مولانا وحید الدین خاں کی کتاب “اظہارِ دین” ان کی ضخیم کتابوں میں سے ہے جو کہ سات سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ یہ کتاب مولانا کی مستقل کتاب نہیں بلکہ ان کی مختلف تحریروں کا مجموعہ ہے۔
اس کتاب کا موضوع اسلام کا عصری اسلوب میں فکری و علمی مطالعہ ہے۔ مولانا وحید الدین خاں نے کوشش کی ہے کہ جدید ذہن سے اسلام کو متعارف کروایا جائے اور اس کے اصولوں کو نئے انداز سے بیان کیا جائے جو کہ آج کے ذہن کو اسلام کی سمجھ میں مدد دے اور اس ہی بات کو مولانا نے کتاب کے آغاز میں بیان کیا ہے۔اس کتاب میں مولانا نے اپنی ایسی تحریروں کو جمع کیا ہے اور ان کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
شروع میں مولانا نے عقل اور وجدان کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے لکھا کہ عقل خارجی حقائق کی بنیاد پر کام کرتی ہے جبکہ وجدان داخلی حقائق سے جڑا ہوا ہے۔ حقیقت کے متلاشی کا وجدان اس کی عقلی بنیاد سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے اس لیے یہ حقیقت کی رسائی میں زیادہ اہم ہے۔ مولانا نے بتایا کہ وجدان کوئی غیر حقیقی چیز نہیں ہے۔ اس کو واہمہ سے الگ کر کے دیکھنا چاہیے کیونکہ واہمہ وقتی طور پر آدمی کو متاثر کرتا ہے جبکہ وجدان پر زوال نہیں آتا ، اس کا سفر ہمیشہ آگے بڑھتا ہے۔انسان کی وجدانی دریافت اس کو عام انسانوں سے مختلف بناتی ہے ، یہ اس کی سوچ، بول چال ، اخلاق اور آداب و اطوار کو متاثر کرتا ہے۔ اس کی شخصیت کے فرق کو عقل و منطق کی زبان میں دلیل کہا جاتا ہے۔
مولانا نے منطق کی دو قسمیں ذکر کی ہیں۔ ایک انتخابی منطق (optional logic) جبکہ دوسری مجبورانہ منطق (compulsive logic) ہے۔ انتخابی منطق کو بیان کرتے ہوئے مولانا نے سورج کی روشنی کا ذکر کیا ہے، جس کا دیکھنے میں ایک رنگ ہے مگر پرزم (prism) سے دیکھنے پر وہ روشنی سات رنگوں میں بٹ جاتی ہے۔ اب سورج کی روشنی کے بارے میں ہمارے پاس دو انتخاب ممکن ہو گئے ہیں چنانچہ اس میں سات رنگوں والا نظریہ زیادہ قوی ہے تو اس کو مانا گیا۔
مجبورانہ منطق میں انسان کے پاس کوئی انتخاب نہیں ہوتا۔ اس کی مثال مولانا نے ماں کی دی ہے۔کوئی آدمی جب کسی عورت کو ماں مانتا ہے تو وہ اس کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ حالانکہ اس نے اپنے آپ کو اس کے بطن سے پیدا ہوتے نہیں دیکھا اس کے باوجود وہ اپنی ماں کو یقین کے ساتھ ماں کہتا ہے۔
مولانا کہتے ہیں کہ کائنات کی تخلیق اور اس میں پایا جانے والا نظم ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم خدا کے وجود کو تسلیم کریں۔ ہماری مجبورانہ منطق یہی نتیجہ نکالتی ہے کہ یہ کائنات خدا کے وجود کا پتہ دیتی ہے۔ کائنات میں پائے جانے والے نظم کو اگر کوئی اتفاق کا نام دے تو یہ غیر سائنسی اور غیر منطقی بات ہے۔
وجود باری تعالیٰ کے انکار کرنے والے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کیونکہ خدا دکھائی (visible) نہیں دیتا اس لیے ہم اس کا انکار کرتے ہیں اور اپنے اس انکار کو سائنسی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں، حالانکہ محض کسی چیز کا visible نہ ہونا اس کے عدم موجودگی کی دلیل ہرگز نہیں اور جدید فزکس میں ایٹم کے اجزاء کی تقسیم کو مانا گیا ہے حالانکہ یہ visible نہیں ہیں مگر ان کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے. اس لیے خدا کا انکار اس کے invisible ہونے کی وجہ سے کرنا ناصرف غیر علمی بلکہ غیر سائنسی بھی ہے۔
مولانا رب تعالیٰ کے تخلیقی پلان پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے انسان کو آزادی دی ہے اور یہ آزادی ہی اس کا امتحان ہے۔ خدا کا انکار اس آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہے۔
جدید الحاد جو اپنی بنیاد سائنس کو قرار دیتا ہے۔ اس مفروضے کو غلط قرار دینے کی ضرورت پر مولانا نے زور دیا ہے اور بتایا ہے کہ جدید ملحدین کا سائنسی حقائق کو اپنے حق میں دلیل بنانا فقط دھونس اور دھاندلی کے سوا کچھ نہیں ہے۔مولانا کہتے ہیں کہ جدید ملحدین نے نظریاتی ہائی جیک کے ذریعے سائنس کو وجود باری تعالیٰ کے انکار کی دلیل بنایا ہے۔ یہ لوگ قانون تعلیل ( law of causation) کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اب ہمیں واقعات کی توجیہ کے لیے خدا کو ماننے کی ضرورت نہیں کیونکہ واقعات طبیعی اسباب کا نتیجہ ہیں کسی مافوق الطبعیی سبب کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ مولانا نے جدید الحاد کے اس استدلال کا جواب دیا ہے اور مختلف مثالیں دینے کے بعد لکھا کہ قانون تعلیل کی شہرت علمی وزن کی بنیاد پر نہیں ہوئی بلکہ جذباتیت کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ یہ اپنے آغاز میں ہی ایک مفروضے کی حیثیت رکھتا تھا۔ پھر کسی واقعے کا جو سائنس سبب بتاتی ہے وہ آخری بات نہیں ہے اس کے بعد بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ یہ سبب کیوں کر وقوع میں آیا یعنی سبب از خود توجیہ نہیں بلکہ اس کا محتاج ہے کہ اس کی توجیہ تلاش کی جائے۔ اس پر زیادہ تفصیل سے مولانا نے اپنی کتاب مذہب اور جدید چیلنج میں بات کی ہے۔
مولانا نے یہ بھی لکھا ہے کہ خدا سائنسی مطالعہ کا براہ راست موضوع نہیں ہے، سائنس کا موضوع مادی دنیا ہے اور یہ خالق کی تخلیق ہے۔ اس لیے بالواسطہ طور پر خالق کی تخلیق کا مطالعہ بن جاتا ہے۔ پھر اس مادی دنیا کے اندر جو حیرت انگیز حقیقتیں پائی جاتی ہیں وہ اپنی نوعیت میں غیر مادی ہیں مثلاً معنویت، ڈیزائن اور بامقصد پلاننگ وغیرہ۔ مادی دنیا کی نوعیت کے بارے میں یہ دریافت خالق کے وجود کی بالواسطہ شہادت ہے۔
مولانا نے تحریر فرمایا ہے کہ جدید الحاد غیر علمی الحاد ہےجو کہ سائنسی حقائق کے غیر علمی استعمال پر مبنی ہے۔ مولانا نے سائنس کی بھی دو شاخیں نظریاتی سائنس اور عملی سائنس کو ذکر کیا ہے اور بتایا کہ خدا اس میں نظریاتی سائنس کا موضوع ہے لیکن نظریاتی سائنس میں تحقیق کا کام تقریباً ختم ہو گیا ہے اب جو سائنسی ترقی ہو رہی ہے وہ Applied Science میں ہو رہی ہے۔ موجودہ دور میں نظریاتی سائنس کا بڑا نام اسٹیفن ہاکنگ ہے۔ اس سے پہلے ڈاکٹر عبدالسلام بھی نظریاتی سائنس کے آدمی تھے اور ایک بڑا دماغ تھے۔
مولانا نے لکھا کہ جدید الحاد بنیادی طور پر چار افراد کی فکر کو بنیادی اہمیت دیتا ہے اور ان کی بنیاد پر اپنی فکری بنیاد رکھتا ہے۔
پہلا نیوٹن ہے، جس کا موضوع دنیا کی حرکت کی توجیہ کرنا تھا۔ اس کی تحقیق کا مذہبی عقائد سے کوئی تعلق نہیں تھا مگر ملحدین نے اس کی دریافت کو الحاد کے حق میں استعمال کیا کہ اگر واقعات فطری اسباب کے تحت پیش آتے ہیں تو وہ مافوق الفطرت سبب کے تحت نہیں ہو سکتے۔ یہ غلط استدلال ہے کیونکہ نیوٹن کا نظریہ ظاہری اسباب سے متعلق ہے ان اسباب کے پیچھے مسبب کون ہے اس پر ملحدین کا استدلال مغالطے سے بڑھ کر کچھ نہیں
دوسرا شخص ڈارون ہے جس کے نظریہ ارتقاء کو بنیاد بنا کر ملحد اپنا مقدمہ قائم کرتے ہیں۔ مولانا نے لکھا کہ نظریہ ارتقاء کوئی سائنسی نظریہ نہیں ہے بس ایک قیاسی نظریہ ہے اور سائنس کی مزید دریافتوں نے ثابت ہے کہ ارتقاء کا نظریہ علمی اعتبار سے بے بنیاد ہے۔ مولانا کہتے ہیں کہ ڈارون کا حیاتیاتی ارتقاء کا نظریہ جب پیش کیا گیا تب بھی وہ غیر سائنسی تھا اور اب بھی غیر سائنسی ہے۔ نظریہ ارتقاء کے بارے میں ایک الجزائری عالم الشیخ ندیم الجسر اور ڈاکٹر رفیع الدین وغیرہ کے حوالے سے ان دونوں نے کہا کہ اگر نظریہ ارتقاء ثابت بھی ہو جائے تو یہ خالق کے انکار کے ہم معنی نہیں کیونکہ یہ اول زندگی کو وجود میں لانے کے لیے خدا کو سبب اول قرار دیتا ہے۔ اس پر مولانا ان دونوں کی بات مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مذہبی عقیدے کے مطابق خدا کی حیثیت صرف سبب اول کی نہیں بلکہ خدا مسلسل ہماری زندگی میں شامل ہے اور کائنات کو کنٹرول کر رہا ہے وہ ناصرف خالق ہے بلکہ رازق اور قیوم بھی ہے۔ ایسی حالت میں نظریہ ارتقاء عملاً خدا کی نفی ہے نہ کہ خدا کی تصدیق
تیسرا شخص سگمنڈ فرائڈ ہے جس کا کہنا ہے کہ انسانی ترقی اسی طرح ممکن ہے کہ اس کو آزاد چھوڑ دیا جائے اس لئے مذہب کے قائم کردہ حلال و حرام انسانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ انسان کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ اس کے لیے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔ مولانا کہتے ہیں کہ بعد کی تحقیقات نے فرائڈ کے نظریہ کو غیر فطری قرار دیا اور نفسیات کا جدید مطالعہ بتاتا کہ انسان کی ذہنی ترقی چیلنج کے ذریعے ہوتی ہے نہ کہ بے قید آزادی کے ذریعے۔مذہب کی عائد کردہ پابندیاں ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں جو انسان کے اندر تخلیقی فکر پیدا کرتی ہے۔
چوتھی شخصیت کارل مارکس کی ہے۔جس کے مطابق انسانی حقوق کے تحفظ کا واحد حل یہ ہی کہ اقتصادی ذرائع کو انفرادی کنٹرول سے نکال کر سماجی کنٹرول میں دے دیا جائے۔ اس نظریے کا مقصد ایک غیر طبقاتی سماج کا قیام تھا۔ اس نظریے پر نقد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے مسابقت (competition) کو ختم کر دیا جس سے ترقی کا عمل رک گیا، جبکہ دوسری خرابی اس سے یہ پیدا ہوئی کہ لوگ right conscious بن گئے جبکہ ترقی یافتہ سماج کی کامیابی کا راز ہے کہ لوگ duty conscious بنیں۔ اس کتاب میں اور بھی کئی مقامات پر کارل مارکس کی فکر پر تنقید کی گئی ہے اور کمیونسٹ انقلاب کے خاتمے کی ایک بڑی وجہ اس کا خلاف فطرت ہونا ذکر کیا ہے کیونکہ اس نے خدا کے تخلیقی پلان کے خلاف انسانی آزادی کو روکنے کی کوشش کی۔
اس کے علاوہ ایک اور مغربی نظریہ humanism کا بھی مولانا نے ناقدانہ جائزہ لیا ہے اور اس غیر خدا پرستانہ نظریے کو بے نقاب کیا ہے۔ اس نظریے کی بہت سے مفکرین نے وکالت کی، جن میں فلسفی جولین ہکسلے قابل ذکر ہے اس نے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ سیٹ کا خدا سے انسان کی طرف منتقل ہونا۔ مگر گلوبل وارمنگ کے ظاہر ہونے کے بعد اس نظریے کی حقیقت از خود سامنے آ گئی جس نے انسان کی بے بسی کو واضح کر دیا۔اب یہ بات تسلیم کی جانے لگی ہے کہ عالمی سطح پر درجہ حرارت کے غیر معمولی بڑھنے کی وجہ سے زمین پر زندگی کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ گلوبل وارمنگ humanism کے فلسفے کی موت ہے کیونکہ اس میں جو انسان کو وسیع اختیارات کا حامل سمجھ لیا گیا حتیٰ کہ قدرت کا اختیار بھی اس کے ہاتھ میں تھمانے کی بات ہو رہی تھی غلط ثابت ہوئی
مولانا نے حدیث میں مذکور دو گروہ اصحاب رسول اور اخوان رسول کی بابت لکھا کہ یہ علمی و فکری تاریخ کے دو اہم ترین گروہ ہیں ۔ اصحاب رسول کے ذریعے ریاستی سطح پر شرک کا خاتمہ ہو گیا۔ مذہب پر جو ریاستی جبر تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب نے ان ریاستوں یعنی فارسی اور رومی سلطنت کو ختم کر دیا تاکہ فرد کے اوپر سے ریاست کے مذہبی جبر کا خاتمہ ہو۔ یہ تاریخ انسانی کا ایک بہت بڑا انقلاب تھا، جس نے خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق انسان کو آزادی فکر دی۔ جبکہ اخوان رسول وہ لوگ ہیں جو آج کے جدید الحاد جو کہ اپنے آپ کو سائنسی الحاد کہتا ہے کے فریب کا پردہ چاک کر رہے ہیں تاکہ اس کی بے علمی کو واضح کر سکیں۔ مولانا نے یہ بھی لکھا کہ اخوان رسول کا مذہبی ہونا ضروری نہیں بلکہ جو سیکولر لوگ بھی اس جدید الحاد کی غیر علمیت کو واضح کر رہے ہیں وہ اس گروہ کا حصہ ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بجا طور پر ایک بہت بڑا اور تاریخی کارنامہ ہے کہ انہوں نے شرک کے غلبے کو ختم کر دیا۔ شرک فقط اعتقادی غلاظت نہیں بلکہ یہ انسان کے اوپر فکری قدغن اور غلاف بھی لگاتا ہے، جس سے متاثر ذہن کوئی تعمیری کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس لیے جیسے ہی انسان نے شرک سے آزادی حاصل کی اس کی ذہنی ترقی کا ایک نیا سفر شروع ہوا جو اس سے پہلے انسانی تاریخ میں نہیں دیکھا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جب شرک کا غلبہ تھا تو اس کی ایک شکل فطرت پرستی تھی، جب کوئی چیز آپ کی پرستش کا موضوع ہو اس کو تحقیق کا موضوع نہیں بنایا جاسکتا ، سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام توحید ایک بہت بڑا انقلاب ہے جس نے انسان کو جھوٹے خداؤں اور بے مقصد قید سے آزاد کیا جس سے اس کی ترقی ممکن ہوئی۔
مولانا وحید الدین خاں نے اس کتاب میں مختلف مذاہب اور شعبہ زندگی سے لوگوں سے اپنی ملاقات کے احوال کا بھی ذکر کیا ہے۔ ایک بینکر رجت ملہوترہ سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ملہوترہ نے انہیں بتایا کہ وہ ایک خدا پر عقیدہ رکھتے ہیں اور اپنے مختلف بیرون ملک دوروں کے بارے میں بتایا کہ ان کے ساتھ والے لوگ شاپنگ مال میں انتہائی دلچسپی سے خریداری کرتے ہیں ماسوائے ان کے، لیکن وہ لوگ خدا کے موضوع پر بات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ ایسی ہی بات ایک عرب عالم محمد العارف نے بھی مولانا کو کہی کہ آج کی اخلاقی برائیوں کی جڑ یہ ہے کہ انسان نے انعام کو منعم سے الگ کر کے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ انسان خدا کے انعامات کو تو خوب خوب استعمال کر رہا ہے مگر انعام عطاء کرنے والے خدا کا شکر ادا نہیں کرتا۔ یہ ایک بہت اہم بات کی طرف مولانا نے اشارہ کیا ہے، بدقسمتی سے اس المیے کا شکار مسلمان بھی ہو چکے ہیں۔ ہم انعامات سے لطف تو بھرپور لیتے ہیں مگر ہماری زندگیوں سے خدا کی اہمیت کا اظہار اس طرح نہیں ہوتا جیسا کہ ہمارا فرض بنتا ہے۔ ایک مسلمان کے لئے اپنے رب سے ذرا بھر بھی غافل ہونا بہت بڑا خسارہ ہے، جس کی احساس ہونا چاہیے۔ یہ واقعی اس دور کا ایک بڑا اخلاقی و فکری بحران ہے۔ مولانا نے اس ہی طرف اشارہ کیا ہے کہ خدا سے غفلت نے ہمارے ضمیر کی فطری آواز جو کہ صیح اور غلط کا احساس دلاتی ہے کو ہی ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ خدا سے غفلت کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ ہمارے اندر خود احتسابی کا عمل ختم ہو گیا ہے جس سے ہم اپنی اصلاح ہی نہیں کر سکتے۔
اسلام کی عقلی بنیاد پر وضاحت کرنے کے لیے شاہ ولی اللہ کی حجتہ اللہ البالغہ، علامہ اقبال کی تشکیل جدید الہیات اسلامیہ، ڈاکٹر رفیع الدین کی قرآن اور علم جدید کے ساتھ ایک عرب عالم کی کتاب کا ذکر کرتے ہوئے مولانا کہتے ہیں کہ ان کتابوں کے مطالعے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ کتابیں اصل مسئلہ کی وضاحت کے لحاظ سے بہت ناقص ہیں۔
مولانا کی فکر سے واقف لوگ جانتے ہوں گے کہ مولانا وحید الدین خان کا مسلم لٹریچر کے بارے میں یہ ناقدانہ نظریہ کوئی نیا نہیں ہے ، انہوں نے اپنی متعدد کتابوں پر اس کے اوپر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ مولانا کا لٹریچر دعوتی پس منظر میں جدید ذہن کو اپیل کرتا ہے مگر اس بنیاد پر مسلم لٹریچر کو ناقص قرار دینا ایک کافی سخت بات ہے۔
مولانا نے اپنی کتاب مذہب اور جدید چیلنج کے بارے میں لکھا ہے کہ کیسے انہوں نے یہ کتاب لکھنے کا ارادہ کیا اور بتایا کہ یہ اپنے موضوع پر واحد کتاب تھی۔ بلا شبہ یہ بہترین کتاب ہے جس میں الحاد کے فریب کو عمدگی سے بے نقاب کیا گیا ہے اور جدید ذہن کے سامنے اسلام کا مقدمہ بھی پیش کیا گیا ہے ۔ مولانا کہتے ہیں کہ انہوں نے دعوتی لٹریچر کو اپنا خصوصی ہدف بنایا اور اس پر کام کیا، اور ان کی کوشش تھی کہ وہ جدید ذہن جو کہ اسلام سے دور ہوتا جا رہا ہے کو مخاطب کریں۔ میرے خیال سے مولانا کی تحریریں دعوتی نکتہ نظر سے قابل تحسین ہیں۔مولانا نے بتایا ہے کہ انہوں نے اپنے دعوتی لٹریچر میں روایتی اور فلسفیانہ مباحث کی جگہ سائنسی معیار اختیار کیا۔
مولانا نے اسلامی لٹریچر کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا دور دور رسالت اور دور صحابہ کا لٹریچر ہے جس میں اسلام کا مستند ترین لٹریچر وجود میں آیا۔ اس کو آپ اسلام کا بنیادی متن بھی کہہ سکتے ہیں
دوسرا دور عباسی سلطنت کے زمانے سے اٹھارویں صدی عیسوی تک ہے جس میں اسلام کے مختلف پہلوؤں پر کتابیں لکھی گئی۔ یہ کتابیں قبل از سائنس یعنی pre scientific era کی کتابیں ہیں۔
تیسرا دور scientific era کا دور ہے مگر اس دور میں لکھا جانے والا اسلامی لٹریچر دوسرے دور ہی کی توسیع ہے۔ اس لیے انہوں نے ایک خلا محسوس کیا کہ اس دور میں اسلامی لٹریچر کی کمی ہے اور انہوں نے اس کو پر کرنے کے لیے دعوت اور تذکیر کے موضوع پر خصوصی توجہ دی
مختلف مذاہب کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان پر جمود کا عالم طاری رہا، اس کا احساس اہل مذہب کو بھی تھا اس لیے اس جمود کو توڑنے کے لیے ان مذاھب میں مختلف تحریکیں اٹھیں جیسے کہ ہندو مت میں بھکتی موومنٹ جو اس کے بڑھتے ہوئے ritualism کے خلاف تھی، مسیحی حلقوں میں reformation اور dehellenization کی تحریک بھی اٹھی جس کا مقصد عیسائیت کو رومی و یونانی اثرات سے پاک کرنا تھا۔ البتہ مولانا کہتے ہیں کہ اسلام کا اس حوالے سے کیس مختلف ہے کیونکہ یہاں اصل متن کامل طور پر محفوظ ہے یہاں جو بگاڑ آتا ہے وہ مسلم قوم میں آتا ہے نہ کہ اسلام میں اس لیے اسلام کو reformation جیسی تحریک کی ضرورت نہیں اس کو صرف revivalism کی ضرورت ہے۔
مولانا تصوف کے بھی شدید ناقد تھے اس لیے انہوں نے لکھا ہے کہ صوفیاء نے جو کام کیا وہ معرفت کا کام نہیں بلکہ وہ تصوف کا کام تھا۔ معرفت ایک ذہنی عمل ہے جبکہ تصوف ایک قلبی واردات ہے۔یہ صوفیاء کی اجتہادی غلطی تھی جو انہوں نے قلب کو معرفت کا خزانہ سمجھا ، اس غلطی کے باعث صوفیاء خدا کی شعوری معرفت سے محروم رہے۔ انہوں نے جس وجد یا دیدار الہی کو دریافت کیا وہ ایک واہمہ تھا۔ یہ ہی غلطی بعد میں امت میں چلتی رہی اور وہ صوفیانہ نظریے سے متاثر ہوکر متصوفانہ اشغال کو معرفت کا ذریعہ سمجھتے رہے۔ پوری مسلم دنیا میں صوفی معرفت کے حوالے سے کوئی کتاب نہیں ہے۔
صوفیاء کے افکار پر تنقید کوئی نئی بات نہیں مگر ان کو معرفت سے محروم قرار دینا درست نہیں ہے۔ مولانا وحید الدین خاں نے اس کتاب سمیت اپنی دیگر کتب میں معرفتِ الٰہی کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے جس میں کافی لائق تحسین ہے مگر فقط اپنے نظریے کو درست قرار دیکر دوسروں کو معرفت سے محروم قرار دینا ایک انتہائی اقدام ہے جس کی تائید نہیں کی جا سکتی
مولانا وحید الدین خاں نے ایک جگہ ختم نبوت کی بحث میں بہت عجیب بات کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تاریخ میں کوئی شخص پیدا نہیں ہوا جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہو۔ اس بارے میں وہ کہتے ہیں کہ مسلیمہ نے مستقل نبوت کا دعویٰ نہیں کیا اس نے فقط اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شریک قرار دیا یعنی کہ اصل حیثیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی۔
اسود عنسی کے بارے میں تاریخی کتب سے ثابت نہیں کہ اس نے ازخود نبوت کا دعویٰ کیا ہو، مولانا کہتے ہیں کہ اس کا کیس ارتداد اور بغاوت کا کیس تھا۔
ابولمتبنی ایک ذہین شاعر تھا اس نے مزاحیہ طور پر اپنے آپ کو نبی جیسا بتایا اور پھر اپنا دعویٰ واپس لے لیا۔
ایک اور شخص بہاء اللہ کے بارے میں یہ بات ملتی ہے لیکن بقول مولانا اس نے یہ کہا کہ میں مظہر حق ہوں اس نے پیغمبر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی اپنے آپ کو ظل نبی یعنی نبی کا سایہ کہا، یہ قول دیوانگی کا تو ہو سکتا ہے مگر یہ دعوائے نبوت نہیں ہے
میرے خیال سے یہ مولانا کا انتہائی خطرناک تفرد ہے، بلکہ اس کو تجاہل عارفانہ کہا جائے تو بھی غلط نہ ہو گا۔ مولانا نے کوئی ضرورت سے زیادہ حسن ظن کا مظاہرہ کیا ہے اور حقیقت کے برعکس ایک تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسود عنسی اور مسلیمہ کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اصحاب رسول رضی اللہ عنہم کا اقدام ہی مولانا کی اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے کافی ہے پھر مرزا کے بارے میں انہوں نے عجیب بات کی جو کہ خود ان کے معتقدین کو بھی معلوم نہیں۔
مولانا وحید الدین خاں نے گاندھی کے فلسفے عدم تشدد پر بھی نقد کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس میں ناکام رہے۔ ان کی بنیادی غلطی یہ تھی کہ وہ جس امن کی بات کرتے تھے جنگ اور تشدد کے مقابلے میں تھا۔ اس نظریے کے تحت تمام وہ لوگ جو ان کے مفروضے کے مطابق امن دشمن تھے ان کے خلاف اقدام کرتے رہے۔ لہذا یہ نظریہ دراصل ایک منفی نظریہ تھا۔ جبکہ امن کا ایک فارمولا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں ملتا ہے کہ مسائل کو نظر انداز کر کے مواقع کو تلاش کرو ۔ اس کی سب سے اہم مثال صلح حدیبیہ ہے۔ صلح حدیبیہ کی اہمیت و افادیت پر مولانا نے متعدد جگہ لکھا ہے اور اس کو ایک بجا طور پر ایک انقلابی قدم قرار دیا ۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ حدیبیہ کی صلح ایک غیر معمولی واقعہ تھا جس نے اسلام کی تبلیغ میں انقلاب برپا کر دیا۔ اس کو قرآن مجید نے فتح مبین سے تعبیر کیا ہے۔ مولانا کے نزدیک مسلمانوں کو اس وقت حدیبیہ کے واقعے سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ انہیں مسائل سے لڑنے کی بجائے ان کو نظر انداز کر کے ان کے اندر چھپے مواقع کو تلاش کرنا چاہیے۔مولانا نے یہ بھی لکھا ہے کہ حدیبیہ کو سمجھنے کے لیے ربانی عقل کی ضرورت ہے۔ حدیبیہ کا واقع ہمیں چیزوں کو under the surface دیکھنے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور معاملات کو اس کی طے میں جا کر دیکھنا کسی عام ذہن کے بس میں نہیں ہوتا اس کے لیے ربانی عقل چاہیے ہوتی ہے۔
مولانا نے یہ بھی لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جو انبیاء آئے ان کا ذکر مدون تاریخ میں نہیں آ سکا آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے سوا ہر نبی کی حیثیت اعتقادی نبوت کی ہے نہ کہ تاریخی نبوت کی۔ یہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاصہ ہے کہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی زندگی تاریخی طور پر محفوظ ہے۔ اس سے ملتی جلتی بات عمران خان نے کی تھی مگر اس کو خواہ مخواہ ایشو بنایا گیا۔ مولانا وحید الدین خاں نے اور عمران خان نے تاریخی حوالے سے بات کی ہے۔ اگر اس میں غلطی ہے تو اس کو ثابت کرنا چاہیے۔ اس بارے میں مولانا نے برٹرینڈ رسل کا حوالہ بھی دیا کہ تاریخی طور پر حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کا وجود ثابت کرنا کافی doubtful یعنی مشتبہ ہے۔
قدیم تاریخ میں انبیاء علیہم السلام کا ذکر نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ قدیم تاریخی ذوق کے مطابق تاریخ بادشاہوں کی تاریخ کے ہم معنی تھی۔ جبکہ صحابہ کرام اور تابعین کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے مورخین کی ایک نئی نسل تیار تیار کی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات کو محفوظ کیا۔ یہ محفوظ ریکارڈ ہی قرآن ، حدیث اور سیرت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مصنف نے اس سلسلے میں انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں یہ اعتراف کیا گیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کو ایک ایسے مذہب کی حیثیت سے پیش کیا جس میں تاریخ کا طاقتور تصور موجود ہے۔
مولانا نے تحریر فرمایا ہے کہ موجودہ زمانے میں ہمارے لیے انتخاب صیح اور غلط میں نہیں بلکہ چھوٹے شر اور بڑے شر میں ہے۔ ہمیں اپنی منصوبہ بندی اس ہی کو مد نظر رکھ کر کرنی چاہیے جبکہ روایتی اسلامی علماء فلسفہ خیر و شر پر اپنا لائحہ عمل طے کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کامیاب نہیں ہو رہے۔ مولانا اس کی مثال میں کہتے ہیں کہ مسلمان جمہوری نظام قائم نہیں رکھ سکے وہ جمہوریت میں بھی حاکمانہ ماڈل قائم کرنا چاہتے ہیں حالانکہ جدید حالات میں یہ ممکن نہیں۔ اس کے نتیجے میں یا تو ٹکراؤ ہو گا جو کہ خود کشی کے مترادف ہے یا منافقانہ طرز عمل اختیار کرنا پڑے گا کہ ذہن میں حاکمانہ ماڈل کو اپنائے ہوں اور عملی طور پر دوسرے ماڈل کو تاکہ اپنے مادی مفادات کو بچا سکیں۔ مولانا اسلام کی سیاسی تعبیر بالخصوص جیسے کہ سید مودودی یا سید قطب نے کی ہے اس کے شدید ناقد ہیں اور اس کتاب میں بھی انہوں نے اسلام کی سیاسی تعبیر پر نقد کیا ہے۔ انہوں نے متعدد جگہ اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلام کا مخاطب فرد ہے ریاست نہیں۔ انہوں نے بہت واضح طور پر لکھا ہے کہ عقیدہ اور عبادت کے لحاظ سے اسلام کی تعلیمات مطلق حکم کی حیثیت رکھتی ہیں جبکہ اجتماعی نظام اس نے کوئی مطلق معیار مقرر نہیں کیا بلکہ عوام کی اجتماعی صورتحال پر اس کو چھوڑ دیا ہے۔اس لیے وہ سیکولر ازم کو بھی قبول کرنے کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام سماج کے لیے اس ہی سیکولر پالیسی کا حامی جیسا کہ دور جدید میں سمجھا جاتا ہے اس پر مولانا نے اپنی کتاب دین کامل کا حوالہ دیا ہے کہ انہوں نے اس میں مفصل گفتگو کی ہے۔
مولانا نے لکھا ہے کہ اسلامی حکومت یا خدائی حکومت کا تصور قرآن میں سر تا سر اجنبی ہے۔ حکومت انسان کی ہوتی ہے نہ کہ اسلام کی۔ مولانا نے مزید لکھا کہ یہ خدا کا مطلوب نہیں ہے کہ اہل ایمان کی حکومت قائم رہے۔ اللہ کو جو چیز مطلوب ہے وہ یہ کہ عمل کے دروازے کھلے رہیں تاکہ ہر شخص آزادنہ طور پر اپنے دین کے انفرادی تقاضوں پر عمل پیرا ہو سکے۔ مولانا نے لکھا ہے کہ دین کا مبنی بر نظام یا اسلامی سوشیو پولیٹیکل سسٹم ایک مبتدعانہ تصور ہے یہ اسلام کی نہیں بلکہ چند لوگوں کے ذہن کی پیداوار ہے۔ مولانا کہتے ہیں کہ دین کا اصل مطلوب موجودہ دنیا میں معیاری اجتماعی نظام نہیں ہے۔ معیاری معاشرہ یا معیاری نظام کی جگہ جنت ہے۔ یہاں انفرادی شخصیت کی تعمیر مطلوب ہے تا کہ وہ اپنے آپ کو جنت کے معیاری نظام کے لیے اہل بنا سکیں۔
مولانا نے حضرت سیدنا یوسف علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مثال بھی دی ہے کہ ان کے واقعے سے یہ اصول ملتا ہے کہ اگر حاکم کے محدود سیاسی اقتدار کو تسلیم کر لیا جائے تو انسان کے لیے ہر قسم کے مذہبی دروازے کھل جاتے ہیں۔گویا یہ سیاسی ادارے اور غیر سیاسی ادارے کے درمیان علاحدگی کا معاملہ تھا۔ اس ہی وجہ سے قرآن مجید نے اس کو احسن القصص کہا ہے۔
مصنف نے یہ بھی لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن کی سیاسی تعبیر کرنا اللہ تعالیٰ کے تخلیقی منصوبے کی تردید کے ہم معنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان اور دوسرے انسانوں میں مساوات حاکم و محکوم کی مساوات ہیں جبکہ صیح تصور کے مطابق یہ مساوات داعی اور مدعو کی ہے
مولانا وحید الدین خاں گستاخی کی سزا قتل کو بھی جدید تصورات سے ٹکراو کہلاتے ہیں اس پر انہوں نے شتم رسول کا مسئلہ کے نام سے تفصیل سے اپنا موقف بیان کیا ہے جس کا انہوں نے اس کتاب میں اجمالی طور پر ذکر کیا ہے۔ مولانا کہتے ہیں کہ اس بارے میں مسلمانوں کو دو رویے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک تو وہ ایسی چیزوں سے اعراض کریں یا پھر وہ دلیل کی زبان میں ایسے اعتراضات کا جواب دیں۔ بالفرض کوئی شخص اس جرم کو قابل گردن زنی سمجھتا ہے تب اس معاملے میں اجتہاد کی ضرورت ہے اور نظریہ ضرورت کے تحت اس کو موجودہ زمانے میں ساقط قرار دینا چاہیے۔
مولانا نے فکر مغرب اور مغربی کلچر میں بھی فرق کیا ہے۔ ان کے نزدیک فکر مغرب یا سائنسی انداز فکر ایک درست طرزِ فکر ہے جو اسلام سے موافق ہے جبکہ مغربی کلچر اور چیز ہے جس میں بہت سی چیزیں جیسے کہ آزادی کا غلط استعمال قابلِ قبول نہیں اور یہ چیز براہ راست سائنسی طرز فکر سے بھی تعلق نہیں رکھتی لہذا ان دونوں میں تفریق کرنی چاہیے ۔
مغربی فکر یا مغربی تہذیب کے تحت اللہ تعالیٰ کے بہت سے چھپے ہوئے قوانین آشکار ہوئے۔اس لحاظ سے یہ اپنی حقیقت میں مغربی نہیں بلکہ خدائی تہذیب ہے۔ جو فطرت میں چھپے خدائی قوانین کی دریافت کے ذریعے وجود میں آئی۔ اہل مغرب نے علم کی خدمت کی ہے ان کی کوششوں سے ایک نئی دنیا جس کو جدید تہذیب کہتے ہیں وجود میں آئی ہے۔ مولانا کا خیال ہیں کہ ہمیں مغرب کی منفی چیزوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی مثبت چیزوں کو لینا چاہیے۔ اس حوالے سے مسلمانوں کے ہاں منفی ذہنیت اور تعصب تشویش ناک ہے اور یہ حقیقت واقعہ کا انکار ہے جو دنیاوی پہلو سے بھی قابل مذمت ہے اور آخروی لحاظ سے بھی۔
مصنف نے یہ بھی لکھا ہے کہ سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں عالمی ابلاغ عملاً ممکن ہوا۔ جس سے پیغمبرانہ مشن کو پوری دنیا میں پھیلانے کا موقع ملا۔ یہ اہل مغرب کی جانب سے پیغمبرانہ مشن کی تائید ہے۔ اس پر مولانا نے وہ حدیث بھی ذکر کی کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کا کام فاجر سے بھی لے لیتا ہے۔ مغرب کے طرف سے سامنے لائے گئے جدید ذرائع ابلاغ اور وسیع پیمانے پر پرنٹنگ پریس نے اسلام کے پیغام کو عالمگیر سطح پر پھیلانے میں معاونت فراہم کی ہے۔ یہ مولانا کی ندرت خیال ہے جو کہ دلچسپ بھی ہے اور اس پر غور کرنا چاہیے کیونکہ واقعاتی طور پر دعوتی نکتہ نظر سے یہ چیزیں بہت معاون ثابت ہوئی ہیں
مصنف نے لکھا کہ مغرب کے سیکولر اہل علم نے اپنے اصولوں کے مطابق اسلام کا مطالعہ کیا بالخصوص سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالعہ کے دوران انہوں نے بہت سی نئی چیزیں دریافت کیں جن کو مسلمانوں نے عقیدت کا رنگ دیا ہوا تھا یعنی بدترین مخالفت کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے مشن پر ڈٹے رہنا اور کامیاب ہونا۔ مسلمانوں کے اس کو عقیدت کے طور پر دیکھنے کا نقصان یہ ہوا کہ وہ اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کر سکے لیکن مغربی مفکرین میں سے برطانوی مصنف E.E Kellet کا حوالہ دیا کہ اس نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشکلات کا مقابلہ اس عزم سے کیا کہ وہ ناکامی سے کامیابی نچوڑ سکیں
یہ ایک اہم نتیجہ ہے لیکن مولانا کا یہ کہنا کہ مسلمانوں نے عقیدت کے پیش نظر سیرت سے اسباق حاصل نہیں کیے مکمل درست نہیں۔
مستشرقین کے بارے میں مسلمانوں کے ہاں بالعموم منفی رائے پائی جاتی ہے اور اس کی ٹھوس وجوہات بھی ہیں مگر مولانا کے نزدیک یہ رائے درست نہیں وہ کہتے ہیں کہ دراصل مستشرقین کا طرزِ مطالعہ مسلمانوں سے مختلف ہے جس کو مسلمان سمجھ نہیں سکے کیونکہ مسلمان اسلام کو بطور دین جبکہ مستشرقین اس کا مطالعہ ایک social phenomenon یا historical phenomenon کے طور پر کرتے ہیں۔ مستشرقین کا کیس طریق مطالعہ کا ہے ناکہ سازش یا بدنیتی کا۔ اگر ہم ان کے کیس کو مدعو کے طور پر لیں تو ہمارے دل میں ان کے لیے خیر خواہی پیدا ہو گی۔ ہمیں ان کے کیس کو غیر جانبدارانہ انداز میں سمجھ کر ان سے داعیانہ ذہن کے تحت گفتگو کرنی چاہیے۔ مولانا کی یہ بات درست ہے کہ ان سے داعیانہ اسلوب میں گفتگو ہونی چاہیے مگر مستشرقین کے بارے میں ان کا حسن ظن بھی غیر حقیقی ہے۔ مستشرقین میں یقیناً کچھ لوگ ہیں جو خالص علمی انداز میں مطالعہ کرتے ہیں ان کا کیس بالکل ہی ایسا ہے مگر ان میں ایسی تعداد کی کمی نہیں جنہوں نے اپنا بدنیتی اور تعصب کا مظاہرہ کیا اور اسلام کے بارے میں دروغ گوئی اور فریب سے گریز نہیں کیا۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں مستشرقین کی خیانتیں اور بددیانتی ایک حقیقت ہے۔ اس کو محض مختلف طریق مطالعہ کے عنوان سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ البتہ جن مستشرقین کا انداز علمی ہے اور ان کا مطالعہ نیک نیتی پر مبنی ہے ان کی بابت ایسا ہی رویہ اختیار کرنا چاہیے جیسا کہ مولانا نے ذکر کیا ہے۔
تخلیق آدم علیہ السلام کے وقت جو رب تعالیٰ اور فرشتوں میں مکالمہ ہوا اس بارے میں بھی مولانا نے تحریر فرمایا اور لکھا کہ جب فرشتوں نے کہا کہ انسان زمین پر فساد پھیلائے گا تو ان کے جواب کے لیے ان کے سامنے انبیاء علیہم السلام ، صالحین اور شہداء کو پیش کیا گیا جس سے ان کو رب تعالیٰ کے تخلیقی منصوبے کا علم ہوا۔ غالباً یہ ہی تفسیر مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی بھی ہے اور قابلِ غور ہے۔
مولانا نے لکھا ہے کہ یہ دنیا انسان کے لیے imperfect world ہے۔ یہ بطور امتحان ہے، انسان اس سیارے کی مخلوق نہیں ہے۔ اس کے لیے perfect دنیا جنت ہے۔ اس لیے زمین پر جو لوگ اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کریں وہ ہی اس پرفیکٹ دنیا میں رہنے کے حقدار ہیں۔انسان سے غلطی یہ ہوئی ہے کہ اس نے اس دنیا ہی کو پرفیکٹ بنانے کی کوشش کی جس میں بالآخر اس کو ناکام ہونا پڑا ۔
تصور تاریخ اور تاریخ کی توجیہ کے حوالے سے بھی مولانا نے لکھا ہے اور بتایا ہے کہ اسلام کے نزدیک تاریخ کو افراد کے لحاظ سے دیکھنا چاہیے جبکہ دوسرے مورخین اس کو مجموعے کے لحاظ سے دیکھتے ہیں ۔ مولانا نے یہ بھی لکھا کہ تخلیق ارضی کے وقت ہی دو گروہ سامنے آ گئے تھے ایک اتباع ابلیس والے اور دوسرے اتباع ملائکہ والے۔ اب ہمیں افراد کا جائزہ لینا ہے کہ ان میں سے وہ کس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں.
تاریخ کے حوالے سے سورہ بقرہ کی ایک آیت بھی مولانا نے ذکر کی ہے جس میں رب العالمین نے بتایا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض لوگوں کے ذریعے دفع نہ کرتا تو زمین فساد سے بھر جاتی۔ اس کی روشنی میں تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مقتدر گروہ جب کمزور ہوا تو اس کی جگہ دوسرے گروہ نے لے لی۔ اسلامی تاریخ میں بھی خلافتِ راشدہ کی جگہ اموی حکومت اور پھر ان کی عباسیوں نے لی۔ خلافت راشدہ سے اموی حکومت کی طرف سفر کے بارے میں مولانا لکھا کہ خلافت کا ادارہ اپنی اخلاقی خوبیوں کے باوجود سیاسی استحکام کو باقی رکھنے میں ناکام رہا۔ امویوں نے عرب کلچر کو فروغ دینے میں شدت کا اہتمام کیا جو کہ قرآن مجید کی کامل حفاظت کے لیے ضروری تھا۔مولانا کا ذکر کردہ قانون دفع کافی دلچسپ ہے اس کی روشنی میں اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ایک الگ پہلو سے تعارف ہوتا ہے۔ اس ہی قانون دفع کے تحت اب دنیا کی قیادت مسلمانوں سے لیکر مغرب کو دی گئی کیونکہ وہ اس ذمہ داری کو اٹھانے کے قابل نہیں رہے تھے۔
مولانا کا کہنا ہے کہ امت مسلمہ کا عملاً کوئی وجود نہیں اور جو مسلمان اقتدار کی کشمکش میں اسلام کا سہارا لیتے ہیں وہ بھی کسی مغالطے میں ہیں اور اپنی توانائیاں غلط جگہ لگا رہے ہیں۔ ابھی ضرورت ہے کہ امت مسلمہ اجتماعی توبہ کرے یعنی کہ اپنا میدان تبدیل کرے یہی مسلمانوں کی نجات کا واحد حل ہے۔ اس کے لیے مولانا نے صلیبیوں کی مثال دی کہ جب وہ میدان جنگ میں مسلمانوں کے مقابلے میں ناکام ہوئے تو انہوں نے دوسرا میدان بنا یعنی علم کا میدان جس کے بعد چند صدیوں میں ہے وہ غالب آ گئے۔ ابھی دعوت کے جو سنہری مواقع میسر آ گئے ہیں تو مسلمانوں کو سیاسی اقتدار کی بجائے یہاں توانائیاں خرچ کرنے کی ضرورت ہے اور یہ مسلمانوں کا بنیادی مقصد ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے داعی ہیں۔
مولانا نے فلسطین اور پاکستان کی مثال دی کہ فلسطینوں نے اپنی جدوجہد میں بے شمار قربانیاں دیں شاید اس کی مثال تاریخ نہ ملے مگر نتیجے کے لحاظ سے یہ counter productive ثابت ہوئی ۔ پاکستان بھی اسلام اور دو قومی نظریہ کے نام پر بنا اور لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دیں مگر پاکستان میں اسلام کہیں بھی نہیں اور نہ ہی اس کے باشندوں کو امن اور تحفظ ملا بلکہ اب اس کا شمار ناکام ریاستوں failed states میں ہوتا ہے۔ جس کے اپنے وجود پر سوالیہ نشان ہیں۔
مولانا نے یہ بھی تحریر کیا کہ بھارت میں مسلمان پاکستان کی نسبت زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ گو کہ ہمیں اپنے وطن کے بارے میں خوش فہمی تو نہیں مگر مولانا کو بھارت کے حوالے سے خوش فہمی ضرور ہے۔ جس پیمانے پر وہاں مسلمان فسادات کی نظر ہوئے ہیں اور کئی واقعات ریاست کی زیر نگرانی ہوئے جیسے کہ ہاشم پورہ کا تو اس کے بعد مولانا کی اس بات کو مغالطہ ہی کہا جا سکتا ہے۔
مولانا کے ایک اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دجال کے شخصی تصور کی بجائے اس کو فکری چیلنج کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یعنی دجل وفریب پر مبنی وہ افکار جو عقیدہ توحید کو چیلنج کریں جو کہ علم کی غلط تعبیر پر مبنی ہوں کیونکہ یہ دھوکا دہی ہے تو دجال کا مطلب بھی بڑا دھوکے باز ہے۔ علمی حقائق باطل تعبیر ہی دجل ہے جو انسان کو دھوکے میں ڈالتی ہے۔ اس بارے میں مولانا کے موقف کے مقابل روایتی علماء کا موقف زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے مولانا کی دوسری تحریروں میں دجال کا شخصی تصور بھی ہو مگر اس کتاب میں ان کے تحریر سے اس کے برعکس معلوم ہوتا ہے۔
مولانا نے ایک زبردست بات خدا کو اپنی ترجیح اول بنانے کی کی ہے۔ جو انسان خدا کو اپنا supreme concern بنائے تو وہ اس دنیا میں سکون میں رہتا ہے۔ پھر اس کے ذہن میں جو معیاری دنیا ہوتی ہے وہ اس کو معلوم ہوتا کہ موت کے بعد کی دور حیات میں ممکن ہے۔ اس کی مثال اس مسافر کی ہوتی ہے جو بس یا ٹرین میں سفر کرتے ہوئے کبھی گھر والی سہولیات کی تمنا نہیں کرتا کیونکہ اس کو معلوم ہوتا ہے کہ سواری صرف سواری ہے وہ گھر کا بدل نہیں ، ایسے ہی موجودہ دنیا خواہشات کی تکمیل کی دنیا نہیں ہے۔
مولانا نے توحید اور شرک کی ایک نادر تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ اس کائنات میں جو شخص خالق کو اپنا concern بنائے وہ موحد جو مخلوق کو اپنی ترجیح بنائے وہ مشرک ہے۔
آخر میں مولانا نے مادی تہذیب اور روحانی تہذیب اور ان کے فرق پر گفتگو کی ہے کہ مادی تہذیب کے مظاہر کو ہم دیکھ سکتے ہیں جیسے کہ تاج محل یا اہرام مصر وغیرہ حالانکہ یہ تہذیب اور اس کے مظاہر معدوم ہونے والے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں روحانی تہذیب کے مظاہر کو ہم بظاہر اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے مگر اس کے مظاہر نہ ختم ہونے والے ہیں ۔ جیسے کہ ہابیل کا قابیل کو کہنا کہ وہ اس پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا۔ ہابیل قتل ہو گئے مگر خوف خدا کے باعث قابیل پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ یہ بہت بڑا واقعہ ہے اور یہ تاج محل یا اہرام مصر سے بڑھ کر ہے مگر چونکہ ہم اس کو دیکھ نہیں سکتے اس لیے ہم اس بارے میں علم نہیں رکھتے جبکہ یہ بات فرشتوں نے محفوظ کی ہوئی ہے۔ ایسے ہی فرعون کے سامنے جادوگروں کا اعتراف حق مادی تہذیب کے تمام مظاہر سے بڑھ کر ہے۔
روحانی تہذیب کے یہ مظاہر ہماری آنکھوں کے سامنے آخرت میں ظاہر ہوں گے جہاں یہ ہمیشہ کے لیے قائم رہیں گے یہ مادی تہذیب کی طرح معدوم ہونے والے نہیں ہیں۔
مولانا وحید الدین خاں کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ روز مرہ کے واقعات سے کوئی نہ کوئی سبق اخذ کرتے تھے وہ اس کتاب میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کے سادہ اور آسان اسلوب میں لکھنے سے جدید ذہن کے ساتھ عام قاری بھی بآسانی بات سمجھ لیتا ہے۔ اس کے ساتھ ان کے کچھ افکار ایسے بھی تھے جن پر تنقید ہوئی اور بہت سی باتوں پر درست نقد بھی ہوا بالخصوص ان کا معذرت خواہانہ انداز درست طور پر تنقید کی زد میں آیا۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے جہاں اسلام کی روایتی فکر سے انحراف کیا اس پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں اور ان کے روایتی فکر پر تنقید کو بھی کوئی ٹھوس نقد نہیں سمجھا گیا مگر داعیانہ اسلوب میں ان کا لٹریچر بہت معاون ہے۔
میں نے شروع میں عرض کیا تھا کہ یہ کتاب مولانا کی مستقل تصنیف نہیں ہے اس کی بنیادی وجہ اس میں بکثرت تکرار کا پایا جانا ہے جو کہ معلوم ہوتا ہے کہ مختلف وقت پر موضوع سے متعلقہ تحریروں کو جمع کیا گیا ہے۔ مولانا کی یہ کتاب جہاں عصری اسلوب میں اسلام کا ایک مطالعہ ہے تو وہاں مولانا کے افکار کی جھلک بھی اس میں ہے۔ بالخصوص ان کا جن موضوعات پر دیگر مسلم اہل علم سے اختلاف ہے اس کی کافی چیزیں اس کتاب میں آ گئی ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کا رد الحاد کے بارے میں جو کام اس کی کچھ کچھ جھلک بھی اس کتاب میں محسوس کی جا سکتی ہے
کمنت کیجے