ڈاکٹر زاہد مغل
ایک دوست نے پوچھا کہ کیا غامدی صاحب معتزلی فکر سے تعلق رکھتے ہیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ فطرت کو بعض حکم شرعی و اخروی مواخذے کی دلیل مانتے ہیں؟
تبصرہ:
اسی نوعیت کا ایک سوال علم کلام پر ہونے والی ورکشاپ میں بھی پوچھا گیا تھا۔ اصولی بات یہ ہے کہ متعلقہ دلیل غامدی صاحب کو معتزلی اپروچ کا پروردہ ثابت کرنے کے لئے ناکافی ہے۔ اس سوال کا جواب اس پر منحصر ہے کہ وہ اصلح للعباد اور اس پر مبنی جزیات کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ اس حوالے سے جو متعلقہ سوالات ہیں، انہیں ہم ترتیب دئیے دیتے ہیں، اگر غامدی صاحب ان کے جواب عنایت فرمائیں تو ان کا موقف سمجھا جاسکتا ہے۔
1۔ کیا صرف عقل و فطرت سے انسان پر کسی حکم کا شرعی وجوب لازم آتا ہے؟ بالفاظ دیگر اگر ایک بندے تک نبی کی دعوت نہ پہنچے، تو کیا اس کے کسی عمل پر آخرت میں مواخذہ و عذاب ہو گا؟ معتزلہ اور ماتریدیہ کے ایک گروہ کے نزدیک جواب اثبات میں ہے۔
ہماری معلومات و فہم کی حد تک غامدی صاحب کا جواب اثبات میں ہے، یعنی جس شخص تک نبی کی خبر نہیں پہنچی اس پر بعض اخلاقی امور کی تکلیف قائم ہونے کے وہ عقل و فطرت کی بنیاد پر قائل ہیں۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہمیں اس تکلیف کا علم فلاں نص سے ہوا کیونکہ جس شخص تک وحی پہنچی ہی نہیں اس پر قائم ہونے والی تکلیف نص کی بنا پر نہیں ہوسکتی بلکہ ماننا ہوگا کہ اس کا ماخذ عقل و فطرت کے حقائق ہیں۔
2۔ کیا بندوں کی خیر خواہی و مصلحت کا لحاظ رکھنا خدا پر لازم ہے؟ معتزلہ کے نزدیک خدا پر “اصلح للعباد ” واجب ہے جبکہ ماتریدیہ کے نزدیک واجب نہیں۔
3۔ کیا خدا تمام انسانی افعال (خیر و شر) کا خالق ہے؟ معتزلہ کا کہنا تھا کہ اختیاری افعال کا خالق انسان خود ہے کیونکہ برے اعمال کو خدا کے ارادے کے تحت قرار دیتے ہوئے خدا کی مخلوق کہنے سے خدا پر شریر ہونے کا الزام آتا ہے۔ ماتریدیہ کے نزدیک تمام انسانی افعال خدا کے ارادے کے تحت ہیں اور وہ سب اعمال کا خالق ہے ۔
4۔ کیا خدا لطف و عوض کے بغیر بندوں کو ایذا و مصائب دے سکتاہے؟ مثلاً لوگوں پر زلزلہ و طوفان آتا ہے، قحط سالی ہوتی ہے وغیرہ جس سے بے گناہ انسان و بچے مصائب کا شکار ہوتے اور فوت ہوجاتے ہیں۔ معتزلہ کا کہنا تھا کہ لطف و عوض کے بغیر ایسا کرنا اصلح للعباد کے خلاف ہے اور عقل کی رو سے ایسا کرنا خدا کی شان عدل سے ماورا ہے۔ ماتریدیہ کے نزدیک یہ جائز ہے کیونکہ ممکن ہے اس میں خدا کی کوئی حکمت پوشیدہ ہو جو ہمارے علم میں نہ ہو۔
(لطف کا مطلب یہ کہ خدا کسی تکلیف کے ذریعے انسان کو نیکی کی توفیق دیتا یا برائی سے بچا لیتا ہے، عوض کا مطلب آخرت میں اس تکلیف کے بدلے اجر دینا ہے)
5۔ کیا عقل کی رو سے خدا پر نیک اعمال کا اجر ثواب و جنت کی صورت اور برے اعمال کا اجر عذاب و جہنم کی صورت دینا واجب ہے؟ معتزلہ کے مطابق ایسا کرنا اصلح للعباد کا تقاضا ہے اور اگر خدا ایسا نہ کرے تو یہ اس کی شان عدل و حکمت کے خلاف ہوگا۔ ماتریدیہ کے نزدیک یہ واجب نہیں۔
6۔ کیا خدا کافر کو ابدی جنت اور ایمان والے کو ابدی جہنم دے سکتا ہے؟ معتزلہ اور ماتریدیہ کے ایک گروہ کے مطابق نہیں دے سکتا کہ یہ اس کی شان عدل و حکمت کےخلاف ہوگا۔
واضح رہے کہ سوال یہ نہیں کہ “کیا وہ دے گا؟” نہ ہی یہ ہے کہ “نص میں کیا کہا گیا ہے؟”، سوال حکم عقلی کی رو سے یہ ہے کہ اگر وہ ایسا کرے تو کیا یہ اس کی شان عدل و حکمت کے خلاف ہوگا (یعنی کیا وہ ایسا کرنے سے منزہ ہے)؟
7۔ کیا خدا بندے کو ایسی تکلیف مالا یطاق دے سکتا ہے جس کے نقصان و تکلیف کا اسے عوض نہ دیا جائے یا جسے ادا نہ کرنے سے بندے کو عذاب ملے؟ (مثلا خدا انسان کو حکم دے کہ کے ٹو پہاڑ اٹھاؤ اور اسے اٹھاتے ہوئے انسان دب کر مر جائے۔ کیا یہ جائز ہے کہ خدا بندے کو اس تکلیف کا عوض نہ دے یا اسے نہ کرنے پر عذاب دے؟) معتزلہ کے نزدیک خدا کی حکمت دونوں صورتوں اور ماتریدیہ کے نزدیک دوسری صورت سے منزہ ہے۔
یہاں بھی سوال یہ نہیں کہ “کیا اس نے ایسی تکلیف دی؟”، سوال یہ ہے کہ کیا عقل کی رو سے ایسا کرنا اس کی شان عدل و حکمت کے منافی ہے؟
8۔ اگر اللہ تعالی کی شان بے نیازی لوگوں کو کفر کا حکم دے دیتی، تو کیا یہ حکم اس کی شان حکمت کے خلاف ہوتا؟ یہاں بھی سوال یہ نہیں کہ کیا اس نے ایسا حکم دیا بلکہ یہ ہے کہ کیا ایسا حکم دیا جانا ممکنات میں سے ہے؟ معتزلہ و ماتریدیہ کے نزدیک جواب نفی میں ہے۔
9۔ کیا ہدایت کے لئے نبی مبعوث کرنا اللہ تعالی پر بایں معنی واجب ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو اس کی شان حکمت پر زد پڑتی؟ معتزلہ و ماتریدیہ کی ایک جماعت کے نزدیک جواب اثبات میں ہے۔
چنانچہ سائل نے صرف پہلے مسئلے کی بنیاد پر انہیں معتزلی قرار دیا ہے جبکہ یہ طریقہ غلط ہے کیونکہ مسائل تحسین و تقبیح میں اعتزال صرف بدون وحی حکم شرعی کی تکلیف کا نام نہیں ہے بلکہ اصلح للعباد اور اس سے منسلک جزیات کا نام ہے۔
کمنت کیجے