Home » آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کا نظام قضا وشہادت میں مقام :فقہ کی روشنی میں (۱)
فقہ وقانون

آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کا نظام قضا وشہادت میں مقام :فقہ کی روشنی میں (۱)

مشرف بیگ اشرف

دعوے کو ثابت کرنا نظام قضا میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے لیے، شریعت اقرار، گواہی وشہادت، قسم اٹھانا، قسم سے منہ موڑنا اور دیگر قرائن کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے۔ ان سب میں شہادت وگواہی کا بہت بنیادی کردار ہے کہ مدعی اور مدعی علیہ کے مابین تصفیے کے لیے عدالت کو ان پر کثرت سے اعتماد کرنا ہوتا ہے۔جب تک جدید آلات کا وجود ہ نہ تھاکسی گواہ کی گواہی ہی بنیادی ذریعہ شمار ہوتی تھی۔نیز چونکہ قاضی کے فیصلے کی بنیادگواہ پر ہوتی ہے، اس لیے گواہ کا ثقہ ہونا ایک بنیادی شرط :اگر گواہ فاسق نکل آئے یا سہو ونسیان کا شکار ہو جائے، ، تو عدالت کااس کی بنیاد پر فیصلہ کرناہی غلط ہے کہ فیصلہ کی بنیاد جس چیز پر ہے جب وہی فاسد ہوئی، تو فیصلہ بھی نادرست ہونا چاہیے۔

یہ بات نظام قضا کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ شرعی احکام کی بنیادمیں بھی یہ اصول کارفرما ہے۔ چنانچہ سنت کا ایک بڑا ذریعہ وہ احادیث ہیں جو اخبار آحاد یا مشہور ہیں۔ اس لیے،جن راویوں کے ذریعے سے یہ ہم تک پہنچیں، ان کا بھروسے کے لائق ہونا ضروری ہے۔اگر راوی قابل اعتبار نہ ہو، تو محض اس راوی کی بنیاد پر فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ روایت اور شہادت میں تعلق فقہ پر نظر والے سے مخفی نہیں۔

تاہم کئی مرتبہ ایک روایت کے راوی ثقہ نہیں ہوتے لیکن روایت کو تسلیم کر لیا جاتا ہے جیسے روایت کا شریعت کے کسی اصول سے ہم آہنگ ہونا وغیرہ۔اسی طرح، بسا اوقات روایت ثقہ ہونے کے باوجود روایت کو مسترد کر دیا جاتا ہے۔یہاں بنیاد یا مناط یہ ہے کہ قرینے کی موجودگی میں چونکہ روایت کو قبول کرنے کے لیے راوی کی حیثیت ثانوی ہو گئی اس لیے اگر اس کا اعتبار نہ ہو، تب بھی روایت پر عمل کیا جا سکتا ہے یا اگر اس کا اعتبار ہو تب بھی اسے مسترد کیا جا سکتا ہے۔اسی طرح، تواتر میں بھی ہر ہر فرد کا جداگانہ حال غیر متعلق ہو جاتا ہے۔بلکہ تواتر ایک ایسا قرینہ ہے جس کے بعد ہر ہر راوی کا حال انفرادی سطح پر اہمیت نہیں رکھتا۔

اسی طرح، قضا میں بھی قرائن کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ بلکہ “مدعی ومدعی علیہ” طے کرنے کے لیےعدالت قرائن ہی کا سہارا لیتی ہے۔ اور مدعی اور مدعی علیہ طے کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس مقدمے کا اصل وزن کس کے حق میں پڑ گیا اور فریق مخالف کو دلیل سے اپنے پلڑے کو جھکانا ہو گا۔جیسے کسی ایسے مال کی بابت فریقین میں جھگڑا ہوجس کی کسی خاص شخص کے نام پر رجسٹریشن نہ ہوتی ہو(anonymous bearer asset)، تو جس کے پاس قبضہ ہووہ مالک شمار ہوتا ہے جبکہ دوسرا فریق مدعی جسے گواہ یا قرائن سے ثابت کرنا ہوتا ہے کہ تصفیہ طلب مال کا مالک وہ ہے قابض نہیں۔اسی طرح، نوٹ کا بھی یہی حال ہے کہ وہ کسی کے نام سے سرکاری طور سے وابستہ نہیں ہوتا۔اس لیے، جس کے ہاتھ میں ہو وہی اس کا مالک شمار ہوتا ہےجب تلک اس کے برعکس نہ ثابت ہو جائے۔ یہاں بھی “قبضہ” ایک قرینہ یا ظاہری علامت ہے جس کی بنیاد پر قابض کو مالک تسلیم کرلیا جاتا ہے جب تک اس کے برعکس ثابت نہ ہو۔چونکہ یہاں فیصلہ قرینے کی بنیاد پر ہوا، اس لیے یہاں یہ سوال غیر متعلق ہے کہ آیا “قابض” ثقہ ہےیا فاسق۔وہ ثقہ ہو یا فاسق جب قرینہ اس کے پہلو میں کھڑا ہےاور ظاہر اس کا ہم نوا ہے، تو اب اس کےخلاف ثبوت دوسرے کو لانا ہے خواہ وہ ثقہ ہو دیندار ہو۔

جدید قرائن:

سائنس کے نتیجے میں ایک مظہر یہ سامنے آیا کہ چیزوں کومحفوظ کرنے کے لیے “انسان کے بول” پر اعتماد کرنے کی ضرورت کم سے کم ہو۔چنانچہ :
۱: سڑکوں پر کیمرے نصب ہیں جو گاڑیوں کی حرکات کو محفوظ کر رہے ہیں۔ اگر کوئی مخالفت کرے، تو اسے کیمرہ محفوظ کر لیتا ہےاور اگر عدالت میں یہ ثابت کرنا پڑے، تو پولیس انسپکٹر کے بیان کے بجائےوہ محفوظ شدہ ویڈیو پیش کر دی جاتی ہےاور کئی ممالک میں ایسا ہو رہا ہے ۔

۲: اسی طرح، فری لینسگ (Freelancing)کرتے ہوئے ،دو طرح سے کام ہوتا ہے: گاہک ایک مخصوص کام بتا دیتاہے اور اس کا معاوضہ طے ہوتا ہےجو کام پر مبنی معاہدہ ہوتا ہے(Fixed Price Project) اور کبھی گھنٹے کے لحاظ سےمعاہدہ ہوتا ہے(Hourly Projects)۔ اس دوسری صورت میں، عام طور سے، پراگرامر اپنی مشین میں ایک سوفٹویئر چلاتا ہے جو اس کی تمام حرکات وسکنات محفوظ کرتا ہے اور وہ کلائنٹ تک پہنچتی رہتی ہیں اور وہ باآسانی دیکھ لیتا ہے کہ آیا پراگرامر جن اوقات کے پیسے وصول کرر ہا ہے اس میں وہ متعلقہ کام ہی کرتا رہا یا مثلا فیسبوک کی پوسٹس دیکھنے میں مشغول تھا یا اس وقت میں اس کی سکرین پر کوئی کام ہی نہیں ہوا۔

۳: نیز آثار قدیمہ کی کاربن جانچ کے ذریعے سے چیزوں کی تاریخ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں بنیادی عنصر ہی یہ ہے کہ محض کسی انسان کی روایت پر اعتماد نہیں کیاجاتا۔ بلکہ آثار کو خود” گویا” کیا جاتا ہے۔

اب یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ آیا یہ طریقے قابل وثوق ہیں یا نہیں؟ کیا قضا کے باب میں یہ قرائن کے طور پر تسلیم ہو سکتے ہیں یا نہیں؟ لیکن انہیں تسلیم کر لینے کے بعد،یہ کہنا کہ آیا ان کو حاصل کرنے والایا ریکارڈ کرنے والا ثقہ ہےیا نہیں قدیم وجدید کے مخمصے کا شکار رہنا ،نیز جدید دور کے تقاضوں پر عمل پیرا ہونے کے شدید شوق کے باوجود ماضی میں جینا ہے۔ ان طریقوں کی بنیاد ہی اس پر کھڑے ہے کہ ثبوت حاصل کرنے والے کی اپنی شخصیت غیر متعلق ہے جبکہ اس ثبوت کوجانچا جا سکتا ہے کہ یہ حقیقی ہے یا جعلی۔یہ روایتی گواہ کی مانند نہیں۔

ریکارڈنگ اور اس کے کرنے والے کی جداگانہ حیثیت:

اس کے بعد، جو بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے وہ یہ کہ ریکارڈنگ کرنے والے کا فعل اور ریکارڈنگ کی اپنی مصداقیت دو الگ الگ امور ہیں جن میں سے دوسرا ، پہلے فنی پھر فقہی لحاظ سے ، پہلے پر دائر نہیں۔ اسی لیے، اگر عدالت ایک ریکارڈنگ کی جانچ پڑتال کے بعد اس کی بنیاد پر فیصلہ کرلے اور ساتھ ہی اس ریکارڈنگ کرنے والے کو اس بنیاد پر سزا دے کہ اس نے اپنی حدود سے تجاوز کیا، تو یہ قضا وحکم میں تناقض نہیں ہو گا (اور فیصلے کا باہم ہم آہنگ ہونا اس کے درست ہونے کی پہلی شرط ہے)۔ اس لحاظ سے، یہ “بیع مکروہ” کی نظیر ہے کہ جمعے کی اذا ن کے بعد، اگرچہ خرید وفروخت مکروہ ہےتاہم اس پر قانونی اثرات مرتب ہوتے ہیں ،ملکیت منتقل ہوتی ہے۔ نیز عقد کرنے والے اسے توڑنے کے بھی پابند نہیں۔ اس کی نظیر “بیع باطل” نہیں کہ جب عقد کا عمل ہی باطل ٹھیرا تو اس پر قانونی اثرات مرتب ہی نہیں ہو سکتے۔

ریکارڈنگ کا مختلف ابواب یا حالات کے لحاظ سے مختلف حکم:

اگرچہ اس طرح کے قرائن میں بنانے والا غیر متعلق ہے، لیکن چونکہ یہ بہر حال قرائن ہی کے باب سے ہے اس لیےعدالت کو یہ دیکھنا ہو گا کہ کس قسم کے مقدمات میں اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔ مثلا حدود میں اسے نہیں قبول کیا جاسکتاکہ اس میں معمولی شبہے سے بھی ملزم کو بری کر دیا جاتا ہےاور ان میں ثبوت کے طریقہ کار کو پھیلانا شریعت کے مزاج ہی کے خلاف ہے کہ شریعت مثلا زنا وغیرہ امور میں یہ پسند ہی نہیں کرتی کہ معاملات عدالت میں لائے جائیں یا یا پسند نہیں کرتی کہ شدید سزائیں یا عقوبات دی جائیں۔ اس لیے،شریعت نے اس کے اثبات کے لیے غیر معمولی طریقہ اختیار کیا۔ یہاں طرق اثبات کو وسعت دینا ہی درست نہیں۔ اس لیے، ایسی ویڈیوز کی بنیاد پر یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔لیکن اس کے برعکس، مثلا چوری وغیرہ کے مقدمات میں اگرچہ ایک پہلو یہ ہے کہ کیا اس پر حد جاری ہو گی لیکن اگرشبہے کی وجہ سے حد ساقط ہو جائے تب بھی مالی ضمان عائد ہو سکتا ہے۔ سرقہ کے باب میں ایسی جزئیات موجود ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ اگرچہ شبہے کی وجہ سے حد ساقط ہوئی تاہم مالی ضمان عائد ہوا۔

مثلا:

۱:مدعی علیہ کے خلاف ثبوت ملا نہ اس کا اقرار سامنے آیا۔ اس نے سوگند اٹھانے سے بھی انکار کر دیا۔ ظاہر ہے کہ اس بنیاد پرحد جاری نہ ہو گی اور ہاتھ نہیں کٹیں گے۔ لیکن قسم سے انکار پر ،اس پر مالی ضمان عائد ہو گا۔چونکہ “حد” کے لیےمقرر معیار ثبوت اگرچہ حاصل نہ ہوا، پر”مالی ضمان” کے لیے طے کردہ نصاب ثبوت پایا گیا۔

«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (4/ 87):
«(ولا قطع بنكول وإقرار مولى على عبده بها وإن لزم المال) لإقراره على نفسه»
في الحاشية:
(قوله لإقراره على نفسه) علة للزوم المال في المسألتين؛ لأن النكول إقرار معنى

۲: اوپر ایک مثال چوری کے باب سے تھی۔ ایک دوسری مثال “حد قذف” سے لیجیے! اگر ایک بندے نے کسی دوسرے پر ایسا ذو معنی فقرہ چسپاں کیا کہ ” قذف” کا گماں گزرے جسے تعریض کہا جاتا ہے، تو اسے سزا دی جائے گی ۔تاہم بعض فقہا کے ہاں یہ حد جبکہ احناف وغیرہ کے ہاں تعزیر کے باب سے ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں دو لوگوں میں تلخ کلامی ہوئی۔ ایک نے دوسرے سے کہا:”نہ میرا باپ بدکار نہ میری ماں”۔ اس دوسرے نے جا کر حضرت عمر کوشکایت لگائی۔ حضرت نے دوسرے اصحاب علم سے مشورہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس نے محض اپنے والدین کی پاکدامنی کا اظہار کیا۔اس لیے، اس پرحد نہیں۔ لیکن اس پر حضرت عمر نے دوٹوک انداز سے فرمایا کہ “یہ والدین کی تعریف کا موقع نہ تھا۔اسے کوڑے لَگاؤ ۔”موطا مالک کی روایت میں ہے کہ آپ نے اسے اسی کوڑے لگوائے۔ اس لیے، حنفی نقطہ نگاہ سے یہ توجیہ نہیں ہوسکتی کہ یہ کوڑے تعزیر کے طور پر تھے، نہ کہ حد کے طورپر کیونکہ حنفیہ کے ہاں تعزیر اگر حد کی جنس سے ہو تو وہ اس سے کم ہو گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امام محمد شیبانی رحمہ اللہ تعالی نے اس پر تبصرے کرتے ہوئے یہ کہا کہ

«قد اختلف في هذا على عمر بن الخطاب أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فقال بعضهم: لا نرى عليه حدا، مدح أباه وأمه، فأخذنا بقول من درأ الحد منهم، وممن درأ الحد وقال ليس في التعريض جلد علي بن أبي طالب رضي الله عنه، وبهذا نأخذ وهو قول أبي حنيفة، والعامة من فقهائنا»«موطأ مالك رواية محمد بن الحسن الشيباني» (ص247)

ترجمہ: صحابہ کا اس باب میں حضرت عمر سے اختلاف ہوا۔ بعض نے کہا کہ وہ اس پر حدجاری ہونے کے قائل نہیں کہ اس نے اپنی والدین کی ثنا کی۔ ہم(حنفیہ)صحابہ میں سے ان کی رائے کے قائل ہیں جو حد کے قائل نہیں۔اور ان صحابہ میں حضرت علی بھی ہیں جن کے خیال میں حد نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اشارے کنایے میں کی گئی بات پر کوڑے نہیں۔ یہی ہمارا نقطہ نگاہ ہے اور یہی رائے امام ابو حنیفہ اور عام فقہا کی ہے۔۱۲

لیکن حنفی دبستان اس صورت میں عدالت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ گوشمالی کرسکتی ہے۔ علامہ حصکفی اس حوالے سے فرماتے ہیں:

«قذف بالتعريض يعزر حاوي»«الدر المختار في ضمن حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (4/ 80)

ترجمہ:ایک آدمی نے اشارے کنایے سے زنا کا دوش دیا، تواس کو تعزیری سزا دی جائے گی۔(یہ بات حاوی میں مذکور ہے)۔۱۲

علامہ شامی اس کی مثال اس طرح دیتے ہیں:

«كأن قال أنا لست بزان يعزر؛ لأن الحد سقط للشبهة، وقد ألحق الشين بالمخاطب؛ لأن المعنى بل أنت زان فيعزر»

ترجمہ:۔۔۔جیسے اس نے کہاکہ:”میں ‘تو’ بدکار نہیں”، تو اسے تعزیری سزا دی جائے گی کیونکہ اگرچہ حد شبہے سے دور ہوئی تاہم اس نے مخاطب کے دامن کو داغدار کیا کہ مقصود یہ ہے کہ:”تم بدکار ہو”۔ اس لیے، اسے تعزیری سزا د ی جائے گی۔۱۲ (“ما أنا فعلت”کے باب سے۔مختصر المعانی پڑھنے پڑھانے والوں کی توجہ کے لیے۔)

ان دونوں مثالوں پر غورکیجیے کہ یہاں ثبوت ایک، مقدمہ ایک لیکن ایک باب میں مسترد جبکہ دوسرے میں قابل قبول۔

اسے دوسرے زاویے سے یوں دیکھیے کہ ایک جگہ شبہے کی وجہ سے سزا رک گئی لیکن دوسری جگہ شبہے ہی کی وجہ سے سزا دی گئی۔اس لیے، یہ بڑے عجیب بات ہو گی کہ ایک ثبوت کو جو اس دور میں بہت رائج ہو چکا اور اس کے قابل استناد ہونے پر اعتماد وقت کے سے ساتھ بڑھ رہا ہے، محض ایک شبہے کی بنیاد پر مسترد کر دیا جائے اگرچہ وہ معاملہ ایسا ہو جو معمولی شبہے ہی سے ثابت ہو تا ہے۔

چنانچہ اگرچہ جن مقدمات میں حدود یا قتل وغیرہ کا معاملہ ہو وہاں بلاشبہ ویڈیو کو مستقل ثبوت کے طور پر تسلیم نہ کیا جائے لیکن مالی معاملات میں کیوں اس پر اس طرح کی قدغن لگائی جائے ۔ اسی طرح، عوامی اداروں میں بیٹھے عہدیداران کی اہلیت ونااہلیت کے باب میں کیوں ایک ویڈیو سے صرف اس وجہ سے صرف نظر کر لیا جائے کہ اس کا مصدر معلوم نہیں اور بنانے واالا آگے نہیں آیا جبکہ اس ویڈیو کی مصداقیت پر متعلقہ ادارے بھی صاد کر دیں۔
(ویسے یہاں اس پر بھی غور کیجیے کہ جس ملک کا پولیس اور عدالتی نظام ایسا ہو کہ لوگ اپنے جائز معاملات کے لیے ان کے پاس جانے کو عذاب سے کم نہ سمجھتے ہوں اور درست وجہ سے ایسا سمجھتے ہوں، وہاں اس طرح کی شرائط کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ سرکاری کرسیوں پر براجمان لوگوں کے خلاف کوئی بھی ایسا ثبوت آئے تو وہ کالعدم ٹھیرے۔صرف سیاسی طور سے سلگتے مقدمات کو دیکھ کر ان شرائط پر غور کرنا کسی طرح درست نہیں۔ ظاہر ہے کہ ان فیصلوں کا اثر عوامی مقدمات پر بھی پڑنا ہے)

مشرف بیگ اشرف

مولانا مشرف بیگ اشرف روایتی دینی علوم کے استاذ ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے فلسفہ وعقیدہ میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں۔

m.mushrraf@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں