اجمل صدیقی
سوشل سائنسز اپنا مواد فطری علوم سے لیتی ہیں۔ سوشل سائنسز قومی اور نسلی تعصب سے کبھی خالی نہیں ہوتیں۔ جدید اکیڈمیا نے انسانی علوم کو کئی زاویوں سے کئی شاخوں میں تقسیم کیا ہے؛ نسل، زبان، معشیت، جغرافیہ، سیاست وغیرہ وغیرہ۔ تمام علوم کی تقسیم اضافی اور اعتباری arbitrary ہوتی ہے۔
مشرق Orient اور مغرب Occident کی تقسیم پہلی بڑی تقسیم ہے۔ مشرق کو عام طور پر جمود اور رجعت کا استعارہ قرار دیا جاتا ہے جبکہ مغرب کو ترقی اور تحریک کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ مشرق مذاہب کا امین ہے تو مغرب سائنس کا۔ وغیرہ وغیرہ
یہ بڑی بڑی تعمیمات اگرچہ مغالطوں سے خالی نہیں ہوتیں، پھر بھی کچھ نہ کچھ بصائر اور حمکت بھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہوتی ہیں۔
چرچ کے بڑے سکالرز نے قوموں کی پہلی تقسیم سامی، حامی اور یافثی کے لحاظ سے کی تھی۔ سام، حام اور یافث نوح علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ قرون وسطی میں یہ تقسم چلتی رہی۔ سام مشرق وسطی کی اقوام کے جد امجد سمجھے جاتے تھے، یافث منگول اقوام اور یورپی اقوام کے، جبکہ حام افریقی اقوام کے جد امجد مانے جاتے تھے۔ کہیں ان کا نام سیاہ فام، سفید فام اور زرد فام بھی رکھا گیا، تو کہیں انہیں سامی Semites اور آریائی Aryan کی تقسیم میں دیکھا گیا۔ یا انڈویورپین بمقابلہ سامی النسل یا پھر مزید قابل قبول تقسیم Hellenism vs hebraism ہے۔ بہرحال ان دو گروہوں کو تاریخ نے اپنے ہاں خاص جگہ دی ہے جبکہ افریقی اور ڈراویڈین نسلوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ان کی تصدیق کے لیے بشریات، نفسیات اور حیاتیات سے بھی مدد لی گئی ہے۔
آریا کا پس منظر بہت متنازع اور نسل پرستانہ ہے۔ یورپ میں اینگلوسکسن اور جرمنوں نے نسل اور زبان کی برتری سے نازی ازم کو فروغ دیا۔ قطع نظر اس تقسیم کے تاریک پہلووں کے، ہمیں اس تقسیم سے جو اقوام عالم کے مزاج کی تفہیم ہوتی ہے، وہ قابل قدر ہے۔ ہم اس تقسیم کو ساتھ لے کر چلتے رہیں گے۔
ہم اپنے اس مضمون میں آریاازم کو Hellenism یا یونانیت ہی کہیں گے اور سامی روح کو سامیت اور عبرانیت Hebraism سے موسوم کریں گے۔
آریا اور انڈویورپین فکر بھی اپنی اصل میں یونانیت ہی ہیں، اول الذکر میں نسل پرستی ہے اور ثانی الذکر میں زبان کا پہلو نمایاں ہے۔
عبرانیت اور یونانیت کو سب سے پہلے میتھیو آرنلڈ نے اپنی کتاب Culture and Anarchy کے مضمون Hellenism and Hebraism میں متعارف کروایا۔ بعد میں یہ ایک مستقل علمی موضوع بن گیا ۔۔
میتھو آرنلڈ کہتے ہیں کہ یہ دونوں یعنی ہیلینزم اور ہیبراازم انسانیت کے دو روپ ہیں، کبھی عبرانیت غالب آ جاتی ہے تو کبھی یونانیت۔ دونوں رجحانات اور ذہانتیں (geniuses) یا مزاج مل کر ایک “کامل انسان” (cosmopolitan man) تخلیق کرتے ہیں۔
آرنلڈ کی مذکورہ بالا تقسیم کی پوری تفہیم سے پہلے ہمیں اس تقسیم کو قابل ہضم بنانے کے لئے تاریخ عالم میں دونوں گروہوں کی میراث کا سرسری تذکرہ کرنے سے پہلے ان کے کچھ الفاظ کے لغوی تضمنات سے نبرد آزما ہونا پڑے گا۔
یونایت Helenism
آریا یونانی، سنسکرت اور اوستائی زبان میں شریف، ہمدرد، ساتھی، نیک کے معنی میں آتا ہے۔ Aristotle, Aristocrat, Artemis, Aristophanes سے لیکر ایران تک کے اسماء و الفاظ سے یہی مفہوم چھلکتا ہے۔ یونانی خود کو یونانی نہیں کہتے، بلکہ یونانی خود کو ہیلینی hellene کہتے ہیں۔ یونان کا لفظ Ionia کا عربی تلفظ ہے، Greek لاطینی grecia سے ماخوذ ہے۔ ہیلینی لفظ Helios سے ماخوذ ہے جس کا معنی سورج ہے، جیسے ہندوستان میں سورج بنسی راجپوت ہیں، ویسے یونانی خود کو سورج کی اولاد سمجھتے ہیں۔ بالکل اسی طرح Hellen of Troy کے تمثیلی انداز میں بھی یونانی تہذیب اور مشرقی تہذیب کی لڑائی کا ایک انداز پیش کیا گیا ہے۔ جیسے ڈبلیو بی یٹس کی نظم leda and swan یا Europa کا اغوا بھی ایک تہذیب پہ دوسری تہذیب کے غلبے کی ایک تمثیل ہے۔ ہیلینزم Hellenism کے دو مفہوم ہیں؛ ایک سے فلسفے کی تحریک مراد ہے بلکہ ایک طرح کا کلچرز کا ادغام مراد ہے جو سکندریہ میں ہوا۔ اور دوسرا خالص یونانی طرز معاشرت اور سائیکی ہے۔ میتھیو آرنلڈ نے دوسرے مفہوم میں اسے لیا ہے۔ اسی ایک لفظ سے دو adjectives بنے ہیں؛ Hellenic اور Hellenistic؛ پہلے کا مفہوم کلچر ہے اور دوسرے کا فلسفے کی تحریک۔
عبرانیت Hebraism
یہ سامی زبانوں کے مادے ع۔ب۔ر سے ماخوذ ہے جس کے دیگر مشتقات عربی میں بھی وہی ہیں۔ اس کے معنی پار کرنا، جیسے عبور کرنا، عبرت، عبارت، تعبیر، وغیرہ ہیں۔
عبر دریا کے پار سے آنے والے کو بھی کہتے ہیں، چونکہ یہودی دریائے دجلہ سے پار ہو کر Levant میں آئے، اس وجہ ان کا نام عبرانی پڑ گیا۔ یونانی عین کو /ہ/ سے ادا کرتے ہیں، اس لئے انہوں نے انہیں hebrae کہا۔
میتھیو آرنلڈ نے یہاں اس سے عبرانی مزاج مراد لیا ہے اور اس کا نام عبرانیت Hebraism رکھا ہے۔ جان ملٹن کی کتاب Paradise lost دونوں کا آمیزہ بلکہ مرکب ہے، اس نے ہومر اور ورجل کو شکست دینے کا پروگرام بنایا اور puritantism جو یہودیت اور عبرانیت ہی کا دوسرا نام ہے، کو فروغ دیا، یورپ میں puritanism درحقیقت عہد نامہ عتیق کی طرف مراجعت ہے جو دراصل عبرانیت/ سامیت ہی کی طرف مراجعت ہے، اس میں جرمن نسل اور یہودی نسل کا ادغام ہوا۔ یہ بھی ایک طرح کا جدید Hebraism اور Hellenism کا ادغام ہے۔ جرمن قوم میں ایک طرح کی مایوسی اور سنجیدگی کا مرکب پایا جاتا ہے جو عبرانیت/سامیت سے قریب تر ہے۔ ہیگل، کانٹ، مارٹن لوتھر، نطشے، ویگنر کا ہنرک ہاہنے سے موازنہ کیجے۔ لبنیز اور گوئٹے مشرق کی طرف امید کی تلاش میں دیکھتے تھے۔
سامی النسل اقوام اور آریائی اقوام
سامی کائناتی تخلیق اور زندگی کو ایک سیدھی لائن سمجھتے ہیں یعنی جس کا ایک سرا اس کا آغاز ہے اور دوسرا سرا اس کا اختتام۔
آریائی اقوام کائناتی تخلیق، زندگی اور تاریخ کو دائروی سمجھتے ہیں یعنی ان کا بار بار جنم لینا اور بار بار ختم ہونا ایک دائرے کو ظاہر کرتا ہے۔
سامی توحید کی طرف مائل ہیں جبکہ آریائی کثرت کی طرف مائل ہیں۔
آریائی اقوام میں آنکھ حصول علم کی نمائندہ ہے جبکہ سامی النسل اقوام میں کان اہم ہے یعنی سمع و بصر؛ تلاوت، اذان اور دعا سب سماعت کے مظاہر ہیں۔
آریائی اقوام میں تناسخ، مُرودں کو جلانا، چتا cremation، ترک دنیا اور تصوف موجود ہے جبکہ سامی النسل اقوام میں مُردوں کو دفنانا، لذت دنیا کے حصول میں جدوجہد کرنا اور تصوف سے نفرت کرنے کا عنصر ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔
سامی زبانیں
Semitic languages
ان کا نام سام بن نوح سے منسوب ہے۔ تین بڑے مذاہب یہودیت، مسیحیت اور اسلام اس گروپ میں شامل ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا گروپ ہے، جو مشرق وسطی/مڈل ایسٹ سے لے کر افریقہ تک پھیلا ہوا ہے۔ قدیم زمانے میں کارتھیج اور فونیقیہ بھی اس کی شاخیں تھیں۔ عبرانی، کلدانی، عربی، حبشی، سریانی، اور آرامی، وغیرہ اس گروپ کی نمائندہ زبانیں ہیں۔ یورپ کی زبانوں میں سے اب صرف مالٹیز maltese اس گروپ میں شامل ہے۔ اس گروپ کی سب سے شاندار اور مکمل زبان عربی ہے۔ ان زبانوں میں مواد lexicon، نحو و صرف سب محفوظ ہے۔ ان کے زیادہ تر الفاظ تین حرفی مادوں سے بنتے ہیں۔
ان کے چند سہ حرفی الفاظ؛
ک/ن/پ/
کنارہ
عربی میں کنف، کیونکہ عربی میں/پ/ نہیں ہے
اطراف و اکناف
ل/ب/ن
سفید ہونا
لبنان۔ سفید گولان کی پہاڑوں کی وجہ سے
لبنات ایک جھاڑی ہے جس کے پتوں سے سفید دودھ خارج ہوتا ہے
لُبنی
لبن، دودھ
ل/ح/م
کھانا
بعد میں گوشت
ح/ ل/ م
نرمی۔ خواب
کیونکہ گوشت نرم ہوتا ہے
ک/ث/ر
بڑھنا۔ حاصل کرنا
کثرت
ک/ پ /پ
کفف
ہتھیلی
ح/و/ر
سفید ہونا
حور
حواری دھوبی کو کہتے ہیں کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کے زیادہ تر ساتھی دھوبی تھے، اس لئے حواری بمعنی ساتھی ہو گیا
خ/ل/پ
پیچھے آنا
عربی میں خلف، خلافت،
تخالف، استخلاف
سامی زبانوں میں ثلاثی مجرد کا مادہ زبان کی بنیادی ساخت ہے۔
یونانی زبان کو آلہ فکر سمجھتے تھے، جبکہ سامی زبان کو معجزہ سمجھتے تھے۔ سامی زبان کو الہام سمجھتے تھے، محض آلہ فکر نہیں۔ ان کے نزدیک فکر اور معنی زبان کی اولاد ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجمل صدیقی صاحب ایم اے انگلش اور ایم اے اردو ہیں ۔ فیصل آباد میں تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔آپ کی نظر و فکر اور دلچسپی کا دائرہ تاریخ، فلسفہ اورادب ہے ۔
کمنت کیجے