عمران شاہد بھنڈر
انسان کی فکری تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ تمام عظیم فلسفیوں اور مفکروں نے ”تخلیقِ کائنات“ کو اپنے تفکر کا موضوع بنایا ہے۔ اس کی وجہ مذہبی توجیحات نہیں ہیں اور نہ ہی خدا کا پیش کیا گیا مذہبی تصور ہے جس نے تخلیق کائنات کے تصور کو انسان کے باطن میں ابھارا ہے، بلکہ انسان کے داخلی فکری رجحانات اور احتیاج ہے، جن کا بلاواسطہ تعلق کائنات کی ماہیت کے ساتھ ہے۔ تاریخی اعتبار سے سب سے اہم سوال یہی رہا ہے کہ کیا کائنات جیسی کہ ہمیں دکھائی دیتی ہے ہمیشہ سے ایسی ہی ہے یا یہ کسی خاص لمحہ پر تخلیق ہوئی یا تخلیق کی گئی ہے؟ تخلیقِ کائنات کے تعلق سے بیسویں صدی اور نوے کی دہائی میں بھی اس سوال کا جواب دینا اتنا ہی اہم تھا جتنا ارسطو کے عہد میں تھا۔ سٹیفن ہاکنگ نے کانٹ سے متعلق یہ الفاظ رقم کیے تھے،
”یہ سوال کہ کیا کائنات کا آغاز زمان کے اندر ہوا تھا یا وہ محض مکان تک محدود ہے؟ یہ ایسا سوال تھا جس کا بہت تفصیلی مطالعہ عمانویئل کانٹ نے اپنی شہرہ آفاق (Monumental)، مگر بہت مبہم، کتاب تنقید عقلِ محض میں کیا تھا، جو 1791 میں شائع ہوئی تھی۔ وہ ان سوالات کو عقلِ محض کے تضادات کہا کرتا تھا کیونکہ اس کے خیال میں یہ دعویٰ کہ کائنات کا آغاز ہوا تھا اور اس کا جواب دعویٰ کہ کائنات ہمیشہ سے موجود ہے، ایک جیسے وزنی دلائل رکھتے تھے۔“ (وقت کی مختصر تاریخ، ص، 27)۔
ہاکنگ ان دونوں تناقضات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ کائنات تخلیق ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو، اس سے یہ بات سامنے ضرور آتی ہے کہ وقت ہمیشہ سے موجود تھا، خواہ تخلیق سے پہلے یا بعد میں۔ ہاکنگ اس کے بعد کہتا ہے کہ ”ہمیں جلد ہی معلوم ہو گیا کہ کائنات کی ابتدا سے قبل وقت کا تصور کوئی معنی نہیں رکھتا اس بات کی سب سے پہلے نشاندہی سینٹ آگسٹائن نے کی تھی۔“ اس کے بعد ہاکنگ کا سینٹ آگسٹائن کا پیش کیا گیا نتیجہ خصوصی دلچسپی کا حامل ہے کہ”وقت یا زمان کائنات کی صفت ہے جو خدا نے بنائی ہے اور وقت کائنات سے پہلے وجود نہیں رکھتا تھا“ (ص،27)۔
میرے خیال میں ہاکنگ یہاں دو قسم کے اغلاط کا مرتکب ہوا ہے۔ ہاکنگ کی پہلی غلطی یہ ہے کہ اس نے اب تک کی زیرِ مشاہدہ آنے والی کائنات کو ہی کُل کائنات تصور کر لیا ہے۔ اگر تو زیرِ مشاہدہ آنے والی کائنات ہی واحد کائنات ہے تو پھر بھی یہ سوال بہرحال برقرار رہتا ہے کہ کائنات کے آغاز سے قبل وقت کا ایک تصور موجود تھا جس کا امکان اغلب ہے کہ وہ ہمارے کائناتی وقت کے تصور سے مختلف ہو۔ان معنوں میں کانٹ ہرگز غلط نہیں تھا بلکہ ہاکنگ اسے اپنے مخصوص زاویے میں محصور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس نکتے کی مزید وضاحت کے لیے ضروری ہے کہ ہاکنگ کی دوسری غلطی کو بھی عیاں کر دیا جائے اور اسی دوسری غلطی سے ہاکنگ کی پہلی غلطی کی مزید وضاحت بھی ہو جاتی ہے۔ اس کے لیے میں ارسطو کی کتاب ’فزکس‘ سے ایک حوالہ رقم کرنا چاہوں گا، جس میں ہاکنگ کی ساری ہی بحث سمٹ جاتی ہے۔
ارسطو لکھتا ہے کہ”دیموکریٹس کا خیال تھا کہ ہر شے کا وجود میں آنا ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔ کیونکہ وہ کہتا تھا کہ زمان کی تخلیق نہیں ہو سکتی۔ صرف افلاطون زمان کی تخلیق کا دعویٰ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کائنات کے ساتھ ہی وجود میں آیا کیونکہ اس کے نزدیک کائنات کا وجود میں آنا حادثہ تھا۔“(فزکس، ص، 196)۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہاکنگ نے افلاطون کی کتاب ”قوانین“ اور ارسطو کی کتاب ’فزکس‘ کا مطالعہ نہیں کیا تھا، جس سے وہ یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوا کہ سب سے پہلے سینٹ آگسٹائن نے کہا تھا کہ زمان کی تخلیق کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہوئی تھی۔ ہاکنگ کی دوسری غلطی کہ جس کا مختصر ذکر اوپر کیا گیا ہے یہ ہے کہ وہ زمان کے ایک ہی تصور کو ہر قسم کے تصورِ زمان پر منطبق کرتا ہے جو کہ فی الوقت سائنس کے دائرہ کار سے خارج ہے۔ اگر دیموکریٹس کے تصورِ زمان کی روشنی میں کانٹ کے کائنات کے زمان میں متناہی اور لامتناہی کے مفہوم کو واضح کریں تو کانٹ کی دلیل کو دیموکریٹس کے تصور زمان سے مزید تقویت ملتی ہے۔ ارسطو اس کی یوں وضاحت کرتا ہے کہ”زمان کا لمحے سے الگ کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی لمحے کے بغیر اس کا وجود ہوتا ہے۔“ لہذا جب ہم لمحے کا تعین کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک قسم کا درمیانی نقطہ ہے۔ درمیانی نقطے سے واضح مفہوم یہ نکلتا ہے کہ اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی زمان کا تصور موجود ہے۔ اگر ہم اس سے پہلے لمحے پر چلے جائیں یعنی ماضی میں تو وہاں بھی یہی صورتحال سامنے آتی ہے کہ اس سے پہلے بھی کوئی لمحہ موجود تھا۔ دیموکریٹس کی اس بات کو ہم بآسانی یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کوئی شے موجود لمحے میں وجود میں آتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسا لمحہ بھی موجود تھا جب یہ شے موجود نہیں تھی۔ یہی اہم نکتہ کائنات کی تخلیق کے حوالے سے بھی صحیح ہے کہ اگر کائنات کی تخلیق ایک خاص لمحے پر ہوئی ہے تو ایک ایسا لمحہ بھی تھا جب کائنات موجود نہیں تھی۔ ہاکنگ چونکہ ایک سائنسدان تھا جسے فقط ’ہونے‘ سے غرض تھی، نہ ہونا اس کا موضوع نہیں بن سکتا۔ ہائیڈیگر نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ ’نہ ہونا‘ کی “شناخت” صرف فلسفی ہی کر سکتا ہے۔
کانٹ کا عظیم کارنامہ یہ تھا کہ اس نے عقلِ محض کے تناقضات کو عیاں کر دیا، لیکن ان کی عقلِ محض سے تحلیل کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ بہرحال اس نے بیک وقت کسی شے کے ’ہونے‘ اور ’نہ ہونے‘ جیسے اہم فلسفیانہ تصورات کی بنیاد ضرور رکھ دی تھی، جو بعد ازاں دیگر جرمن فلسفیوں کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کر گئے تھے۔ کانٹین تضادات کی تحلیل عظیم جرمن فلسفی ہیگل نے کر دی تھی، اور جیسا کہ ہم عصر فلسفی زیزک کہتا ہے کہ ہیگل کے بعد ہر عظیم مفکر ہیگل کے فکری سائے تلے پرورش پا رہا ہے۔
کائنات کا ہونا اور کائنات کا نہ ہونا اور اگر کائنات کا تخلیق ہونا اہم ہے تو پھر سب سے اہم اس سوال کا فلسفیانہ جواب تلاش کرنا ہے کہ کائنات اگر ہے تو پھر کیسے ہے؟ کیا کائنات میں خالق اور مخلوق کی دوئی موجود ہے؟ کیا مادہ ہمیشہ سے موجود ہے؟ اگر مادہ ہمیشہ سے موجود ہے تو وہ کیسے مکشوف ہوا اور کیسے اپنے اوصاف اور متعینات کو آشکار کر پایا؟ کیا کائنات اپنی ’تخلیق‘ کے بعد اپنے ’خالق‘ سے حتمی طور پر الگ ہو گئی اور اب ایک خود مختار وجود کے طور پر موجود ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب اقبال نے ہیگلیائی فلسفے کی تقلید میں اپنے تیسرے لیکچر میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سوالات کے جوابات دیتے ہوئے اقبال روایتی اسلامی تخلیق ِ کائنات کے تصور سے ماورا ہو جاتے ہیں۔ اقبال تیسرے لیکچر میں کہتے ہیں،
”متناہی ذہن کائنات کو اپنے بالمقابل دوسرا وجود سمجھتا ہے جسے ذہن جانتا تو ہے مگر تعبیر نہیں کرتا۔ لہذا ہم مجبور ہیں کہ اسے تخلیقی فعلیت کا ماضی میں ہونے والا کوئی واقعہ سمجھیں اور کائنات ہمیں بنی بنائی شے نظر آتی ہے، جس کا کوئی نامیاتی تعلق تخلیق کرنے والے کی زندگی سے نہیں ہے اور بنانے والا سوائے تماشائی کے اور کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ خیالِ تخلیق کے متعلق تمام بے معنی دینیاتی بحثیں اس لامتناہی ذہن کی تنگ نظری سے پیدا ہوتی ہیں۔“
اس اقتباس میں اس دینیاتی رویے کی مذمت کی گئی ہے کہ خالق اور مخلوق دو الگ وجود ہیں، جن میں حتمی دوئی تشکیل پا چکی ہے۔یعنی کائنات کی تخلیق ایسا واقعہ ہے کہ جس کے بعد تخلیق خود خالق کے مدِ مقابل ایک خود مختار وجود کی مانند ہے جیسا کہ کسی وجود الف کے سامنے دوسرا وجود ب کھڑا ہے اور دونوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور ہم پورے وثوق سے یہ کہہ سکیں کہ یہ الف ہے اور یہ ب ہے۔ کائنات کی تخلیق کا یہی تصور ہے جسے ارسطو کے منطق کے پہلے قانون شناخت سے تقویت ملتی ہے اور جس پر متکلمین کی تمام باطل فکر کی بنیاد استوار ہے۔ اقبال مزید یہ لکھتے ہیں کہ
”وہ حقیقی سوال جس کا جواب دینا ہمارے لیے از بس ضروری ہے یہ ہے کہ کیا خدا کے لیے کائنات کی حیثیت وجود مقابل (Other) کی ہے اور ان دونوں میں مکان بعد کے طور پر حائل ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کے نقطہ نظر سے کوئی تخلیق مخصوص واقعہ نہیں ہے۔ جو پہلے یا بعد میں وقوع پذیر ہوا ہو۔ کائنات کوئی ایسی خود منحصر حقیقت نہیں سمجھی جاسکتی، جو اس کے مدِ مقابل کھڑی ہے۔ مادے کا یہ تصور خدا اور دنیا دونوں کو دو ایسے وجود بنا دے گا جو لامتناہی مکان کے خلا میں ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہوں گے۔“
اگر کائنات اور خدا مدِ مقابل نہیں ہیں تو پھر ان کے درمیان تعلق کی نوعیت کو جاننا ضروری ہے۔ تخلیق کا عمل کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے جس سے کہ خالق الگ ہو چکا ہو۔ یعنی تخلیق کا عمل ایک ہی واقعہ ہے جو دو علیحدہ وجودوں کے درمیان حتمی خلیج پیدا نہیں کرتا کہ اس خلیج کے بعد دونوں کو الگ سے بیان کرنا پڑے اور تخلیق میں ایسی کوئی بھی صفت موجود نہ ہو جو خالق میں موجود نہیں تھی۔ بلکہ تخلیق ایک ہی وجود کے داخلی انکشاف کا عمل ہے۔ اس عمل کی تفہیم کے لیے وجود اور عدم وجود کو ایک ہی وجود میں ممیز کرنا ضروری ہے۔ اگر انسان کوئی کمپیوٹر بناتا ہے تو وہ اسے اپنی ذہنی ساخت کے مطابق ڈھالتا ہے۔ کمپیوٹر کے اندر خیال کی بنتر موجود ہوتی ہے۔ اگر ہم یہ تصور کر لیں کہ خدا بھی وجود یا مادی جسم رکھتا ہے تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا وہ مادی جسم کائنات کے مادے سے الگ موجود رہ سکتا ہے؟ تاہم اگر ہم یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ خدا ایسا کوئی مادی یا انسانی جسم کا حامل وجود نہیں ہے تو یقیناََ وہ روح ہے اور روح کس جسم میں کیا مقام رکھتی ہے اس کی تفہیم تو کی جا سکتی ہے لیکن اس کا مشاہدہ ممکن نہیں ہے۔ اقبال کے نزدیک خدا کوئی جسم یا مادہ شے نہیں ہے۔ اقبال کے الفاظ میں ”حقیقت اساسی طور پر روح ہے۔“ مزید لکھتے ہیں کہ ”قرآن کے نزدیک حقیقت مطلق روحانی ہے۔“
اگر حقیقت روحانی ہے تو جسم اور روح کی دوئی کی باہم نفوذ پذیری بالکل ویسی ہی ہے جیسا کہ مافیہا کا تعلق اپنی بنتر کے ساتھ ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر صاحب برطانیہ میں مقیم فلسفے کے استاد اور اسی موضوع پر گرانقدر تصنیفات کے مصنف ہیں ۔
اقبال کی حقیقت کی تفہیم روحانی ہونا کا تجزیہ درست بھی ہے اور نادرست بھی درست اس طرح کہ روح الگ سے ایک وجود ہے باقاعدہ وہ خالق کی روح نہیں بلکہ خالق کی ایک مخلوق ہے الگ سے اور اسی روح سے سب انسانوں اور فرشتوں کو بھی روح ملی اور اسکی قسمیں بھی ہیں ارفع ترین حالت میں وہ روح القدس ہے یعنی جبرائیل ع اور ارزل ترین حالت میں وہ کتے کی روح ہے جنوں کو بھی روح ملی ہے انہیں بھی اچھے بھلے کی تمیز ہے اب رہا وجود کا مسلئہ تو خدا کی قدرت سے کوئی بعید نہیں جیسے روحانی مخلوق فرشتے انسانی روپ بدل سکتے ہیں اور جن بھی ایسے ہی خدا کبھی کسی مومن کا ہاتھ بن جاتا ہے اوں بن جاتا ہے اورعرش پر استواء ہوتا ہے لیکن مجیسمیہ کی طرح نہیں بلکہ اس کیفیت کو ہم نہیں جان سکتے وہ نور اور عظیم توانائی کی صورت بھی ہو سکتا ہے کہ اسکی ایک جھلک سے کوہ طور جل کر راکھ ہو جائے وہ کسی بھی صورت میں آ سکتا ہے چاھے تو نا ہی انسان میں حلول کرتا ہے اور نہ اسکی ذات میں تنزل ہوتا ہے بلکہ اسکے کلمہ کن سے یہ کل کائنات وقوع پزیر ہوئی اور کلمہ میں تنزل ہوا ہے اور وہ ارتقاء پاتے پاتے انسان اشرف المخلوقات میں تبدیل ہوا خود زات باری تعالی میں کوئی تنزل نہیں ہوا اور نا اسکی صفات میں کوئی شریک ہے انسان کو اسنے البتہ اپنے جیسی صفات عطا کی ہیں اور کوئی کامل انسان بھی خدا کی ودیعت کردہ صفات کو ترقی پہنچا کر کامل ہو سکتا ہے اور اسکی رحمت میں حقدار ہو سکتا ہے جہاں تک وحدت الوجود کی بات ہے یہ نا ممکن ہے اقبال وحدت الشہود سے متاثر تھے لیکن میں وحدت الخیال کا قائیل ہو ں کہ ایک یزدانی شعور ہے جس تک غور فکر کرنے والے کو رسائی مل سکتی ہے اسکو بھی غیب میں سے کچھ باتوں کا علم ہو سکتا ہے سچے خواب نظر آ سکتے ہیں بغیر کسی خارجی وجود کہ وہ حقیقت اولی کی معرفت بھی پا سکتا ہے اور کشف و کرامات بھی کر سکتا ہے وجود تو بس ایک پانی کا قطرہ ہے جو سمندر سے الگ ہو گیا ہے لیکن یاد یں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں اور خیال ہمیشہ رہتا ہے