ڈاکٹر تزر حسین
جوناتھن براؤن Jonathan A. C. Brown امریکہ کے جارج ٹاون یونیورسٹی میں اسلامک سٹڈیز کے پروفیسر ہیں۔ پروفیسر براؤن نے 1997 میں اسلام قبول کیا تھا اور وہ اسلام پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ پروفیسر براؤن کے مطابق غلامی کی خاتمے تحریک (abolitionist movement) کے بعد غلامی سے متعلق ہمارے اس دور میں جو بیانیہ ہے اسکے مطابق غلامی اپنے ذات میں ایک برائی (intrinsic Evil) ہے بلکہ غلامی انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم ہے۔ اس تحریک کے بعد مسلمانوں سمیت تمام مذاہب کے ماننے والوں کے سامنے غلامی سے متعلق ایک اخلاقی سوال پیدا ہوتا ہے۔ پروفیسر براؤن کے مطابق ہم بحثیت مسلمان جب قران اور حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس میں غلاموں اور لونڈیوں سے متعلق احکامات پڑھتے ہیں تو ہمارے سامنے یہی اخلاقی سوال کھڑا ہوجاتا ہے۔ اور ہم سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قران اور حدیث میں غلامی کی بات تو کی جارہی ہے لیکن اسکو ایک برائی یا حرام کام کے طور بیان نہیں کیا جاتا۔ اس صورتحال میں مسلمانوں کے ذہن میں اضطراب اور شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ اس سوال کا ایک عمومی جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اسلام غلام اور لونڈیوں کے ساتھ اچھے سلوک بلکہ انکی آزادی کی بات بھی کرتا ہے۔ لیکن یہ جواب اطمینان بخش نہیں کیونکہ اصل سوال یہ ہے کہ اگر سارے پیغمبر اخلاق کا اعلی نمونہ تھے تو انہوں نے غلام کیوں رکھے اور اس برائی کا خاتمہ کیوں نہیں کیا اور یہ کہ قران و سنت میں غلاموں کو رکھنے کی بات کیوں کی جارہی ہے؟ کیونکہ یہ بات مان لی گئی ہے کہ غلامی اپنے ذات میں ہر حال اور دور میں ایک برائی ہے اور جس نے بھی اس برائی کے ساتھ کمپرومائز کیا یا اسکو گوارا کیا اسکی اخلاقی حیثیت داغدار ہے۔ اہل مذہب نے اس سوال کا جواب مختلف طریقے سے دیا ہے۔ایک جواب تو یہ ہے کہ غلامی اسلام سے پہلے موجود تھی اور اسلام نے غلامی کا اغاز نہیں کیا بلکہ غلاموں کے بہت سارے حقوق متعین کیے اور معاشرے میں انکا مقام بلند کرنے کے لیے اقدامات کیے اور غلاموں کی ازادی کی ایک پوری تحریک چلائی۔ اس جواب پر جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ دین اگر اللہ کی طرف سے ہے اور پیغمبر تمام برائی کو ختم کرنے اتے ہیں تو اس نے اس برائی کا خاتمہ کیوں نہیں کیا۔ ایک دوسرا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ٹھیک ہے کہ یہ ایک برائی ہے اور اسلام نے غلاموں کی ازادی کی تحریک شروع کی اور دوسرے اقدامات کرکے غلامی کا راستہ روکا اور ہمیں ایک ایسے راستے پر ڈالا کہ اخرکار ہم اسکے خاتمے کے کی پوزیشن میں اجائینگے۔ اس جواب پر جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ یہ کہ اگر پیغمبر اس دنیا میں ائے کہ نیکی کو پھیلائے اور برائی کو روکے تو یہ انکی ناکامی ہے کہ وہ ایک بہت بڑی برائی کو ختم کرنے کے بغیر اس دنیا سے چلے گئے۔یعنی اگر ابراہم لنکن اسکوختم کرسکتا ہے تو پیغمبر اس برائی کو ختم کرنے میں کیوں ناکام رہے۔ اور دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر اسکو ایک دفعہ ختم کرنا ممکن نہیں تھا تو یہ تو کہا جاسکتا تھا کہ ٹھیک ہے ہم اسکو اس وقت ختم نہیں کرسکتے لیکن یہ ایک بہت بڑا جرم ہے اور اسکو جب ممکن ہو ختم کیا جائے۔ اسلام نے تو سود اور شراب وغیرہ کو بھی تو تدریجا ختم کیا لیکن شراب اور سود کو متعین طور پر حرام قراردیا گیا اور اس میں جو ملوث ہو اسکو گنہگار/مجرم بھی قرار دیا گیا۔ غلامی سے متعلق ایسے کوئی احکامات موجود نہیں اور یہ تمام پیغمروں اور مذاہب پر ایک بڑا سوال ہے خصوصا جبکہ اس دین کا دعوی ہے کہ اسکی تعلیمات ہر دور کے لیے ہیں۔ یہ اعتراض اور بھی اہم ہوجاتا ہے جب اسلام کا دعوی ہے کہ اس نے پچھلے احکام کو منسوخ کردیا اور اخری ہدایت ہے۔
پروفیسر براون کے مطابق یہ ایک مشکل صورتحال ہے جسکو وہ Slavery conundrum یا غلامی کا معمہ (یا الجھن) کہتے ہے۔ اس معمے کے بنیاد تین بنیادی نکات پر ہے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ غلامی اپنے ذات میں ہر دور اور حالت میں ایک برائی ہے اور ایک بڑا جرم ہے۔یعنی غلامی جس طرح اج ایک برائی ہے یہ دو یا تین یا چار یا پندرہ سو سال پہلے بھی ویسی ہی برائی تھی۔ جس طرح اج کسی کو غلام بنانا غلط ایسا ہی پہلے زمانے میں کسی کو غلام بنانا غلط تھا۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ غلامی اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ غلامی غلامی ہوتی ہے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمارے ماضی اور اس ماضی سے تعلق رکھنے والوں بڑے بڑے لوگوں کا ہمارے اوپر کسی نہ کسی صورت میں ایک اخلاقی برتری یا اتھارٹی حاصل ہے۔ ان تینوں نکات کو ایک وقت میں ماننا ناممکن ہے یعنی ان میں سے ایک نکتے سے لازما دستبردار ہونا پڑے گا۔ یعنی یا تو اپ غلامی کو ہر دور اور ہر حال میں برا ماننے سے دستبردار ہونگے یا یہ کہنے پر مجبور ہونگے کہ ہماری والی غلامی دوسری قسم کی غلامی سے بہتر تھی یا پھر یہ کہنے پر مجبور ہونگے کہ ماضی میں اگر کسی نے غلامی کو گوارا بھی کیا ہے اور غلام اور لونڈی بنانے کے پریکٹس میں شامل رہے ہیں انکو ہیرو یا اعلی شخصیت کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
پروفیسر براون کے مطابق اس معمے کا سامنا مسلمان سمیت تمام مذاہب کو ہے چاہے وہ عیسائیت ہو، یہودیت ہو، بدھ مت ہو یا کوئی غیر مذہبی فلسفیانہ تہذیب۔ براؤن کے مطابق اس صورتحال کے پیچھے اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں سولہویں صدی تک ایک بھی ایسی فلاسفیکل یا مذہبی روایت موجود نہیں جس نے کسی نہ کسی صورت میں غلامی کو قبول نہ کیا ہو اسکا دفاع نہ کیا ہویا اسکو اپنے ذات میں برائی (intrinsic Evil) قرار دیا ہو. براون اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ میں نے اس پر کافی ریسرچ کی ہے اور یہ بات میں بہت اعتماد سے کہتا ہوں کہ سولہویں صدی کے اوائل سے پہلے ایک بھی ایسا شخص یا تہذیب نہیں جس پر غلامی کا داغ نہ ہو۔ اب اگر ہم اپنے پہلے نکتے کی بات کریں تو ہم (چاہے مسلم ہو، ہندو ہویا عیسائی یا امریکی ہو) اپنے اپکو مجبور پاتے ہیں کہ غلامی کے تعلق سے اپنے تمام ماضی کو مسترد کردیں۔ سولہویں صدی سے پہلے تمام انسانی تہذیبیں غلامی کو اس طرح نہیں دیکھتی جس طرح اب ہم اسکو دیکھتے ہیں۔ اپ کسی بھی بڑے ادمی کی مثال لے لیں، ارسطو، افلاطون، سینٹ اگسٹن، بدھا، کوئی بھی پیغمبر ہو، سینٹ تھامس اور اسی طرج انسانی تاریخ میں بڑے بڑے نام لیتے جائے۔ ان میں سے اپکو کوئی بھی ایسا نہیں ملے گا جس نے یہ کہا ہو کہ غلامی اپنے ذات میں ایک برائی ہے، غلام بنانا ایک سنگین جرم ہے اور اس برائی کو ختم کردینا چاہیے۔ ان سب کے ہاں یہ بحث تو ملتی ہے کہ غلاموں کے ساتھ بدسلوکی نہ کی جائے انکے حقوق ہو اور انکے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور غلاموں کو ازاد کرنا چاہیے جسکی اپنی تفصیلات ہیں۔ لیکن پروفیسر براؤن کے مطابق ایک پادری کے استثنا کے علاوہ تاریخ میں ایسا کوئی نہیں ملتا جس نے کہا ہو کہ غلامی ایک intrinsic evil ہے۔
اب اس معمے کا سامنا صرف مذاہب کو نہیں بلکہ امریکہ میں رہنے والوں لوگوں کو بھی ہے جہاں غلامی کی خاتمے کی تحریک شروع ہوئی اور اس تحریک کے نتیجے میں غلامی کا باقاعدہ خاتمہ ہوا۔ اس معمے کی سب سے بڑی دلچسپ مثال امریکہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ تھامس جیفریسن امریکہ کے بانیوں میں سے ہے اور وہ declaration of independence کے لکھنے والے بھی ہے۔ امریکیوں کے لیے بالخصوص اور دنیا والوں کے لیے بالعموم یہ شخص ایک ہیرو کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وہ شخص ہے جس نے کہا تھا کہ تمام انسان برابر پیدا کیے گئے ہیں اور ازادی اور جمہوریت کے لیے اواز اٹھائی۔ امریکہ کے یونیورسٹی اف ورجینیا میں تھامس جیفریسن کا ایک مجسمہ نصب ہے کیونکہ اس نے اسی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ اب دلچسپ بات یہ ہے کہ 2017 میں ایک احتجاج ہوتا ہے کہ اس شخص کے مجسمے کو یونیورسٹی سے ہٹایا جائے کیونکہ اس نے غلام رکھے اور اس کی ایک باندی تھی جس سے اسکی اولاد بھی تھی۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق جیفریسن کے تقریبا 140 غلام تھے۔ وہ ان غلاموں کے ساتھ کیسے پیش ہوتے تھے اور انکا رویہ انکے ساتھ کیا تھا یہ الگ موضوع ہے۔ بہرحال احتجاج کرنے والوں کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ غلامی اپنے ذات میں ایک برائی ہے اور تاریخ کا سب سے بڑا جرم ہے اس لیے ہم کسی ایسے شخص کے مجسمے کو کیسے برداشت نہیں کرینگے جس نے غلام اور باندی رکھے۔ اب اس احتجاج کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ سامنے ائے اور ایک ایسی بات کہی جو صرف وہی کہہ سکتے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ جارج واشنگٹن نے بھی غلام رکھے، تو کیا اب اسکے ہر مجسمے اور یاد کو بھی ہٹایا جائے۔ اب امریکہ اور اسکے لوگوں کے لیے جارج واشنگٹن کی کیا اہمیت ہے اسکو بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ یعنی امریکیوں کے لیے یہ سیاسی طور پر یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ جارج واشنگٹن کے ہر مجسمے اور ہر یاد کو ہٹایا جائے اور اسکو ایک ویلن کے طور پر پیش کیا جائے۔ اس سلسلے میں جارج واشنگٹن کے بارے میں ایک کتاب لکھی گئی ہے جس میں اس دلچسپ کہانی کا ذکر ہے جب اسکی ایک 22 سالہ باندی ایک امریکن سٹیٹ سے بھاگ گئی تو کس طرح جارج واشنگٹن نے پوری اپنی سیاسی اور ذاتی تعلقات استعمال کرکے اس لڑکی کا پیچھا کیا۔ اس کتاب کا نام ہے Never Caught: The Washingtons’ Relentless Pursuit of Their Runaway Slave, Ona Judge۔ اب اگر امریکی اپنے ماضی کے ہیروز سے دستبردارنہیں ہو سکتے تو ہم ایک تضاد کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہ یہ کہ اگر غلامی اپنی ذات میں ایک برائی ہے اور جارج واشنگٹن نے بھی غلام رکھے تو ہم کیسے انکے مجسمے اور اسکے نام سے جڑے چیزوں اور جگہوں کو برداشت کریں؟ اچھا یہ مسئلہ صرف ایک دو اشخاص سے متعلق نہیں بلکہ declaration of independence کے 56 میں سے 41 دستخط کنندہ ایسے ہیں جنہوں نے غلام رکھے۔ اس دور میں امریکہ میں یہ بات کافی زیر بحث رہی کہ ہم ان ماضی کے ہیرو کے بارے کیا رویہ رکھے۔ یہی وہ معمہ ہے کہ ایک طرف ہم اپنے ماضی کے ہیروز کو نہیں چھوڑ سکتے اور دوسری طرف ہم ہر اس شخص سے لاتعلق ہونا چاہتے ہیں جو غلامی میں کسی بھی صورت ملوث ہو۔ یہ مسئلہ صرف عام ادمی کا نہیں بلکہ ان لوگوں کا بھی ہے جو غلامی کی تحریک کے روح رواں تھے۔ مثلا William Lloyd Garrison ایک مشہور abolitionist ہے اسکے مطابق اگر ہمارے پاس اختیار بائبل اور غلامی کے درمیان ہو تو بائبل کو ہم چھوڑدینگے لیکن غلامی کو قبول نہیں کرینگے۔ لیکن دلچسپ بات یہ کہ اپنے مشہور جریدے (The Liberator) میں اسکے سامنے جب جارج واشنگٹن کی بات اتی ہے کہ اس نے بھی غلام رکھے۔ تو یہاں پر اکر وہ معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرکے کہتا کہ ٹھیک ہے غلام رکھیں لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ چاہتا بھی یہی تھا وغیرہ وغیرہ۔ یعنی وہ مذہبی تعلق سے دستبردار ہونے کے لیے تو تیار ہے لیکن غلامی کے مقابلے میں سیاسی تعلق سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تزر حسین صاحب نے السٹر یونیورسٹی (یوکے) سے کمپوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور اسی مضمون سے بطور لیکچرار منسلک ہوں۔
ای میل : tazar.hussain@gmail.com
کمنت کیجے