Home » ایمان اور علم کا نکتۂ اتصال
شخصیات وافکار فلسفہ کلام

ایمان اور علم کا نکتۂ اتصال

جہانگیر حنیف

ایمان اور علم آپس میں اس طرح جڑے ہیں کہ کسی ایک کی نفی دوسرے کی نفی اور کسی ایک کا اثبات دوسرے کا اثبات ہے۔ ظاہر میں یہ دو الگ الگ دائرے ہیں۔ ایمان بالغیب ہے اور علم بالشہود ہے۔ لیکن حقیقت کے اعتبار سے ان میں کوئی دوئی نہیں۔ جن لوگوں نے ان دائروں کو مستقل سمجھا، ان کے ہاں بنیادی غلطی یہی ہے کہ وہ ظاہر کے پیش نظر انھیں دو الگ تھلگ دائروں میں منقسم مانتے رہے اور جس واحد حقیقت کی بنیاد پر یہ دو ہیں، ایک نہیں، اس حقیقت کو وہ دیکھنے سے قاصر رہے۔ حالانکہ ان کے ہاں بھی یہ دو دائرے دو متضاد پولز نہیں بن پائے اور باعتبارِ حقیقت ان کے ایک ہونے کے قوی شواہد جابجا ان کی فکر میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ اگرچہ انھوں نے انھیں ان کی وحدت میں دریافت نہیں کیا، لیکن وحدتِ علم و حقیقت کے آثار ان کی فکر میں موجود ہیں۔ کانٹ نے ایمان اور علم کو الگ الگ بتایا اور کہا کہ علم محض ظواہر تک محدود ہے۔ قبل از کانٹ عقل کو حقیقت کی دریافت کا واحد اور مستند چینل سمجھا جاتا تھا۔ ظواہر حقیقت کے علم تک رسائی میں رکاوٹ مانے جاتے تھے۔ کانٹ نے موقف اختیار کیا کہ ظواہر کا علم عقل کی فعال شمولیت کے بغیر ممکن نہیں۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ اس کے نزدیک بھی علم محسوسات میں محصور نہیں۔ محسوسات علم کی تشکیل میں محض بنیادی میڑیل کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور علم عقل کی فعال شمولیت کے بغیر اپنی تکوین حاصل نہیں کرتا۔ ظاہر اور حقیقت کے تقابل میں دیکھیں، تو حقیقت کے علم کی نفی ہمیں تشویش میں مبتلا کرتی ہے۔ لیکن محسوسات کے تناظر میں دیکھیں، تو حسیات کے علم ہونے کی نفی اور ان میں شعور کے فطری قضایا کے لزومی شرکت knowledge کے empirical ہونے کے مقدمہ کو ملیامیٹ کردیتی ہے۔ علم العلم میں ایک اہم چیز دیکھنے کا زاویۂ نظر ہوتا ہے, جسے ہم اصطلاح میں perspective کہتے ہیں۔ یہ خود علم نہیں ہوتا، لیکن علم کی تشکیل میں سب سے اہم کردار کی حیثیت رکھتا ہے۔ کانٹ نے علم کے empirical ہونے کے مقدمہ کا صفایا کیا۔ اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دوسرا یہ کہ اس نے شے فی نفسہ کے علم میں آنے کا انکار کیا۔ لیکن اس انکار نے شے فی نفسہ کے اثبات کو جگہ فراہم کی، وہ ہم اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کانٹ نے مابعدالطبیعی حقائق کے شعور میں ماورائے علم presence کو faith کا عنوان دیا۔ یہ ایمان کی علم کے پول پر priority کا بیان تھا۔ جب اُس نے کہا کہ ہم خدا، روح اور آزادیٔ اختیار کو قبول کرتے ہیں، تو فی الحقیقت یہ ایمان کے ماقبلِ علم ہونے پر دلالت تھی۔ خدا، روح اور آزادیٔ اختیار وہ مسلمات ہیں، جنہیں قبول کیا جاتا ہے اور انھیں علم کے دائرے میں لا کر ردوقبول کی لامتناہی جدلیات کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاتا۔

بہرحال کانٹ کی فکر اور اس کے مابعدالطبیعی مضمرات ہمارے مضمون کا بنیادی موضوع نہیں۔ ہم محض یہ واضح کرنے کی کوشش میں ہیں کہ علم اور ایمان باعتبارِ حقیقت ایک ہیں۔ ان میں دوئی نہیں۔ اس ضمن میں کانٹ کو مابعدالطبیعیات کے منکر کی حیثیت میں پیش کیا جاتا ہے، اس کا انکار ایک خاص تناظر رکھتا ہے اور اس انکار میں جن چیزوں کا مخفی اقرار شامل ہے، اس کی طرف محض اشارہ کافی ہے۔ کانٹ کی فکر سے قطع نظر، ہمارا مقدمہ یہ ہے کہ شعور کچھ ایسے مَلَکات کا حامل ہے، جو اسے مشاہدات یا تجربات سے حاصل نہیں ہوتے، بلکہ مشاہدات و تجربات کی تکوین میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ مَلَکات اپنی نوعیت اور مآل کار کی حیثیت میں دو ہیں۔ ایک قسم وہ ہیں، جو اسے دنیا سے جوڑنے اور اس سے ربط ضبط قائم کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جو اس کے ماضی اور مستقبل یعنی اس کے ماخذ اور اس کی غایت کے بارے میں علم کے حصول کو ممکن بناتے ہیں۔ یہ دونوں اقسام اپنی افادیت میں دو دائروں پر مشتمل ہیں۔ لیکن جہاں تک ان کی ماہیت کا تعلق ہے، تو ایک ہی ہیں۔ ان کی ماہیت ایمانی ہے اور یہ شعور کے مادے کا عنوان ہے۔ شعور کو ایک آنکھ تصور کریں، جس کی فعلیت دیکھنے سے عبارت ہے، تو اس آنکھ کے دیکھنے کی صلاحیت کا عنوان ایمان ہے۔ شعور ایمان کی قوت سے دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ یہ صلاحیت مفقود ہو، تو دیکھنا تو دور کی بات یے، دیکھنا کے معنی ہی کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ آنکھ کی بینائی قدرت کی عطا ہے۔ شعور کی بینائی بھی قدرت کی دین ہے۔ شعور قدرت سے ملی اس صلاحیت کو بروئے کار لاتا ہے۔ بسا اوقات اس صلاحیت کو نور کا عنوان بھی دیا جاتا ہے۔ شعور اس نور کی مدد سے خود کو اور اپنے ماحول کو دیکھنے لگتا ہے۔

علم کی معرفت سے ایمان کی معرفت کا رستہ کھلتا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ علم کو غلط سمجھا، تو ایمان بھی سمجھ نہیں آئے گا۔ ایمان سے علم کا سفر اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن علم سے ایمان کی جانب پیش قدمی حق کے بہت سے طلب گاروں کی خواہش ہے۔ وہ ایمان سے اس لیے دوری محسوس کرتے ہیں، کیونکہ انھیں علم کے رستہ سے ایمان تک پہنچنے کی سبیل دکھائی نہیں دیتی ہے۔ لہذا وہ چاہتے ہیں کہ کوئی انھیں براستہ علم ایمان کی منزل تک پہنچا دے۔ لہذا علم سے ایمان کا سفر علم کی معرفت سے طہ ہوگا۔ لہذا سوال ہے کہ علم کیا ہے؟ اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ علم subjectivization        of         the         object کا نام ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے۔ علم کا محتوی مشاہدے سے فراہم ہوتا ہے۔ لیکن اس کی تکمیل شعور کی مدد سے حاصل ہوتی ہے۔ علم کی تشکیل میں شعور فعال عامل کی حیثیت سے شامل ہوتا ہے۔ جس کا پہلا معنی یہ ہے کہ علم مشاہدے میں محصور نہیں۔ یہ ہمارا دعویٰ ہے اور نوٹ کرنے کے قابل ہے۔ اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ علم شعور کی شمولیت کے بغیر علم نہیں کہلا سکتا۔ چیزیں شعور کا موضوع نہ بنیں، تو علم نام کی کوئی چیز جنم نہیں لے سکتی۔ علم کی پہلی شرط شعور کا ناظر ہونا ہے۔ دوسری شرط شعور کا محسوسات میں بطور فاعل متصرف ہونا ہے۔ شے کو معلوم ہونے کے لیے ایک متصرف ناظر کی ضرورت ہے۔ شعور اپنی فطرت کے بل بوتے پر ناظر بھی ہے اور متصرف بھی۔ علم کی تشکیل کے لیے درکار شعور کی یہ دو بنیادی استعدادیں تجربہ سے اُسے حاصل ہوئی ہیں اور نہ اس پر منحصر ہیں۔ اپنے ظہور کے لیے وہ تجربہ کی متقاضی ہیں۔ لیکن اس سے ماخوذ نہیں۔ تجربہ کی علمیاتی تشکیل شعور کی ان فطری صلاحیتوں کی مرہون ہے۔ لہذا اس تناظر کو سامنے رکھیں، تو ہم اپنی دلیل کو یوں بیان کریں گے کہ تجربہ شعور پر منحصر ہے، شعور اپنی استعداد پر منحصر ہے۔ استعداد فطرت پر منحصر ہے۔ لہذا علم فطرت پر منحصر ہے۔ چناچہ بحث کا دائرہ کار فطرت کا فہم ہے۔ تجربہ اور مشاہدہ نہیں۔ حقائق کے علم میں تجربہ اور مشاہدہ کو کسوٹی بنانا سوءِ فہم ہے۔ یہ ہمیں غلط بتایا گیا ہے کہ علم تجربیات میں محصور ہے؛ علم empiricals کا عنوان ہے۔ چونکہ خدا دکھائی نہیں دیتا، اس لیے خدا موجود نہیں۔ یہ لغو بات ہے۔ یہ پورا تصور اور سارے کا سارا استدلال ہی ردّی ہے۔ اس تصور پر کھڑے ہو جائیں، تو علم نام کی کوئی چیز شعور میں جڑ ہی نہیں پکڑ سکتی۔ لہذا سب سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ علم تجربیات میں محصور نہیں۔ دوسری بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ علم شعور کی فعال شمولیت کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ شعور بربنائے فطرت محسوسات میں تصرف کرتا ہے، جس سے ہمیں علم حاصل ہوتا ہے۔ اگر محض یہ مقدمہ ہمیں سمجھ میں آ جائے، تو اس سے ایمان باللہ پر شعوری و فطری استدلال کا راستہ کھل جاتا ہے۔ اس کائنات کو بطور ایک آبجیکٹ کے شعور جب اس کی حقیقت کے پیش نظر ایک نشانی کی حیثیت میں دیکھتا ہے، تو یہ اپنے خالق کے وجود پر بالصراحت دلالت کرتی ہے۔ شعور کائنات کے علم کو اور اپنے فطری اقتضاءات کو جوڑ کر جب اس کائنات کا مطالعہ کرتا ہے، تو اس کا مخلوق ہونا خود بخود منکشف ہوجاتا ہے اور یہ اپنے وجود سے ایک فعال خود مختار خالق کے علم تک رسائی کا رستہ فراہم کردیتی ہے۔

دوسری اہم چیز دیکھنے یہ ہے کہ علم کے فطرت پر انحصار کا کیا مطلب ہے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ علم اُن تحدیدات سے آزاد نہیں، جو شعور اس پر وارد کرتا ہے۔ لیکن اس کا دوسرا اور اس سے کہیں گہرا مطلب یہ ہے کہ علم اپنی اصالت میں انفعال ہے۔ شعور tabula        rasa نہیں۔ یہ کچھ حقائق سے programmed ہے۔ شعور علم کے تشکیل کے تمام دوائر ان حقائق کے حضور میں طہ کرتا ہے۔ اور ان کی مدد سے کرتا ہے۔ شعور کی یہ انفعالیت ہی اس کے داخل کی ایمانی ساخت ہے۔ اور یہی وہ نکتۂ اتصال ہے، جہاں علم ایمان سے جڑ جاتا ہے۔ علم اپنے اوریجن میں انفعال یعنی قبولیتِ محض یعنی ایمان ہے۔ یہ مادۂ شعور کا بیان ہے۔ ایمان اور شعور دو الگ الگ اکائیوں کے عنوانات نہیں۔ شعور اپنی ساخت میں ایمان ہے۔ یہ کوئی عقیدہ نہیں۔ کلینیکل بات ہے۔ شعور ایمانی ساخت کا حامل ہے، اس وجہ سے علم کی تشکیل ممکن ہے۔ شعور ماننے کی صلاحیت ہے، اس لیے جاننے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ جاننا کچھ نہیں، اگر شعور کے پاس پہلے سے کچھ موجود نہیں۔ جاننا کیا معنی رکھتا ہے؟ جاننا اپنا نکتۂ آغاز کیسے حاصل کرسکتا ہے۔ جاننے کا عمل خلا میں واقع نہیں ہو سکتا۔ کیا جاننا ہے؟ کسے جاننا ہے؟ کیسے جاننا ہے؟ یہ سب سوالات جاننے سے بہت پہلے جاننے کی معرفت پر دلالت کرتے ہیں۔ یہی معرفت شعور ہے۔ شعور اسی پر اپنی علمی تعمیرات بلند کرتا ہے۔ معرفت کی یہ بنیاد قدرت سے حاصل نہ ہو، تو علم نام کی کوئی چیز وجود نہیں پکڑ سکتی۔ لہذا معرفتِ اصلی علم سے مقدم ہے اور علم کی واحد مقوّم ہے۔

ابھی ہم نے object کی subjectivization کی بات کی ہے۔ اس کے کیا معنی ہیں۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ شعور کا شے پر غلبہ ہے۔ شعور شے سے مغلوب رہے، تو علم من جانبِ شے کا مقدمہ بن سکتا ہے اور شعور کے تہی دامن ہونے کا دعویٰ بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ شے کی subjectivization کیا چیز ہے۔ یہ شے کو اپنی تحویل میں لینا اور اس کی ایسے حدود مقرر کرنا ہے کہ شے اُن حدود سے اِدھر سے اُدھر نہ ہو سکے۔ شے کی حدود جسے ہم عرفِ عام میں تعریف بھی کہتے ہیں، یہ شعور کا شے پر اضافہ ہے۔ شے خارج میں ”موجود“ ہوتی ہے اور شعور کی تحویل میں ”معلوم“ ہوتی ہے۔ یہ جیسے ایک تقدیری دوئی ہے۔ یعنی ایک ہی شے بیک وقت ”موجود“ اور ”معلوم“ ہونے میں بٹی ہے۔ اب ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ دوئی حقیقی (real) ہے، مصنوعی نہیں اور اس کا حاصل بھی حقیقی ہے، باطل نہیں۔ یعنی یہ کہ ذہن میں حاضر شے اور خارج میں موجود شے دونوں اپنے اپنے دائرے میں حقیقی ہیں۔ مثال کے طور پر ہم ایک کرسی کو دیکھتے ہیں۔ خارج میں کرسی اور ذہن میں جو کرسی ہے، ان میں سے کسی ایک کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ غیر حقیقی (unreal) ہے۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ ذہنی کرسی اور خارجی کرسی عین یک دیگر نہیں۔ یہ ایک کرسی نہیں۔ خارج سے کرسی فنا ہوجائے، ذہن میں رہے گی۔ ذہن سے کرسی غائب ہوجائے، خارجی کرسی پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ لہذا یہ دوئی حقیقی ہے۔ ذہنی کرسی بھی اسی طرح حقیقی ہے، جیسے خارجی کرسی۔ اسی طرح ذہنی کرسی اور خارجی کرسی آپس میں مساوی نہیں۔ ذہنی کرسی ≠ خارجی کرسی۔ ذہنی کرسی کی properties، اس کی qualities اور حتی کہ استعمال خارجی کرسی سے یکسر مختلف ہیں۔ ذہنی کرسی معلوم کے درجہ پر ہے اور خارجی کرسی موجود کے درجہ پر۔ اور معلوم موجود سے زیادہ ہوتا ہے۔ لہذا ذہنی کرسی کا خارجی کرسی سے غلبہ کا تعلق ہے۔

اگر ہم ان امتیازات کا خلاصہ کریں، تو معلوم اور موجود میں پہلا امتیاز یہ ہے کہ یہ آپس میں مساوی نہیں۔ دوسرا امتیاز یہ ہے کہ ان کے درمیان کمی بیشی کا تعلق ہے۔ تیسرا امتیاز یہ ہے کہ یہ identical نہیں۔ یہ ایک نہیں۔ ایسا نہیں ہوگا کہ خارجی کرسی کو ذہنی کرسی کے قریب لایا جائے، تو وہ اس سے جڑ جائے۔ ان کے درمیان تعلق referential ہے۔ خارجی کرسی ذہنی کرسی ہے کا referent ہے۔ ذہن خارجی کرسی سے یکسر بے نیاز نہیں۔ دلالت کے جس نظام کے تحت ذہنی کرسی خارجی کرسی سے جڑی ہے، وہ شعور ہی کا قائم کردہ ہے۔ شعور نے چار ٹانگوں والی اور بیٹھنے کے لائق چیز کو کرسی قرار دیا اور منعکس کرسی کو اس تعریف سے جوڑ دیا۔ لہذا ذہن اس کرسی سے مکمل بے نیاز نہیں۔ لیکن وہ محض آئینہ بھی نہیں کہ آئینہ کو شبیہ کا کوئی علم نہیں۔ وہ اس بننے والے عکس کو نہیں جانتا کہ وہ کس کا عکس ہے۔ اور چیز غائب، تو عکس بھی غائب۔ یہ چیز ہمیں شعور اور علم کے بارے میں کیا معرفت فراہم کرتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ thing اور knowledge        of        the        thing ایک پہلو سے دو اور دوسرے پہلو سے واحد ہیں۔ یہ دو ہیں، اسی لیے ان کے باہمی امتیازات متحقق ہیں۔ یہ ایک ہیں، اسی وجہ سے ان کا باہمی تعلق متحقق ہے۔ ان کی دوئی ان کے امتیازات کی بدولت ہے۔ ان کی وحدت اس substance کی وجہ سے قائم ہے، جو شعور اور وجود میں یکساں کار فرما ہے۔ شعور اور وجود یعنی thing اور knowledge         of        the         thing ایک ہی substance کو شئیر کرتے ہیں۔ جو ان دونوں کی حقیقت ہے۔ اس substance کا عنوان beingness ہے۔ یہ سوء فہم ہے کہ محض objects یا چیزیں beingness کی manifestation ہیں۔ beingness جسے ہم ما به الموجوديت سے تعبیر کریں گے، وہ صرف اشیاء میں ظہور پذیر نہیں ہوئی۔ اس کا پہلا ظہور شعور اور دوسرا وجود ہے۔ شعور کا پول وجود کے پول پر priority رکھتا ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ چیزیں شعور کی کمک کے بغیر اپنی حقیقت کو پانے سے قاصر ہیں۔ قدرت نے شعور کو حقیقت کا امین بنایا ہے۔ وہ اس امانت کا حق ادا کرنا خوب جانتا ہے، الاّ یہ کہ اس سے بولنے کا حق چھین لیا جائے اور اسے محض وجود کی نچلی سطحوں میں الجھا دیا جائے۔

منتظمین

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں