متکلمین پر ایک دیرینہ اعتراض
ڈاکٹر محمد زاہد صدیق
پچھلی تحریروں سے یہ بات واضح ہوچکی کہ صفات خبریہ کے معاملے میں ناقدین متکلمین نہ صرف یہ کہ ائمہ سلف کے موقف سے دور ہیں بلکہ یہ “کیف ” کےبارے میں متکلمین کے تصور کو بھی نہیں سمجھتے اور نہ ہی اس بارے میں اپنا کوئی واضح موقف پیش کرتے ہیں۔ تاہم یہ متکلمین پر چند عقلی شبہات بھی وارد کرتے ہیں اور ان کے وارد کردہ یہ شبہات کرامیہ فرقے والے بھی کرتے تھے جو علم کلام کی کتب میں مذکور ہیں۔ لیکن چونکہ یہ دوست متکلمین کا موقف براہ راست ان کی کتاب سے سمجھنے کے بجائے علامہ ابن تیمیہ کے بیانات و نقد پر انحصار کرتے ہیں لہذا وہی اعتراضات دہراتے ہیں جن کا جواب تقریبا علم کلام کی ہر دوسری کتاب میں دیا گیا ہے۔
اعتراض
چنانچہ ایک مشہور اعتراض یہ ہے کہ اگر لفظ ید کے حقیقی معنی ماننے سے تجسیم لازم آتی ہے تو متکلمین بھی تو اللہ کے لئے بعض صفات معانی کے حقیقی معانی مانتے ہیں، جیسے کہ علم ، قدرت ، ارادہ ، حیات، کلام وغیرہ۔ کیا معاملہ یوں نہیں کہ قدرت و ارادہ جسم ہی کی خصوصیات ہیں؟ کیا جسم کے بغیر کسی حیات کا تصور انسان کے لئے ممکن ہے؟ کیا منہ کے بغیر کلام کے اجرا کا تصور ممکن ہے؟ کیا “موجود” ہونا بھی جسم کی صفت نہیں؟ الغر ض اگر بعض صفات کے حقیقی معانی لینا جائز ہے تو بعض دیگر کی نفی کیوں کر؟ یہ ہر دور میں گروہ مجسمہ کا متکلمین پر انتہائی اعتراض رہا ہے اور ان کا گمان ہے کہ متکلمین کے پاس اس کا کوئی ہم آہنگ جواب موجود نہیں جبکہ یہ اعتراض کمزور اور متکلمین کے صفات معنی کے تصور سے عدم واقفیت کی بنا پر ہے۔ آئیے ہم اسے کھولتے ہیں۔
تبصرہ
امام رازی واضح کرتے ہیں کہ کسی شے پر کیا جانے والا استدلال یا علت سے معلول کی جانب ہوتا ہے، یا مساوی سے مساوی پر اور یا معلول سے علت پر ۔ اللہ کی ذات و صفات پر کیا جانے والا ممکنہ استدلال آخری قسم کا ہے، یعنی ہم معلول کے مشاہدے سے علت کے وجود اور اس کی نوعیت (یا صفت) پر استدلال کرتے ہیں۔ اس استدلال سے سامنے آنے والی صفات کو “صفات معنی” کہتے ہیں۔ استدلال کی منطقی ترتیب کی رو سے ان صفات کی ترتیب یوں ہے: ارادہ، علم، قدرت ، حیات، کلام، سمع و بصر۔ انہیں ایک خاص مقصد کے تحت دو گروپوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: (1) ارادہ، علم، قدرت وحیات (2) کلام، سمع و بصر۔ ان سب کے اوپر صفت وجود ہے۔ پہلے گروپ کو لیجئے۔
زمان و مکان سے متعلق ہمارے مشاہدے میں آنے والی ہر شے تعیینات و تخصیصات کا شکار ہے، یہ تخصیصات لازمی طور پر کسی “ارادے ” کا تقاضا کرتی ہیں ۔ ارادے کا مطلب کیاہے؟ وہ صفت جو ممکنات پر تخصیصات مرتب کرے یا مساوی امور میں سے کسی ایک جانب کو ترجیح دے، یہ ارادے کا “حقیقی معنی “ہے اور اللہ کی بارگاہ میں ہم یہی مراد لیتے ہیں۔ قدرت کا مطلب وہ صفت ہے جو “عدم سے وجود بخشنے ” سے عبارت ہے، یہ قدرت کا “حقیقی معنی” ہے اور ہم رب تعالی کے لئے اس کا اثبات کرتےہیں۔ یعنی عالم مشاہدہ میں تعیینات و تخصیصات شدہ موجودات ایسی قدرت و ارادے کا سراغ بتا رہی ہیں جن کا اثر یہ اشیا ہیں۔ اسی طرح صفت “ارادہ” بتا رہی ہے کہ صاحب ارادہ علم سے بھی متصف ہے اس لئے کہ بلا علم ارادے کا کوئی مطلب ہی نہیں۔ حیات کا مطلب وہ صفت ہے جو کسی موجود کےلئے علم و قدرت متحقق کریں، یعنی صفت حیات علم و قدرت کی شرط ہے۔ لہذا ترتیب یوں ہے: ارادے کی شرائط قدرت و علم ہیں اور ان کی شرط حیات ہے۔ یوں ہم معلول یا اثر سے علت یا مؤثر کی ان چار صفات تک پہنچے اور یہ وہ کم سے کم عقلی تصورات ہیں جو عدم سے آنے والی کائنات کی توجیہہ کرسکیں۔ متکلمین کا کہنا ہے کہ کائنات مفعول ہے جو فعل کا تقاضا کرتی ہے اور فعل ان امور (حیات، علم، قدرت و ارادہ) کو فرض کرتا ہے۔ بتائیے ان سب کوماننے کے لئے جسم کے کس تقاضے کو ماننا لازم ہے؟
یہاں دو باتوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے:
- جو لوگ ان صفات کو “ید کے حقیقی معنی” سے خلط ملط کرتے ہیں ان کی غلطی اس فرق کو نہ سمجھنا ہے کہ یہ صفات معنی مشاہدے میں موجود معلول یا اثر سے علت کی لازمی صفات سے متعلق ہیں، یعنی اگر علت میں یہ صفات نہ مانی جائیں تو معلول موجود نہ ہوسکے گا، یہاں صفت کے متعلقات (یا اثر )سے صفت پر استدلال کیا گیا ہے۔ کیا ید سے متعلق بھی کوئی ایسا نتیجہ یا اس کا کوئی ایسا وصف ہمارے مشاہدے میں موجود ہے جسے دیکھ کر عقل لازمی طور پر علت سے متعلق “ید ” کے حقیقی معنی پر استدلال لازم قرار دے جیسے کہ قدرت و ارادے پر استدلال لازم کرتی ہے؟ ایسا اثر ہمارے مشاہدے میں موجود نہیں جو عالم مشاہدہ کے موجودات کی علت کے لئے لازما “ید کے حقیقی معنی” کے اقرار کا تقاضا کرے، ہاں “قدرت کے حقیقی معنی ” کے اثبات کا عقل لازما ر تقاضا کرتی ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ معدوم ممکن کو وجود میں لانے کی بنیاد ” ید ” نہیں “قدرت ” ہے۔ وہ جسے ہم “حقیقی ید” کہتے ہیں، وہ قدرت کے اظہار کا بس ایک امکانی طریقہ ہے نہ کہ اس کا واحد لازمی وسیلہ۔
- دوسری بات یہ کہ جس ذات کے ساتھ یہ صفات قائم ہیں، اس کی “ان صفات کی حقیقت یا ماہیت” کا ہمیں کوئی علم نہیں۔ ہم اثر کے پیش نظر اس قدرت سے متعلق صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ عالم کو عدم سے وجود بخش رہی ہے، رہی یہ بات کہ وہ قدرت ہے کیسی (یعنی کیا وہ انرجی نما کچھ ہے وغیرہ) تو اس کا ہمیں علم نہیں۔ یہی معاملہ اس ذات کی حیات سے متعلق ہے کہ ہمیں اس کی نوعیت کا کوئی علم نہیں، ہم بس یہ جانتے ہیں کہ قدرت ہے تو حیات ہے اور حیات کا مطلب نہ سانس لینا ہے اور نہ نمو وغیرہ بلکہ حیات کا مطلب کسی ذات یا شے کے لئے علم و قدرت متحقق ہونا ہے۔ لہذا یہ فرق اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ قدرت کا معنی ہے معدوم کو موجود کرنا اور ذات باری کے لئے “قدرت کے حقیقی معنی” ماننے کا مطلب یہ قطعا نہیں ہم اس کی “قدرت کی حقیقت یا ماہیت” بھی جان گئے ہیں۔ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ اس قدرت کا اثر یہ عالم ہے جو عدم سے موجود ہوا اور عدم سے موجود ہونا بذات خود اس صفت یا معنی کے اقرار کا تقاضا کررہا جسے قدرت کہتے ہیں۔
جب یہ بات سمجھ آگئی تو اب “موجود ” کو سمجھنا بھی آسان ہوگیا۔ اللہ تعالی کے وجود کی نوعیت و ماہیت یا احساس کیا ہے، یہ ہم نہیں جانتے اور نہ ہی اس کا موجود ہونا ہمارے موجود ہونے جیسا ہے۔ تاہم ہم یہ بات ضرور جانتے ہیں کہ اگر صفت موجود و ثابت ہے تو لازماً کوئی صاحب صفت بھی موجود و ثابت ہے جس سے وہ صفت متعلق ہے۔ پس ارادہ، قدرت، علم و حیات ثابت ہیں تو ان سے متصف ذات بھی ثابت ہے۔ متکلمین اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ موجود ہونے کے لئے جسم ہونا کوئی عقلی شرط نہیں بلکہ وہ موجود کو تین اقسام میں لاتے ہیں:
- وہ جو متحیز (یا مکانی) ہے، یہ جوہر و جسم ہے
- وہ جو متحیز کا حال ہے،یہ عرض ہے
- وہ جو نہ متحیز ہے اور نہ متحیز کا حال، یہ ذات باری ہے
پس ارادہ قدرت و حیات جیسی “صفات معنی ” کے اقرار سے قطعا جسمیت لازم نہیں آتی، ان صفات نیز کسی کے فاعل ہونے کی بنیاد جسم ہونا نہیں بلکہ موجود ہونا ہے۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں وگرنہ ہم قارئین کو ان امور سے متعلق قدیم متکلمین میں سے قاضی باقلانی (م 403 ھ) کی عبارات کا مطالعہ کرواتے کہ وہ بعینہہ انہی خطوط پر گروہ مجسمہ کے اس اعتراض کا جواب دیتے تھے (ان کے بارے میں بھی یہ غلط فہمی پیدا کی جاتی ہےکہ وہ بھی علامہ ابن تیمیہ کے ہمنوا تھے جبکہ قاضی صاحب کی صریح عبارات اس کے خلاف ہیں)۔
قدرت و ید کے فرق کو ہم ایک آسان طریقے سے بھی سمجھاتے ہیں۔ قدرت کا حقیقی معنی تجریدی اسم (abstract noun ) جبکہ ید کے حقیقی معنی مادی اسم ( concrete noun) سے متعلق ہیں،اسی لئے قدرت صفت معنی کہلاتی ہے ۔ اول الذکر سے تجسیم لازم نہیں آتی جبکہ موخر الذکر سے آتی ہے۔ یہ فرق ان کے لئے جن کے لئے دقیق مباحث سمجھنا مشکل ہے ۔
درج بالا دوسرےگروپ (سمع، بصر و کلام) کی تفصیل میں جانے کا یہاں موقع نہیں کہ اس کے لئے ادراک و کلام نفسی کے حقیقی معنی کو کھولنا ہوگا جن کی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب صفت علم کی جانب راجح ہیں، انہیں ماننے سے بھی تجسیم لازم نہیں آتی۔ ان کے حقیقی معانی کو بنیاد بنا کر ید کے حقیقی معنی منوانے کا استدلال سطحی ہے۔ صفت کلام کے پیش نظر ناقد کے اس اعتراض کی سطحیت کو باآسانی سمجھا جاسکتا کہ “کیا منہ کے بغیر بھی کوئی کلام متصور ہوتا ہے؟” ناقد نے یہ غور کیوں نہیں کیا کہ گوگل میپس میں راستہ سمجھانے والی آواز کیا کسی کے “منہ” سے نکلتی ہے؟ چنانچہ آج کے دور میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ پروگرامنگ کے ذریعے آواز پیدا کرنا ممکن ہے اور متکلمین نے اس بات کو بالکل درست طور پر پہچان لیاتھا کہ کلام حادث(آواز و حروف) اور کلام نفسی (معانی) میں فرق ہے، اول الذکر صاحب قدرت کی قدرت کا اثر ہے۔
خلاصہ بحث
صفات معنی کو صفات خبریہ جیسے کہ ید اور وجہ پر قیاس کرنا گروہ مجسمہ کی دیرینہ غلطی ہے اور غلطی کی بنیادی وجہ متکلمین کی اصطلاحات کو سمجھے بغیر اعتراض کرنا ہے۔ صفات معنی کے حقیقی معنی سے تجسیم لازم نہیں آتی جبکہ خبریہ سے آتی ہے اور اسی لئے متکلمین ان میں فرق کرتے ہوئے اول الذکر کے حقیقی معنی کا اقرار اور دوسرے کی تفویض کرتے ہیں۔ صفات معنی معلول یا اثر سے علت یا مؤثر پر استدلال کا نتیجہ ہیں، یعنی ہمارے مشاہدے کے پیش نظر اثر کو سمجھنے کے لئے وہ کونسے کم سے کم تصورات ہیں جو علت میں بایں معنی ہونے لازم ہیں کہ یہ عالم اس علت کا اثر بن کر قابل توجیہہ ٹھہرے۔ رہیں صفات خبریہ تو انہیں اسی لئے خبریہ کہتے ہیں کہ وہ نبی کی خبر پر موقوف ہیں اور عقل سے ان کا ادراک ممکن نہیں۔
الغرض اس تفصیل سے مخالفین متکلمین کا اعتراض رفع ہوگیا اورپچھلی تحریرات سے واضح ہوا کہ ائمہ اسلاف کا تجسیمی مواقف سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ ان کاموقف وہی تھا جسے متکلمین اشاعرہ و ماتریدیہ تفویض کہتے ہیں۔
وما توفیقی الا باللہ
کمنت کیجے