Home » کانٹین فکر کی تردید کیوں ضروری ہے؟
شخصیات وافکار فلسفہ کلام

کانٹین فکر کی تردید کیوں ضروری ہے؟

بعض مذہب پسندوں کا خیال ہے کہ کانٹین فکر مذہبی مقدمے کے ساتھ ہم آہنگ ہی نہیں بلکہ اس کے لئے مفید ہے۔ یہ خیال کم فکری کی بنا پر ہے۔ مذہبی نکتہ نگاہ سے کانٹین فکر میں چند مسائل ہیں جن کا ہم یہاں خلاصہ کرتے ہیں۔

1۔        اثبات نبوت کی دلیل کا رد

اس فکر کی رو سے دعوی نبوت کی سچائی کی وہ دلیل غیر معتبر ہوجاتی ہے جس کی وجہ استدلال معجزے پر قائم ہے اور جسے قرآن نے جابجا پیش کیا ہے۔ معجزے کی وجہ دلالت ایک ایسے خدا کے ثبوت پر قائم ہے جو قادر و مختار ہو، خدا کا وجود مدعی نبوت کی خبر سے ثابت نہیں ہوسکتا کہ اس قسم کی دلیل میں سرکولیریٹی ہے: یعنی “خدا ہے اور وہ کذب سے منزہ ہے” اس کی دلیل یہ ہے کہ مدعی نبوت نے ایسا کہا ہے اور “دعوی نبوت کرنے والا اپنے دعوے میں سچا ہے” اس کی دلیل یہ ہے کہ خدا نے اس کے حق میں معجزے کی صورت نشانی مقرر کردی ہے! اس بنا پر متکلمین کا کہنا ہے کہ دعوی نبوت کے صدق کی ہم آھنگ دلیل نبوت پر بحث سے قبل وجود باری اور اس کی چند صفات ثابت کئے بغیر ممکن نہیں۔ اب اگر کانٹ کی یہ بات درست ہے کہ بذریعہ عقل صفات باری پر دلیل قائم کرنا ممکن نہیں تو اثبات نبوت کی یہ دلیل جاتی رہی۔

2۔         وجود باری کی دلیل کا رد

متکلمین اسلام کے مطابق وجود باری کی دلیل دو مقدمات پر مبنی ہے:

الف)      عالم حادث ہے

ب)       حادث کے لئے محدث ہے

کانٹ کی فکر کی رو سے پہلا مقدمہ اس لئے غلط ہے کیونکہ ذھنی مقولات سے ہمیں خارج یعنی شے فی نفسہ سے متعلق کوئی علم حاصل نہیں ہوتا بلکہ ہمارا سارا علم فنامینا سے متعلق ہے اور فنامینا ہمارے ذھن کی تشکیل کردہ شبیہہ یا مظہر (appearance) ہے جس کے خارج سے متعلق ہونے کی کوئی گارنٹی میسر نہیں۔ تو کانٹین فکر کی رو سے چونکہ ہمیں صرف “شے کے ادراک کا ادراک” ہوتا ہے نہ کہ “شے کا ادراک”، لہذا حدوث وغیرہ جیسے احکام کا خارج سے کوئی تعلق نہیں، یہ صرف عقل کی جانب سے لاگو کردہ امور و احکام ہیں۔ یعنی خارج میں موجود عالم (یا شے فی نفسہ) حادث ہے یا نہیں، اس کا علم ہمیں میسر نہیں۔ چنانچہ خارج میں موجود عالم حادث ہے، ہمارا علم اس سے متعلق نہیں۔ دوسرا مقدمہ کانٹ کی فکر کی رو سے اس لئے غلط ہے کیونکہ کانٹ علت (یا محدث) کو زمانی تسلسل و تقدم میں بند کرکے موجب (necessitating) کے معنی میں مراد لیتا ہے جس کے بعد عالم کے لئے زمان و مکان سے ماوراء محدث و فاعل کے اثبات کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔

3۔         الفاظ کی دلالت کو خارج سے کاٹ دینا

اس فکر کی رو سے الفاظ کی معنی پر ساری دلالتیں ذھنی کاروائی بن کر رہ جاتی ہیں اور وحی کے الفاظ (یعنی دلائل لفظیہ) ہمیں خارج سے متعلق کوئی خبر نہیں دے سکتے اس لئے کہ الفاظ کی معنی پر دلالت یا وضعی ہوتی ہے اور یا عقلی۔ اس نکتے کی تفصیل یوں ہے کہ کانٹ کے نظریہ علم میں دلیل و دلالت کا مطلب بدل جاتا ہے۔ اس سوال پر غور کیجئے کہ کانٹ کی علمیات میں دلیل اور دلالت کا کیا مطلب ہوگا، کیا اس کے ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ خارج میں ایک شے کسی دوسری شے پر اشارہ کررہی ہے؟

علم کلام و اصول فقہ میں “دلیل” کے مباحث میں کہا جاتا ہے کہ دلالت دو طرح کی ہوتی ہے: وضعی اور عقلی۔ وضعی دلالت لفظ کی معنی پر دلالت ہے جیسے اردو میں “کرسی” لفظ ایک خاص ھئیت کی شے کی جانب اشارہ کرتی ہے اور اسے سنتے ہی ذہن اس کی جانب ملتفت ہوتا ہے۔ تاہم اس چار حرفی لفظ ک ر س ی کی ایک خاص شے پر دلالت بطریق وضع (by        way        of          stipulation) ہے کہ ارادہ کرنے والے لوگوں نے اپنے ارادے سے اس لفظ کو ایک خاص حقیقت کے لئے متعین یا اس کے ساتھ خاص کردیا ہے۔ عقلی دلالت کسی شے کی ذاتی دلالت ہوتی ہے، یعنی ایک شے اپنی ذات کے اعتبار سے کسی جانب اشارہ کرتی اور ذھن کو اس جانب ملتفت کرتی ہے، مثلاً “حادث” اپنی ذات کے اعتبار سے محدث کا تقاضا کرتا اور اس پر دال ہے۔ عقلی دلالت ارادی نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی ناظر (غور و فکر کرنے والے) کی وجہ سے ہوتی ہے، چاہے اسے کوئی سوچے یا نہ سوچے یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ حادث کا وجود محدث کے وجود کی نشاندہی کرتا ہے اس لئے کہ وجود عدم سے قائم نہیں ہوسکتا۔ کیا کانٹ کے ھاں عقلی دلالت کا یہ مطلب ہوسکتا ہے؟ نہیں ہوسکتا، اس کے ہاں ایک شے کی دوسرے کی دلیل ہونے کا مطلب فنامینا کا معاملہ ہے جو سبجیکٹو ہے۔ یعنی دلیل کا مطلب کسی خارجی شے کا کسی خارجی شے پر دلالت کرنا یا ان کا ربط نہیں ہے بلکہ شے کی شبیہہ جیسے کہ ہماری ذھنی ساخت کی بنا پر وہ ہمیں نظر آتی ہے اس کا ربط ہے اور یہ ہمارا ذہن تشکیل دیتا ہے۔ با الفاظ دیگر دلالت کا مطلب مظاھر اشیا کے مابین وہ تعلق ہے جو ہمارا ذہن ان پر لاگو کردیتا ہے اور یہ مظاہر کی دنیا تک محدود ہے۔

یہاں رک کر پہلے اس بات پر غور کیجئے کہ کانٹین سسٹم میں اس جملے کا کیا مطلب بنا: “یہ عالم خدا کے وجود کی نشانی ہے؟” کیا یہ خارجی دنیا سے متعلق کوئی بیان ہوا؟ اب مزید غور کریں کہ کانٹ کے سسٹم کی رو سے خدا کے کلام سے جو معنی و روابط ہم سمجھتے ہیں وہ کس سے متعلق ہے؟ یعنی کیا خدا کا کلام خارجی اشیا کے مابین تعلق پر کوئی خبر ہمیں دے سکتا ہے؟ لفظ کی دلالت اپنے معنی پر وضعی ہوتی ہے، لفظ کی دو اشیا کے مابین دلالت کا بیان تبھی خارجی ہوسکتا ہے جب ہم پہلے قدم پر یہ فرض کریں کہ ذہن نے اشیا کی ذاتی دلالت کو جس طرح حاصل کیا، یہ وضع کردہ الفاظ ان خارجی اشیا و تعلقات کے بارے میں ہیں۔ اگر اشیا سے متعلق انسان کو حاصل روابط ہی ایسی ذہنی کاروائی ہوں جن کے خارج سے متعلق ہونے کا ہمیں کوئی ادراک نہیں، تو ان کے لئے جو لفظ ہم وضع کریں گے ظاہر ہے وہ ہماری ذھنی ساخت کی کاوشوں سے تشکیل پانے والے روابط و مظاھر ہی سے عبارت ہوں گے نہ کہ خارج سے متعلق کسی حقیقت کو بیان کرنے والے۔ ایسا اس لئے کیونکہ کانٹ کے مطابق انسانی ادراک حسی ڈیٹا اور ذھنی تصورات کے خاکوں کے امتزاج سے تجرباتی امور کی منظر کشی یا مظہر تیار کرتا ہے ، اس لئے الفاظ کے معنی اس تشکیل شدہ منظر ہی سے مطابقت رکھتے ہیں نہ کہ تجربے میں آنے والی خارجی شے سے۔ پس اس کے نظرئیے کی رو سے زبان فنامینا کو بیان کرسکتی ہے۔ خدا چونکہ انہی الفاظ سے ہم سے خطاب کرتا ہے جو ہم بولتے ہیں یا ہم انسانوں نے وضع کئے، اس سے جو نتیجہ نکلا وہ اہل علم پر مخفی نہیں۔ الغرض کانٹین نظریہ علم کو قبول کرنے کے بعد بذریعہ “الفاظ وحی” خارج سے متعلق ہمیں کوئی خبر و ادراک حاصل ہونے کا راستہ مسدود ہوجاتا ہے، چہ جائیکہ وہ الفاظ خارج سے متعلق کوئی قطعیت فراہم کرسکیں۔

4۔         ثبوتی صفات باری کی تفویض معنی لازم ہونا

اس فکر میں مزید مسئلہ یہ ہے کہ اس کے بعد ذات باری کی تمام ثبوتی صفات (جیسے حی، عالم، قادر، مرید، متکلم وغیرہ) کو بھی متشابھات قرار دے کر ان کی تفویض معنی ہی کرنا ہوگی کیونکہ اس فکر کی رو سے یہ سب امور نامینا سے متعلق ہیں اور اس سے متعلق کسی بھی لفظ میں بیان ہونے والا کوئی بھی معنی ہمارے لئے لائق ادراک نہیں۔ پس جس طرح ہمیں نصوص میں مذکور خدا کے ید(ھاتھ)، عین (آنکھ)، ساق  (پنڈلی) وغیرہ کے معنی کا ادراک نہیں، کانٹ کی فکر کی رو سے ماننا ہوگا کہ اس کی قدرت و  ارادے کا مطلب بھی معلوم نہیں اور ہم اس کے معنی خدا کی جانب پھیر کر اس پر صرف ایمان رکھتے ہیں۔  اتنا ہی نہیں بلکہ خدا کی جمیع صفات فعلیہ جیسے کہ رحمن، رزاق وغیرہ ہونا بھی ناقابل فہم ہیں۔

یہ وہ امور ہیں جن کی بنا پر کانٹ کی فکر کی تردید کرنا ضروری ہے۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں