اجمل صدیقی
عبرانیت کا تصور تخلیق کائنات
خدا نے اپنے حکم سے دنیا کو چھ دن میں تخلیق کیا۔
خدا کا انسان کے ساتھ میثاق ہے کہ وہ اس کے حکم پہ چلے گا تو فلاح یافتہ ہو گا۔
خدا تاریخ میں جاری و ساری ہے۔
تاریخ عالم خطی linear ہے۔
خدا نے انسان کو اپنی شبیہ پہ پیدا کیا ہے۔
ہیلینی تصور کائنات
اس کے مختلف ورژن ہیں؛
ہندو مت کا تخلیق عالم کا تصور زرتشت مت سے مختلف ہے۔ بدھ مت میں سرے موجود ہی نہیں۔
یونانی اور رومی تصورات تخلیق کم و بیش یکساں تھے۔ اور کیلٹی اور نارس Norse mythology
میں الگ تصور ہے۔ لیکن عدم سے وجود میں آنے کا تصور بہرحال موجود نہیں ہے، جو ہے وہ نہایت مبہم ہے۔
یونانی کہتے ہیں؛
“Nothing comes out of Nothing”
یا
Cosmo comes out chaos
یا پھر ایک غیر محسوس قوت morai ہے جسے ہیراکلائنٹس نے nous کہا ہے۔ جو بعد میں تصوف اور علم الکلام کا اہم تصور بن گیا۔
پارمینڈیز نے اسے “ایک” کہا، فلاطینوس /پلوٹائینس نے بھی اسے “ایک” کہا ہے، لیکن سب کے سب تمام موجودات کے اسی “ایک” موجود سے نکلنے کے قائل ہیں۔
رگ وید میں کثرت ہے لیکن اپنیشد میں وحدت الوجود کے ساتھ خالص توحید بھی ملتی ہے۔
عالم کو سراب اور برہما کا انڈہ/خواب کہا گیا ہے۔
رام لیلا کا کھیل تماشا بھی موجود ہے۔
یونان میں زیوس دراصل سورج دیوتا ہے جو رومن اصنام پرستی میں جیوپیٹر بن جاتا ہے۔
اوستا میں کہیں زُروان کا ذکر تو ہے مگر خدائے واحد اہورا مزدا ہی اصل خالق کائنات ہے۔ اگرچہ ظاہری طور پر یزداں اور اہرمن کی ثنویت پائی جاتی ہے۔
ان سب میں کہیں آباء پرستی ancestor worship ہے تو کہیں hylomorphism۔ کہیں ارواح پرستی Animism ہے تو کہیں Anthropomorphism۔ کہیں Ancestor worship ہے تو کہیں فطرت پرستی Nature worship۔ کہیں یہ سب phases ملے جلے ہیں۔
یہ سب مذاہب کے اندر کے مختلف تاریخی مراحل ہیں اور مختلف اسباب و علل سے ایک جگہ پہ جمع ہو کر رہ گئے ہیں۔ ایک ہی مذہب میں ان مراحل کی باقیات موجود ہو سکتی ہیں، کہیں کم اور کہیں زیادہ۔
یہاں سامی/الہامی مذاہب اور غیر سامی/ ارتقائی مذاہب میں فرق جاننا بھی ضروری ہے۔
ہیلینزم میں مذاہب کا ارتقائی تصور پایا جاتا ہے، جبکہ عبرانیت میں مذہب کا الہامی تصور موجود ہے، اگرچہ ارتقائی بھی کسی حد تک موجود ہے۔
یہ بحث بڑی دلچسپ، عجیب و عیب اور حیرتِ انگیز ہے؛ کہ سامی نبوت (وحی و الہام) کے امیں ہونے کے دعوے دار ہیں، خاص کر ابراہیمی مذاہب۔ جبکہ ہیلینزم میں عقل کو الہام کا متبادل بلکہ برتر اور قابل اعتماد ماخذ سمجھا گیا ہے اور اب بھی سمجھا جاتا ہے۔
مؤرخین حیران ہیں کہ عبرانیت/ سامیت میں نبوت کیوں کر جاری ہوئی اور جاری رہی ہے اور یہ روایت بے حد کیوں مضبوط ہے، جس نے انسانیت کے بڑے حصے کو متاثر و مسحور کر رکھا ہے۔ فلسفے میں ایسی طاقت نہیں ہے۔ سکندر اعظم کی موت کے ساتھ ہی یونانی تہذیب ملیا میٹ ہو گئی۔ سکندریہ کی روح سائنسی ہے کیونکہ سامی اثرات زیادہ تھے لیکن اس کا خاتمہ پلوٹائینس (فلاطینوس) کے تصوف پہ ہوا۔ یزدگرد کے بعد ایرانی شوکت و سطوت ختم ہو کر رہ گئی۔
مذہب کی بنیاد عمل پر زیادہ مضبوط ہے کیونکہ فلسفہ صرف cognitive ہے اس میں affective اور executive domian بانجھ ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اسی لئے یونان میں عقلیت کے زوال کے بعد فوری طور پر اخلاقی فلسفے چھا گئے؛
Stoicism
Cynicism
Epicureanism
Hedonism
کیونکہ عقلیت اخلاقیات کو مضبوط بنیاد نہیں دے سکتی۔
جرمنی میں ہیگل اور کانٹ کے بعد شوپنہاور، نطشے، جیکوبی نظر آتے ہیں۔ وجودیت اور وجودی الہیات ہر طرف پھیل گئی۔ مارٹن بیوبر، اوسپنسکی اور شلماخر سب روح کے سکون کو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔
عبرانیت / سامیوں میں وحی کی رہنمائی
علامہ ابن خلدون نے کہا ہے کہ جن علاقوں میں وحی کا پیغام محفوظ نہیں رہا وہاں فلسفہ کو پنپنے کا موقع ملا ۔۔۔ جہاں وحی محفوظ رہی وہاں فلسفہ معدوم ہے۔ وحی ایک cosmic intimation ہے، جس پر یہ نازل ہوتی ہے وہ ایک طرح کا cultural hero ہوتا ہے، جسے عام زبان میں پیغمبر، رسول یا نبی کہتے ہیں۔ وہ معاشرے کو نئی تشکیل دیتا ہے، وہ سماجی انتشار پہ قابو پاتا ہے۔ عبرانیت / سامیوں میں وحی کی بڑی واضح اور مضبوط روایت موجود رہی ہے۔ یہودیت، عیسائیت اور اسلام؛ تینوں ابراہیمی مذاہب کی بنیاد وحی پر ہے۔
جہاں تک اساطیر کی بات ہے تو سامی اساطیر میں کثرت پرستی/شرک polytheism موجود ہے لیکن اتنا نہیں جتنا ہیلینزم میں ملتا ہے۔
دگون، حداد، ملوک/ملک، مردوک، شمس، یہوواہ، ایل، بعل، انننا، عشتار بڑے بڑے دیوتا ہیں۔
ان پہ زرعی مت اور گلہ بانی pastoral کی کشمکش کے اثرات موجود ہیں۔
جنگ، موت، روشنی، زرخیزی اور معاد کے تصورات نمایاں ہیں۔
سامی مذاہب میں توحید، اطاعت خداوندی، عمل صالحہ اور مر کر جی اٹھنے کے تصورات واضح ہیں۔
یہ تمام تصورات یہودیت اور اسلام میں تو بالکل واضح ہیں مگر مسیحیت میں مبہم ہیں، کیونکہ مسیحیت میں paganism نفوذ کئے ہوئے ہے۔ ہیگل نے مسیحیت کو مطلق مذہب کہا ہے کیونکہ اس کے نزدیک یہ مذہب تمام گزشتہ مذاہب کا نچوڑ ہے۔ مسیحیت کا دوسرا جنم سنیٹ پال کے ہاتھوں ہوا جس نے جوش تبلیغ سے اس کی روح مسخ کر دی۔ پہلے مسیحی فادرز بھی یونانی اور رومی تھے، انہوں نے دیوتاؤں کی جگہ عقاید مسیح رکھ دئے، انسانوں کو خدا بنا دیا۔
مذاہب کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے پرجوش مبلغ اور شارحین اکثر مذاہب کے بنیادی تصورات کو مسخ کر دیتے ہیں۔ مسیحیت میں اولین مقدس ہستیاں مسیحی اولیاء بن گئے، کچھ نیک دیوتا بھی سینٹ قرار پائے۔
اسلام کو بھی یہی حالات پیش آئے اور یہودیت کو بھی۔ ان دونوں مذاہب میں سے اسلام کے مقدس متون میں اگرچہ تحریف نہیں ہوئی، مگر شروحات اور روایات میں اسرائیلیات اور ایرانی روایات کا اثر ضرور نظر آتا ہے۔
اب ہم ایک بار پھر ہیلینزم کی طرف واپس چلتے ہیں۔ ہیلینزم میں تخلیقی تخیل کا بڑا دخل ہے، اس کی وجہ سے متھالوجی اور آرٹ میں یونانیت بہت بلند مرتبے پہ فائز ہے۔ یہ تخیل افروزی؛ نسل، جغرافیے اور تاریخی مرحلہ کے غیر محسوس ہاتھ کی کارفرمائی ہے۔ تخیل فارم اور ساخت کی کاملیت اور تناسب (proportion) کی تلاش سے ابھرتا ہے۔ یونانی گھوڑے، انسانی جسم اور دائرے میں فارم کو اپنی کاملیت میں دیکھنے تھے، یہی ان کے اصول فن اور تکنیک کا جوہر بن گیا۔ سنگ تراشی میں مہارت اسی فارم کی تلاش کا نتیجہ ہے۔ پھر یہی فن فن تعمیر سے ہوتا ہوا ایپک اور ٹریجڈی میں کمال تک پہنچا ۔۔ لوجک اور ٹریجڈی اسی passion سے ابھرے ہیں۔ یہی چیز یونانی اساطیر میں نظر آتی ہے۔ ادب، اساطیر، فلسفہ، ریاضی؛ سب میں یونانی تناسب کا خیال رکھتے تھے، کہیں کوئی چیز کم اور کہیں کوئی زائد نہ ہو جائے۔
سامی عمل میں وسط (اعتدال) کے قائل تھے، یونانی ہر شے میں اس التزام کے عامل تھے۔
آریائی دیومالا میں فطرت اور مظاہر پرستی، سماوی اجرام کی پوجا، زرخیزی مت، جنگ ۔۔ رومان، ایڈونچر، دائروی حرکت زمان cyclic، تناسخ، جادو اور ہیرو پرستی عام ہیں۔
ہندو مت میں ایڈونچر غائب ہے۔ کرما اور تناسخ و مکتی کا تصور عام ہے۔ ایرانی اساطیر میں آگ کی تقدیس اور یزداں و اہرمن کی ثنویت ہے، بعد میں متھرا مت چھا گیا۔ یہ اساطیر کم اور مذہب اور اخلاقی نظام زیادہ ہے۔
ہندو مت اور زرتشت مت ایک ہی درخت کی دو شاخیں ہیں۔ ہندو مت میں پہلے کثرت پرستی، پھر وحدت الوجود اور زرتشت مت میں پہلے توحید اور پھر ثنویت پھیل گئی۔
اکثر آریائی اقوام نے سامی مذاہب قبول کر لئے ہیں۔ صرف ہندومت میں اساطیر اور مذہب ابھی تک چل رہے ہیں۔
زرتشت مت میں زبان اور مذہبی عنصر دونوں ماضی کی یاد گار بن کر رہ گئے ہیں۔ اوستا کی زبان بھی ختم ہو گئی ہے اور مذہب بھی۔
ہندوستان میں آریاؤں کی زبان خالص رہی ہے۔ سنسکرت کی طرف یورپی ماہرین لسانیات کی کشش آج بھی قائم ہے۔ سنسکرت میں انڈو-یورپین کی کامل شکل موجود ہے۔ Phonology، حروف تہجی کی ترتیب، مقام مخارج place of articulation کے مطابق ہے۔ مادے (lexical Roots) اور گرامر منظم ہیں، جسے پانینی نے منضبط کیا۔ دیوناگری رسم الخط خاصا پیچیدہ ہے مگر لاطینی اور یونانی سے جامع اور کامل ہے۔ اس میں کوئی silent letter نہیں ہے۔
رومی قانون تمام ہیلنی اقوام کے قوانین سے اعلی و ارفع ہے، پھر اینگلوسکسن لا ہے، منو سمرتی ہے، ارتھ شاستر ہے۔
ہیلینزم کہتی ہے
“Seeing” is believing
ہیبرازم کہتی ہے
“Believing” is seeing
ہیلینزم دائرے سے محبت کرتی ہے۔ ہیبراازم/عبرانیت خط مستقیم کو پوجتی ہے۔
ہیلینزم منطق اور مکالمے میں ابلاغ کرتی ہے جبکہ عبرانیت خطابت اور imperative اور ergative پہ زور دیتی ہے۔
ہیلینزم میں علم، عمل سے افضل ہے۔ ہیبراازم میں عمل ہی سب کچھ ہے۔
یہ right doing پہ زور دیتی ہے۔
ہیلینزم Right thinking پہ مرکوز ہوتی ہے۔
ہیبراازم میں ضمیر کی آواز پہ فوری عمل اور نیکی پہ جوش اور گناہ سے دور رہنے پہ شدید ضبط کا درس موجود ہے۔
ہیلینزم میں ذہنی سرگرمی میں ایک کیف اور لذت پائی جاتی ہے۔ اس میں clarity, totality اور unity کی صفات ہر انسانی تخلیق میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔
ہیلینزم جہل سے نجات میں لذت محسوس کرتا ہے۔ عبرانیت احساس گناہ guilt سے نجات میں لذت محسوس کرتی ہے۔
ہیلنزم cerebral horror کے ردعمل سے ڈرتی ہے، اور ہیبراازم visceral horror کے ردعمل سے۔
ہم اگر بغور دیکھیں تو آریاؤں میں اساطیر اعلی ہیں لیکن مذاہب ناقص اور خام۔ اگر سامیوں میں دیکھیں تو مذاہب فعال اور اعلی ہیں مگر اساطیر ناقص اور اَن گھڑ۔
سامیوں میں نظام حکومت مطلق العنانیت پر مبنی ہے جبکہ آریاؤں میں جمہوریت اور مذہبی برداشت کی روایت موجود ہے۔
ہیلینزم کی روح ہے “اپنے آپ کو پہچان” (Know thyself)۔ یہ جملہ یونانی ہاتف گاہ ڈیلفی کے مندر کے دروازے پہ لکھا تھا۔ یہ فلسفے کو subjective بنا دیتا ہے، اسی لئے کہتے ہیں کہ سقراط فلسفے کو آسمان سے زمین پہ لایا۔ لیکن یہ بات غلط ہے، اُس نے فلسفے میں سائنس کے عنصر کو ختم کر کے اس میں سریت کو راہ دی جو فلاطینوس کے ہاں انتہا کو پہنچ گئی۔
درج ذیل تصویر Silenus god کی ہے جو سقراط سے مشابہہ ہے۔
افلاطون اپنی کتاب The Symposium میں Alcibiades کے سقراط کو Silenus سے تشبیہ دینے کا ذکر کرتا ہے۔ میرے خیال میں مجسمہ بھی الکیبیاڈیس نے ہی بنوایا ہو گا (یہ خاصا مہنگا کام ہے جو سقراط کے عام شاگرد نہیں کر سکتے) اور اگر آپ Silenus کا مجسمہ دیکھیں تو آپ کو سقراط اور Silenus کے مجسمے میں حیرت انگیز حد تک مماثلت ملے گی۔
سالینیوس Silenus یونانی دیوتا ہے، جو دانائی کے لئے مشہور ہے۔ اگرچہ وہ شراب کا رسیا، گیتوں کا دیوانہ اور ناچ کا شیدائی تھا، لیکن اس سب کے باوجود دیومالائی قصوں میں وجود کے علم پر ماہر سمجھا جاتا ہے۔
Whole is greater than its parts
Proper study of mankind is man
Man is measure of all things
یہ مقولے مغربی مزاج اور فکر کی بڑی واضح عکاسی کرتے ہیں۔
مغرب میں نشاۃ ثانیہ (Renaissance) اور خرد افروزی (Enlightenment) دونوں انسان مرکز ہیں۔ ان میں خدا کی بجائے انسان کو ہر شے کا مرکز و محور قرار دیا گیا ہے اور بالآخر نطشے نے آ کر خدا کی موت کا اعلان کر دیا۔ یہ دراصل چرچ کی بالادستی کے خاتمے کا اعلان ہے۔ انسان دوستی یا
ہیومن ازم کے اصل بانی تو سوفسطائی sophists ہیں۔ آج کے جدید دور کی انسانی حقوق کی آواز بھی انہی کی فکر کی بازگشت ہے۔
ہیلینزم میں فلسفہ appearance and reality کے طلسم میں گم ہو جاتا ہے۔ pure idea کی تمنا میں mind-body کے گرداب میں گم ہو جاتا ہے۔ subject vs object کی دردناک دوئی میں الجھ جاتا ہے۔
عبرانیت جسم اور ذہن کی ثنویت کو غیر اہم سمجھتی ہے، اس لئے فلسفے کی بجائے مذہبی رہنمائی کی طرف راغب ہے۔ مذہب اور آرٹ میں pure idea نہیں ہوتا، ہر تصور کسی علامت سے ملبوس ہوتا ہے۔
آرٹ کے پش نظر مسرت ہے، مذہب کے پیش نظر مغفرت ہوتی ہے۔ فلسفے کے پیش نظر کلیت ہوتی ہے۔ سامی ذہن نے آرٹ اور فلسفے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ اس میں ڈرامہ، مجسمہ سازی، مصوری میں تخیل کی جودت نہیں دکھائی دیتی بلکہ پردے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس میں نفس امارہ کی تخریبی کارروائیوں سے ڈرایا گیا ہے۔
عبرانیت ایمان بالغیب اور ہیلینزم ایمان بالحاضر پہ یقین رکھنے کا نام ہیں۔
ہیلنزم اور ہیبراازم (یونانیت اور عبرانیت/سامیت) پہلو بہ پہلو چلتے ہیں۔
ہند آریائی Indo Aryan روح میں آگ اور روشنی بڑے واضح مظاہر ہیں، جیسے سورج، مہر، آفتاب، خورشید۔
نوروز، دیوالی، دیپک راگ، ہولی، نور و ظلمت کی کشمکش سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسانی گروہ کسی سرد علاقے سے آیا ہو گا، شاید روس کے قریبی علاقے سے کیونکہ روسی زبان میں ogon اور ہند میں اگنی۔ آذر بائیجان آرمینا میں آتش، آتر، آذر آگ ہی کے نام کی بدلی صورتیں ہیں۔ مترا اور مہر سورج کو کہتے ہیں اور سورج (مہر)بان ہے، گائتری بھی سورج ہے۔
سامی اقوام میں شمس بڑا دیوتا نہیں، اکثر سامی زبانوں میں سورج مونث ہے اور چاند مذکر ہے۔ شمس و قمر سے مراد ایران اور عرب بھی لیے جاتے ہیں۔
رومی اساطیر میں مصری، یونانی ایرانی اور مقامی اطالوی دیوتا مخلوط ہو گئے ہیں۔ رومی عربوں کی مانند عملیت پسند تھے وہ تخیل پرست نہیں تھے، اس لئے ان کے اساطیر واجبی سے ہیں۔ جنگ اور stoicism اور قانون law کا تخیل ان میں زیادہ جلوہ گر ہوا۔
رفعت کی بجائے وسعت ان کو بھاتی تھی۔
سامیوں میں مصری تہذیب میں (اگر اسے semitic proper سمجھا جائے تو) مصریوں نے eschatology کے ردعمل میں تمام علوم و فنون تخلیق کئے۔ معاد یعنی مرنے کے بعد کی زندگی میں انہیں بڑی دلکشی نظر آئی۔ لاشوں کو حنوط کرنا اور اہرام بنانا، ابوالہول کی تخلیق، Hieroglyphics اور Zoolatry، یہ سب مصری مذہب اور آرٹ کے علائم ہیں، جن میں ابدیت کی آرزو موجزن ہے اور موت کے خوف سے ایک طرح کا فرار پایا جاتا ہے۔
زرتشت مت میں لاش کا تقدس نہیں ہے، ہندووں میں لاش کے لیے چتا cremation ہے۔ لیکن مصر اور قدیم چین میں لاش کو اپنے دنیاوی سٹیٹس کے مطابق پروٹوکول دیا جاتا تھا۔
مجموعی طور پر عبرانیت/سامی روح اسرائیل میں اور ہیلینزم کی روح یونان میں ظاہر ہوئی۔
ہیلینزم خارجی آزادی اور عبرانیت/سامیت داخلی آزادی اور ضمیر کی آزادی پہ زور دیتی ہے۔ ہیلینزم جنسی اور فکری آزادی کو تسلیم کرتی ہے، ہیلینزم میں nude مقدس آرٹ ہے، جو ہیبراازم میں سخت ممنوع ہے۔ ہیلینزم جدت سے پیار کرتی ہے، عبرانیت/ہیبراازم اسے بدعت سمجھتی ہے۔
عبرانیت/ ہیبراازم میں وحی اور ایمان سے پورے معاشرتی ڈھانچے اور پورے سماجی نظام کو اخذ کیا جاتا ہے۔
ہیلینزم fate پہ یقین رکھتی ہے یعنی تقدیر پرست ہے، ہیبراازم آزادیء عمل پہ یقین رکھتی ہے۔
ہیبراازم میں فرض سے بالاتر کچھ نہیں، ہیلینزم میں انسانی حقوق ہی انسانیت کی آخری منزل ہیں۔
ہیلینزم کی روح قابیل ہے، ہیبراازم کی روح ہابیل ہے۔
ہیلینزم reason اور science کو امام سمجھتی ہے۔ ہیبراازم وحی اور ایمان کو امام سمجھتی ہے۔
ہیبراازم میں دنیا شر کی طرف جا رہی ہے، ہیلینزم میں دنیا پہلے سے بہتر ہو رہی ہے۔ ہیلنزم روشن خیال ہے اور ہیبراازم/سامیت میں تنگ نظری ہے۔
کہا جاتا ہے کہ تہذیب کا آغاز اس وقت ہوا جب انسان نے پتھر کے بجائے لفظ سے وار کیا۔
اس مقولے میں زبان کو تہذیب کا بنیادی محرک اور امین قرار دیا گیا ہے۔ انڈو یورپین زبانیں اپنی ساخت میں لچک رکھتی ہیں جبکہ سامی زبانیں اپنے مادوں اور اوزان کے دائرے میں رہ کر نئے لفظوں کی تشکیل کرتی ہیں۔
ہیلنزم اور ہیبراازم دونوں الگ الگ worldview رکھتی ہیں، doing things اور knowing things دونوں کے مزاج میں شامل ہیں۔ پہلا ہیبراازم/سامی اور دوسرا ہیلنزم ہے۔
یونانی تہذیب کے dark ages میں سامی تہذیب نے میڈیٹرینین اوشن کو بہت نوازا۔ Minoan civilization اور Mycenaean civilization پہ سامیت اور matriarchy غالب دکھائی دیتی ہے۔ ان پہ bronze age کے اثرات بھی ہیں۔ اکتر آلات اور آثار پہ زرد کائی نما رنگ غالب ہے۔
انڈویورپین steppe کے سطح مرتفع سے ہندوستان و ایران کی طرف اور مشرقی یورپ کی طرف گئے۔ ان کی یہ ہجرت مختلف waves میں پایہ تکمیل کو پہنچی جو صدیوں تک مسلسل ہوتی رہی۔ جذب و انجذاب میں ان میں کہیں ادغام بھی ہوا، مگر زبان، مذہب اور ان کی اپنی episteme یا archetypes کافی حد تک غیر متاثر رہے۔
دونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں نے ہجرت، نقل مکانی، مذہب، نسل برتری اور زبان پہ اپنا فوکس رکھا ہے۔
عربوں میں ایک کہاوت ہے کہ سام کو نبوت، یافث کو حکومت اور حام کو غلامی ملی۔ یہ بات اگرچہ توہین آدمیت پر مبنی ہے مگر کافی حد تک مشاہداتی اور درست بات ہے۔
کہیں سامی مزاج کا مواد انڈویورپین زبانوں میں لکھا گیا ہے تو کہیں آریائی مزاج سامی زبان میں لکھا گیا ہے۔ بیت الحکمہ میں یونانی اور ہندی کلاسیک عربی میں محفوظ ہو گئے۔ کہیں توریت اور اِنجیل یونانی زبان میں ترجمہ کئے گئے۔ اس عمل سے نئے فکری اور نظریاتی زاویے اور انحرافات پیدا ہوئے۔
آریاوں کی اساطیر
آریائی دیوتا خالص مردانہ تھے۔ کیونکہ ان کا تمدن گلہ بانی کا pastoral تھا۔ دیوتاؤں کی مختلف صفات دراصل ان کے تمدن کی سطح کی غماز ہوتی ہیں۔ بھیڑیا، گھوڑا اور عقاب انڈویورپین کے بنیادی علائم ہیں۔ وہ جن اقوام کے فاتح ہوئے، وہ زراعت پیشہ تھیں۔
گلہ بانی میں تخلیق Creation کا تصور نہیں ہوتا، تنظیم organization کا تصور ہوتا ہے۔
تنظیم کی مابعدالطبیعاتی بنیاد مردانہ ہے۔ جبکہ زراعت agriculture میں چاک، نہر، فصل، کھیتی، Yoni اور Breast سب تخلیق کے استعارے ہیں۔ اور تخلیق ایک نسائی فعل ہے۔ درخت اگنا، بیج، دودھ، کٹائی سب اپنی نوعیت میں تانیثی female تصورات ہیں، جو زمین سے جڑے ہیں۔ اسی لیے زمین کا لفظ ہر کلچر میں مونث ہے۔
زرعی ممالک کی فتح کے بعد آریاوں میں مونث دیویاں آ گئیں؛ آشا / اوشا، کالی، درگا،
دی میتر
Demater
Cerce
Venis
اناہتا/ناہید
یہ سب دیویاں زرعی اقوام سے آئی ہیں۔
عبرانیت/سامیت اور ہیلنزم دونوں ہی زرعی مت اور گلہ بانی سے گزرے ہیں۔
آریائی تہذیب میں زبان اور فلسفہ میں روشنی کے مظاہر زیادہ ہیں، اسی لیے انڈو یورپین زبانوں میں سب سے زیادہ اسم صفت ۔۔۔ روشنی سے ماخوذ ہیں ۔۔ سنسکرت میں سورج کے سات noun اور چالیس سے زیادہ adjective ہیں ۔۔ اسی طرح یونانی میں خود دیوتا deus کا مطلب ہی چمکنے والا ہے۔ اسی طرح فارسی میں رخ ۔۔ خورشید ۔ مہر ۔ آتر۔آذر، آتش۔ تب۔تاب ۔ تپ ۔ روشن۔ آفتاب ۔ آب ۔آبرو ۔ مہین ۔درخشاں ۔مہر ۔ میں روشنی کا عنصر موجود ہے۔
لاطنیںی میں
lunar
Luminous
Luster
Splendid
Reflugen
Radiant
Etc.
یونانی میں ph… والے زیاہ تر الفاظ روشنی کے متعلق ہیں
Phenomenon
Phosphorus
Photos
Phantom
Phantasy
Phoebus
خود Zeus کا معنی بھی چمک ہے ۔۔۔
اور تمام انڈو یورپین زبانوں میں Idea ایک بنیادی تصور ہے، اس کا مادہ ۔۔۔۔۔۔۔ai..dh√ ہے جس کے معنی appearance …..ظہور ۔۔۔۔۔ نمود ۔۔۔/ابھرنا کے ہیں، اور appear /بھی ایک مادے سے ہے۔
یورپ کا ڈھائی سو سالہ فلسفہ اسی لفظ کی وضاحت میں اٹکا ہوا ہے ۔۔۔ جس کا متضاد ۔۔۔۔ real ہے لیکن مغربی فکر پر یہ لفظ چھایا ہوا ہے۔۔۔ اس کی دوسری شکل ۔۔
(V)idea
جہاں سے video ….visual ۔۔۔ نکلے ہیں۔
یہی لفظ ۔۔۔ سنسکرت میں ویدا بن گیا، جہاں سے رگ وید ۔۔۔ یجر وید ۔۔۔ وید کے پہلے معنی دیکھنا ۔۔۔ ظاہر ہونا کے ہیں اور پھر علم اور پھر ہنر کے، جیسے وید حکیم کو کہتے ہیں ۔۔۔ ہندی میں یہ بید ہے اور اس کے ماہر کو بیدی کہتے ہیں۔ مجھے راجندر سنگھ بیدی یاد آ گئے، پھر بیدیاں روڈ ۔۔۔۔
جرمینک میں لفظ w سے بدل جاتا ہے
W(atch)
Wise
Wit
بن گیا ۔…سامی زبانوں میں اس قسم کا ارتقا نہیں ہوا ۔۔ وہ کان یکون ۔۔ک۔ن۔ن ۔۔ بنیادی مادہ ہے جس میں /ہونے اور کرنے/ کا الگ مفہوم نہیں ہے۔
ہیڈیگر کے خیال میں سارا فلسفہ ۔۔۔ اسی /ہونے/ کی تشریح ہے۔ ہسرل کی phenomenology بھی ساخت اور وجود (ہونے) کی سرحد پر کھڑی ہے ۔۔۔۔ لاطینی زبان نے تو becoming کے تصور کو جزو زبان بنا لیا اگرچہ وہ فلسفے سے دور رہے ۔۔ لیکن ان کی زبان میں ارتقا کی صلاحیت موجود ہے جیسے
..Escen…
کا لاحقہ
جیسے
Crescent
بڑھتا ہوا۔۔
Adolescent
جوان ہوتا ہوا
Nascent
پیدا ہوتا ہوا۔۔۔ inchoate حالت میں ۔۔
یہ صیغہ لاطینی زبان کی سب خوبصورت دین ہے۔ دریدا کی metaphysics of presence بھی ۔۔۔ اسی کی تشریح ہے۔
ہیلینزم کی تہذیبی معراج یہ ہے؛
فلسفہ میں سقراط، افلاطون، ارسطو، فلاطینوس، فیثاغورس شنکر آچاریہ، کانٹ اور ہیگل وغیرہ جیسے بڑے نام ہیں
قانون میں منو، جسٹینین، ولیم فاتح، کوٹلیہ وغیرہ
مذہب میں بدھ اور زرتشت، مانی، مزدک وغیرہ
مذہبی کتب میں وید، اپنشد، اوستا
سلاطین میں سائرس، سکندر اعظم، جولیس سیزر، اشوک
فنون میں ڈرامہ، مجسمہ سازی، epic، کاما سوترا، اجنتا، اقلیدس، مہابھارت، ایلیڈ، وغیرہ
ہیلینزم نے اعلی اساطیر تخلیق کئے ہیں۔ مثال کے طور پر اگنی، زیوس، جیوپیٹر اور تھور ان کے اساطیر میں اہم دیوتا ہیں۔
ہیلینزم میں شمسی کیلنڈر اہم ہے
یوگا، تناسخ، ورنط( ذات پات) اور آتش ونور کی پرستش
کرما، تری مورتی، تصوف اور تجرد celebacy
تھیٹر، اولمپکس، سٹیڈیم اور جمنازیم
ایتھنز، نالندا، جُندی شاپور، کھاجوراو، روما جیسے شہر
زبانوں میں سنسکرت، لاطینی، جرمن اور انگریزی
اداروں میں پارلیمانی نظام، جمہوریت کی تشکیل، انسانی حقوق ۔۔
Intellect and institution
قابل قدر ہیں
مُردوں کو چتا cremation میں جلاتے ہیں،
رسم الخط بائیں سے دائیں کو جاتا ہے
ہیبراازم یعنی عبرانیت/ سامی تہذیب کی معراج
نوح علیہ السلام، ابراہیم، موسیٰ، مسیح اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم
ساراگون، نبوکد نضر، ساؤل، سلیمان علیہ السلام، داؤد علیہ السلام، ولید بن عبد الملک، ہارون الرشید، حنی بعل، عبد الرحمن الداخل، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ، حمورابی، Imhotep، اخناتون،
بعل، رع، مردوک، ملوک، عشتار، ایل، یہوواہ
خدا کو بے نام اور بے شکل سمجھا گیا ہے
توریت میں ہے
I am who I am
میں قائم بالذات ہوں
Tetragrammaton
Jwah
مطلب چار حروف والا
یہ خدا کا نام تھا
توریت۔۔ زبور۔۔ انجیل۔۔۔ قرآن ۔۔۔ حمورابی کا قانون، یہودیت اور اسلام کی شریعت
سبع معلقات، غزل الغزلات، کوہ صہیون کا خطبہ، ظہر/ زہار، تالمود،
گلگامش، آشور بنی پال کی لائبریری
Enuma Elisha
Cuneiform
Hieroglyphics
Book of Dead
ابوالہول، اہرام اور
mummification
Family law
Polygamy
حروف ابجد
ختنے کا آغاز
ہیکل سلیمانی، خانہ کعبہ،
ہیبراازم میں قمری کیلنڈر اہم ہے،
ثلاتی مجرد کا اصول، زبان۔ وحدت اللسان،
وحی اور زبان کا ساختی تواتر
خنزیر کی حرمت
Instinct and intuition
قابل قدر ہیں
مُردوں کو دفنانے کی رسم، inhumation،
رسم الخط دائیں سے بائیں کو جاتا ہے
Eye-for-eye justice
مسیحیت خالص سامی نہیں ہے کیونکہ سنیٹ پال نے اپنے خطوط اور خطاب میں سامی contents کو Hellenized کر دیا۔ آرتھوڈوکس مسیحیت میں سامی براستہ مصری عنصر زیادہ ہے قسطنطین اعظم کے بعد رومی اور Germanic paganism کا اثر زیادہ ہو گیا
یہودی علم پہ چھا گئے ہیں، ان میں کچھ یہودی تھے مگر ملحد ہو گئے جیسے سیم ہیرس اور فرائیڈ وغیرہ
فیلو ۔۔۔۔ (صوفی ۔۔ متکلم)
میمونائڈیز ۔۔ (عالم ۔متکلم)
سپائینوزا (فلسفی)
کارل مارکس (فلسفی)
ہنری برگساں (فلسفی)
نیل بوہر (سائنسدان)
ارنسٹ کیسرر (فلسفی)
مارٹن بیوبر (فلسفی)
فرائیڈ (ماہر نفسیات)
ابراہام ماسلو (ماہر نفسیات)
ارنسٹ بلوخ، وکٹر فرنینکل (ماہر نفسیات)
فرانز بواس (ماہر بشریات)
دریدا (فلسفی)
ہسرل (فلسفی)
کارل پوپر (فلسفی)
اے جے ایئر (فلسفی)
ایزایہ برلن (فلسفی)
جارج کنیٹر (ریاضی دان)
ایمائل ڈرخائم (ماہر عمرانیات)
ایرک فرام (ماہر نفسیات)
نوم چومسکی (ماہر لسانیات)
آٹو رینک (ماہر نفسیات)
لیوس سٹراس (ماہر بشریات)
ایڈورڈ سیپر (ماہر لسانیات)
مارسل ماس (ماہر بشریات)
کلفروڈ گریٹز (ماہر بشریات)
لیوی براہول (ماہر عمرانیات)
آئن سٹائن (سائنسدان)
تھیوڈور ارئیخ (ماہر نفسیات)
مارشل سہلن (ماہر اقتصادیات)
مارشل سلیگمن (ماہر اقتصادیات)
جئیرڈ دائمنڈز (ماہر بشریات)
مارون ہیرس (ماہر بشریات)
سیم ہیرس، سٹیون پنکر (ماہر نفسیات اور لسانیات)
فرڈینڈ ساسور (ماہر لسانیات)
مسیحیت کی تشکیل میں یونانی ۔۔ اور رومی عناصر زیادہ ہیں ۔۔ یہ ہیلینی دور میں پیدا ہوئی ہے ۔۔ اس میں نرمی اور عجز ہے ۔۔ قانون غائب ہے ۔۔ صرف تماثیل parables ۔۔ مکاشفات ۔۔ وعظ ۔۔ اور جذبات اور تخیل سے اپیل موجود ہے ۔۔ ریاست غائب ہے کیونکہ یہ آسمان کی بادشاہی Kingdom of Heaven کے تصور پر مبنی ہے ۔۔ یہ برائے نام سامی ہے ۔۔ یہ اپنی روح میں آریائی ہے۔
Wages of sin is death
اور ازلی گناہ original sin کے تصورات نمایاں ہیں اور نجات کا تصور کا حاوی ہے۔
سامیوں میں یروشلم تین بڑے سامی مذاہب کا مشترکہ مقدس مقام ہے، اسحاق کا نام یہودی مسلمان اور عیسائی سب رکھتے ہیں۔
ایل کا مادہ بھی تینوں مذاہب میں پایا جاتا ہے،
سماعت بنیادی ذریعہ علم ہے۔
اس نے کہا ۔۔ یاایہا الذین ۔۔۔ قال، قالوا
خدا کا کلام ۔ موسی اور خدا کا کلام
شروع میں کلمہ تھا اور کلمہ خدا تھا اور کلمہ خدا کے ساتھ تھا
کلام حجت ہے
تصویر اور مورتیوں سے نفرت بھی اس کی غماز ہے
اولین مسیحی اولیاء نے یونان اور روم کی مورتیاں توڑ دیں یا اپاہج بنا دیں تاکہ ان کی perfection ختم ہو جائے کیونکہ یہ صرف خدا کو زیبا ہے
اطالوی نشاۃ ثانیہ میں یونانی آرٹ کی نقالی میں چرچ کو تصویروں سے بھر دیا گیا جن میں بائبل کے motifs کو یونانی رنگ میں دکھایا گیا۔
آرتھوڈکس چرچ میں سامی عنصر زیادہ ہے، وہاں تصویروں کی ممانعت ہے۔
ہیلینزم میں ہندوستان کی روح ایک daydreamer نوعمر کی سی ہے، تصورات میں دھندلاپن اور کثافت اور بوجھل پن ہے، ایک کمزور اہنسا بھی موجود ہے، ایران میں جدل اور کشمکش ہے، یہ مابعدالطبیعیاتی ہے لیکن آرٹ میں نفاست نہیں، بھدا پن ہے، شوخی ہے لیکن ندرت نہیں؟ ہند کے اصنام پہ ایک Nightmare غالب ہے، ایرانی روح خواب سے بیداری کی کیفیت میں ہے، خاص کر آگ میں اور گل لالہ میں، آگ میں زیادہ حرکت اور اضطراب ہے، ہندوستان میں بدھ کی تپسیا اور کھاجوراو میں ایک عجیب Thanatos پایا جاتا ہے جیسے مصری تصویروں میں غلاموں کی پروفائل میں ہے لیکن مصری ابو الہول میں انسان درندے سے نکل رہا ہے، مطلب انسان اپنی وحشی جبلت سے اوپر اٹھ رہا ہے، یہی چیز ان کی zoolatry کی تصاویر میں اجاگر ہے، مصری دراصل ایک طرح کے سامی ہندو ہیں
یونان میں خدا انسان بن گئے اور انسان خدا بن گئے۔
مطلب یہ ہے کہ ان کے خدا انسان کی سی بدکاری اور بے وقوفی بھی کرتے ہیں اور الوہیت کے مسند پہ براجمان بھی ہیں۔
یونانی غیر عقلی حصہ آرٹ میں، عقلی حصہ فلسفے اور ریاست میں نکل آیا۔
ہند و ایران سے ہوتے ہوئے یونان اور رومہ الکبری میں ہیلینزم اپنے عروج پہ پہنچی، فلسفے میں یونانی عقل کو omnipresent اور immanent سمھجتے ہیں۔عقل کو self explanatory سمھجتے ہیں۔
سامی کہتے ہیں کہ عقل جسم کے ہیجان (جذبے) کی غلام ہے۔ یہ بھی مخلوق ہے، انسان بھی مخلوق ہے عقل بھی رہنمائی کی محتاج ہے، خدا دونوں کا خالق ہے، دونوں کی نشوونما کا سامان کرتا ہے۔
یہ دونوں عظیم دریا ہیلینزم اور ہیبراازم ساتھ ساتھ بہتے ہیں، آنے والے زمانوں میں دونوں مل جائیں گے یا انسان کی عضویاتی بالیدگی سے دونوں مل کر ایک ہو جائیں گے۔
بے شک اللہ کے لئے ہی مغرب اور مشرق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نطشے کی ایک بنیادی dichotomy/binary ہے، جو اس نے اپنی کتاب birthday of tragedy میں متعارف کروائی ہے۔ یہ نطشے کی سب سے منظم اور مربوط کتاب ہے۔ یہ کتاب اس نے بطور ایک ماہر لسانیات لکھی ہے۔ لیکن یہ آرٹ کی تھیوری کی اہم کتاب ہے، بلکہ اسے انسانی سپرٹ کی کلید بھی کہا جا سکتا ہے۔
نطشے نے کہا کہ یونان میں tragedy انسانی جذے اور عقل کا شاندار مرکب ہے۔ یہ انسانی تاریخ میں optimum mixture ہے کیونکہ آرٹ کی تاریخ میں ہر قوم افراط و تفریط کا شکار ہے، کسی قوم کے آرٹ میں عقلی عنصر زیادہ ہیں تو کسی میں جذباتی عنصر۔
یونانی تہذیب نے اپنی مایوسی سے نپٹنے کے لئے مذہب کی بجائے آرٹ میں پناہ لی اور ٹریجڈی اپنی معراج تک پہنچی۔ اسکائیلیس، یورپیڈیز سے سوفوکلیز تک پہنچا۔
پلاٹ میں chorus جذباتی ہے اور مکالمات عقلی حصہ ہے۔
نطشے نے اس مظہر کے جذباتی پہلو کو یونانی میتھالوجی کے دیوتا Dionysus سے اور عقلی عنصر کو Apollo سے شناخت کیا ہے
جذباتی عنصر Dionysus factor
ڈیونائسس یونانی انگور اور شراب کا دیوتا ہے۔
انڈو یورپین اساطیر میں نشیلا مشروب بہت مرغوب رہا ہے۔ وید میں سوما کا لفظ آیا ہے، ایرانی اسے ہوما کہتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ Neolithic age کے بعد جلد ہی انسان نے شراب بنانے کا طریقہ سیکھ لیا تھا۔ یونان چونکہ بحیرہ روم کے خطے میں واقع ہے اور یہاں انگور اور زیتون کثرت سے ہوتا ہے۔ ڈیونائسس کی ماں سیمیلے ایک فونیقی عورت ہے۔ اس سے یہ مراد ہو سکتی ہے کہ یونانیوں نے شراب بنانے کا طریقہ فونیقیوں سے سیکھا ہو گا۔ یونانی اسے اپنے تاکستان کا سرپرست سمجھنے لگے۔ رومی اسے liber کہتے ہیں اور باخوس Liber کے معنی (دکھ سے) آزادی ہیں۔ اسی سے آزاد Liberal اور آوارہ Libertine کے معنی پیدا ہوئے۔
انگوروں کا باغ بہت رومان انگیز جگہ ہوتی ہے۔ باغوں کے ساتھ ہی اس کے مندر اور خفیہ رسوم شروع ہو گئے۔ پھر شراب سازی، زرخیزی مت، مذہبی جوش، سیہ مستی، وصل و وجدان اور مرد و زن کا اختلاط (dating) اس کے مندر میں ہونے لگی۔
مزید لطف لینے کے لیے اس کی یاد میں ڈرامہ شروع ہو گیا۔ جہاں بکری کی کھال پہن کر اس کی دوبارہ پیدائش (rebirth) کو منایا جاتا۔ بعض اسے Adonis بھی کہتے ہیں۔ اس دیوتا کا اثر پورے بحر روم میں پھیل گیا۔ کیونکہ سیکس انسان کی بنیادی ضرورت ہے جسے پورا کرنے کے وہ بہانے تلاش کرتا رہتا ہے۔ اس کی مقدس کی علامات میں سے
انگور
شراب
بکری (یونانی بکرے کو جنسی علامت سمجھتے تھے۔ پنجابی میں بھی بوبکرا کہتے ہیں)
بیل (یہ زرعی مت کی علامت ہے)
Ivy
شاید یہ مر کر جی اٹھنے کی علامت ہے کیونکہ یہ بیل قبرستان میں زیادہ ہوتی ہے
چیتا (انسان کے لاشعور کی علامت ہے جو شراب کے بعد بے قابو ہو جاتا ہے)۔
ماسک mask
یہ بہت گہری علامت ہے
لاشعور اور persona کی۔ فری میسنز Freemasons کے ہاں عورت اور مرد نقاب پہن کر سیکس کرتے ہیں تاکہ ایک دوسرے سے شرم نہ آئے اور زیادہ سے زیادہ Orgasm حاصل ہو۔ شراب پینے سے شخصیت کا ماسک اتر جاتا ہے۔
یونانی ڈراموں میں عورتیں کام نہیں کرتی تھیں، اس لئے یہ ڈرامے کا حصہ بن گیا۔
جام ۔ شراب کا پیالہ
یہ تصوف کی سب سے بڑی علامت ہے۔
ڈیونائسس کے صوفی اسے وحدت اور وصال کی علامت سمجھتے تھے۔ خیام اور حافظ و غالب وغیرہ کو یاد کیجئے۔
اور عشائے ربانی بھی۔
Manaeds
یہ مَنچلی پجارنیں کپڑے اتار کر ڈیونائسس کے حضور رقص کرتی تھیں۔ پھر شراب سے بدمست ہو کر کسی بیل یا بکری کو پھاڑ کر کھا جاتی تھیں تاکہ ان کے ڈیونائسس کی روح ان کے اندر حلول کر جائے۔
Thyrus
یہ صنوبر کے پھل اور نیزے کی مشترک علامت ہے۔ وہ زنانہ اور مردانہ اعضا کی علامت ہیں۔
اسے Incarnation کی علامت بھی کہتے ہیں۔
Dionysus
کے لفظی معنی ہیں؛ Dio یعنی دیوتا اور nyuse دراصل Zeus ہے
Nissa
شہر کا نام ہے
یعنی
نسا کا زیوس
اس کے نام ایک لمبا تہوار آتا تھا bacchanalia
جس میں سب عورت اور مرد کھلے ملاپ کرتے تھے۔
فیثاغورث ۔ ہیروڈوٹس اور پلوٹارک
سب اس خفیہ انجمن کے ارکان تھے۔
نطشے کے خیال میں
انسانی تہذیب کے dionaysian پہلو دبانے سے دُکھ اور منافقت جنم لیتی ہے۔
غالب کے شعر پر ختم کرتا ہوں
لاف دانش غلط و نفع عبادت معلوم
دُرد یک ساغر غلفت ہے چہ دنیا و چہ دیں
عقلی عنصر Apollonian factor
اپالو دیوتا متانت، علم، آرٹ، میڈیسن، میوزک اور روشنی کی علامت ہے۔ یہ ضبط اور تنظیم ۔فارملزم کی علامت ہے۔
اس کا متضاد Dionysus ہے۔
یہ تصور خالص یورپی ذہن کی علامت ہے، جبکہ Dionysus مشرقی صفات کا حامل ہے۔
اپالو Apollo
اس دیوتا میں تہذیب کی پیچیدگی اور rationality ہے
music, poetry, art, oracles, archery, plague, medicine, sun, light and knowledge
Apollo is the ideal of the kouros, which means he has a beardless, athletic and youthful appearance.
“Kouros ”
یہ مردانہ وجاہت کا ماڈل ہے
He is also an oracular god as a patron of Delphi and could predict prophecy through the Delphic Oracle Pythia
خفیہ رسوم بھی اس سے وابستہ ہیں اور کہانت بھی
.
Both medicine and healing are associated with Apollo and were thought to sometimes be mediated through his son, Asclepius. However, Apollo could also bring ill-health and deadly plague.
صحت sanity بھی ہے اور مرض بھی
Apollo also became associated with dominion over colonists, and as the patron defender of herds and flocks. He was the leader of the Muses (also known as Apollon Musegetes) and was director of their choir – functioning as the patron god of music and poetry.
The god Hermes create the lyre for Apollo and this instrument became a known attribute for him.
When hymns were sung to Apollo they were called paeans
At the drinking parties held on Olympus, Apollo accompanied the Muses on his cithara, while the young goddesses led the dance.
Both Leto and Zeus were proud of their son, who was radiant with grace and beauty.
نطشے کی بائنری binary
ڈیونائسیسی خصائص Dionysian
کے ظاہر کرنے والے الفاظ و علامتیں
Passion
Emotional
Extrovert
Reflex
Impulsive
Old Brain
Volition
Romantic
Libido
Unconscious
Visceral
Instinct
Existential
Anima
Erotic
Phallic
Kama
Lingam
Frenzy
Ecstacy
Sensual
Rhapsody
Tragedy
Sportive
Old Brain
Primal
Ritualistic
Merging in crowd
Cathonic
Reptilian Brain
Hedonism
Revelry
Orgies
Indulgence
Nymph
Aphrodite
Pan
Satyr
Transport
Orgasm
Dance
Cosmic unity
Regressive
Folk and mob
Populism
Mystic
Esoteric
Conservative
فطرت اور سماج کی حد کا خاتمہ
Chaos
اپولونیئن خصائص
Apollonian
Rational
Logical
Classical
Formal
Introvert
New brain
Intellect
Animus
Muscualine
Chasity
Modesty
Platonic
Sanity
Restraint
Son and light
Sculpture
Order
Construct
Structure
Individual
Separate from mob
Philosophy
Zuni people
Celebacy
Solidity
Plastic arts
Homosexuality
Urban
Progress
Stoic
نطشے کی dichotomy
کو دایاں دماغ اور بایاں دماغ سے بھی قریبی تعلق ہے۔
دایاں اور بایاں دماغ
ماہرین نفسیات کے مطابق ہماری ذہنی سرگرمی میں دماغ کے دائیں اور بائیں حصے کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ جب ہم غور کر رہے ہوتے ہیں تو معلومات ایک ہیمی سفیر سے دوسرے میں منتقل ہوتی ہیں۔
پھر اچانک junks اکٹھے ہوتے ہیں تو فہم کا عمل مکمل ہو جاتا ہے اور نئی بصیرت حاصل ہوتی ہے۔
# دائیں دماغ کی خصوصیات یہ ہیں؛
یہ random ہوتا ہے۔ اور
Discrete
Holistic
Synthetic
Non verbal
Casual
Subjective
Concrete
Sensory
Visual
Spatial
Emotional
ہوتے ہیں۔ جن کا یہ حصہ غالب ہو، وہ جذباتی، بصری visual، مادی، مکانی spatial اور من موجی ہوتے ہیں، ان میں تخلیق اور تخیل دونوں اعلی سطح پر ہوتی ہیں لیکں غیر مربوط ہوتی ہیں، ان کے فیصلے کمزور ہوتے ہیں …. weird behaviour
# بائیں دماغ کی خصوصیات یہ ہوتی ہیں؛ جن کا یہ حصہ غالب ہوتا ہے وہ منطقی
logical
Analytical
Systematic
Symbolic
Linear
Factual
Abstract
Objective
Digital
ہوتے ہیں۔
جن میں یہ حصہ نمایاں ہے وہ معروضی، حقیقت پسند، تفصیل پسند، جزیات پسند، نظم و ضبط پسند، تجزیہ نگار، علامتی، اور ایک سمت میں سوچنے والے ہوتے ہیں۔ یہ تخلیق کار نہیں ہوتے، ناظم اور رابطہ کار اچھے ہوتے ہیں اور اس کا تناسب ہر شخص میں مختلف ہے۔
جذبے اور عقل کا توازن یونانی تہذیب کے سوا کہیں نظر نہیں آتا ۔۔اقوام عالم میں زیادہ تر جذبہ غالب رہا ہے، اور کہیں پہ افادیت جو ایک جہت سے عقلی رویہ ہے، چین اور سامی اقوام میں افادیت، برصغیر میں جذبہ، افریقہ میں جذبات اور ابتدائی ہیجانات، مصر اور بابل میں افادیت، روم میں قانون اور افادیت ۔۔
یونان میں دونوں توازن میں ہیں ۔۔۔ لیکن توازن سقراط نے خراب کر دیا، عقلی پہلو پہ زیادہ دور دیا، جس سے آرٹ میں انحطاط پیدا ہو گیا۔
ایک طرف فلسفہ جو ذہن کی جمناسٹک ہے دوسری طرف اولمپکس جو جسم کی جمناسٹک ہے، ایک طرف منطق، دوسری طرف tragedy .. ایک طرف متانت، دوسری طرف مستی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجمل صدیقی صاحب ایم اے انگلش اور ایم اے اردو ہیں ۔ فیصل آباد میں تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔آپ کی نظر و فکر اور دلچسپی کا دائرہ تاریخ، فلسفہ اورادب ہے ۔
اجمل صدیقی صاحب کی اس علمی کاوش کی تہذیب و تحسین میں اس بندہ ناچیز کا بھی کچھ حصہ ہے، جس کا کچھ کریڈٹ مجھے بھی دیا جانا چاہیے.