Home » مسئلہ غلامی اور اسلام (3)
اسلامی فکری روایت تہذیبی مطالعات فقہ وقانون

مسئلہ غلامی اور اسلام (3)

ڈاکٹر تزر حسین

پروفیسر براون کے مطابق غلامی کی تاریخ میں اسلام نے انقلابی تبدیلی لائی اور یہ کوئی خیالی یا فرضی بات نہیں بلکہ مسلم سکالرز کے ہاں ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ یعنی یہ میں اس لیے نہیں کہہ رہا کہ اسلام کا بہتر امیج پیش کروں اور اسکو بڑھا چڑھا کر پیش کروں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے اور اسکا ثبوت قران و سنت میں موجود غلامی سے متعلق احکامات ہیں اور اس کی بنیاد پر مسلم سکالرز کی رولنگز ہیں۔ اسلام نے کئی پہلو سے غلامی کو انقلابی طور پر تبدیل کیا۔ اسکا پہلا ثبوت یہ ہے کہ اس دور میں موجود جنگ کے علاوہ غلامی کے تمام راستے (inlets) بند کیے۔ اس سے پہلے اپ کسی کو قرض کے بدلے غلام بنا سکتے تھے, کسی کو اغوا کرکے غلام بناسکتے تھے۔ اس دور میں بہت سارے لوگ دوسروں کی غلامی میں اس لیے بھی چلے جاتے کیونکہ وہ بنیادی سہولتوں سے محروم تھے۔ اس لیے ان مشکل حالات میں لوگ اپنے بچوں کو غلام کی حیثیت سے بھیج دیتے اور یہ بہت عام سی بات تھی اس لیے کہ اس سے انکو ایک طرح کا تحفظ مل جاتا۔ غلامی کی ان سب راستوں کو اسلام نے بند کیا اور اس پر مسلم سکالرز متفق ہیں۔ اب صرف ایک صورت رہ گئی تھی کہ اپ جنگ میں کسی کو غلام بنالے یاکوئی پہلے سے غلام ہو۔ ایک اور اہم تبدیلی جو اسلام نے متعارف کرائی وہ مالک اور باندی کا تعلق ہے کہ اسکے بچوں کو پہچان دی گئی اور اسکو اون کیا گیا۔ اور باندی سے جو بھی اولاد پیدا ہوتی وہ ازاد اور جائز اولاد تصور کی جاتی اس طرح لونڈی کے مالک کی وفات پر وہ از خود ازاد ہوجاتی۔ امریکہ میں تھامس جیفریسن کی باندی سے جو اولاد پیدا ہوئی وہ بھی غلام ہی تھے جن کا تعلق بلیک افریقن جیسے مظلوم طبقے سے تھا مگر اسلامی قانون میں اسکے بچے غلام نہ ہوتے اور انکی کی سماجی حیثیت ازاد اور جائز اولاد کی ہی ہوتی۔ اسکے علاوہ ان بچوں کی ماں تھامس جیفریسن کی وفات کے بعد ازخود ازاد ہوجاتی ۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت عثمانیہ میں بڑے عہدوں پر موجود اکثریت ان لوگوں کی تھی جنکی مائیں باندیاں تھیں۔ اسکے علاوہ قران و سنت میں غلاموں کو ازاد کرانے کی جو مہم شروع کی گئی اسکی مثال بھی کسی اور تہذیب میں نہیں ملتی۔ جہاں پر ہر جگہ غلاموں کو ازاد کرنے کی تلقین کی گئی اور اسکو اسلامی تعلیمات کا حصہ بنادیا گیا۔ زکوۃ کے مصارف میں غلام کو ازاد کرنے کو باقاعدہ ایک مصرف کے طور پر رکھا گیا، گناہوں پر کفارے کے طور پر غلام کو ازاد کرانے کا حکم دیا گیا۔ قران نے مکاتبت کا قانون متعارف کرایا جس کو بنیاد بنا کر کوئی بھی غلام اپنے مالک سے اپنی ازادی خرید سکتا ہے اور اسکو مسلمانوں کا ایک فریضہ قرار دیا کہ وہ اس قیمت کو ادا کرنے میں مدد کریں۔ موطا امام مالک کے مطابق حضرت عمر رض نے حضرت انس رض کو مجبور کیا کہ وہ اپنے غلام کے ساتھ مکاتبت کرکے اسکو ازاد کردیں۔

اسلام نے بڑے پیمانے پر emancipation کی ایک مہم چلائی، emancipation اور abolition دو مختلف تصورات ہیں۔ emancipation کا مطلب ہے کہ غلاموں کی سماجی حالت کو بہتر کیا جائے اور بڑی تعداد میں غلاموں کو ازاد کرایا جائے جبکہ abolition کا مطلب ہے کہ غلاموں کے سماجی حالت سے قطع نظراس ادارے کوہی ختم کیا جائے۔ اسلام emancipation کی بات کرتا ہے جس میں غلاموں کی مجموعی حالت کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ مثلا مکاتبت کے قانون کے مطابق جو باصلاحیت لوگ ہیں وہ اپنی ازادی خریدیں لیکن اگر کوئی بیمار یا بوڑھا شخص ہے تو اسکو ازاد کرنا خود اسکے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا تھا اس لیے انکو ازاد نہ کرنا انکے حق میں بہتر تھا۔ اس لیے اسلام کے نزدیک ازادی اہم تھی لیکن غلاموں کی سماجی حیثیت اور دوسرے عوامل کو بھی مدنظر رکھنا ضرواری تھا۔ دوسری طرف abolitionکی تحریک میں غلاموں کی ازادی کو واحد اخلاقی پیمانہ قرار دیا گیا اور سماجی حالت اور دوسرے عوامل کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ اسلام نے emancipationکی جو تحریک برپا کی اس کی مثال دوسری مذہبی اور غیر مذہبی تہذبوں میں نہیں ملتی۔ پروفیسر براون کے مطابق مسلمانوں میں جن لوگوں کے پاس غلام تھے وہ باقی معاشروں کی طرح ساری زندگی کے لیے غلام نہیں تھے بلکہ 7 سے 10 سال تک غلام رہے اور پھر انکو ازاد کردیا گیا۔ اسلامی تہذیب میں غلاموں کی سب سے بڑی تعداد عورتوں کی تھی لیکن ان عورتوں اور انکی اولادوں کے سماجی رتبے کو بلند کرکے انکو اپنے معاشرے میں بہترین طریقے سے ضم کیا گیا۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلامی معاشروں میں abolition کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اسکے علاوہ اسلام میں غلامی کا تصور بھی نسل پرستی سے نہیں تھا جیسا کہ امریکہ میں تھا۔ اس لیے جو ازاد ہوجاتا وہ جلد ہی ازاد لوگوں کے برابر اجاتا۔ اسکے برعکس امریکہ میں اگر کوئی کسی کالے رنگ کے غلام کو ازاد بھی کرتا تو وہ مسلسل اس خطرے میں رہتا کہ اسکو دوبارہ بھی غلام بنا لیا جائے جبکہ اسلامی معاشروں میں ایسا نہیں تھا۔ اور اسکا ثبوت یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں ازاد کردہ غلام بڑے بڑے عالم، سیاسی لیڈرز اور تاجر بنے۔ یعنی باقی تہذیبوں میں غلام نیچے دب جاتے تھے جبکہ اسلامی معاشروں میں غلام اور لونڈیاں اونچے مقام پرپہنچ جاتے۔ اسکے پیچھے وجہ اسلامی معاشروں میں غلاموں کو ازاد کرنے کی تحریک اور انکے سماجی رویوں کو بلند کرنے کی تعلیمات ہیں۔

اخر میں پروفیسر براون کہتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے کہ خدا کا منشا ہے کہ غلاموں کو ازاد کیا جائے اور خدا انکو ازاد ہی دیکھنا چاہتا اور یہ بات قران و سنت کی تعلیمات سے واضح ہے۔ مسلم سکالرز نے غلاموں کی ازادی (العتق) کو شریعت کے مقصد کے طور پر بیان کیا ہے جیسا کہ شاطبی کی الموافقات۔ مسلمان سکالرز نے غلامی سے متعلق اس بات کو بھی بیان کیا ہے کہ غلامی بہت سارے پہلو سے انسانوں کے لیے نقصان دہ ہے جس کو ضرر الرق کہتے ہیں۔ اسی لیے اج ہم جس دور میں رہ رہے ہیں جہاں معیشت کا انحصار غلامی پرنہیں ہے یعنی اب غلامی معیشت کی اس طرح ناگزیر ضرورت نہیں جیسے پہلے تھی۔ اور غلامی کے نقصانات (ضرر) سے لوگوں کو بچایا جا سکتا ہیں کیونکہ اسلامی فقہ میں غلامی کے نقصانات کو مانا گیا ہے کہ اسکے انسانوں کے لیے بہت سارے نقصانات ہیں۔ تو ہم ان وجوہات کی بنا پر بڑ پیمانے پر emancipation کو بنیاد بنا غلامی کے پورے ادارے کو ختم کرنے کی بات کرسکتے ہیں اور یہ پوزیشن اسلام کے اصولوں کے مطابق ایک درست پوزیشن ہوگی۔ یعنی ہمارے ہاں اس ادارے کی خاتمے کی درست بنیاد emancipation ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تزر حسین نے السٹر یونیورسٹی (یوکے) سے کمپوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور اسی کے ساتھ بطور لیکچرار منسلک ہوں۔
ای میل : tazar.hussain@gmail.com

منتظمین

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • میں نے کتاب پڑھی ہے اور اگرچہ یہ کافی اچھی کتاب ہے اور بڑے موثر طریقے سے دفاع کرتی ہے مگر ایک نقطہ اس میں محض ہلکا پھلکا ہی بحث میں لایا گیا ہے۔ وہ یہ کے اگرچہ اسلام پہلے سے موجود غلاموں کی آزادی کی ترغیب دیتا ہے مگر مسلمانوں کا طرز عمل اس سے موافقت نہیں رکھتا اور ہم دیکھتے ہیں کے صحابہ، تابعین اور اُن کے بعد مسلمانوں کی خوشحالی کے ساتھ ساتھ ان کے زیر دست غلاموں کی تعداد کثرت سے بڑھی ہے بلکہ اس میں exponential اضافہ ہوا ہے ۔
    دوسرا اسلام اس پر متفق ہے کے جنگ کے علاوہ غلام بنانے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے مگر مسلمانوں کا طرز عمل ایک بار پھر اس سے میل نہیں کھاتا اور مسلم empires کے زمانے میں کھلے عام منڈیوں میں غلاموں کی خریدوفوخت جاری وساری رہی اور کسی نے ایسا کوئی نظام نہیں بنایا جو اس بات کو یقینی بنائے کے زیر فروخت غلام کیسے غلام بنا اور اغوا شدہ شخص تو نہیں