکہ وہ تمام بدیہی اور اصولی باتوں کا بھی مبداء تصور کئے جاتے ہیں ۔
اسی لسانی الجھن کی وجہ سے اکثر مترجمین آجکل intuition کے موخر الذکر مفہوم کے لئے غیر تجربی شعور جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں تاکہ التباس سے بچا جا سکے ۔ اور التباس سے بچنا اس لئے ضروری ہے کیونکہ مذکورہ دونوں صورتوں کے احکام بالکل متضاد ہیں ۔
اکثر اردو تصانیف میں ان دونوں صورتوں میں واضح امتیاز نہیں کیا جاتا بلکہ اکٹھا ہی بیان کردہ جاتا ہے ۔ ڈکشنری آف فلاسفی میں دونوں مفاہیم کو اس طرح درج کیا گیاہے :
“نفسِ انسانی کا براہِ راست اور بدیہی طور پر خود شعوری کوائف، دیگر نفوس ،معروضی دنیا ، کلیاتِ اقدار اور تعقلات کو جان لینا وجدان ہے ۔ وجدان کو خاص قسم کا وقوفی فعل سمجھا گیا ہے ۔چنانچہ ڈیکارٹ کہتا ہے کہ استخراجی طریقے کا انحصار بدیہیات پر ہے جنہیں ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ۔تصوریتی فلسفہ میں وجدان ایک متصوفانہ علم ہے جو منطق سے مختلف اور صحیح ہے ۔”
متصوفانہ وجدان داخلی تجربے کی ایسی کیفیت ہوتی ہے جس میں تجربہ کلیۃ باطن میں ایک روشنی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اسکے یقینی ہونے کا اذعان بھی مہیا کر دیتا ہے ۔ یہ کیونکر ہوتا ہے ؟ اس بات کا کوئی علمی جواب نہیں دیا جا سکتا کیونکہ نہ تو وہ کوئی ایسا ذریعہ ہوتا ہے جس کی بناءپر تعمیمات کو اخذ کیا جا سکے بلکہ اسمیں شخصی کیفیات کو دخل ہوتا ہے اور نہ ہی اسکی تحلیل کی جا سکتی ہے ۔ فلسفے میں جو بات قابلِ نزاع ہے وہ ایسے وجدان کے وجود کی صداقت کی بابت نہیں ہے کیونکہ اس کے وجود سے انکار ممکن نہیں ہے ۔نزاع دراصل اسے ذریعہ ء علم بنانے کا ہے ۔ آیا ہم اسے معتبر ذریعہء علم قرار دے کر اس کی بنیاد پر کسی قضیے کے صادق یا کاذب ہونے کا حکم لگا سکتے ہیں ؟ یا نہیں ؟
مثلا اگر کوئی فرد ایسے کسی تجربےسے گزرنے کا دعوی کرتا ہے تو اسکے دعوے کو جھٹلایا نہیں جا سکتا لیکن جب وہ اسی دعوے کی بناء پر کسی قضیہ کی صداقت کا حکم صادر کرتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسکے پاس اس وجدان کی صحت پر کیا دلیل ہے ؟ کیا کسی ایک فرد کا شخصی اطمنان کسی قضیہ کی صداقت کی دلیل ہو سکتا ہے ؟ یقینا نہیں ۔ اور اگر اس کے پاس اپنے وجدان کی صحت کے لئے دلیل عقلی یا خارجی مشاہدہ کی ہے خواہ اسکا وقوع مستقبل ہی میں ہو تو ایسا وجدان بذاتہ ذریعہء علم نہیں ہے بلکہ ذریعہء علم اصلا وہ بنیاد ہے جس پر اس وجدان کا تکیہ ہے ۔
اگر ایک وجدان کی صحت دوسرے پر موقوف کی جائے تو دوسرے کے متعلق بھی سابقہ سوالات جنم لیتے ہیں ۔
اسی طرح اگر دو وجدان باہم متضاد ہوں تو ان میں سے کسی ایک کی صحت کی کیا دلیل ہو سکتی ہے ؟
متصوفانہ وجدان کے متعلق مذکورہ اشکالات جیسی عقلی مشکلات ہیں جن کے ہوتے ہوئے ایسے وجدان کو علم کا معتبر ذریعہ قرار دینا عقل کی رو سے کم از کم ممکن نہیں ہے ۔
وجدان کا دوسرا معنی وہ وہبی معطیات ہیں جو قبل تجربی ہیں اور جن پر بدیہیات اور کلیاتی اصولوں کی بناء ہوتی ہے ۔
برٹرینڈرسل اپنی کتاب “The problems of philosophy ” کے باب On intuitive knowledge میں لکھتے ہیں :
“Let us imagine some insistent Socrates, who, whatever reason we give him, continues to demand a reason for the reason. We must sooner or later, and probably before very long, be driven to a point where we cannot find any further reason, and where it becomes almost certain that no further reason is even theoretically discoverable. Starting with the common beliefs of daily life, we can be driven back from point to point until we come to some general principle, or some instance of a general principle, which seems luminously evident, and is not itself capable of being deduced from anything more evident. In most questions of daily life, we shall be driven back to the inductive principle But beyond that, there seems to be no further regress. The principle itself is constantly used in our reasoning, sometimes consciously, sometimes unconsciously; but there is no reasoning which, starting from some simpler self-evident principle, leads us to the principle of induction as its conclusion. And the same holds for other logical principles. Their truth is evident to us, and we employ them in constructing demonstrations; but they themselves, or at least some of them, are incapable of demonstration.”
ترجمہ: فرض کیجئے مسلسل اصرار کرنے والاکوئی سقراط ہے جو ہر واقعے کی علت ،اس علت کی علت اور پھر اسکی بھی علت کا مطالبہ کرتا ہے ۔اس صورت میں جلد یا بدیر بلکہ بہت دیر کئے بناء ہی ایک مقام ایسا آئے گا جہاں مزید کسی علت کی نشاندہی نہیں ہو سکے گی ۔بلکہ جہاں نظری طور پر بھی کوئی علت قابلِ دریافت نہیں ہو گی ۔روزمرہ کے عام عقائد سےشروع کر کے علل اور معلولات میں درجہ بدرجہ پیچھے جاتے ہوئے ہم کسی عمومی اصول یا اسکی نظیر تک پہنچ جاتے ہیں جو بہت ہی واضح ہوتی ہے ،وہ کسی واضح تر دلیل سے قابلِ استخراج نہیں ہوتی ۔روزمرہ زندگی میں پیدا ہونے والے اکثر سوالات ہمیں استقراء کی طرف لے جاتے ہیں ۔ مگر اس سے مزید پیچھے جانے کی بالکل گنجائش نہیں ہوتی ۔استقراء سے ہم شعوری یا لاشعوری طور پر کام لیتے رہتے ہیں ۔لیکن کوئی استدلال ایسا نہیں ہے جسمیں کسی سادہ ترین اور نسبتا زیادہ بدیہی اصول سے اصولِ استقراء نتیجۃ برآمد ہوتا ہوا دکھایا جا سکے ۔ یہی بات منطق کے دیگر اصولوں پر بھی صادق آتی ہے ۔انکی سچائی ہمارے لئے بدیہی ہوتی ہے ۔ثبوت مہیا کرنے میں ہم ان سے مدد لیتے ہیں لیکن وہ اصول خود یا ان میں سے بعض ناقابلِ ثبوت ہوتے ہیں ۔
وجدان کے مذکورہ دونوں معنی میں قدرِ مشترک ان کا کسی ایسی دلیل کے تحت نہ آ سکنا ہے جو انہیں ثابت کر سکے ۔لیکن ثانی فردی اور شخصی نہ ہونے کی وجہ سے تعمیمات کی بنیاد بن سکتا ہے اور اسکی تحلیل بھی ممکن ہے لہذا اسکا ذریعہء علم بننا بلکہ منبعِ علم ہونا عین مطابقِ عقل ہے ۔
کمنت کیجے