Home » فقیہ امت علامہ یوسف القرضاوی رحمہ اللہ کے افکار ونظریات
اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار فقہ وقانون

فقیہ امت علامہ یوسف القرضاوی رحمہ اللہ کے افکار ونظریات

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

شیخ قرضاوی عالم اسلام میں بہت گہرا اور وسیع اثر و نفوذ رکھنے والے چند بڑے علماء میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کا ٹی وی پروگرام ‘الشریعة والحیاة’ عرب دنیا میں بہت ہی معروف پروگرام شمار ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس پروگرام کو سننے والے افراد کی تعداد تقریباًچار کروڑ ہے۔ اس پروگرام کو ‘الجزیرة’ ٹیلی ویژن نشر کرتا ہے۔ 2008ء میں ‘فارن پالیسی’ میگزین نے ان بیس افراد میں قرضاوی کو تیسرے نمبر پر رکھا جو دنیا بھر میں intellectuals کے طبقہ میں گہرا اور وسیع اثر ونفوذ رکھتے ہیں۔

8 مئی 2009ء کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب خاکے شائع کرنے والے ڈنمارک کے اخبار کا ایک نمائندہ قطر میں کسی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے آیا تو شیخ قرضاوی نے حکومت قطر پر کڑی تنقید کی کہ انہوں نے کیوں اس صحافی کو قطر میں داخلے کی اجازت دی۔ حکومت قطر نے بعد ازاں یہ کہہ کر معذرت پیش کی کہ انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ اس صحافی کا تعلق اس بدنام زمانہ اخبار سے ہے۔ مولانا ابو الحسن علی ندوی نے اپنی کتاب وسائل الأعلام میں شیخ قرضاوی کے عالم اسلام میں اثر و نفوذ کا تذکرہ کیا ہے اور ان کی مساعی و جدوجہد کی تحسین فرمائی ہے۔

ڈریم چینل کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ میں نے امام حسن البناء رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے بعد ازاں “الاخوان المسلمون” کی قیادت کی بھی پیشکش کی گئی لیکن میں نے ایک جماعت کی نسبت تمام امت کے لیے ایک روحانی پیشوا ہونے کو زیادہ پسند کیا۔ مجھے الاخوان سے محبت ہے اور میں انہیں صراط مستقیم سے نزدیک تر گروہ سمجھتا ہوں۔ شیخ قرضاوی کو دو مرتبہ الاخوان کی طرف 1976ء اور 2004ء میں صدارت اور قیادت کی پیشکش کی گئی لیکن انہوں نے اسے قبول نہ کیا۔

1949ء میں شاہ فاروق کے زمانے میں ان کو اخوان سے تعلق کی وجہ سے قید کیا گیا۔ اس کے بعد جمال عبد الناصر کے زمانے میں بھی انہوں نے تین دفعہ جیل کاٹی۔ پہلی دفعہ جنوری 1954ء میں جیل بھیجے گئے۔ کچھ ہی عرصہ بعد رہا ہوگئے لیکن نومبر 1954ء میں پھر تقریباً 20 ماہ کے عرصہ تک جیل میں رہے۔ تیسری مرتبہ 1963ء میں جیل بھیجے گئے۔

2003ء میں اسرائیلی افواج اور شہریوں دونوں پر خو-د کش حملوں کو جائز قرار دیا۔ ان کا فتویٰ یہ بھی تھا کہ اسرائیلی خواتین اور بچوں کا بھی خود کش حملوں میں قتل عام جائز ہے کیونکہ ان کے بقول اسرائیل کے شہری civilians بھی حربی کفار میں داخل ہیں اور اسرائیل ایک militarised society ہے۔ اسرائیلی بچوں کے بارے میں ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ بچے اسرائیلی ریاست کی تربیت کی وجہ سے بڑے ہو کر لازماً حربی کفار ہی بنیں گے، اس لیے اسرائیل میں کیے گئے خود کش حملوں میں ان یہودی بچوں کا قتل ہونا بھی جائز ہے۔

واضح رہے کہ قرضاوی صاحب کا خودکش حملوں سے متعلق یہ فتویٰ صرف اسرائیل کے بارے میں ہے اور ایسے حملوں کی اجازت وہ فلسطین اور اسرائیل کے علاقوں میں ہی دیتے ہیں۔ اس کے برعکس قطر میں ایک بم دھماکے کے بعد انہوں نے 20 مارچ 2005ء کو ایک فتویٰ جاری کیا جس کے مطابق انہوں نے اسلامی ممالک میں غیر مسلم شہریوں پر حملوں کی مذمت کی۔

14/ اپریل 2004ء کو ‘اسلام آن لائن’ پر شیخ قرضاوی کا یہ فتویٰ جاری ہوا کہ امر-یکی اور اسرا-ئیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکی اور اسرائیلی مصنوعات کی خریداری میں شامل ہمارا ایک ایک درہم اور دینار ہمارے ہی مسلمان بھائیوں کے سینوں میں گولیوں کی صورت میں واپس کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی اور اسرائیلی مصنوعات کی ایڈورٹائزنگ بھی مسلمانوں کے لیے شرعاً جائز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اس وقت دوسرا اسرائیل ہے اور امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مالی تعاون صیہونیت (Zoin-ism) کو مالی امداد فراہم کرنا ہے۔ شیخ یوسف قرضاوی کا کہنا یہ بھی ہے کہ جب امریکی کار کی موجودگی میں اسی معیار کی جاپانی کار موجود ہے تو پھر امریکی کار کو خریدنا کیسے شرعاً جائز ہو سکتا ہے؟ شیخ قرضاوی امریکی اور اسرائیلی مصنوعات کی خریداری کو گناہِ کبیرہ قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمان صیہونیت کے خلاف ہیں کہ جس کا اسرائیل مدعی ہے، نہ کہ ان یہودیوں کے خلاف جو اصل تورات پر ایمان رکھتے ہیں۔

شیخ قرضاوی نے مئی 2001ء میں اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کے قطر میں آمد پر کہا کہ ایریل شیرون کو قطر میں داخل نہیں ہونا چاہیے تھا اور جس شخص نے اس ظالم خونی سے مصافحہ کیا تو میں یہ کہتا ہوں کہ وہ اپنے ہاتھ ستر مرتبہ دھوئے۔ اسرائیل کے خلاف اس قدر سخت موقف کی بنا پر اسرائیل میں ان کے داخلے پر پابندی عائد ہے۔ اسی طرح 1999ء میں ان کے امریکہ میں داخلے پر بھی پابندی لگائی گئی اور 2008ء میں ان پر برطانیہ میں داخلے پر بھی پابندی لگادی گئی۔

شیخ قرضاوی اسلامی ریاست میں ذمیوں کے حقوق کے حامی ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اسلام عیسائیوں یا یہودیوں یا بت پرستوں کے ساتھ حسن سلوک سے منع نہیں کرتا بشرطیکہ وہ مسلمانوں سے جنگ کرنے والے نہ ہوں یعنی حربی کافر نہ ہوں۔

شیخ قرضاوی سے جب عراق میں امریکہ کے خلاف جہاد کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ یہ جہاد جائز ہے، بلکہ انہوں نے امریکی افواج کے خلاف مزاحمت کو اہل عراق اور پڑوسی مسلمانوں کے لیے فرضِ عین قرار دیا۔ اس کے بعد ان سے سوال ہوا کہ کیا یہ جہاد عراق میں موجود امریکی شہریوں سے بھی ہو گا؟ تو انہوں نے کہا کہ عراق میں کون سے امریکی شہری موجود ہیں؟ یعنی عراق میں تو سارے امریکی حربی کفار ہیں کیونکہ وہ جنگ ہی کے لیے وہاں آئے ہیں۔ اس فتویٰ پر تبصرہ کرتے ہوئے خلیج کے معروف اخبار ‘الشرق الأوسط’ نے یہ خبر لگائی کہ قرضاوی کے نزدیک امریکی شہریوں کو قتل کرنا جائز ہے اور ان کے نزدیک قتال بھی فرضِ عین ہے۔ شیخ قرضاوی نے اس اخبار کے بیان کے بعد اپنے موقف کی دوبارہ وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یہ فتویٰ نہیں دیا کہ امریکی شہریوں کو قتل کرنا جائز ہے بلکہ انہوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ عراق میں کون سے امریکی شہری موجود ہیں؟ یعنی ان کا فتویٰ یہی ہے کہ حربی امریکی کو قتل کرنا جائز ہے، البتہ اس میں اختلاف ہو سکتا ہے کہ عراق میں سارے حربی امریکی ہیں یا کچھ شہری بھی ہیں؟ پس قرضاوی صاحب نے عراق میں موجود تمام امریکیوں کو حربی قرار دیا ہے جیسا کہ وہ اسرائیلیوں کو حربی قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح قتال فرضِ عین کے بارے میں انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے فتویٰ میں قتال کا لفظ استعمال نہیں تھا بلکہ میں نے مقاومت یعنی امریکی افواج کے خلاف ہر قسم کی مزاحمت کو ہر مسلمان کے لیے فرضِ عین قرار دیا تھا۔

معروف سعودی عالم دین شیخ عبد اللہ بن جبرین کے ایک فتویٰ’ کہ مسلمانوں کے لیے ایرانی شیعہ جماعت حزب اللہ کے لیے دعا کرنا یا اس کی مدد کرنا جائز نہیں ہے، کے جواب میں شیخ قرضاوی نے اسرائیل کے خلاف برسر پیکار شیعہ جماعت حزب اللہ کی حمایت اور امداد کرنے کا فتویٰ جاری کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کافر اور ظالم اسرائیلی یہودیوں کے خلاف برسر پیکار کلمہ گو بدعتی اہل تشیع کے ساتھ تعاون کرنا جائز اور حکمت کا تقاضا ہے۔

شروع میں انہوں نے افغانستان میں بدھا کے مجسمے گرانے پر طالبان پر تنقید کی تو انہیں بت پرست ہونے کے طعنے بھی دیے گئے۔ بعد ازاں طالبان کے ایک وفد سے ملاقات کے بعد انہوں نے اپنے اس موقف پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے تبدیل کر لیا۔

شیخ قرضاوی پر معاصر جہاد کی بابت ان کے ایک فتویٰ پر علمائے اسلام کی طرف سے شدید تنقید ہوئی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں شیخ قرضاوی نے کہا تھا کہ امریکی فورسز میں ملازم مسلمان امریکیوں کے لیے امریکی عتاب سے اپنی جان بچانے کی خاطر امریکی فورسز کے ساتھ مل کر افغانستان کے مسلمانوں سے قتال جائز ہے۔ معروف عالم دین اور داعی اسلام صلاح الدین سلطان نے ان کا اس فتویٰ سے رجوع بھی نقل کیا ہے۔

شیخ قرضاوی نے فلسطینی صدر محمود عباس کی غزہ کی جنگ میں شرکت کے ثابت ہونے پر اسے رجم کرنے کا فتویٰ جاری کیا، جس کے جواب میں محمود عباس کی وزارتِ اوقاف کے ائمہ مساجد نے اپنے خطباتِ جمعہ میں شیخ قرضاوی پر خوب چڑھائی کی۔

اکتوبر 2004ء میں دنیا کے تقریباً 2500 کے قریب روشن خیال مسلمان مفکرین نے شیخ قرضاوی کے خلاف ایک قرارداد پاس کرتے ہوئے انہیں ‘شیخ الموت’ قرار دیا اور ان پر بنیاد پرستی اور عدم برداشت کا الزام عائد کیا۔

شیخ قرضاوی نے سگریٹ اور تمباکو نوشی کو خبائث میں سے قرار دیتے ہوئے اسے حرام کہا ہے۔ انہوں نے اس کی حرمت کی بنیاد مال کو آگ لگانا اور صحت انسانی کو نقصان پہنچانا بنایا ہے۔ ڈاکٹر قرضاوی کا کہنا یہ ہے کہ یہ کسی فقیہ یا مفتی کا کام نہیں ہے کہ وہ یہ بتلائے کہ تمباکو یا سگریٹ نوشی انسانی صحت کے لیے مفید ہے یا ضرر رساں بلکہ یہ ڈاکٹرز اور میڈیکل سائنس کے علماء کا منصب ہے اور اطباء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمباکو نوشی انسانی صحت کے لیے مضر ہے اور کئی ایک موذی امراض کا سبب ہے لہٰذا یہ حرام ہے کیونکہ شریعت ِاسلامیہ میں ہر ایسی شے حرام ہے جو انسانی صحت کے لیے مضر ہو۔ پس ”وَلَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ” کے حکم قرآنی کے مطابق تمباکو نوشی حرام ہے۔ اسی طرح حکم قرآنی ”وَلَا تُسْرِفُوْا” کے مطابق بھی تمباکو نوشی حرام قرار پائے گی کیونکہ قرآن نے اسراف کو حرام قرار دیا ہے اور تمباکو نوشی مال کو آگ لگانے کے مترادف ہے لہٰذا حرام ہے۔ انہوں نے حدیث مبارکہ ”لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ” یعنی نہ تو ضرر اٹھاؤ اور نہ ہی کسی کو ضرر پہنچاؤ’ سے بھی اس کی حرمت پر استدلال کیا ہے۔

اسلامک بینکنگ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں شیخ قرضاوی نے کہا کہ اسلامک بینکنگ کا تجربہ نظریاتی میدان سے عملی میدان کی طرف ایک اچھی پیش رفت اور وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ایک دور تھا جس میں یہ سوچنا یا کہنا بھی ناممکن تھا کہ بینک کا ادارہ سود کے بغیر بھی چل سکتا ہے۔ اس کے بعد ایک ایسا دور آیا جس میں بینک کے سود کی حرمت اور شناعت خوب اچھی طرح اجاگر ہوئی اور اسلامک بینکنگ کے بارے میں نظریاتی مباحث سامنے آنے لگے۔ اس کے بعد ایک تیسرا دور آیا جس میں عملاً اسلامی بینکنگ کا آغاز ہوا۔ انہوں نے کہا ابھی ہم تیسرے دور میں ہیں اور نہ ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں اور نہ ہی اسلامک بینک یہ کہتے ہیں کہ ان کی یہ بینکنگ سو فی صد اسلامی اور شرعی اصولوں کے مطابق ہے۔ شیخ قرضاوی کے مطابق ابھی چوتھا دور باقی ہے جس میں یہی اسلامی بینکنگ ممکن حد تک شرعی اصولوں کے مطابق ہو جائے گی۔ پس اس اعتبار سے موجودہ اسلامی بینکنگ حقیقی اسلامی بینکنگ کی طرف ایک مثبت پیش رفت ہے اور اس کی اس اعتبار سے حوصلہ افرائی ہونی چاہیے۔

انشورنس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جمہور فقہاء تجارتی اور لائف انشورنس کو ممنوع قرار دیتے ہیں اور میری رائے میں بھی یہ ممنوع اور ناجائز ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مفکرین علماء اور سیاسی رہنماؤں کے مجسمے سڑکوں گھروں یا عوامی مقامات پر نصب کرنا حرام ہے اور اگر یہ مجسمہ کسی ایسے شخص کا ہو جس سے کسی قسم کی عقیدت یا تعظیم بھی وابستہ ہو تو اس کی حرمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ صرف بچوں کے کھلونے اس سے مستثنیٰ ہیں۔

غیر مسلم مغربی اور یورپین ممالک میں رہائش پذیر ہونے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں یہ رہائش اختیار کرنا چند شرائط کے ساتھ جائز ہے اور اگر مسلمانوں کے لیے ان علاقوں میں رہائش پذیر ہونا مطلقاً حرام ہوتا تو وہاں اسلام کیسے پھیلتا؟ یا پھیلے گا؟ شیخ قرضاوی نے کہا کہ جو مسلمان مغربی معاشروں میں اپنے، اپنے بچوں اور اپنے خاندان کے دین کی حفاظت نہیں کر سکتے تو انہیں مسلمان ممالک کی طرف واپس ہجرت کر جانی چاہیے۔

اہل کتاب کی عورتوں سے شادی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ اہل کتاب کی عورتوں سے شادی جائز ہے۔ بعض حنفی علماء نے اس مسئلے میں حربی اور غیر حربی عورتوں کا فر ق بھی کیا ہے۔ شیخ قرضاوی نے اس فرق کی تحسین کرتے ہوئے اس رائے کو اختیار کیا ہے کہ حربی یہودی یا عیسائی عورت سے شادی جائز نہیں ہے، چاہے وہ پاکدامن ہی کیوں نہ ہو جبکہ غیر حربی پاکدامن عورت سے شادی جائز ہے۔ شیخ قرضاوی نے اسرائیلی یہودی عورت سے شادی مطلقاً ناجائز قرار دی ہے کیونکہ ان کی نظر میں اسرائیل میں سب حربی کفار ہیں۔

امریکہ میں مردوں کی امامت کروانے والی بدنام زمانہ خاتون امینہ ودود کے فتنہ کے پیدا ہونے کے بعد عورتوں کی امامت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ میں پہلی دفعہ اس خاتون نے یہ کام کیا ہے کہ مردوں کو امامت کروائی ہے اور جمعہ کا خطبہ بھی دیا ہے۔ انہوں نے کہا فرائض اورجمعہ کی نماز کی امامت صرف مردوں کے لیے ہے۔ ہاں! اگر صرف عورتیں ہوں جیسا کہ تروایح وغیرہ کی نماز ہے تو وہاں عورت بھی امامت کروا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آٹھوں مذاہب و مسالک کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت کے لیے فرائض کی امامت جائز نہیں ہے۔

شیخ قرضاوی نے ایک سوال کے جواب میں عورت کے لیے ہاتھ، پاؤں اور چہرے کے علاوہ سارے جسم کو ستر قرار دیا ہے اور اس کے ڈھانپنے کو واجب اور اس کے دیکھنے کو حرام کہا ہے لیکن ان کے بقول عورت کا چہرہ اس کے ستر میں داخل نہیں ہے لہٰذا عورت کے لیے اپنا چہرہ کھلا رکھنا جائز ہے۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص اتفاقاً یا کبھی کبھار کسی عورت کے ہاتھ، پاؤں یا چہرے پر بغیر شہوت کے نظر ڈال لیتا ہے تو ایسی نگاہ بھی جائز ہے لیکن اگر اس میں شہوت یا تلذذ شامل ہو جائے تو اس کا دیکھنا بھی جائز نہ ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام میں جس نظر سے منع کیا گیا ہے وہ کسی عورت کے ہاتھ، پاؤں یا چہرے پر ایسی نظر ڈالنا ہے جو مسلسل ہو یا بار بار ہو یا دیدے پھاڑ کر دیکھنا ہو یا شہوت کے ساتھ ہو یا فتنہ پیدا کرنے والی ہو۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ عورت کے چہرے پر مسلسل یا تکرار کے ساتھ نظر ڈالنا شہوت اور فتنے کا سبب ہے لہٰذا ممنوع ہے۔ ایسی نظر کے بارے میں شیخ قرضاوی شاعر کا قول نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:
نظرة فابتسامة فسلام
فکلام فموعد فلقاء
”پہلے نظر پڑتی ہے’ پھر مسکراہٹ کا تبادلہ ہوتا ہے اور پھر سلام دعا ہوتی ہے۔ پھر گفتگو کا دور چلتا ہے پھر تاریخ (date) طے ہوتی ہے اور پھر ملاقاتیں شروع ہو جاتی ہیں۔” تنہائی کی ان ملاقاتوں کے بعد کیا ہوتا ہے، اسے بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

عورت کا اپنے گھر والوں کی اطلاع اور مرضی کے بغیر اپنے کسی عاشق یا دوست سے نکاح کر لینے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ طرز عمل درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں ایسے نکاح کو پسندیدہ قرار دیا گیا ہے جس میں عورت کی رضامندی بھی حاصل ہو اور اولیاء کی بھی۔ کسی بھی نکاح میں دونوں کی رضامندی شرعاً مطلوب ہے لہٰذا نکاح میں لڑکی اور ولی دونوں کی رضامندی ہونی چاہیے۔ انہوں نے ایک ایسی لڑکی کو جو اپنے اولیاء کی مرضی کے بغیر کسی شخص سے نکاح کرنا چاہتی تھی اور اس سے نکاح کرنے کا معاہدہ بھی کر چکی تھی، نکاح سے روک دیا اور اپنے اولیاء کی مرضی کے بغیر لڑکی کے اس تصرف کو باطل قرار دیا۔

جہاد سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جہاد کی سب سے پہلی قسم وہ جہا-د ہے جو مسلمان اُمت میں مغربی استعمار کے باقیات اجنبی حکمرانوں سے آزادی کے لیے ہونا چاہیے۔ جہاد کی دوسری قسم انہوں نے کشمیر، عراق اور شیشان وغیرہ جیسے مقبوضہ علاقوں میں جہاد کو قرار دیا جس میں غیر مسلم حکمرانوں سے مسلمان معاشروں کو آزاد کروانے کے لیے جہاد کرنا ایک دینی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا جہاد کی ایک قسم اقتصادی جہاد بھی ہے اور اس سے مراد امریکی اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ ہے۔ ان کے نزدیک موجودہ حالات میں امریکی اور اسرائیلی مصنوعات کا استعمال حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔
۔
بینکوں کے سود سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بینکوں کا سود حرام ہے اور اس کا اپنی ذات کے لیے استعمال کرنا بھی حرام ہے لیکن اس سود کو بینک کے پاس چھوڑنا بھی حرام ہے کیونکہ یہ برائی میں تعاون اور سودی بینکنگ کو تقویت دینے کا باعث بنتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ غیر مسلم ممالک میں سودی بینکوں میں سود چھوڑنے کی حرمت تو کئی گنا بڑھ جاتی ہے کیونکہ کئی ایک مغربی ممالک کے بینک مسلمانوں کی چھوڑی ہوئی سودی رقم عیسائی مشنریوں کو دے دیتے ہیں اور مسلمانوں کا چھوڑا ہوا یہی سود مسلمانوں ہی کو عیسائی بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اپنی رقوم پر بینکوں سے سود وصول کرنے کے بعد اسے غرباء، یتیموں، مساکین، اسلامی مراکز کی تعمیر، دعوت اسلامی کے کاموں، اسلامی کتابوں اور لٹریچر کی نشرو اشاعت اور دیگر خیراتی کاموں میں لگا دینا چاہیے۔ انہوں نے اس فتویٰ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ مال کمانے والے کی نسبت سے خبیث اور حرام ہوتا ہے نہ کہ فی نفسہ حرام ہے۔ یعنی بعض اشیاء فی نفسہ یا بذاتہ حرام ہیں جیسا کہ شراب اور سور وغیرہ جبکہ بعض اشیاء اصلاً تو حلال ہیں لیکن کسی خارجی سبب سے حرام ہوئی ہیں جیسا کہ سود کی رقم۔ رقم یا مال بذاتہ حلال شے ہے لیکن ایک خارجی سبب سے حرام ہو گیا ہے اور وہ سبب کمانے والا کا حرام فعل ہے۔ پس جب وہ سبب نہ رہے گا تواس کا حکم بھی نہ رہے۔ لہٰذا سود کا مال اس کے کمانے والے کے لیے تو اس کے فعل حرام کی وجہ سے حرام ہے لیکن کسی دوسرے کے لیے اس کی نسبت تبدیل ہوجانے سے یہ اپنی اصل یعنی حلت کی طرف لوٹ آئے گا۔

ان کے نزدیک سودی بینکوں سے حاصل ہونے والے سود کی چار صورتیں ممکن ہیں: ایک یہ کہ انسان یہ سودی رقم اپنی ذات کے لیے استعمال کر لے اور یہ حرام ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ سودی رقم بینکوں کے پاس رہنے دے اور یہ بھی حرام ہے کیونکہ یہ برائی میں تعاون اور سودی نظام کو تقویت دینا ہے۔ تیسرا یہ کہ اس مال کو لے کر آگ لگا دے اور یہ بھی جائز نہیں ہے کیونکہ اتلافِ مال شرعاً جائز نہیں ہے۔ چوتھی صورت اس کی یہ نکلتی ہے کہ اس مال کو خیر کے کاموں میں لگا دے اور اسی کے وہ قائل ہیں۔

اہل تشیع سے متعلق ایک سوال کے جواب میں شیخ قرضاوی نے اثنا عشریہ یا امامیہ فرقہ کو ایک بدعتی فرقہ قرار دیا ہے اور انہیں فرقہ ناجیہ سے خارج کہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اہل تشیع کی تکفیر کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک اہل تشیع کے محققین کتاب اللہ کو مکمل کتاب مانتے ہیں اور کلمہ گو ہیں لہٰذا اہل تشیع کافر نہیں ہیں۔ شیخ قرضاوی کا کہنا یہ ہے کہ اہل تشیع کے بارے میں یہ اہل سنت کا مجمع علیہ عقیدہ ہے کہ وہ انہیں بدعتی فرقوں میں تو شمار کرتے ہیں لیکن بطور فرقہ کافرقرار نہیں دیتے۔ اہل تشیع کو بدعتی قرار دینے پر ایرانی علماء نے ان پر شدید نکتہ چینی کی ہے کیونکہ شیخ عالم اسلامی کے اتحاد کے لیے قائم کی جانے والی عالمی مجلس کے صدر بھی ہیں۔ شیخ قرضاوی عقائد میں اشعری مسلک کی طرف میلان رکھتے ہیں اگرچہ بعض مسائل میں اشعریہ پرنقد بھی کرتے ہیں۔

2008ء میں شیخ قرضاوی نے ادویات اور اشیائے خوردونوش میں 0.5 فی صد الکوحل کے استعمال کو جائز قرار دیا کیونکہ ان کے بقول اتنی کم مقدار میں الکوحل کا استعمال بطور اجزاء (ingredients) کے نہیں ہوتا بلکہ تخمیر (fermentation) کے لیے ہوتا ہے۔ اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ، معروف سعودی عالم دین شیخ صالح العثیمین اور سعودی عرب میں کبار علماء کی فتویٰ کمیٹی کا بھی یہی موقف ہے۔

شیخ قرضاوی فرشتوں، جنات، عرش، کرسی، عذابِ قبر، پل صراط، میزان، حوضِ کوثر، نزولِ عیسیٰ، خروجِ دجال، آمد مہدی، معجزات، کرامات اور قیامت کی دیگر نشانیوں پر ایمان رکھتے ہیں اور ان مسائل میں ان کا وہی عقیدہ ہے جو جمہور اہل سنت کا ہے۔ شیخ قرضاوی کتاب کھول کر یا لائنیں کھینچ کر استخارہ نکالنے کو حرام قرار دیتے ہیں۔ وہ قبر پرستی، تعویذ گنڈا، ارواح کو حاضر کرنے، غیر اللہ کی قسم اٹھانے، غیر اللہ کے لیے نذر ماننے یا ذبح کرنے کی بھی مذمت کرتے ہیں۔

شیخ قرضاوی فلاسفہ، معتزلہ، غالی صوفیاء، اہل تشیع امامیہ اور خوارج کی مذمت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ حلول، اتحاد، خرافات اور بدعات پر مشتمل تصوف کے حامی نہیں ہیں لیکن قرآنی اور نبوی منہج کے مطابق سنی تصوف کے وہ قائل ہیں کہ جس کے شیوخ حضرت حسن بصری، فضیل بن عیاض، ابراہیم بن ادھم اور جنید بغدادی رحمہم اللہ وغیرہ تھے۔ شیخ قرضاوی فضائل اعمال میں ضعیف احادیث سے استفادہ کے قائل ہیں لیکن حلال وحرام میں نہیں۔

شیخ قرضاوی حدیث و سنت کی حجیت کے قائل اور پرزور مدعی ہیں لیکن سنت کے بارے میں ان کا موقف یہ ہے کہ سنت دو قسم کی ہے، ایک تشریعی یعنی جو ہمارے لیے شریعت ہے اور ایک غیر تشریعی ہے یعنی جوہمارے لیے شریعت نہیں ہے جیسا کہ طب سے متعلقہ احادیث ہیں۔ انہوں نے احکام سے متعلقہ بعض احادیث کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے ساتھ خاص قرار دیا ہے جیسا کہ گھوڑوں میں زکوٰة نہ ہونے کی روایت کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لیے تھی اور آج گھوڑوں میں زکوٰة ہو گی۔

شیخ قرضاوی جمہوریت کے قائل ہیں لیکن وہ مغربی جمہوریت کے ناقد ہیں۔ مغربی جمہوریت کو اسلام کے مطابق بنانے کے لیے جو شرائط وہ تجویز کرتے ہیں، اس کے بعد وہ جمہوریت اسلام کا شورائی نظام بن جاتی ہے، اگرچہ قرضاوی اسے پھر بھی جمہوریت ہی کا نام دیتے ہیں۔ بعض اہل علم نے ان پر اس پہلو سے تنقید کی ہے کہ وہ جمہوریت کے قائل ہیں۔ شیخ قرضاوی کے دفاع میں بعض دوسرے اہل علم کا کہنا یہ بھی ہے کہ شیخ نے جمہوریت کو مسلمان بنانے کے لیے جو شرائط عائد کی ہیں، ان کی روشنی میں اسلام کے شورائی نظام اور شیخ قرضاوی کی پیش کردہ جمہوریت میں سوائے نام کے کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔

شیخ قرضاوی اضطراری حالت اور فتنے کے پیدا نہ ہونے کی صورت میں کسی مرد کے عورت کے ساتھ مصافحہ کو جائز سمجھتے ہیں۔

شیخ قرضاوی نے موجودہ زمانے میں ہوائی جہاز کے سفر کے پرامن ہونے کی وجہ سے عورت کے لیے بغیر محرم کے حج اور عمرہ کو جائز قرار دیا ہے اور اس فتوی ٰکی بنیاد اس مشہور روایت کو بنایا ہے جس میں اس چیز کا تذکرہ ہے کہ ایک عورت صنعاء سے مدینے تک اکیلی سفر کرے گی اور اسے کسی چیز کا خوف اور ڈر نہ ہو گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن بغیر محرم کے حج اور عمرہ کر لیتی تھیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم ان پر نکیر نہ فرماتے تھے لہٰذا سفر کے پر امن ہونے کی صورت میں عورت کے لیے اکیلے حج اور عمرہ جائز ہے۔ اسی سے ملتا جلتا فتویٰ مالکیہ اور شوافع کے ہاں بھی موجود ہے ۔

شیخ قرضاوی نے علم نافع اور عمل صالح کے حصول کی خاطر مردوں اور عورتوں کے اختلاط کو چھ عدد شرائط کے ساتھ جائز اور شرعی مطلوب قرار دیا ہے۔ اسی طرح شیخ قرضاوی نے موسیقی سننے کو بھی جائز قرار دیا ہے اور اس کے حرام کہنے والوں کے دلائل پر نقد پیش کیا ہے۔

شیخ قرضاوی نشے اور شدید غصے کی حالت میں طلاق کے معاملے میں کہ جس میں انسان اپنے حواس سے باہر ہوجائے، ان فقہاء کے قول کو اختیار کرتے ہیں جو ان حالات میں طلاق کے قائل نہیں ہیں۔ اسی طرح وہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کرتے ہیں اور طلاق کے اکثر مسائل میں امام ابن تیمیہ کے مسلک کو ترجیح دیتے ہیں۔

شیخ قرضاوی پر نقد کرنے والوں میں کئی طرح کے لوگ ہیں۔ پہلے نمبر پر تو سلفی ہیں جو شیخ قرضاوی کو اشعریت کی طرف میلان، اہل تشیع کی تکفیر نہ کرنے، حجاب کے بارے میں نرم موقف اختیار کرنے اور فتویٰ کے اجراء میں تساہل اور سہولت کا منہج اختیار کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ شیخ سلیمان بن صالح الخراشی نے ‘القرضاوی فی المیزان’ کے نام سے ایک کتاب شیخ قرضاوی کی توصیف اور تردید میں لکھی ہے۔ ہم نے اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے اور صاف نظر آتا ہے کہ اکثر مقامات پر شیخ قرضاوی پر الزامات لگاتے ہوئے ان کی عبارتوں سے کھینچ تان کر وہ مفہوم برآمد کیا گیا ہے جوشاید شیخ قرضاوی کی مراد نہ ہو۔ بعض مقامات پر شیخ سلیمان کی نقد درست بھی ہے جیسا کہ انہوں نے کہا ہے کہ شیخ قرضاوی جنات کے وجود کے تو قائل ہیں لیکن انسانوں پر جنات کے وارد ہونے یا انسانوں کی زبانی جنات کے کلام کرنے یا انسانوں پر جنات کے غالب آنے کے انکاری ہیں حالانکہ یہ بات صحیح روایات اور مشاہدے سے ثابت ہے۔

جہادی تنظیمیں، امریکی افواج میں شامل مسلمان فوجیوں کے افغانستان میں لڑنے کو جائز قرار دینے کے حوالے سے شیخ قرضاوی کے فتویٰ پر نقد کرتی ہیں۔ ہم نے شیخ قرضاوی کے اس تفصیلی فتویٰ کا مطالعہ کیا ہے اور ہمارے خیال میں شیخ قرضاوی کا یہ فتویٰ اس قابل نہیں ہے کہ اسے کوئی علمی رائے قرار دیا جا سکے چہ جائیکہ اس کی اتباع کی جائے کیونکہ نہایت ہی سطحی دلائل پر اس فتویٰ کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اگر تو شیخ قرضاوی کا اس فتویٰ سے رجوع ثابت ہے جیسا کہ بعض اہل علم نے نقل کیا ہے تو یہ فتویٰ اسی قابل تھا کہ اس سے رجوع کیا جاتا اور اگر ایسا رجوع ثابت نہیں ہے تو اس فتویٰ پر نقد وقت کا ایک اہم تقاضا ہے۔

غالی صوفیاء، قبر پرستی، غیر اللہ کے لیے نذر و نیاز، غیر اللہ کے ذبح کرنے وغیرہ کے خلاف فتویٰ دینے کی وجہ سے شیخ قرضاوی کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں۔ ہمیں ان مسائل میں تصوف کے نام پر شرک وبدعات اور خرافات کو رواج دینے پر شیخ قرضاوی کی تنقید سے اتفاق ہے۔

ایرانی علمائے اہل تشیع، شیخ قرضاوی کو امامیہ فرقہ کو بدعتی اور فرقہ ناجیہ سے خارج قرار دینے پر تنقید کرتے ہیں۔

مسلمان معاشروں میں رہائش پذیر سیکولر طبقہ شیخ قرضاوی کے جہا-د اور تحریک سے متعلقہ فتاویٰ کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے انہیں شدت پسند اور بنیاد پرست قرار دیتا ہے۔

مغربی مفکرین صیہونیت، اسرائیل اور امریکہ کے حوالے سے شیخ قرضاوی کے بیانات کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں۔

شیخ قرضاوی کے فتاویٰ، کتب اور دینی خدمات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بلاشبہ اپنے علم وفضل کی وجہ سے مجتہد کے درجہ پر فائز ہیں اگرچہ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ان کے ساتھ کسی مسئلے میں اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ اہل علم نے ان کے بعض فتاویٰ پر نقد کی ہے اور ہمارے خیال میں یہ نقد ایسی ہی ہے جیسا کہ امام شافعی امام ابوحنیفہ پر اور امام محمد امام مالک رحمہم اللہ پر کرتے ہیں۔ ایسی نقد میں اگر گروہی عصبیت، مذہبی تنافر، شخصی تذلیل نہ ہو اور یہ باہمی افہام وتفہیم کے لیے ہو تو یہ شریعت کا مطلوب و مقصود ہے۔ کسی ایک عالم دین پر دوسرے عالم دین کی نقد کا یہ لازمی مطلب نہیں ہوتا کہ وہ عالم دین کوئی متنازع شخصیت بن گیا ہے۔ اگر کسی عالم دین پر کسی دوسرے عالم دین کی نقد ہونے کو اس کے متنازع ہونے کی دلیل بنا لیا جائے تو عالم اسلام میں چودہ صدیوں میں کوئی ایک بھی ایسا عالم دین نہ گزرا ہو گا جو متنازع نہ ہو یا جس کی آراء سے دوسرے اہل علم کو اختلاف نہ رہا ہو۔

ہم شیخ قرضاوی کی علمی، فقہی، دعوتی، تحریکی اور تدریسی خدمات کی قدر اور تحسین کرتے ہیں اور ان کی شاذ آراء میں مثبت علمی مکالمے اور مباحثے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں شیخ قرضاوی کو بعض فتاویٰ کے اجراء میں تساہل یا تشدد کی وجہ سے ان پر متجدد یا بنیاد پرست کا لیبل لگانادرست نہیں ہے بلکہ وہ ہر مسئلے میں اعتدال کی تلاش کے خواہش مند رہتے ہیں۔

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر دینی علوم کے معروف اسکالر ہیں اور رفاہ یونیورسٹی لاہور میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔

mzubair.is@riphah.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں