عمران شاہد بھنڈر
مضمون کے پہلے حصے میں ہم نے یہ وضاحت کی تھی کہ اے کے اندر سے ناٹ اے کیسے برآمد ہوتا ہے۔ اس حصے میں ہم یہ واضح کریں گے کہ اے برابر اے جو کہ ایک یونیورسل تجریدی شناخت ہے، اس کے اندر سے اس کا پارٹیکولر (ناٹ اے) کیسے ظاہر ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ ارسطو کے لاجک میں اے ایک بنا بنایا وجود ہے۔ ہیگل کے لاجک میں وجود (اے) بننے کے عمل سے گزرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہیگل لاجک کا آغاز ”وجودِ محض“ سے کرتا ہے، تاکہ وہ واضح کر سکے کہ وجود ِ محض، وجود کیسے بنتا ہے۔ یعنی اے صرف اے کے برابر نہیں ہوتا بلکہ اے، ناٹ اے کے برابر ہوتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ہیگل کے لاجک میں ’وجود‘ فہم کا معروض ہے، حس کا نہیں۔ کیونکہ اگر وہ حس کا معروض ہو گا تو پارٹیکولر ہوگا نہ کہ یونیورسل۔ یونیورسل چونکہ فہم کا معروض ہے اس لیے اسے پارٹیکولر ہونے کے لیے اس کی ضد درکار ہے، اور یہ ضد یا اس کا اُلٹ اس کے اندر موجود ہوتا ہے۔یونیورسل وہ ہوتا ہے جو اپنے برابر ہو۔ لیکن پارٹیکولر اس یونیورسل کی نفی سے حاصل ہوتا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہیگل کے الفاظ ملاحظہ کریں کہ اگر یہ کہا جائے،
A planet is a planet; Magnetism is magnetism; Mind is Mind are, as they deserve to be, reputed silly. That is certainly a matter of general experience . The logic which seriously propounds such laws and the sc holastic world in which alone they are valid have long been discredited with practical common sense as well as with the philosophy of reason. SL, Section, 115
ہر شے اپنے برابر ہے، یہ ارسطو کا ایسا کلیہ تھا جس پر سارے ہی علم کلام کی بنیاد رکھی گئی تھی، جسے عقل کی بالادستی کے قائم ہونے کے بعد منہدم کر دیا گیا تھا۔
اگر یہ سوال پوچھا جائے کہ سیارہ کیا ہے؟ جواب یہ ملے کہ سیارہ تو سیارہ ہے، تو یہ جواب احمقانہ تصور کیا جائے گا۔ کیونکہ اس سے کوئی بھی بات واضح نہیں ہو سکی۔ اسی طرح اگر یہ سوال کیا جائے کہ انسان کیا ہے؟ جواب یہ ہو کہ انسان تو انسان ہے، تو یہ جواب بھی احمقانہ ہوگا۔ لہذا ابتدائی مرحلے پر سیارہ اور انسان دونوں ہی کچھ واضح نہیں کرتے۔ یعنی سیارہ ہمارے لیے کوئی شے نہیں بلکہ لاشے ہے۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں سیارہ (اے) برابر ہے سیارہ (ناٹ اے)۔ کیونکہ تجریدی سطح پر شناخت عدم افتراق کی حامل ہوتی ہے اور تجریدی وجود کے چونکہ خصائص نہیں ہوتے، اس لیے وجود (اے) غیر وجود (ناٹ اے) کہلائے گا۔
اسی طرح اگر کہا جائے کہ انسان انسان کے برابر ہے تو وہ بھی تجریدی یونیورسل ہو گا جو کہ ناٹ انسان کے مساوی ہوگا کیونکہ تجریدی یونیورسل میں صفات کا تعین ابھی تک نہیں کیا گیا۔ سیارے کی وضاحت کے لیے سیارے اور انسان کی تعریف متعین کرنے کے لیے تجریدی ’انسان‘ کی نفی کرنی ہو گی۔ لہذا تجریدی یونیورسل (اے) جو کہ لاشے (ناٹ اے) ہے، یہ اپنی صفات کی تخصیص میں ایک پارٹیکولر انسان کہلائے گا۔ یہاں ہم اس کو یوں بیان کریں گے:
اے= اے نہیں، بلکہ اے= ناٹ اے۔ یہ یونیورسل انسان ہے جو بیک وقت اے اور ناٹ اے ہے۔ اس کے برعکس جب یونیورسل انسان کی نفی ہوتی ہے جیسیا کہ یونیورسل (اے) کی نفی پارٹیکولر (ناٹ اے) سے ہوئی۔ پارٹیکولر میں یونیورسل کی رد و نمو ہوئی، یعنی انسان کہیں پیچھے نہیں رہ گیا بلکہ اس کے تجریدی اے، جو کہ خود ہی ناٹ اے ہے، کی نفی ہوئی اور فرد میں دونوں ہی مجتمع ہو جاتے ہیں۔ لہذا ہم اسے یوں لکھیں گے:
اے = ناٹ اے
اے + ناٹ اے = اے۔
اس میں جو چیز مستقل دکھائی دے رہی ہے، وہ ’اے‘ ہے۔ یعنی وجود ایک ہے، جو کہ مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔ اس میں جو عمل مسلسل ہے وہ ’بی کمنگ‘ کا عمل ہے۔ جیسا کہ ہیگل لکھتا ہے کہ
The truth of Being and Nothing is accordingly the unity of two: and this unity is Becoming. SL, Section, 88
یہی نتیجہ ہم نکال چکے ہیں کہ وجود، یونیورسل (اے) اور غیر وجود، پارٹیکولر (ناٹ اے) کی وحدت اپنی بی کمنگ کے عمل میں اے (انڈیویجوئل) ہی کہلاتا ہے۔
اب تک ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہیگلیائی فلسفے میں یونیورسل، تجریدی، عدم یا لاشے (Nothing) کا تصور ایک ہی چیز ہیں۔ عدم کے مفہوم کو مزید سمجھنے کے لیے ہم اس آیت پر غور کرتے ہیں۔
”ابتدا میں خدا نے آسمان اور زمین کو خلق کیا۔ تب زمین بے ڈول اور سنسان تھی۔ اور گہراؤ کے اوپر تاریکی چھائی ہوئی تھی اور خدا کا روح پانی پر جنبش کرتا تھا۔
خدا نے کہا روشنی ہو جاو اور روشنی ہو گئی۔ خدا نے دیکھا کہ روشنی اچھی ہے اور اس نے روشنی کو تاریکی سے جدا کیا۔”
کتاب پیدائش، 1: 1-2
ہمیں ان آیات کا مکمل تجزیہ درکار نہیں ہے۔ بلکہ روشنی اور اندھیرے کی مثال سے صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ایک کے بغیر دوسرا عدم تصور کیا جاتا ہے۔ ”عدم” کا یہی تصور ہے جو ”کتاب پیدائش” میں پیش کیا گیا ہے۔ آیات سے واضح ہے کہ آغاز میں اندھیرا تھا، روشنی نہیں تھی۔ اندھیرا ”مطلق عدم افتراق” کا حامل تھا، کیونکہ ابھی اندھیرے کو اپنا الٹ (روشنی) نہیں ملا تھا کہ دونوں ممیز ہو پاتے اور دونوں ہی شناخت کے حامل ٹھہرتے۔ دونوں میں سے کسی ایک کی ’موجودگی‘ اور دوسرے کی عدم موجودگی عدم کے متماثل ہے۔ اس لیے اگر ”الٹ” نہ ہو تو ہر شے یونیورسل یا ”عدم” ہوتی ہے۔ لہذا اندھیرا اس ”تجریدی یونیورسل، نتھنگ” کا حامل تھا، جسے ”عہد نامہ قدیم” کی زبان میں ”عدم” کہا گیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اندھیرا موجود تو تھا، لیکن ممیز نہ ہونے کی وجہ سے عدم تھا۔ اگر آغاز میں اندھیرے کی جگہ صرف روشنی ہوتی اور اندھیرا نہ ہوتا تو وہ بھی یونیورسل ہوتی اور اس لحاظ سے اندھیرے کے متماثل ہوتی کہ اسے بھی ممیز نہ کیا جا سکتا تھا۔ یعنی وہ بھی ”مطلق عدم افتراق” کی حامل ہونے کی وجہ سے ”عدم” ہی کہلاتی۔ اہم نکتہ یہاں پر یہ ہے کہ روشنی اندھیرے سے باہر موجود نہیں تھی، اگر وہ اندھیرے سے باہر ہوتی تو اسے اندھیرے سے “الگ” کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لہذاچروشنی اندھیرے کے اندر ہی مخفی تھی۔ ہیگلیائی فلسفے میں انہی معنوں میں یونیورسل عدم کا متماثل کہلاتا ہے۔ قدیم یونانی فلسفیوں کا خیال تھا کہ لاشے سے صرف لاشے پیدا ہو سکتی ہے۔ یعنی عدم سے وجود ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے ان کا ماننا تھا کہ وجود سے ہی وجود پیدا ہو سکتا ہے۔ ہیگل کے پیشِ نظر عدم اور وجود میں مطابقت قائم کرنا تھا۔ اس لیے اس نے عدم کا ایک مختلف تصور پیش کیا۔ ہیگل سے قبل کانٹ نے بھی گہرے تجزیات پیش کیے تھے اور یہی نتیجہ نکالا تھا کہ چونکہ کُل کا تصور کُل کا ادراک نہیں کرا سکتا اس لیے کُل کا تصور ایک یونیورسل تصور تو کہلا سکتا ہے جو کہ عدم کے ہی متماثل ہو گا۔ کانٹ لکھتا ہے،
The object of a concept, to which no intuition can be found to correspond is equal to Nothing. CPR, A290/B346
یعنی تصور میں اگر مشاہداتی معروض نہ ہو تو وہ عدم ہی متصور ہوگا۔ اس عدم کو فلسفیانہ اور منطقی جواز فراہم کرنے کے لیے لازم تھا کہ اسے وجود سے تعلق رکھنے والے معروضات فراہم کیے جائیں۔ ہیگل قدیم فلسفیوں پر تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے،
The ancients saw plainly that the maxim, From nothing comes nothing, from something something, really abolishes Becoming. SL, Section, 88
لہذا ہیگل کے پیشِ نظر اصل سوال وجود اور عدم کے “بننے” کے عمل کے دوران قائم ہوئی مطابقت کی متضاد حرکت اور اس کی منطقی بنتر کو دریافت کرنا تھا جس میں وجود کے خصائص جو کہ عدم ہوتے ہیں، وہ وجود کی صفات کے طور پر تشکیل پاتے ہیں۔
یونیورسل حیثیت میں صفات کی عدم تعیین مطلق عدم افتراق کی حامل ہوتی ہے اور وجود کی صفات کا مستور سے مکشوف ہونا اس عدم سے نجات ہے جو کہ ”مطلق عدم افتراق“ یا تجریدی شناخت کا حامل تھا۔اس مرحلے پر آفاقی اپنے ہی جزئی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جزئی ایک صفت ہے جو کہ نفی کی حامل ہے۔ یہ نفی تجریدی، یونیورسل کی ہے، جس کے اندر یہ جزئی موجود ہوتا ہے۔ جیسا کہ انسان کے تصور کے اندر ہر انسان موجود ہوتا ہے۔ لہذا واضح رہے کہ عدم یا لاشے فقط ایک تصور ہے، شے کی صفت نہیں۔ ہیگل نے صفات کے تعین کے بغیر مادے کو بھی وجود محض اور ”تجریدی” کہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مادہ موجود تو تھا، لیکن صفات کی عدم موجودگی میں عدم یا “وجود محض” تھا۔ (سائنس آج جسے سنگولیریٹی کہتی ہے، یعنی مادے کا ایک جگہ پر مرتکز ہونا)۔ ہیگلیائی فلسفے میں فکر مادے میں موجود تھی اور مادہ فکر میں موجود تھا۔ صفات مستور تھیں، پھر مکشوف ہوئیں۔ جب دو چیزیں آمنے سامنے ہوں تو دونوں ہی یونیورسل نہیں رہتیں، بلکہ پارٹیکولر ہو جاتی ہیں۔ جبکہ اکیلے خواہ اندھیرا ہو یا روشنی، دونوں برابر ہوتے ہیں۔ ارسطو کے منطقی قوانین میں سب سے بنیادی نقص یہ ہے کہ اس میں ’افتراق‘ کو وجود کے اندر نہیں، بلکہ وجود کے باہر دیکھا جاتا ہے اور وجود سے ہر طرح کے افتراق کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔جیسا کہ ارسطو کہتا ہے،
When the assertion is true, the negation is false, and when this is true, the affirmation is false. Metaphysics, Book, 4, P,39
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اے کا اثبات کرنا ہے تو ناٹ اے کی نفی کرنی ہوگی۔ اور اگر ناٹ اے کا اثبات کرنا ہے تو اے کی نفی کرنی ہو گی۔ اس طرح ارسطو کا ”اخراج حد اوسط“ کا یہ قانون ہیگل کی منطق کے تحت ناقص ٹھہرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر صاحب انگلینڈ میں مقیم فلسفے کے استاد ہیں اور اسی موضوع پر کئی گراں قدر کتب کے مصنف ہیں ۔
کمنت کیجے