عمران شاہد بھنڈر
مضمون کی ابتدا میں اگر کچھ تعریفات طے کر لی جائیں تو آگے چل کر مفاہیم کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ چونکہ زیرِ بحث کانٹ کی شے فی الذات اور نومینا جیسے تصورات ہیں اس لیے انہیں آغاز میں ہی ممیز کر لینا بہتر تفہیم کے لیے ضروری ہے۔
نومینا ایک موضوعی تصور ہے جو فہم کے مقولات، خیال کی وحدت، تصدیقات وغیرہ پر مشتمل ہے۔ان کا مظاہر پر اطلاق ہوتا ہے لیکن مظاہر سے پرے شے فی الذات پر اطلاق نہیں ہوتا اور اسی وقت ان کو نومینا کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ سید عابد حسین نے ”تنقید عقلِ محض“ کے اردو ترجمے میں بھی اس تفریق کو قائم رکھا ہے۔انہوں نے Phenomenal اور Noumenal کا ترجمہ بالترتیب مظاہر اور معقولات کیا ہے جو کہ دونوں کے مفاہیم کے اعتبار سے بالکل درست ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ”شے فی الذات“ مظاہر سے پرے کوئی ”شے“ ہے اور نومینا یا معقولات ایک موضوعی تصور ہے۔ یہاں مقولات اور معقولات کا فرق بھی ملحوظِ خاطر رہے۔ فہم کے مقولات، وحدتِ خیال اور تصدیق کی صلاحیت کا شمار معقولات میں ہوتا ہے۔ ان تمام کا کوئی بھی اطلاق وجودیاتی تصور ”شے فی الذات“ پر نہیں ہوتا۔
میں نے سانول عباسی صاحب کے 21 مئی والے پروگرام میں اس فرق کو واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ شے فی الذات ایک وجودیاتی (Ontological) تصور ہے، جبکہ اس کے برعکس Noumena ماورائے تجربہ ایک علمیاتی) (Epistemological تصور ہے۔ معقولات یا نومینا کو اس وقت شے فی الذات کہتے ہیں جب وہ حسی ادراکات سے پرے وجودیاتی سطح پر شے فی الذات تک رسائی کی کوشش کرے جو کہ ممکن نہیں ہے۔ یہی اس کا منفی استعمال ہے۔ اسی لیے کانٹ نے اس کو خالی اور محدد تصور کہا ہے۔ اس کا مظاہر سے خالی ہونا ہی اس کی تحدید ہے۔ وجودیاتی سطح پر شے فی الذات کو بطورِ مظہر کبھی بھی جانا نہیں جا سکتا، صرف اس کا تصور قائم کیا جا سکتا ہے۔ یعنی ایک طرف مظاہر (Phenomenal) کی دنیا ہے۔ دوسری طرف معقولات کی دنیا ہے۔ وجودیاتی سطح پر شے فی الذات کے معروضات بلاواسطہ معقولات یا نومینا کو دستیاب نہیں ہوتے۔ جناب محمد دین جوہر صاحب کی سب سے بنیادی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے وجودیاتی شے فی الذات اور علمیاتی نومینا کے درمیان کوئی تفریق قائم نہیں کی ہے۔ جبکہ خود کانٹ نے شے فی الذات (Thing-in-itself) اور نومینا کے درمیان فرق پر ایک پورا باب رقم کیا ہے، آنجناب نے جسے پڑھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی، انہوں نے فقط پروگرام کو سن کر اپنے ممدوح کے غلط نتیجے کو صرف اپنے عقیدے کی بنیاد پر بغیر کسی بھی طرح کا تجزیہ کیے صحیح قرار دے دیا۔ ان دونوں تصورات کی عدم تفہیم کی بنیاد پر جناب جوہر نے اغلاط کا ایک انبار لگا دیا ہے جن کی تصحیح ازحد ضروری ہے۔ جناب جوہر صاحب لکھتے ہیں،
”اس سے ایک چیز بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ جناب عمران شاہد بھنڈر صاحب کا مجموعی موقف نہ صرف کمزور ہے بلکہ زیر بحث موضوع سے متعلق بالکل غلط بھی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ شے فی الذات کوئی معروض نہیں رکھتی اس لیے وہ ایک خالی تصور ہے۔ یہ مضحکہ خیز ہے، کیونکہ مظہر اور شے فی الذات کی تشقیق تو شے کے معروض کے اندر ہی واقع ہے۔ یعنی انسانی فہم اپنی اوّل پیشرفت ہی میں جان لیتی ہے کہ کوئی بھی شے اپنی کُلیت میں کس حد تک قابلِ فہم کی رسائی میں ہے۔“
جناب جوہر صاحب کی دوسری بڑی غلطی ان کے اسی اقتباس میں موجود ہے۔ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ”مظہر اور شے فی الذات کی تشقیق تو شے کے معروض کے اندر ہی موجود ہے۔“چلیں ہم جوہر صاحب کی اس بات کو تسلیم کرلیتے ہیں کہ معروض دو حصوں میں تقسیم ہے: ایک حصہ جو کہ مشاہدے میں آتا ہے جسے کہ مظہر کہا جاتا ہے۔ دوسرا وہ حصہ جسے ”شے فی الذات“ کہتے ہیں۔ فہم میں مظاہر کے تصورات موجود ہیں لیکن ”شے فی الذات“ کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ اب کیا یہ شے فی الذات فہم کا ’معروض‘ ہے؟ ہرگز نہیں! شے فی الذات مظاہر سے پرے عقل کا قائم کیا گیا تصور ہے۔ یہ صرف ایک خیال ہے، کسی معروض کا تعین نہیں ہے۔ لہذا ضوہر صاحب کا یہ کہنا کہ ”شے فی الذات کہتے ہی اوّل تعین تو قائم ہوجاتا ہے“ ایک باطل نتیجہ ہے۔ اس بارے خود کانٹ کیا کہتا ہے، آئیے دیکھتے ہیں۔
”کسی معروض کا علم حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اس کا امکان (خواہ واقعی تجربے کی شہادت سے یا بدیہی طور پر عقل سے) ثابت کر سکیں۔ لیکن تصور ہم جس چیز کا چاہیں کر سکتے ہیں بشرطیکہ تناقض پیدا نہ ہو۔ یعنی ہمارا تصور خیال کی حیثیت سے ممکن ہو۔ البتہ ہم یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ اشیا ممکنہ کے دائرے میں اس تصور کے جوڑ کا کوئی معروض موجود ہے یا نہیں۔ اس تصور کو معروضی حیثیت (یعنی وجودی امکان صرف اس لیے کہ پہلا امکان صرف منطقی تھا) دینے کے لیے کچھ اور بھی مطلوب ہے۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ ہم اس مطلوب مزید کو علم نظری ہی کے ماخذ میں تلاش کریں، ممکن ہے کہ وہ علم عملی کے ماخذ میں پایا جائے۔“ (تنقید عقلِ محض، ص، ۵۱)۔
کانٹ کے اس اقتباس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہم کوئی بھی تصور قائم کر سکتے ہیں۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ تصور کرنے سے معروض کا تعین ہو گیا ہے۔ ”شے فی الذات“ ایک ممکنہ یا منطقی تصور ہے خود کوئی معروض نہیں ہے۔ اس تصور کے جوڑ کے کسی معروض کے ہونے یا نہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ جو معروض ہمیں مظاہر میں دیا جاتا ہے اسے ہم مظہر ہی کہتے ہیں۔ جوہر صاحب جو غلطی کر رہے ہیں اس کے مطابق ہمیں مظاہر کو شے فی الذات سمجھ لینا چاہیے۔ لیکن مظاہر کے جوڑ کا تو تصور ہمارے پاس فہم محض میں موجود ہے۔ جبکہ شے فی الذات اگر واقعی کوئی معروض ہے تو اسے لازمی طور پر فہم کے احاطہ تصورات میں آنا چاہیے۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ شے فی الذات فہم کا تصور ہی نہیں ہے، بلکہ یہ تو وہ تصور ہے جس کے بارے میں خیال کیا گیا ہے کہ یہ مظاہر سے پرے ہے اور صرف عقل ہی ا س بارے میں سوچ سکتی ہے۔ لیکن عقل کے پاس صرف ایک تصور ہے نہ کہ معروض۔ کیونکہ عقل خارجی معروضات سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی اور کانٹ زور دے کر یہ بات کہہ چکا ہے کہ حسی ادراکات کبھی بھی بلاواسطہ عقل کا معروض نہیں ہوتے۔ اگر جناب جوہر صاحب کی یہ بات مان لی جائے شے فی الذات معروض کے اندر ہے تو بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ عقل کا تصور ہے اور عقل کے پاس ایسا کوئی معروض نہیں ہے جس پر وہ اپنے کسی تصور کا اطلاق کر سکے۔ لہذا جب عقل کے پاس صرف تصور ہے، معروض نہیں تو عقل کے اس تصور کو ایک ”خالی تصور“ ہی کہا جا سکتا ہے، جس کی وضاحت ہم آگے چل کر کریں گے۔ ذہن نشین رہے کہ حسی معروضات فہم کو دیے جاتے ہیں نہ کہ عقل کو، جبکہ شے فی الذات کا تصور عقل کا قائم کیا ہوا ہے نہ کہ فہم کا، اور عقل کے پاس کوئی معروض نہیں ہے جس کا کہ تصور قائم کیا گیا ہے۔ اس لیے کانٹ کہتا ہے کہ اگر ہم ”ان مظاہر کا اشیائے فی الذات کی حیثیت سے ادراک نہ بھی کر سکیں مگر انہیں تصور کر سکتے ہیں۔“ لہذا یہ صرف عقل کا تصور ہے جس کا کوئی معروض عقل کو دستیاب نہیں ہے۔ دوسرا مجھے اس سوال کا جواب دینا ہے کہ کانٹ یہ کیوں کہتا ہے کہ معروضات کے بغیر ہماری فکر میں خالی تصورات ہی ہوتے ہیں۔ اس کے لیے پہلے کانٹ کے وہ الفاظ دیکھتے ہیں جن سے ”خالی“ کا تصور پیدا ہوتا ہے،
Thoughts without content are empty, intuition without concepts are blind. CPR, A50/B74
میں نے یہ مختصر جملہ پیش کیا ہے جو کہ کانٹ کے گہرے تجزیے کا ماحصل ہے۔ کانٹ نے لفظ ’فکر‘استعمال کیا ہے، جبکہ انٹیوشن کے لیے مشاہدہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جہاں تک فہم (Understanding) کا تعلق ہے تو ا س کے لیے حسی ادراکات دستیاب ہوتے ہیں۔ اس لیے انہیں ’خالی‘ کہنا مناسب نہیں ہے۔ یہ اسی وقت تک ’خالی‘ ہیں جب تک انہیں حسی ادراکات موصول نہیں ہوتے۔ لیکن عقل کو کوئی بھی معروض موصول نہیں ہوتا، لیکن عقل مظاہر سے پرے ایک ”حقیقت“ کو سوچتی ہے اور اس کا ایک تصور قائم کیے ہوئے ہے اور وہ تصور صرف تصور ہے جس کا کہ کوئی معروض عقل کو دستیاب نہیں ہے۔ وہ معروض حقیقت میں موجود ہے یا نہیں اس کا کوئی بھی دعویٰ عقل نہیں کر سکتی۔ اسی لیے کانٹ نے کہا تھا کہ عقل شے فی الذات کے امکان کا ایک تصور قائم کرتی ہے۔ جناب جوہر صاحب سے اس حوالے سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ وہ فہم اور عقل کے تصورات میں فرق قائم نہیں رکھ سکے۔ شے فی الذات عقل کا قائم کیا ہوا منطقی تصور ہے جس کا کوئی بھی معروض عقل کے پاس نہیں ہے۔ معروض کے منطقی امکان اور حقیقی امکان میں فرق قائم رکھنا بہت ضروری ہے۔معروضات کا حقیقی امکان فہم کے تصورات سے بامعنی یا علم بنتا ہے۔ عقل کا منطقی امکان کوئی علم نہیں بنتا۔ یعنی عقل کے پاس مظاہر سے پرے شے فی الذات دستیاب نہیں ہے کہ وہ علم بن سکیں۔
جناب جوہر صاحب مزید لکھتے ہیں،
”شے فی الذات کہتے ہی اوّل تعین تو قائم ہوجاتا ہے لیکن فہم اور عقل اس سے آگے کوئی سفر نہیں کر سکتے اور اسی لیے اسے Limiting تصور کہا گیا ہے۔ یعنی شے فی الذات سے کسی مابعد الطبیعات کی طرف پیش رفت ممکن ہے اور نہ فہم کو کچھ حاصل ہو سکتا ہے۔ اور عقل اس تصور کے کھونٹے سے جھولتی رہتی ہے۔ بھنڈر صاحب کا یہ کہنا بھی کہ یہ ایک مابعد الطبیعاتی تصور ہے بالکل درست نہیں ہے۔۔۔۔ ان کا یہ کہنا کہ کانٹ نے یہ تصور مذہب کو بچانے کے لیے دیا تھا، ایک تعصب ہے اور ان کی پوری فلسفیانہ تفہیم پر بنیادی سوالات کھڑے کر دیتا ہے۔“
جناب جوہر صاحب کا یہ اقتباس بہت مبہم ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی وہ اپنی پہلی اغلاط کو دُہرا رہے ہیں۔ میں یہ واضح کر چکا ہوں کہ شے فی الذات فہم کا مسئلہ ہی نہیں ہے،بلکہ فہم کے تصورات صرف مظاہر تک محدود ہوتے ہیں۔ عقل مظاہر سے آگے سوچتی ہے، لیکن ان سے آگے سفر اس لیے نہیں کر سکتی کہ عقل حسی معروضات سے کوئی سروکار نہیں رکھتی بلکہ وہ فہم کے قواعد سے اصول اخذ کرتی ہے۔ جو ہر صاحب کا دوسرا نکتہ جس میں انہوں نے یہ کہا ہے کہ کانٹ نے مذہب کو بچانے کی کوشش نہیں کی اور میرا یہ کہنا میری ساری فلسفیانہ تفہیم پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ میری ”پوری فلسفیانہ تفہیم“ پر سوالیہ نشان ضرور لگانا سے پہلے ضروری ہے کہ ہم یہ جائزہ لے لیں کہ جناب جوہر صاحب کی ”فلسفیانہ“ تفہیم کی کیا سطح ہے۔ اس حوالے سے کانٹ کا یہ اہم ترین اقتباس پیش کر رہا ہوں۔
”ہم خدا اختیاراور بقائے روح کے تصورات کو اپنی عقل کے عملی استعمال کے لیے سرے سے فرض ہی نہیں کر سکتے، جب تک عقل نظری کا اپنی حد سے آگے معلومات رکھنے کا دعویٰ بالکل باطل نہ کر دیا جائے۔ اس لیے وہ ان معلومات کے حاصل کرنے میں ایسے بنیادی قضایا سے کام لیتی ہے جن کا دائرہ اصل میں معروضات تجربہ تک محدود ہے مگر وہ ان تصورات پر بھی عائد کیے جاتے ہیں جو تجربے کا معروض نہیں ہو سکتے۔ یعنی سچ پوچھیں تو یہ قضایا ان تصورات کو بھی مظاہر بنا دیتے ہیں اور اس طرح عقلِ محض کی عملی توسیع کو ناممکن قرار دیتے ہیں۔ اس لیے ہمیں علم کو معزول کرنا پڑا تاکہ عقیدے کے لیے جگہ خالی ہو۔“ تنقید عقلِ محض، دیباچہ دوئم۔
کانٹ کا یہ اقتباس اس کے مکمل نظری اور عملی فلسفے کا ماحصل ہے جو اس قدر اہم اور واضح ہے کہ اس کو سمجھے بغیر آگے بڑھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس اقتباس میں جناب جوہر صاحب کے تمام دعوے ازخود باطل ہو جاتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ علم کا تعلق معروضاتِ تجربہ تک محدود ہے۔ لیکن عقل ان معروضاتِ تجربہ سے آگے بڑھنا چاہتی ہے، وہ معروضات جو شے فی الذات ہیں اور کبھی بھی تجربے کا معروض نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ اگر عقل تجربے کی حدود سے آگے بڑھ جاتی ہے تو شے فی الذات کسی بھی صورت میں شے فی الذات نہیں رہتی، بلکہ مظہر کی سطح پر آکر تجربے کا معروض بن جائے گی۔ یہی وہ حتمی تفریق ہے جو شے فی الذات اور مظہر کے درمیان پائی جاتی ہے۔دوسری اہم بات جس سے جناب جوہر صاحب کے دعوے کا ابطال ہوتا ہے یہ ہے کہ جب تک شے فی الذات مظاہر سے الگ نہ رہے اس وقت تک، بقول کانٹ، عقیدے کے لیے جگہ خالی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے کانٹ کہتا ہے کہ اگر شے فی الذات کو مظاہر میں تجربے کا معروض سمجھ لیا جاتا تو عقیدے کے لیے کوئی جگہ نہیں بچتی۔ شے فی الذات ان معنوں میں ایک مابعد الطبیعاتی تصور ہے،جس پر عقیدے کی بنیاد استوار ہے۔ اس تصور کو قائم تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس کا علم حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر شے فی الذات ہی عقیدے کی بنیاد ہے تو پھر شے فی الذات کا اثبات یہ ثابت کرتا ہے کہ شے فی الذات کے علاوہ عقیدے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔اور جب تک شے فی الذات کو شے فی الذات نہ رہنے دیا جائے اس وقت تک، بقول کانٹ، ”عقلِ محض کی عملی توسیع ناممکن ہے۔“یہی شے فی الذات ہے جسے کانٹ اپنے عملی، اخلاقی فلسفیانہ پروجیکٹ میں بطور خدا ایک مابعد الطبیعاتی تصور کے طور پر استعمال کرتا ہوا جواز پیدا کرتا ہے۔
جناب جوہر صاحب یہ فرماتے ہیں کہ”شے فی الذات کہتے ہی اوّل تعین تو قائم ہو جاتا ہے۔“ یہ ایک بنیادی غلطی ہے جو جناب جوہر صاحب سے اس لیے سرزد ہوئی ہے کہ وہ تعین اور عدم تعین کے فلسفیانہ فرق سے آگاہ نہیں ہیں۔ شے فی الذات کو خیال کرنا اس کا تعین کرنا نہیں ہوتا، بلکہ وہ صرف خیال کرنے تک محدود ہوتا ہے اور یہ خیال بذاتِ خود غیر متعین ہوتا ہے۔ شے فی الذات کا یہ خیال اسی صورت میں متعین ہو سکتا ہے جب شے فی الذات کا معروض فہم کی دسترس میں ہو۔ اس کی بہترین وضاحت کانٹ نے ان الفاظ میں کی ہے،
”جب فہم کسی معروض کو ایک لحاظ سے مظہر اور دوسرے لحاظ سے شے فی الذات کہتی ہے تو وہ سمجھتی ہے کہ ان اشیا فی الذات کے تصورات قائم کیے جا سکتے ہیں۔ اور چونکہ اس کے پاس مقولات کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا اس لیے وہ انہی مقولات کے ذریعے شے فی الذات کا تصور کر سکتی ہے، لیکن یہاں اس سے یہ غلطی ہوتی ہے کہ وہ شے فی الذات کے غیر متعین تصور کو حس سے باہر ایک ایسی ہستی کا متعین تصور کر لیتی ہے جسے ہم کسی طرح سے فہم سے معلوم کر سکتے ہیں۔“ تنقید عقلِ محض، سیکشن، بی306۔
کانٹ نے آخری جملے میں جس غلطی کو عیاں کیا ہے وہی غلطی جوہر صاحب سے سرزد ہوئی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ کسی شے کا تصور کرنا اور اس شے کو متعین کرنا دو مختلف باتیں ہیں۔ شے فی الذات کا تصور صرف ایک غیر متعین تصور ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ جناب جوہر صاحب مزید کہتے ہیں کہ ”فہم و عقل اس سے آگے کوئی تصور قائم نہیں کر سکتے اسی لیے اسے Limiting تصور کہا گیا ہے۔“ اگر ہم یہ سوال کریں کہ فہم و عقل کس سے آگے کوئی تصور قائم نہیں کر سکتے؟ جوہر صاحب کا جواب ہے کہ شے فی الذات سے آگے۔ لیکن ان کا یہ جواب غلط ہے۔ فہم و عقل صرف مظاہر سے آگے شے فی الذات کا تصور تو قائم کرتے ہیں لیکن اس شے فی الذات کو جان نہیں سکتے۔ یہ شے فی الذات ہی ہے جو مظاہر سے آگے ہے۔ جوہر صاحب نے محدد تصور (Limiting) کا بھی غلط استعمال کیا ہے۔ اس لیے یہاں ضروری ہے کہ محدد تصور کی وضاحت کی جائے، لیکن محدد تصور کی وضاحت اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب پہلے یہ نہ طے کیا جائے کہ ”نومینا“ کیا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہا جائے گا کہ نومینا فہمِ محض کے مقولات پر مشتمل ہے، جس کا دو طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک وہ جب وہ عقل کا معروض ہوتا ہے اور عقل اسے جان نہیں سکتی، صرف سوچ سکتی ہے، جہاں سے مابعد الطبیعات اعیان پیدا ہوتے ہیں۔اس کو کانٹ نے ’نومینا‘ کا مثبت استعمال کہا ہے۔ دوسرا اس کا منفی استعمال ہے جب فہمِ محض کے مقولات کا دائرہ مظاہر سے پرے تک وسیع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جو کہ ممکن نہیں ہے اور یہیں سے نومینا ایک محدد تصور کے طور پر تشکیل پاتا ہے۔ کانٹ اس سلسلے میں بہت اہم بات کرتا ہے۔
”جب ہم نومینا سے ایک ایسی شے مراد لیتے ہیں جو ہمارے حسی مشاہدے کی معروض نہیں، بلکہ ہم صرف اس اپنے طریق مشاہدہ سے ا س کی تجرید کر لیتے ہیں تو یہ نومینا کا منفی استعمال ہے۔ لیکن اگر ہم اسے ایک غیر حسی مشاہدے کا معروض قرار دیں تو ہم ایک مخصوص طریق مشاہدہ فرض کرتے ہیں جسے عقلی مشاہدہ کہتے ہیں، اس کا امکان بھی ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ یہ نومینا کا مثبت استعمال ہے۔“ تنقید عقلِ محض، بی 306۔
اس اقتباس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جب فہم مظاہر کی حیثیت کے برعکس شی فی الذات کی حیثیت سے کوئی خیال کرتی ہے تو اس وقت مقولات کو بروئے کار نہیں لایا جا سکتا، کیونکہ مقولات کا اطلاق صرف مظاہر پر کیا جاتا ہے۔ وجہ یہ کہ فہم کے مقولات زمان و مکاں سے پرے شے فی الذات پر لاگو نہیں ہوتے۔ ان کا دائرہ صرف مظاہر تک محدود ہوتا ہے جو کہ مشاہدے کی قبل تجربی شرائط کے پابند ہوتے ہیں۔ ان معنوں میں نومینا نہ صرف یہ کہ ایک منفی تصور ہے بلکہ محدد اور ایک خالی تصور بھی کہلاتا ہے۔ کانٹ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو،
The concept of a noumenon is therefore merely a limitative concept and therefore only of negative use. CPR, A255
لہذا نومینا جو کہ فہم کے مقولات پر مشتمل ہے ا س کا حسیات سے پرے شے الذات پر اطلاق نہیں ہوتا وہ صرف مظاہر تک محدود ہوتا ہے۔ چونکہ شے فی الذات مشمولات سے عاری صرف ایک خیال ہے
The possibility of such noumena is quite incomprehensible, and beyond the sphere of appearances, all is for us a mere. VOID. CPR, A255
جناب جوہر صاحب یہ نہیں سمجھ پائے کہ نومینا اس وقت ایک ”خالی“ تصور کہلاتا ہے، جب فہم کے تصورات مظاہر سے پرے شے فی الذات تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوتے۔ وہ یہ کہ مظاہر کے حسی ادراکات ہی فہم کا معروض ہوتے ہیں، لہذا جب حسی ادراکات معروض نہ ہوں تو فہم کے تصورات کا زمان و مکان سے پرے اطلاق شے فی الذات پر نہیں کیا جا سکتا۔ چونکہ نومینا میں وجودیاتی سطح پر شے فی الذات کا ادراک ناممکن ہے اس حوالے سے نومینا”خالی“ ہوتا ہے، اسی لیے کانٹ نے اسے Limitating تصور کہا ہے۔
جب فہم کے تصورات کا اطلاق شے فی الذات پر نہ ہو تو ا سکے باوجود فہم کے کُل تصورات عقل کا معروض ہوتے ہیں۔ لیکن عقل انہیں جان نہیں سکتی کیونکہ جاننے کے لیے حسی معروضات کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے کہ جہاں کانٹین فلسفے میں خدا کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ لیکن یہ تصور کوئی حقیقی تصور ان معنوں میں نہیں ہے کہ اس کا معروضات پر اطلاق کیا جا سکے۔ بلکہ یہ تصور محض ایک”منطقی امکان“ ہے۔داخلی سطح پر یہ علمیاتی اور خاجی سطح پر شے فی الذات کا تصور ہے۔ وجودیاتی سطح پر شے فی الذات اور موضوعی سطح پر نومینا میں تطابق ممکن نہیں ہے۔ تاہم عقل موضوعی سطح پر نومینا کے تصور کے بارے میں سوچنے کا حق رکھتی ہے۔ اسی نومینا کو کانٹ ”تنقید عملِ محض میں بروئے کار لاکر مقولات کے منطقی استخراج سے خدا کا تصور حاصل کرتے ہوئے اسے اپنے اخلاقی فلسفیانہ پروجیکٹ کے لیے استعمال کرتا ہے۔ مقولات کا یہ منطقی استخراج ہمارے تجزیے کا موضوع نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر صاحب یوکے میں مقیم فلسفے کے استاد اور متعدد کتب کے مصنف ہیں ۔
کمنت کیجے