Home » کیا کانٹ ہیوم کے سوال کا جواب دے پایا؟
شخصیات وافکار فلسفہ

کیا کانٹ ہیوم کے سوال کا جواب دے پایا؟

علت و معلول کی بحث فلسفے میں ایک اہم بحث رہی ہے اور متعدد ماہرین فلسفہ نے اپنے اپنے انداز میں اسے حل کرنے کی کوشش کی۔ مغربی فلسفے میں اس بحث نے ڈیوڈ ھیوم کی جانب سے کہی گئی اس بات کے بعد ایک نیا رخ لیا کہ علت مشاہدے میں نہیں آتی کیونکہ انسانی مشاہدہ صرف دو اشیا کے اقتران سے متعلق ہے۔ ھیوم کی یہ بات ان فلسفیوں کے دعوے پر شدید ضرب تھی جن کے مطابق تجربہ ہی حصول علم و تیقن کا واحد درست ماخذ ہے کیونکہ ھیوم کی اس بات کے بعد ان کے لئے فزکس کے ابھرتے ہوئے نیوٹونین ماڈلز کے آفاقی و یقینی ہونے کی بنیاد اکھڑ کر رہ جاتی ہے۔ ھیوم نے اپنے تئیں اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا پیش کردہ حل تمام فزیکل علوم کو انسان کی نفسی کیفیات کا مظہر بنا دیتا ہے (اس پر یہاں ہمیں گفتگو نہیں کرنا)۔ کانٹ کے لئے یہ حل قابل قبول نہ تھا، اس لئے اس نے عالم و معلوم (knower        and        known) کے تعلق کو دیکھنے کی جہت بدل کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی۔ یہاں ہم یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا کانٹ نے ھیوم کے مسئلے کو حل کیا نیز کیا اس کا حل قابل اطمینان ہے؟

سب سے پہلے اختصار کے ساتھ علم کی کیفیت سے متعلق کانٹ کا مجوزہ ماڈل سمجھنا چاہئے۔ کانٹ اپنے دور سے متصل فزکس کی تعلیمات سے خاصا متاثر تھا۔ علم کی کیفیت کے بارے میں ایک مفروضہ یہ ہے کہ انسانی علم معلوم یا شے کے ادراک سے متعلق ہے۔ کانٹ سے قبل کاپرنیکس نے کہا کہ سورج زمین کے گرد نہیں گھومتا بلکہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ اس خیال سے متاثر ہوکر کانٹ نے کہا کہ انسانی علم کی تفہیم کے لئے ہمیں ایسے ہی کاپرنیکن انقلاب کی ضرورت ہے۔ چنانچہ کانٹ کے مطابق انسانی علم “شے کے ادراک” سے متعلق نہیں ہے بلکہ “شے کے ادراک کے اس ادراک” سے متعلق ہے جو ہمارا ذہن چند ماقبل تجربی ذھنی خاکوں سے تخلیق کرتا ہے۔ اس مفروضے کی بنا پر وہ کہتا ہے کہ ہمارا علم شے سے متعلق نہیں بلکہ اس کے مظہر یا شبیہہ (appearance) سے متعلق ہوتا ہے جو ہمارا ذہن ایک خاص قسم کی ساخت سے تشکیل دیتا ہے۔ علم کی کیفیت کے بارے میں اس مفروضے کے بعد ذہن میں تعمیر ہونے والی شبیہات کی توجیہہ کے لئے نہ صرف چند سادہ ذھنی خیالات یا خاکوں کی ضرورت پڑتی ہے بلکہ چند مرکب تصورات کو بھی فرض کرنے کی ضرورت ہے، انہیں مقولات کہا جاتا ہے جنہیں کانٹ pure        forms        of        thought کہتا ہے۔ تجرباتی ڈیٹا سے بننے والی تمام ذھنی شبیہات کو کانٹ بارہ بنیادی مقولوں میں محدود کرتا ہے اور یہ ماقبل تجربہ مقولے اس کے نزدیک “تجربی علم کی میٹافزکس” ہیں، یعنی اگرچہ یہ خیالات تجربے سے حاصل نہیں ہوتے تاہم یہ تجرباتی امور (یعنی ذھنی شبیہات یا شے کے مظاھر) کی توجیہہ کے لئے لازمی شرط ہیں کہ ذھنی شبیہات انہی کی رھین منت ہیں۔ یوں اپنے کاپرنیکن انقلاب کے تحت کانٹ یہ کہتا ہے کہ علم کا معنی انسانی ادراک کا شے کی ساخت سے مطابقت (correspondence) ہونا نہیں بلکہ شے کی “ذھنی ساخت سے” مطابقت ہونا ہے اس لئے کہ علم ذھنی ساخت کو حسی مواد پر لاگو کرنے سے جنم لیتا ہے۔ کانٹ کا کہنا ہے کہ یہ مقولے بدون تجربہ نرے خالی ڈبوں یا خاکوں کی مانند ہیں جو کوئی علم فراہم نہیں کرتے۔ ان مقولوں میں سے ایک مقولہ علیت کا بھی ہے جسے فرض کئے بغیر مظاھر یا ذھنی شبیہات کی توجیہہ اس کے مطابق ممکن نہیں۔

جب کانٹ سے پوچھا جائے کہ فہم کے مقولات یعنی کیٹیگریز میں جس کا نام آپ نے “علت” رکھا ہے اس کا معنی و تصور کیا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ علیت زمانی تسلسل و تقدم سے عبارت ایسا مستقل و متعین قانون ہے جو حوادث کے مابین وجوبی تعلق کو ظاہر کرے۔ باالفاظ دیگر کانٹ علت کے مفہوم میں زمانی تقدم اور موجب ہونے کا مفہوم شامل کرتا ہے۔ علت کو اس مفہوم میں فرض کرنے کی دلیل کانٹ کے نزدیک یہ ہے کہ ایک گھر کے مشاھدے اور دریا میں اوپر سے نیچے کی سمت بہتی کشتی کے مشاہدے میں جو فرق ہے اس کی توجیہہ ذھن میں علت کا مقولہ فرض کئے بغیر ممکن نہیں۔ ایک گھر کے مشاہدے کو میں چھت سے فرش کے بجائے الٹ طرف یعنی فرش سے چھت کی جہت میں سوچ سکتا ہوں تاہم پانی میں بہتی اس کشتی کے بارے میں نیچے سے اوپر بہاؤ کا خیال ممکن نہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ کسی گھر کے معین و غیر متبدل رخ اور نہر میں نیچائی کے رخ پر بہتی (یعنی تبدیلی سے دوچار) کشتی کے مشاہدے میں جو فرق ہے وہ تبھی معنی خیز ہے جب یہ مانا جائے کہ ایک خاص لمحے و مکان پر موجود کشتی کا رخ دراصل اپنے سے ماقبل زمانی و مکانی حالات و شرائط کی بنا پر ہے اور ان ماقبل حالات و شرائط کا تعین مستقل حرکی قوانین وغیرہ سے ہورہا ہے۔ باالفاظ دیگر کانٹ کے مطابق جسے ایک شے کے دو احوال یا حدوث یا ایونٹ کہتے ہیں، اس کا مفہوم ہونا علیت کے اس تصور کو فرض کرتا ہے جسے کانٹ علت کہتا ہے۔ کانٹ کا مسئلہ نیوٹن کی فزکس کے لزوم کو ثابت کرنا تھا اس لئے کہ ھیوم نے اس پر سوال کھڑا کردیا تھا، کانٹ نے اسی کو اپنے تصور علت میں”عقلی لزوم” کا لبادہ اوڑھا کر آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ کانٹ کے مطابق یہ بارہ مقولے تجربے کی شرط ہونے کی بنا پر سب انسانوں میں مشترک ہیں اور ان مقولوں سے ہمیں اشیا کے مابین علت و معلول کا اصول جاری ہونے اور آفاقی ہونے کی ایک بنیاد میسر آجاتی ہے۔

اب ہم اس سوال کا جواب سمجھنے کی پوزیشن میں ہیں کہ کیا کانٹ کے تجویز کردہ حل سے ھیوم کا جواب ہوپایا؟ھیوم کا مسئلہ یہ تھا کہ اس کے نزدیک تصورات صرف حسی مشاھدے سے حاصل ہوتے ہیں، مگر اسے مشاہدے سے حاصل ہونے والے دو تصورات کی علت و معلول کے بندھن میں توجیہہ کرنے کے لئے ان کے مابین “زمانی تقدم”، “مکانی اقتران” اور ان “دونوں کے باہمی لزوم” کی حسی مشاہداتی بنیاد نہیں مل پا رہی تھی۔ اس ضمن میں ھیوم تین سوالات پوچھتا ہے:

الف)     علت کا تصور یا مفہوم کیا ہے اور اس تصور کی حسی بنیاد کیا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ یہ ایک تعلق کا نام ہے جو تین امور سے عبارت ہے: دو اشیا کے مابین زمانی تقدم، ان کا مکانی اقتران اور ان کے مابین باہمی لزوم۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ ان تصورات کی تجرباتی بنیاد کیا ہے؟ مثلا مشاہدے سے جنم لینے والا وہ کونسا تصور ہے (impression) جو اس لزوم کی دلیل ہے؟

ب)       “ہر حادث یا واقعے کا ایک سبب ہوتا ہے”، خود اس تصور کی تجرباتی دلیل کیا ہے جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ علت و معلول کہلائے جانے والے واقعات ایک دوسرے سے اس طرح مختلف و جدا ہوتے ہیں کہ انہیں جدا فرض کرنے سے تضاد بھی لازم نہیں آتا؟

ج)        علت و معلول کے بندھن میں پروئے ہوئے کسی خاص یا معین (particular        or        substantive) اصول (مثلا آگ روئی کو جلاتی ہے، کھڑے پانی میں ہاتھ ہلانے سے پانی ہلتا ہے، انسان کا سر کاٹ دینے سے موت واقع ہوجاتی ہے وغیرہ) کے لزوم کی دلیل کیا ہے جبکہ ہم        problem        of induction سے واقف ہیں جو یہ کہتا ہے کہ استقرائے ناقص ظنی علم فراہم کرتا ہے؟

کانٹ نے کہا کہ ان سب تصورات کی بنیاد حسی مشاھدے میں نہیں بلکہ انسانی ذہن و فہم کی ساخت میں پنہاں ہے اور اس لئے انہیں ماننا سب انسانوں کے لئے ضروری ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ زمان و مکان وہ pure        forms         of        intuition ہیں جو مشاہدے کو ممکن بنانے والے ہیں، یہاں سے “زمانی تقدم” و “مکانی اقتران” کی توجیہہ ہوتی ہے جبکہ بارہ تفہیمی کیٹیگریز یا مقولوں میں سے علت کی کیٹیگری یہ بتاتی ہے کہ ہر واقعہ ایک اصول کی بنا پر اپنے سے ماقبل زمانی حالات و شرائط کی بنا پر رونما ہوتا ہے۔ یوں اس کے خیال میں تجرباتی طور پر معلوم کردہ علل و معلول کے تعلقات کی آفاقی، معروضی و لازمی بنیاد فراہم ہوجاتی ہے۔ گویا pure         forms         of          intuition اور pure        forms        of         thought مل کر اس مسئلے کو حل کردیتی ہیں جو ھیوم کو لاحق تھا۔ ایسا اس لئے ہے کیونکہ انسان کو اپنے ذھن کی ساخت کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ علت کے مقولے کے بغیر ان مناظر کی تشکیل ناممکن ہے جو ہمارے ذہن میں پائے جاتے ہیں، پس یہ تیقن آفاقی و قطعی علم کی بنیاد ہے۔ کیا اس مفروضے سے واقعی وہ سوال حل ہوا جو ھیوم نے اٹھایا تھا؟ موجودہ دنیا میں ماہرین کانٹ میں سے ایک بڑے ماہر Paul        Guyer کا جواب نفی میں ہے۔

اس کی وجہ کانٹ کے جواب پر غور کرنے سے معلوم ہوجاتی ہے کہ وہ علت و معلول کے زمانی تقدم و مکانی اقتران کی توجیہہ کے لئے       pure        forms         of          intuition کا تصور فراہم کرتا ہے جبکہ اس اصول کی قطعیت کے لئے pure         forms           of          thought سے علت کی کیٹیگری لاتا ہے۔ تاہم کانٹ کی فکر تیسرے سوال کہ “کسی معین یعنی particular          or          substantive قانون کے لزوم کی دلیل کیا ہے” کا جواب نہیں دیتی اور یہی سبسٹنٹو لزوم ھیوم کے ہاں اصلاً زیر بحث تھا جسے کانٹ نے حل نہیں کیا۔ یہ بات یاد رہے کہ کانٹ کے مطابق pure         forms           of           thought کوئی سبسٹنٹو علم فراہم نہیں کرتیں بلکہ یہ محض “مطلق اصول تصور و تصدیق” ہیں جو مشاہداتی امور پر لاگو ہونے کے بعد particular          or            substantive علم پیدا کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ pure          forms              of            thought کسی معین اصول علت کا مافیہ یا content فراہم نہیں کرتے، چہ جائیکہ اس کے لزوم کی دلیل بھی بن سکیں۔ اسی طرح یہ pure           forms           of             thought خارج میں رونما ہونے والے حوادث کے مابین ترتیب کو بھی متعین نہیں کرتے بلکہ یہ خاص ترتیب حسی مشاہدے سے موصول ہوتی ہے (کہ مثلا “خارج میں روئی آگ کے پاس گئی” اور “جل گئی”)۔ لہذا کانٹ زیادہ سے زیادہ یہ ثابت کرپایا کہ انسانی شعور کی وحدت میں “تصور علت” کی بنیاد موجود ہے نیز اسے کیوں کر لازم مانا جانا چاہئے، مگر معین زمانی و مکانی مشاہدات کے مابین کونسا تعلق وصف علت سے متصف ہوکر لازم ہے، اس کی فکر اس کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ یعنی “علت و معلول کا تعلق قطعی ہے” سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ “آگ روئی کو جلاتی ہے نیز یہ معین تعلق قطعی ہے” (یا مثلا حوادث کے مابین نیوٹن کے بیان کردہ قوانین بھی قطعی ہیں)، سببیت کے اس particular or          substantive اصول کے لئے یا یہ فرض کرنا ہوگا کہ “آگ میں جلانے کی ناقابل تبدیل صلاحیت ہے” اور یا پھر یہ کہ مشاہدے میں آنے والے جن عوامل کو ہم اسباب کہہ رہے ہیں وہ خارج میں کسی مفروضہ اصول کی بنا پر ہم آھنگی (pre-established          harmony) سے متصف ہیں۔ ان مفروضات کے بغیر یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ آخر انسان علل و معلول کے معین (particular           or             substantive) اصول کیسے دریافت کرتا ہے نیز ان میں لزوم کیسے پیدا ہوتا ہے۔ الغرض کانٹ کا جواب حوادث کے مابین علت و معلول کے کسی بھی معین (particular          or            substantive) تعلق کو استقرائی دعوے سے زیادہ کچھ ثابت کرنے سے قاصر ہے۔ آسان الفاظ میں کانٹ نے یہ تو بتایا کہ خود علیت کا تصور کیوں کر لازم ہے، مگر وہ یہ ثابت نہیں کرسکا کہ “حوادث” بھی علت ہوسکتے ہیں نیز معین حوادثات کے مابین کونسے تعلقات قطعی ہیں اور اس معین علم کی بنیاد کیا ہے، جبکہ اصل محل نزاع یہی ہے! اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اشیا کے مابین علت و معلول کی ہر معین نسبت کا دعوی ھیوم و کانٹ دونوں کے نظام فکر کی رو سے استقرائی حتمیت سے زیادہ نہیں، اگرچہ دونوں اس کی توجیہہ الگ انداز سے کرتے ہیں۔

پھر کانٹ کے تجویز کردہ حل میں چھپی ہوئی یہ سوفسطائیت بھی کچھ کم غیر اطمینان بخش نہیں کہ وہ انسانی علم کو خارج سے کاٹ دیتا ہے۔ علت و معلول کی جو بھی نسبتیں ہم پہچانتے ہیں، ان کے اشیا سے متعلق ہونے کی کوئی گارنٹی میسر نہیں، یہ سب نسبتیں ہمارے ذھن کی ساخت کی مظہر ہیں۔ علت و معلول کے احکام سبجیکٹو ہیں، اس اعتبار سے کانٹ کا حل ھیوم کی بات سے ملتا جلتا ہے جس کے مطابق علت و معلول کے احکام خارجی اشیا سے متعلق نہیں ہیں بلکہ یہ انسانی عادت و نفسی کیفیات وغیرہ کے سبجیکٹو مظاہر ہیں۔ البتہ ہیوم کے برعکس کانٹ اسے نفسیاتی میلان (psychological tendency) کے بجائے انسانی ذھن کی ایسی ساخت کے مظاہر کہتا ہے جو تجربے کی شرط ہے اور اس سے جاری ہونے والے احکام سبجیکٹو ہونے کے باوجود سب انسانوں میں مشترک (inter         subjective) ہیں۔ تاہم اس معاملے میں دونوں یک زبان ہیں کہ علت و معلول کے احکام سبجیکٹو (موضوعی) ہیں اور دونوں علت کے تصور کو آبجیکٹو (معروضی) اور ذھن سے آزاد حقیقت کے طور پر قبول نہیں کرتے۔

آخری بات یہ کہ ھیوم و کانٹ کی جانب سے علت کے تصور کو زمان و مکان کے ساتھ مشروط کرنا صاف پانی کو گدلا کرنے کے مترادف تھا، اسی طرح علت کو “موجب” کے معنی میں مراد لینا بھی کسی تحکم سے کم نہ تھا نیز حادث ہی کو علت کہنا یہ بھی غلط تھا۔ ان پہلووں پر ہم الگ سے بحث کرچکے ہیں۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں