Home » یوہان فختے سے مکالمہ
شخصیات وافکار فلسفہ

یوہان فختے سے مکالمہ

عمران شاہد بھنڈر

میں: فختے صاحب آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہمیں وقت دیا کہ ہم آپ کے ساتھ جرمن کلاسیکی فلسفے کے ان اہم پہلوؤں پر گفتگو کر سکیں جن کا آغاز کانٹ سے ہوا تھا، اور وہ تمام پہلو اپنی عینیت پسندانہ شکل میں ہیگل کے فلسفے میں پایہ تکمیل کو پہنچ چکے تھے۔ اس حوالے سے آپ کا نام کانٹ اور ہیگل کے درمیان قائم ہوئی ایک اہم کڑی کی حیثیت رکھتا ہے۔آپ کی اہمیت اس لیے بھی بہت زیادہ ہے کہ سپائینوزا کے اس قول کہ ‘‘پہلی تعیین نفی سے ہونی چاہیے’’ کو آپ نے اپنے فلسفے میں مرکزی حیثیت دی۔اگرچہ نفی کا یہ پہلو کانٹ کے فلسفے میں موجود تھا۔

فختے: مجھے خوشی ہے کہ آپ لوگ جرمن فلسفے کے ان پہلوؤں کا تجزیہ کر رہے ہیں کہ جن کو سامنے لانے میں میرا بھی ایک کردار ہے، بالخصوص کانٹ کی ‘‘لاشے’’ کے حوالے سے، جو کانٹین فلسفے میں غیر متعین اور تجریدی طور پر موجود تھی، جسے متعین شکل میں سامنے لانا ضروری تھا۔ کیونکہ کانٹین ‘‘لاشے’’ اذعانیت پسندوں کا پسندیدہ موضوع تھا۔

میں: جی بالکل، آپ نے آغاز میں ہی شے فی الذات یا لاشے پراذعانیت پسندوں کے حوالے سے تنقید بھی کی ہے۔ ہمیں یہ بتائیے کہ آپ نے اپنی اہم کتاب کا عنوان ‘‘سائنس آف نالج’’ کیوں رکھا تھااور آپ نے یہ کیوں لکھا کہ آپ سے پہلے کانٹ کے فلسفے پر جتنی بھی تنقید لکھی گئی ہے وہ کانٹ کے فلسفے کے جوہر سے یکسر نابلد ہونے کا نتیجہ ہے؟

فختے: عظیم فلسفی عمانوئیل کانٹ نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ آئیڈیا منطقی طور پر ممکن ہے، اور اس آئیڈیا کا دفاع کیا جا سکتا ہے۔ میرے سامنے یہ چیلنج تھا کہ کانٹین آئیڈیا کا منطقی استخراج جو خود کانٹ کر چکا تھا اور جس کی حیثیت متعین نہیں تھی، اسے کیسے متعین کیا جا سکتا ہے! یعنی ہمیں آئیڈیا سے باہر نہیں جانا، بلکہ اسے اس کے اندر سے ہی مربوط طور پر پیش کرنا ہے۔ کانٹ نے اسے خارجی دنیا سے کاٹ دیا تھا، اور اس طرح دو طرح کی دنیا تشکیل دے دی تھی۔ کانٹ نے تجربی اور فوق تجربی کے درمیان موجود تضاد کو فکری سطح پر ختم نہیں کیا تھا، بلکہ اسے عملی سطح پر ختم کیا تھا، وہ بھی اس صورت میں ممکن ہوا کہ عقل نظری کو عقل عملی کا تابع رکھا گیا۔ میں نے ‘‘سائنس آف نالج’’ کے آغاز میں ہی لکھ دیا تھا کہ میرا فلسفیانہ پروجیکٹ نظری نہیں، عملی ہے۔ میرے نزدیک کائنات کی تخلیق فکر نہیں، بلکہ ایک متعین عمل ہے، اور اسی عمل کو ایک مربوط انداز میں جاننا ہی میری کتاب ‘‘سائنس آف نالج’’ کا مرکزی خیال ہے۔

میں: کانٹ کے مطابق خدا کا تصور ایک آئیڈیا ہے، جو منطقی طور پر ممکن ہے۔ وہ آئیڈیا کیا ہے؟ بقول کانٹ وہ آئیڈیا کوئی شے نہیں ہے، اور نہ ہی اسے کسی شے سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ کانٹ ہی کے مطابق وہ ‘‘لاشے’’ (نتھنگ)ہے۔ آپ کا یہ موقف ہے کہ اس ‘‘لاشے’’ کو ‘‘شے’’ میں بدلتے ہوئے دکھایا جا سکتا ہے۔اور اس کے لیے حسیات سے خارجی مواد لینے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ وہ منطقی مقولات جو فہمِ محض میں موجود ہیں، ان کے مربوط استخراج سے نہ صرف یہ کہ لاشے کا قضیہ حل ہو جاتا ہے، بلکہ کانٹین فلسفے میں موجود ‘دوئی’ کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔کانٹ کے مطابق تو مظاہر کو جانا جاسکتا تھا، لیکن آپ نے مظاہر پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ کیاآپ کو ایسا نہیں لگتا کہ کانٹین ‘دوئی’ کو ختم کرتے ہوئے آپ ‘‘موضوعی عینیت ’’کی اس انتہا پر چلے گئے کہ کانٹ سے کہیں زیادہ دوئی کے فلسفے کی بنیاد رکھ دی؟

فختے: میں نے حسیات کا انکار ضرور کیا تھا، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ میں انسان اور کائنات کے درمیان رشتے سے غافل ہو گیا تھا۔ میں نے یہ ثابت کیا کہ انسان حسیات سے بلند ہو کر سوچ سکتا ہے۔ میں نے خارجی دنیا، فطرت، مادے وغیرہ کو فکر کے ساتھ مربوط کر دیا ہے۔ کائنات یا خارجی دنیا کے وجود کا انکار نہیں کیا۔

میں: خارجی سطح پر‘‘شے فی الذات’’ کی ‘‘موجودگی’’ کاا نکار تو کانٹ بھی نہیں کرتا۔

فختے: کانٹ شے فی الذات کا انکار تو نہیں کرتا لیکن شے فی الذات کو نہ جاننے کا دعویٰ ضرور کرتا ہے۔اور یہی اس کے فلسفے میں دوئی کی بنیاد ہے۔ میرے خیال میں حسی اور عقلی کی دوئی کو تجربیت کی بنیاد پر ختم نہیں کیا جا سکتا، بالخصوص اس وقت جب کہ کانٹ ان کے درمیان ایک وسیع خلیج کو قائم کر چکا تھا۔ اس وقت ضروری یہی تھا کہ کانٹ کے فلسفے کے اندر داخل ہوا جائے، ا سکے وسط میں اترا جائے، اور مقولات کے درمیان ربط تلاش کیا جائے۔ مقولات کی نوعیت ایسی نہیں ہے کہ جو خارجی سطح پر موجود نہ ہوں۔ ان کا ہونا اور نہ ہونا ان کے اندر ہی پایا جاتا ہے۔

میں: یہ تو آپ کے فلسفے کی خاصیت ہے کہ آپ نے ایگو کا جو تصور دیا ہے، اس کے اندر ہی اس کی نان ایگوکو بھی منطقی طور پر ظہور کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ اس کی طرف ہم زیادہ تفصیل کے ساتھ بعد میں آئیں گے۔ فی الوقت ہم اس بنیادی سوال کو واضح کرنا چاہ رہے ہیں جو کانٹین فلسفے میں پیدا ہوا، اور بعد ازاں آپ نے اس کی تحلیل کا جواز پیش کیا۔ آپ نے کانٹین تضادات کی تحلیل ‘‘عقلی انٹیوشن’’ کے ذریعے کی ہے۔ کانٹ کے نزدیک تو یہ ‘‘عقلی انٹیوشن’’ تقریباََ ‘‘لاشے’’ ہے۔ لیکن آپ کے فلسفے میں یہ عقلی انٹیوشن منطقی مقولات کے استخرج کے دوران تعینات یا خصائص کا ایک وسیع سلسلہ قائم کرتا چلا جاتا ہے۔ کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ یہ ‘‘عقلی انٹیوشن’’ کیا چیز ہے اور یہ ‘‘متصوفانہ انٹیوشن’’ سے مختلف کیسے ہے۔

فختے: میں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ کانٹین فلسفے کے فوق تجربی پہلو کی تعبیر و تشریح کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔اگر کانٹین مقولات کو عقل کی فعلیت سے ان کی حرکت میں دریافت کر لیا جائے تو کانٹین فلسفہ پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ اور وہ تمام مقولات جو فہم میں موجود ہیں وہ بذاتِ خود مقرونی (کنکریٹ) شکل اختیار کر لیتے ہیں۔چونکہ مقولات مقرونی ہیں ا س لیے وہ روایتی ‘‘متصوفانہ انٹیوشن’’ سے مختلف ہیں۔ ان مقولات کا استخراج بھی کیا جا سکتا ہے، ان کی شناخت بھی ممکن ہے، ان کے درمیان ایک منطقی ربط بھی موجود ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں بیان بھی کیا جا سکتا ہے۔ متصوفانہ انٹیوشن جب تک اپنے خدو خال وضع نہ کرے، ا س وقت تک وہ لاشے ہی رہتا ہے۔

میں: آپ نے مقولات کے منطقی استخراج کا جو سلسلہ بقول آپ کے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ہے، اور اسے خدا کی فعلیت سے تعبیر کیا ہے تو کیا آپ کا خدا مذہبی نوعیت کا خدا ہے؟

فختے: ذہن میں رکھیے کہ فلسفے میں خدا کا تصور مذہبی مفہوم سے یکسر مختلف ہے۔ فلسفے میں یہ انسان کے وجود، اس کی اپنی فعلیت سے جڑا ہوا ہے، جو کسی بھی شخص کے ذہن میں کسی بھی وقت جنم لے سکتا ہے۔ کائنات کیا ہے، یہ کہاں سے آئی ہے، اسے کسی نے بنایا ہے یا یہ اپنی داخلی قوت سے نمو پاتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔یہ ایسے سوالات ہیں جن کی نوعیت مابعد الطبیعاتی تو ہے لیکن مذہبی نہیں ہے۔ مذہب ان کی بنیاد پر اپنی عمارت ضرور کھڑی کرتا ہے۔ لیکن فلسفیوں کا مسئلہ مذہبی نہیں سیکولر نوعیت کا ہے۔ فلسفی اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں مصروف رہتا ہے کہ کائنات کیا ہے، اور ہمارا اس سے کیا تعلق ہے۔ اور یہ کام قدیم یونان سے شروع ہو چکا تھا، اور آج تک جاری ہے۔ سائنس خواہ جتنی بھی ترقی کر لے لیکن انسان اور کائنات کے درمیان تعلق کی نوعیت، اس میں موجود مقصدیت کے تصور پر ایک لفظ کہنے کی بھی اہل نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بنیادی طور پر ایک فلسفیانہ سوال ہے۔ اگر اس سوال کو مذہب نے حل کر دیا ہوتا تو فلسفہ جنم نہ لیتا، اور انسان کائنات کی مذہبی تعبیر سے مطمئن ہو چکا ہوتا۔ فلسفے کا ابھار ہی مذہب کی تحدید کو ثابت کر دیتا ہے۔

میں: اب تک کی گفتگو سے ہم نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ آپ کا فلسفیانہ پروجیکٹ کانٹ کے فوق تجربی فلسفے کی توسیع ہے۔ جو کانٹین فوق تجربیت میں موجود منطقی بنتر کو سامنے لاتا ہے، اور بقول آپ کے آپ نے کچھ بھی نیا نہیں لکھا بلکہ کانٹ کے تجریدی آئیڈیا کو ایک کنکریٹ شکل دی ہے، جس کا جواز خود کانٹین فلسفے میں موجود تھا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ آپ کا فلسفیانہ پروجیکٹ نظری نہیں عملی ہے۔ اور آپ کو یقین تھا کہ حسی اور عقلی کے درمیان حائل تضاد کو صرف عمل سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔

فختے: آپ نے میرے فلسفیانہ نظام کا درست خاکہ پیش کر دیا ہے۔

میں: آپ نے کانٹین ‘‘لا شے’’ کو ‘‘شے’’ میں کیسے تبدیل ہوتے ہوئے دکھایا ہے؟

فختے: ‘‘لاشے’’ کانٹ کا مسئلہ تھا، اور ا س نے خود ہی اس کو عمل میں یقینی بنانے کا بیڑا اٹھا لیا تھا۔ جبکہ میرے نزدیک کانٹین لاشے صرف ایک التباس ہے، جو اذعانیت پسندوں کا پسندیدہ کھیل ہے، اور اسی ‘‘لاشے’’ سے وہ ہر طرح کی مذہبیت کا جواز تراشتے ہیں۔ میرا فلسفیانہ نظام تفکری نہیں عملی ہے۔ میرے نزدیک سیلف خود کو اپنی فعلیت سے قائم کرتا ہے۔

میں: آپ کا فلسفیانہ نظام فکری نہیں عملی ہے، کیونکہ آپ عمل سے ہی منطقی مقولات کا استخراج کرتے چلے جاتے ہیں۔ اور آپ کے کئی شارحین اس بات کو تسلیم کر چکے تھے کہ آپ کا سبجیکٹ کا تصور جدید فلسفے کے بانی رینی ڈیکارٹ کے فلسفہ سبجیکٹ سے قطعی طور پر مختلف تھا۔ ڈیکارٹ کا خیال تھاکہ انسان کے ذہن کے باہر معروضات کا وجود شک سے بالا نہیں ہے۔ ذہن سے باہر معروضات کے وجود کو ناقابلِ ثبوت قرار دیا جا سکتا ہے۔لہذا ناقابل اشتباہ جو شے باقی رہتی ہے وہ صرف یہی کہ ‘‘میں سوچتا ہوں۔’’ اور دوسری طرف برکلے کا فلسفہ تھا جو اس بات کا دعویٰ کرتا تھا کہ مکاں میں اشیا کے وجود کی واحد دلیل یہ ہے کہ مکاں انسانی ذہن سے باہر وجود رکھتا ہے، اور اگر مکاں کی ذہن سے باہر حیثیت کا ابطال کر دیا جائے تو مادے کا آزادانہ وجود ختم ہو جاتا ہے۔ کانٹ نے ڈیکارٹ اور برکلے کے عینیت پسند فلسفوں پر شدید حملہ کیا اور بہت پیچیدہ بحث کے بعد یہ نتیجہ نکالا تھا کہ خود میرے وجود کا شعور جو خود تجربے کے ذریعے سے متعین ہوتا ہے وہ ذہن سے باہر معروضات کے وجود کو ثابت کرتا ہے۔ انسان کا وجود بقول کانٹ زمانے میں متعین ہے اور جب تک ادراک میں کوئی وجود مستقل نہ مانا جائے اس وقت تک میرے اپنے وجود کا تعین کرنا بھی ناممکن ہے۔ کانٹ کے مطابق یہ ادراک داخلی نہیں ہے، بلکہ سبجیکٹ کا اپنا وجود اپنے تعین کے لیے اسی خارجی وجود سے ممکن ہوتا ہے۔آپ کی ناٹ سیلف کی وضاحت سے ایسا لگتا ہے کہ آپ ناٹ سیلف (کائنات، مادہ وغیرہ) کے خارجی وجود کا انکار کرتے ہیں، اس صورت میں آپ کو کانٹ کی اسی دلیل کا سامنا کرنا پڑے گا جو ڈیکارٹ اور برکلے کے استرداد کے لیے پیش کی گئی تھی۔

فختے:میرا فلسفیانہ نظام ڈیکارٹ اور برکلے سے یکسر مختلف ہے۔ میرے فلسفیانہ نظام میں ناٹ سیلف کی اپنی ‘‘تقلیب’’ جو ا سکے اپنے عمل سے ہوتی ہے وہ ناٹ سیلف کے بغیر ممکن نہیں ہے۔کانٹ کے بعد یہ ضروری ہو گیا تھا کہ اس کے ‘‘حسیاتی’’ فلسفیانہ نظام سے انحراف کر کے اس کے عقلی نظام پر ساری فلسفیانہ عمارت کو استوار کیا جاتا۔ ناٹ سیلف کہیں خارج سے نہیں آتا ہے، ان معنوں میں کہ وہ پہلے سے ہی موجود ہو۔ یہ سیلف کا وہ تصور ہے، جو سیلف کے خود پر فکری انعکاس سے باہر رہتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ نے دیکھا کہ کانٹ نے یہ سوال اٹھایا کہ اگر مظاہر کی علتوں کا سلسلہ لامتناہی ہے تو شے فی الذات کا تصور نہیں ابھرتا، اور اگر مظاہر کے وجود میں آنے سے ایک مقام ایسا بھی آجائے جہاں کسی مظہر کی علت مظہر نہ ہو، بلکہ ایک غیر مظہر ہو، جس کا کہ کانٹ کے فلسفے میں منطقی امکان تو باقی رہتا ہے، لیکن حقیقی امکان نہیں، تو پھر یہ غیر مادی علت عقل کا معروض ٹھہرتی ہے، چونکہ ا سکے جوڑ کا کوئی بھی معروض مظاہر میں موجود نہیں ہے، اس لیے عقل اس غیر مظہر کو صرف سوچتی ہے، لیکن جانتی نہیں ہے، کیونکہ جاننے کے لیے اس کی سطح کا مشاہدہ درکار ہوتا ہے، اور جب یہ تسلیم کر لیا جاتا ہے کہ ایسا مشاہدہ کوئی معروض نہیں رکھتا تو عقل کا معروض یہی ‘‘شے فی الذات’’ ہوتی ہے، جو خود عقل کے اندر ہے، بلکہ آسان الفاظ میں یوں کہیں کہ یہ غیر معین معروض عقل کی ہی ابتدائی صورت ہے۔ اور عقل اپنی اسی ابتدائی صورت سے متعین ہوتی ہے۔ میرے خیال میں اگر مظاہر اور حسیات سے پرے ایسی کوئی لاشے موجود ہے جو مظہر کے طور پر سامنے نہیں آتی تو وہ حسیات کا معروض نہیں ہے، بلکہ عقل کا معروض ہے جسے کانٹ نے عقل کا آئیڈیا کہا ہے۔ میں اسے سیلف کی عقلی فعلیت سمجھتا ہوں، یعنی سیلف کی فعلیت پر سیلف کا انعکاس ہوتا ہے اور وہیں سے ناٹ سیلف کا تصور ابھرتا ہے۔

میں: مطلب آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عقل اس ‘معروض’ یا آئیڈیا پرجو کہ ا س کا اپنا آئیڈیا ہے، منعکس نہیں ہوتی، ا س لیے داخلی سطح پر وہ ‘‘شے فی الذات’’ ایک طرح سے ‘لاشے’ ہی رہتی ہے؟

فختے:کانٹین فلسفے کی رو سے لاشے وہ صرف اس سطح پر ہی رہتی ہے جو سطح عقل کی فعلیت سے باہر ہے، اگر وہ عقل کی اپنی فعلیت کا نتیجہ ہے تو پھر عقل کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ اس کا اپنا معروض لاشے، غیر متعین یا تجریدی کیسے رہتا ہے! مثال کے طور پر سیلف اپنی ماہیت پر غور کرتا ہے، وہ خود پر منعکس ہوتا ہے، سیلف کا خود پر منعکس ہونا ایک طرف سیلف کو قائم کرتا ہے تو دوسری طرف چونکہ سیلف ہی لاشے ہے، اس لیے سیلف سے ہی ناٹ سیلف کا تصور جنم لیتا ہے۔

میں: تو کیا آپ ناٹ سیلف کی آزادانہ حیثیت کے منکر ہیں؟

فختے: ہرگز نہیں! عقل کو اپنی فعلیت سے منطقی مقولات کا استخراج کرنے کے لیے ناٹ سیلف کی اشد ضرورت ہے۔ میں نے ‘‘سائنس آف نالج’’ کے شروع میں ہی واضح کر دیا تھا کہ مجھے انسانی علم کے ابتدائی اور غیر معین اصول کی دریافت سے آغازکرنا ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ میرے فلسفے کو اس نکتے سے سمجھنا شروع کیا جائے جہاں سے خودمیں اپنے فلسفے کا آغاز کرتا ہوں۔

میں: کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کے فلسفے میں سیلف اپنے برابر نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی ہی فعلیت میں ناٹ سیلف کے برابر ہوتا ہے؟

فختے: آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔

میں: آپ نے سیلف کے اندر تفریق خود سیلف کی فعلیت سے پیدا کی ہے۔ اور ہم اس ناٹ سیلف کو خارجی دنیا، فطرت یا مادہ کہہ سکتے ہیں۔

فختے: جب میں اپنے فلسفے کا آغاز ہی ایک غیر معین ، تجریدی، لاشے سے کرتا ہوں تو اس کا مطلب واضح ہے کہ وہ لاشے، یا غیر معین خود سیلف ہے۔ یعنی سیلف ہی ناٹ سیلف کے برابر ہوتا ہے۔ یعنی اے برابر ہوتا ہے ناٹ اے کے!

میں: بات واضح ہو گئی ہے کہ آپ وجود کی یکتائی کے قائل ہیں، اور فطرت اور مادے کو سیلف سے الگ وجود نہیں سمجھتے جو حسیات کے وسیلے سے عقل کو دیا جا سکے۔ بلکہ اس کی تشکیل خود عقل کی اپنی فعلیت کا نتیجہ ہے۔

فختے: بالکل درست کہا!صرف یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ میں ناٹ سیلف کی اس آزادانہ حیثیت کا منکر ہوں جو ناٹ سیلف حسیات کی وساطت سے ہم تک پہنچتا ہے، لیکن جو ناٹ سیلف خود شعور میں موجود ہے اس کا منکر نہیں ہوں، بلکہ اس پر سیلف کی فعلیت سے ہی سیلف کی اپنی تقلیب کا عمل طے پاتا ہے۔ میں واضح کر چکا ہوں کہ کانٹین تجربیت سے کانٹین دوئی کو ختم نہیں کیا جا سکتا، ا س کے لیے ضروری ہے خارجی دنیا کے حسیاتی تجربے کو عقلی، منطقی طور پر ایک اور سطح کے تجربے میں تبدیل کیا جائے۔

میں: کافی حد تک واضح ہو گئی ہے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مزید آگے بڑھنے سے پہلے، آپ نے اپنے فلسفیانہ نظام میں جو اصطلاحات استعمال کی ہیں ، ان کے معنی دریافت کر لیے جائیں، کیونکہ آپ نے ایک سادہ مفروضے سے بات شروع کی ہے، جو آگے چل کر ایک انتہائی پیچیدہ صورت اختیار کر لیتا ہے۔ آپ سیلف اور ایگو کو ایک ہی مفہوم میں بروئے کار لاتے ہیں، اور ڈیکارٹ کے ‘‘میں سوچتا ہوں’’ کے برعکس ‘‘میں ہوں’’ استعمال کرتے ہیں، اور اسی ‘‘میں ہوں’’ کو سیلف، ایگو یا خودی کہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح آپ نے ‘‘مطلق’’ کا لفظ استعمال کیا ہے جو خاص مفاہیم رکھتا ہے اور اسے سمجھے بغیر آپ کے فلسفے کی تفہیم ممکن نہیں ہے ۔ پھر ہمیں یہ بھی بتائیں کہ موضوع اور معروض (سبجیکٹ اور اوبجیکٹ) سے آپ کی کیا مراد ہے؟

فختے: میں نے پہلے وضاحت کی ہے کہ خودی سے مراد صرف خودی ہے، یعنی سادہ الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ‘‘میں ہوں۔’’ مطلب خودی برابر ہے خودی کے۔ بالکل اسی طرح مطلق کے مفاہیم میں صرف سبجیکٹ ہی نہیں آتا، بلکہ اوبجیکٹ بھی شامل ہے۔

میں: مطلب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سیلف سبجیکٹ ہے اور ناٹ سیلف اوبجیکٹ ہے؟

فختے: مطلق کہلانے کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایک ہی شے ، وجود ، سبجیکٹ میں اس کی لاشے، غیر وجود، معروض وغیرہ کا تصور موجود ہو۔ اگر وہ معروض یااوبجیکٹ کا تصور حسیات کی وساطت سے قائم ہوئی دوئی سے مستعار ہے تو وہ کبھی بھی مطلق نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ اپنی فعلیت پر انحصار کرتے ہوئے وہاں سے اپنے اوبجیکٹ کا استخراج نہیں کر رہا بلکہ اسے پہلے ہی سے بنی بنائی کوئی شے سمجھ رہا ہے، جس سے ربط میں آکر وہ خود کو تقویت دیتا ہے، یا اپنے تفاعل کو ممکن بناتا ہے۔ جبکہ میرے نزدیک سیلف کی ابتدائی فعلیت ہی چونکہ اس کے خود پر انحصار کا نتیجہ ہے، ایسا خود جو کہ آغاز میں غیر خود ہے ا س لیے میرے خیال میں موضوع اور معروض کا ابتدائی تطابق ہی ‘‘مطلق’’ کہلاتا ہے۔

میں: اب ہمیں صرف یہ بتائیے کہ جس ایگو یا خودی کے تصور پر آپ نے اپنے فلسفے کی بنیاد رکھی ہے وہ کیا ہے؟ کیا یہ عقل کی فعلیت ہے، جو ہمیں خود اور غیر خود کے درمیان منطقی تطابق دکھاتی ہے؟

فختے: سیلف اور ناٹ سیلف، موضوع اور معروض کا متماثل ہونا عقل کی منطقی فعالیت کا نتیجہ ہے۔ اور دونوں میں یہی تطابق ‘‘خودی’’ کہلاتا ہے۔ خودی یا ایگو کوئی بنی بنائی شے نہیں ہے، بلکہ مسلسل عمل کا نتیجہ ہے۔ اور اس عمل پر منعکس ہوکر اس پر عقلی گرفت کرنا کہ جس سے سیلف اور ناٹ سیلف متماثل دکھائی دیں، اس کو میں نے ایگو کہاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران شاہد بھنڈر صاحب برطانیہ میں مقیم فلسفے کے استاد اور اسی موضوع پر کئی گراں قدر کتب کے مصنف ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں