Home » تکثیریت اور حضرت سیدنا عمر فاروق
اسلامی فکری روایت تہذیبی مطالعات شخصیات وافکار

تکثیریت اور حضرت سیدنا عمر فاروق

طلحہ  نعمت ندوی

بحوالہ ” الفاروق”

حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تکثیریت اور تعددیت ورواداری کی جو مثالیں پیش کی ہیں وہ اسلام کی اصل اور صحیح تصویر ہے۔ اور ان کا ہر عمل نبی اسلام علیہ الصلاۃ  والسلام کی ترجمانی  ہے۔ علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین کے حسب ارشاد اس باب میں ان کا ہر قول وعمل قابل استدلال واستناد اور اسلامی تعلیمات کا اہم ماخذ ومصدر ہے، دیگر سلاطین اسلام کی رواداری کے متعلق تو یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ ان کے  عمل کی تہ میں خالص دینی جذبہ کارفرما نہیں تھا، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہر عمل پر دربار نبوت سے پہلے ہی اقتداء واتباع کی مہر ثبت کردی گئی ہے اس لیے اس کا ادنی شبہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مذہبی سختی اور تصلب کے ساتھ ساتھ رواداری کے واقعات تاریخ وسیر اور طبقات کی کتابوں میں مفصل مذکور ہیں ان سب سے استفادہ کرکے علامہ شبلی نے الفاروق میں ایک جامع باب مرتب کیا ہے اور ذمیوں کے تئیں ان کی رواداری پر کا دلچسپ مرقع پیش کیا  ہے جس کے بعد کسی اور کتاب کی ضرورت کم ہی رہ جاتی ہے۔ یہ پوری تفصیل آج کی  تمام حکومتوں کے لیے  درس عبرت ہے،اور اسلام کے خلاف ان کی دشنام طرازیوں کے جواب میں خاموش عملی شہادت بھی۔ چنانچہ  الفاروق سےہم اہم واقعات پیش کرکے ان کی رواداری ،بے تعصبی اور مسلک ومذہب سے صرف نظر کرکے ہر مستحق رحم وکرم پر  ان کی شفقت ورحمدلی اور ہمدردی پر روشنی ڈالتے ہیں ،ان کا یہ عمل ہی اسلام کی عملی ترجمانی اور رسول پاک علیہ السلام کی تعلیمات انسانیت کا آئینہ ہے،آج کی تمام حکومتیں اس میں نہ صرف اسلام کی رواداری کا مرقع دیکھ سکتی ہیں بلکہ اقلیت کے ساتھ سلوک وتعامل کا سبق بھی سیکھ سکتی ہیں ،کہ دنیا کی تاریخ میں اتنی مفصل ،مستند ومعتبر حالات کسی اور کے نہیں مل سکتے ۔

تاریخ میں ہمیشہ کسی حکومت نے اپنے خلاف بغاوت کرنے والوں کو معاف نہیں کیا ہے، بالخصوص جب کہ وہ اقلیت میں ہو، اور آج اس کے شبہ کی بنیاد پر کتنے ممالک نے اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے، اور تمام دعوائے تہذیب کے باوجود انہیں انسانیت سوز سزائیں دی جاتی ہیں، لیکن اسلام کے اولین قافلہ سالار کا عمل اس باب میں کیا تھا، تاریخ سے ہمیں اس کا جواب یہ ملتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں شام کی سرحد کے ایک شہر عربسوس کی عیسائی رعایا نے مسلم حکومت کے خلاف کچھ سازش کی، حضرت عمر کو اس کا علم ہوگیا لیکن انہوں نے اس کے باوجود ان کے ساتھ صرف اتنا کیا کہ وہاں کے گورنر کو لکھا کہ ان کے پاس جتنی چیزیں ہیں ان کی قیمت دے دو اور ان سے کہو کہ کہیں اور چلے جائیں اگر اس پر راضی نہ ہوں تو ایک سال کی مہلت دو۔[1]

انہوں نے مسلمانوں اور ذمیوں میں کوئی فرق باقی نہ رکھا تھا، دونوں کے درمیان کوئی بات ہوتی تو مساوات سے کام لیا جاتا، اس طرح کے ایک نہیں متعدد واقعات ہیں۔مذہںی امور میں ان کو پوری آزادی حاصل تھی، ان کی عزت کا پورا خیال رکھا جاتا، اور ان کے وعدوں کی تکمیل کی جاتی، ان کی درخواستیں قبول کی جاتیں، بیشتر ان کے غریبوں اور کمزوروں کو وظائف دئے جاتے اور مسلمانوں کے تقریبا سارے حقوق ان کو حاصل تھے۔[2]

علامہ شبلی نے بے تعصبی کا عنوان قائم کرکے حضرت عمر کی رواداری بہت اہم تصویر کھینچی ہے ،لکھتے ہیں

‘‘حضرت عمر رضی اللہ عنہ اگر چہ مذہب کی مجسم تصویر تھے لیکن زاہد متقشف نہ تھے۔ اور آج کل کے مقدس لوگوں کی طرح تصلب اور سختی نہ تھی، ہمارے علماء عیسائیوں وغیرہ کے برتن کا استعمال کرنا تقدس کے خلاف سمجھتے ہیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نسبت امام بخاری اور امام شافعی نے روایت کی ہے کہ توضا من ماء جیئ بہ من عند نصرانیۃ ۔بغوی کی روایت اس سے زیادہ صاف ہے ،توضا عمر من ماء فی جرّ      نصرانیۃ،یعنی حضرت ؓ نے ایک عیسائی   عورت کے گھڑے کے پانی سے وضو کیا ، بغوی نے حضرت عمر کا یہ قول بھی نقل کیا ہے ،کہ عیسائی جو پنیر بناتے ہیں اس کو کھاؤ، عیسائیوں وغیرہ کا کھانا آج کل مکروہ اور ممنوع بتایاجاتا ہے ،لیکن حضرت عمر ؓ نے معاہدات میں یہ قاعدہ داخل کردیاتھا کہ جب کسی مسلمان کا گزر ہوتو عیسائی اس کو تین دن مہمان رکھیں ،آج غیر قوموں سے عداوت اور ضد رکھنے کی تعلیم دی جاتی ہے ،لیکن حضرت عمر ؓ کا یہ حال تھا کہ مرتے مرتے بھی عیسائی اور یہودی رعایا کو نہ بھولے ،چنانچہ ان کی نسبت رحم اور ہمدردی کی جو وصیت کی وہ صحیح بخاری وکتاب الخراج وغیرہ میں مذکور ہے ،شاہ ولی اللہ صاحب نے اس امرکو حضرت عمرؓ کے محاسن وفضائل میں شمار کیا ہے، کہ وہ اہل ذمہ (یعنی وہ عیسائی اور یہودی جو مسلمانوں کے ملک میں رہتے تھے ) کے ساتھ بھلائی کرنے کی تاکید کرتے تھے ،چنانچہ شاہ صاحب کے خاص الفاظ یہ ہیں ‘‘وازاں جملہ آں کہ باحسان اہل مہ تاکید فرمود’’۔[3]

علامہ شبلی نے بعض بعض روایات پر ناقدانہ روشنی بھی ڈالی ہے اور ان کے متعلق بعض واقعات کو غیر مستند قرار دیا ہے،چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ طبری اور اس کے علاوہ دیگر راویوں نے روایت کی ہے کہ حضرت عمر اپنے افسروں کو عیسائیوں کے ملازم رکھنے سے بہت منع کرتے تھے، پھرحضرت  شاہ ولی اللہ صاحب صاحب کی ان روایتوں کو قبول کرلینے اظہار تاسف کیا ہے ،ان کا کہنا ہے کہ ‘‘ لیکن جس شخص نے محب طبری کی کتاب ریاض النضرۃ دیکھی ہے ،وہ پہلی نظر میں سمجھ سکتا ہے کہ ان کی روایتوں کا کیا پایہ ہے، ان بزرگوں کو یہ بھی خبر نہیں کہ عراق ،مصر، شام کا دفتر مال گزاری جس قدر رتھا سریانی وقبطی وغیرہ میں تھا ،اور اس وجہ سے دفتر مال گذاری کے تمام عمال مجوسی یا عیسائی تھے ،ملازمت اور خدمت ایک طرف حضرت عمر ؓ نے تو فن فرائض کی ترتیب ودرستی کے لئے ایک رومی کو عیسائی کو مدینہ منورہ میں طلب کیا تھا ،چنانچہ علامہ بلاذری نے اس واقعہ کو کتاب الاشراف میں بہ تصریح لکھا ہے’’[4]

لیکن یہ علامہ نے اس واقعہ کا صرف اجمالی انکار کردیا ہے اس روایت کے ضعف کا تفصیلی جائزہ نہیں لیا ہے ،جب کہ وہ حضرت شاہ ولی اللہ کے حوالہ سے ہی مذکورہ دیگر روایات ذکر کرتے ہیں ،جو انہوں نے ازالۃ الخفاء میں ذکر کی ہیں ، یہ ضروری نہیں کہ اس طرح کے ہر واقعہ کو ناقابل قبول ہی قرار دیا جائے۔ ممکن ہے کہ کچھ حکمتیں ان کے پیش نظر رہی ہوں ،یا چند خاص مسائل میں یہ رائے دی گئی ہو، بالخصوص جب کہ کئی جگہ ان کی مخالفت اور بغاوت کے واقعات بھی سامنے آچکے تھے۔ انہوں نے مدینہ میں بھی مسلمانوں کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ غیر مسلم غلاموں کی رہائش شہر سے باہر رکھی جائے لیکن حضرت عباس نے اس سے اتفاق نہیں کیا ،چنانچہ جب اک مجوسی غلام کے ہاتھ سے ان کی شہادت ہوئی تو وفات سےقبل انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس سے اس کا حوالہ دے کر اس کے نتیجہ سے آگاہ کیا تھا ،یہ عین ممکن ہے کہ اس طرح کی کوئی خاص مصلحت ان کے پیش نظر رہی ہو۔

علامہ شبلی نے حضرت عمرؓ کے دور میں غیر مسلموں کے مکہ جانے کا بھی ذکر کیا ہے ،لیکن یہ کوئی ضروری نہیں کہ اس سے مکہ جانے کے ساتھ  حدود حرم میں داخلہ کی بھی گنجائش نکلتی ہو۔وہ لکھتے ہیں

‘‘آج غیر مذہب کا کوئی شخص مکہ معظمہ میں نہیں جاسکتا ،اوریہ ایک شرعی مسئلہ خیال کیا جاتا ہے ،لیکن حضرت عمرؓ کے زمانہ میں غیر مذہب والے بے تکلف مکہ معظمہ جاتے تھے اور جب تک چاہتے تھے مقیم رہتے تھے ،چنانچہ قاضی ابویوسف صاحب نے کتاب الخراج میں متعدد واقعات نقل کئے ہیں آج کل یورپ والے جو اسلام پر تنگ دلی اور وہم پرستی کا الزام لگاتے ہیں ان کو سمجھنا چاہئے کہ آج کا زمانہ اسلام کی اصلی تصویر نہیں ہے ،اسلام کی اصلی تصویر خلفائے راشدین کے حالات کے آئینہ میں نظر آسکتی ہے’’۔[5]

لیکن اس کے علماء نے حدود حرم کے مصالح پر بھی بحث کی ہے ،ممکن ہے کہ خاص موقع کا واقعہ ہو، خود علامہ شبلی کے شاگرد رشید علامہ سید سلیمان ندوی کو شاید اس رائے سے اتفاق نہیں تھا اسی لئے انہوں نے علماء اور جمہور کی عام رائے کے مطابق ‘‘ارض حرم کے مصالح اور احکام ’’ کے عنوان سے ایک مفصل مضمون قلمبند کیا ہے اور اس میں کی حکمتیں بیان کی ہیں ۔

آج اہانت رسول کا مسئلہ مسلمانوں کے بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے ، جب کہ دیگر غیر مسلم حکومتیں اپنے مذہبی بزرگوں کے تئیں بڑی حساس ہیں لیکن ان کے بعض متبعین شارع اسلام علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرکے مسلمانوں کے دلوں کو مجروح کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ،لیکن اسلام کے عہد عروج میں بھی ہمیں اس کا نمونہ ملتا اور اس ذات گرامی کے دور میں ملتا ہے جس کو رسول پاک علیہ السلام کی ادنی اہانت بھی گوارا نہ تھی ،اور خود آپ ﷺ کو زندگی ان کو کئی بار دوسروں کی اہانت پر ان کے سخت رویہ پر روکنا پڑا تا ،اور جس کے دور کو اسلام کا عہد بہار اور عہد شباب کہا جاسکتا ہے ،کہ کسی کمزوری اور خوف کا خطرہ نہیں رہ گیا تھا ۔غرفہ نامی ایک صحابی کے سامنے ایک عیسائی نے رسول پاک علیہ السلام کوگالی دی، انہوں نے اسکو ایک تھپڑ مارا ،اس نے مصر کے گورنر حضرت عمروبن العاص سے جاکر اس کی شکایت کی ،انہوں نے ان سے کہا کہ ان سے امن کا معاہدہ ہوچکا ہے ،صحابی نے فرمایا لیکن کیا نعوذ باللہ ان کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ سر بازار رسول پاک  علیہ السلام کو گالیاں دیں ،اگر ان کو ایسا کرنا ہے تو وہ اپنے گرجاؤں میں جاکر کریں ،حضرت عمرو بن العاص نے فرمایا کہ یاں یہ بات درست ہے ۔[6]اس واقعہ میں گرچہ براہ حضرت عمر ؓ کا ذکر نہیں آتا لیکن یہ ان کے عہد حکومت میں پیش آیا ہے اور وہ اپنے وسیع مملکت سے پوری طرح باخبر رہتے تھے اس لئے بہت کم امکان ہے کہ یہ واقعہ ان کے گوش گذار نہ ہوا ہو ،اور ان کی خاموشی اس موقف کی تائید کرتی ہے۔

فقہاء نے بعد کے دور میں مسلمانوں کے زکاۃ کو صرف مسلمانوں تک محدود کردیا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جو تشریح امام ابویوسف نے کتاب الخراج میں نقل کی ہے اس کے مطابق قرآن پاک میں مصارف زکاۃ کی آیت انما الصدقات للفقراء والمساکین میں فقراء سے مراد مسلمان اور المساکین سے اہل کتاب یہودی اور عیسائی مراد ہیں ،اس کے ضمن میں ان کا یہ واقعہ بھی لکھا ہے کہ ایک بوڑھے اہل کتاب کو بھیک مانگتے دیکھا تو پوچھا کہ کیوں بھیک مانگتے ہو ،اس نے کہا کہ مجھے جزیہ ادا کرنا ہے اور اتنے مال نہیں ،اس پر وہ اس کو اپنے گھر لائے بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر کرادیا اور کہا کہ یہ درست نہیں کہ ان کی جوانی سے ہم مستفید ہوں اور بڑھاپے میں ان کو نکال دیں۔[7]

‘‘حضرت عمر ؓ نے ذمی رعایا کو جو حقوق دئے اس کا مقابلہ اگر اس زمانہ کی اور سلطنتوں سے کیاجائے تو کسی طرح کا تناسب نہ ہوگا، حضرت عمر کے ہم سایہ میں جو سلطنتیں تھیں وہ روم اور فارس تھیں ،ان دونوں سلطنتوں میں غیر قوموں کے حقوق غلاموں سے بھی بدتر تھے ،شام کے عیسائی باوجودے کہ رومیوں کے ہم مذہب تھے تاہم ان کو اپنی مقبوضہ زمینوں پر کسی قسم کا مالکانہ حق یا تصرف کی اجازت حاصل نہیں تھی’’، اور یہودیوں کو تو رعایا سمجھا ہی نہیں جاتا تھا ،لیکن حضرت عمرؓ کی ان ممالک کے فتح کے بعد ان کی پوزیشن مین تبدیلی آگئی،اور وہ خوشحال ہوگئے تھے ۔[8]ان سے جو وعدے کئے گئے تھے ان کو بڑی تاکید کے ساتھ پورا کیا جاتا اور مہمات ملکی اور حکومت کے نظم ونسق میں ضرورت پڑنے پر ان سے مشورے بھی لئے جاتے ،رعایا اور اقلیت کے اہم حقوق میں یہ حق بہت اہم ہے ،ان کے خاص مسائل میں ان سے رائے لیتے ،عراق کی مالگزاری کے نظم ونسق میں وہاں کے لوگوں کومدینہ بلواکر ان کی رائے طلب کی ،اور مصر کے سلسلہ میں مقوقس اکثر رائے لی۔[9]

کیا آج کی کوئی بھی حکومت اپنے دور عروج وترقی کے باجود اقلیت کے حق میں اس قدر رعایت کرتی ہے اور اس کا خیال کرتی ہے کہ اپنے ذمہ داروں سے باز پرس کرے اور تحقیق کرے کہ کہیں اکثریت کے نشہ میں غیروں پر انہوں نے کوئی ظلم تو نہیں کیا، جب عراق سے خراج آتا تو کوفہ اور بصرہ سے دس دس آدمیوں کو بلو اکر تحقیق کرتے اور ان کو قسم دے کر پوچھتے کہ خراج وصول کرنے میں سختی تو نہیں کی گئی ۔[10]

ذمیوں کے جان ومال کو حضرت عمر ؓ نے پورا تحفظ عطا فرمایا تھا ،ان کے قبضہ میں جس قدر زمینیں تھیں اسی حیثیت سے بحال رکھی گئیں ،بندوبست میں جومال گذاری کی گئی وہ بھی بہت کم رکھی گئی ، اس پر بھی حضرت عمرؓ کو یہ خیال رہتا کہ کہیں ان پر سختی تو نہیں ہورہی ہے ،کئی موقع پر ایسٖا ہوا کہ ہوا کہ کسی مسلمان نےکسی عیسائی کو قتل کیا تو اس کے بدلہ اس کو قتل کیا گیا ۔[11]ان کا یہ عمل فرمان نبوی کی عملی ترجمانی تھی، اور اسلام کی طرف ان کے لئے کھلی دعوت بھی،لیکن اس کے باوجودان کو کسی کے مسلمان بنانے پر اصرار نہیں رہا ،وہ لاا کراہ فی الدین کی عملی تصویر تھے ،اور مذہب قبول کرنے کے لئے کسی پرجبر نہیں کرتے تھے ،ان کا غلام جو عیسائی تھا اس کو ہمیشہ اسلام کی ترغیب دی لیکن جب اس نے قبول نہیں کیا تو فرمایا ،الا اکراہ فی الدین۔[12] علامہ شبلی کے بقول ‘‘ حضرت عمر اگرچہ اشاعت اسلام کی نہایت کوشش کرتے تھے اور منصب خلافت کے لحاظ سے یہ ان کا فرض تھا ،لیکن وہیں تک جہاں تک وعظ وپند کے ذریعہ ممکن تھا’’۔[13]

انہوں نے غیر مذہب کے لوگوں یعنی عیسائیوں اور یہودیوں کو پر چند پابندیاںضرور عائد کی تھیں جن کا ذکر تاریخوں میں ملتا ہے جیسے اپنا خاص لباس پہننا ،اصطباغ نہ دینا وغیرہ اور ان کو جلاوطن بھی کیا گیا تھا ،ان سب پر  علامہ شبلی نے تفصیل سے بحث کی ہے ،اور ثابت کیا ہے کہ یہ خاص مصلحتوں کے تحت تھا ،بعض روایتوں کا ضعف بھی واضح کیا ہے ،اور جلاوطنی کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ان کی شرارتوں کی وجہ سےتھی ،اسلام اور مسلمانوں سے ان کی تمام مراعات کے باوجودان کا دل صاف نہیں ہوا تھا ،اور جب بھی موقع ملتا وہ اسلام کے خلاف ریشہ دوانیاں کرتے رہتے تھے، اسی لئے مجبورا ان کو حجاز سے نکال دیا گیا لیکن اس حال میں بھی ان کوبہت سی رعایتیں دی گئیں  ۔

[1]    الفاروق،از علامہ شبلی نعمانی ،مطبوعہ دارالمصنفین ،اعظم گڑھ ۲۰۱۵،ص ۱۲۰

[2] الفاروق،دیکھئے ذمہ رعایا کے حقوق ،اور دیگر مختلف ابواب

[3]  حوالہ سابق ص ۱۱۹

[4]  الفاروق،ص ۲۱۲

[5]  الفاروق ،ص ۲۱۲،۲۱۳

[6]  الفاروق ص ۱۱۶ و ۱۱۷

[7]  الفاروق ص ۱۱۹

[8]  الفاروق ص ۱۱۲

[9]  الفاروق ص ۱۱۵

[10]  الفاروق ص ۱۱۴

[11]  دیکھئے ، الفاروق ص ۱۱۴

[12]  الفاروق ص۱۱۸

[13]  حوالہ سابق

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں