محمد زاہد صدیق مغل
تیسری مثال: مطلقہ کے مہر کے احکام
مطلقہ دو طرح کی ہے: مدخولہ و غیر مدخولہ۔ ان میں سے ہر ایک پھر دو قسم کی ہے: جس کا مہر مقرر ہو اور نہ ہو۔ یہ کل ملا کر چار اقسام ہوئیں:
1۔ مدخولہ جس کا مہر مقرر کیا گیا ، ان کا حکم پورا مہر ادا کرنا ہے
2۔ مدخولہ جس کا مہر مقرر نہ ہوا ۔ ان کے لئے مہر مثل ہے۔ سورہ نساء آیت 24 میں ارشاد ہوا:
فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیۡضَۃً
ترجمہ: ان میں سے جن سے تم نے تمتع کیا ہو تو ان کو ان کے مہر دو، فریضہ کی حیثیت سے
یہاں کسی معین مقدار کا ذکر نہیں ہوا تاہم مؤطہ شبھۃ کے لئے مہر مثل کا حکم ثابت ہے، اس دوسری قسم کو قیاس کے ذریعے اس حکم میں شامل کیا گیا ہے۔
3۔ غیر مدخولہ مگر مہر مقرر ہوا۔ ان کا حکم سورہ بقرۃ آیت 237 میں نصف مہر مقرر کیا گیا :
وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ
ترجمہ: اگر تم نے ان کو طلاق تو دی ان کو ہاتھ لگانے سے پہلے لیکن ایک متعین مہر ٹھہرا چکے ہو تو مقررہ مہر کا آدھا ادا کرو
4۔ غیر مدخولہ جس کا مہر بھی مقرر نہ ہو ، ان کا حکم سورہ بقرۃ کی آیت 236 میں یہ بیان ہوا کہ ان کا مہر نہیں البتہ انہیں حسب توفیق “متاع معروف” دیا جانا چاہئے :
لَا جُناحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّساءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتاعاً بِالْمَعْرُوفِ
ترجمہ: اگر تم عورتوں کو اس صورت میں طلاق دو کہ نہ ان کو ہاتھ لگایا ہو اور نہ ان کے لیے متعین مہر مقرر کیا ہو تو ان کے مہر کے باب میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ البتہ ان کو دستور کے مطابق دے دلا کر رخصت کرو، صاحب وسعت اپنی وسعت کے مطابق اور غریب اپنی حالت کے مطابق
پھر آیت 240 میں بعض شرائط کے ساتھ بیوہ عورتوں کے حق میں ایک سال کے نفقے کی وصیت کا حکم دیا گیا ہے (بیوہ کے مسائل پر ہم ان شاء اللہ الگ سے بات کریں گے)۔ پھر درمیان میں صلوۃ سے متعلق ایک آیت لائی گئی ہے جو مکتب فراہی کے مطابق اس بات کی نشانی ہے کہ پیچھے چلی آنے والی احکام کی بات ختم ہوگئی۔ اس کے بعد پھر دو آیات ہیں، پہلی کا تعلق بیوہ سے اور دوسری کا مطلقہ سے ہے۔ چنانچہ آیت 241 میں مطلقہ کے بارے میں ارشاد ہوا:
وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ،
ترجمہ: اور مطلقہ عورتوں کو بھی دستور کے مطابق کچھ دینا دلانا ہے
فقہا نے آیات سے جو سمجھا یہاں ہم ان تفصیلات میں نہیں جانا چاہتے کیونکہ مکتب فراہی اسے حجت نہیں سمجھتا۔
آیت 241 (وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ) کے بارے میں چند طرح کے امکان ہیں:
الف) پہلا امکان یہ ہے کہ آیت 241 نے تمام مطلقات کے ابتدائی احکام منسوخ کرکے سب کے لئے متاع معروف کا ایک ہی حکم مقرر کردیا۔ اس صورت میں یہ نسخ بنتا ہے۔ غامدی صاحب کو یہ رائے قبول نہیں۔
ب) دوسرا یہ کہ اس کا تعلق ہر قسم کی مطلقہ سے ہے اور آیت کا مدعا یہ ہے کہ ہر مطلقہ کو مہر کے سوا کچھ متاع معروف دینا لازم ہے، غامدی صاحب اس کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ کا حکم الگ سے واجب ہے جیسا کہ وہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
” یہ ایک حق واجب ہے۔ اگرکوئی شخص اِسے ادا نہیں کرتا تواللہ کے ہاں یقینا اِس پر ماخوذ ہو گا اور آخرت میں اُس کے ایمان و احسان کا وزن اِسی کے لحاظ سے متعین کیا جائے گا” (البیان)
غور کیجئے کہ پچھلی آیات میں متاع کا حکم صرف ایک قسم کی مطلقہ (غیر مدخولہ جس کا مہر مقرا نہ ہوا) کے لئے دیا گیا تھا اور دیگر تین کے لئے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا تھا ۔ چنانچہ اس صورت میں آیت 241 نے مطلقہ کی تین اقسام (مدخولہ جس کا مہر مقرر کیا گیا، مدخولہ جس کا مہر مقرر نہیں کیا گیا اور غیر مدخولہ جس کا مہر مقرر کیا گیا) کے ابتدائی حکم پر اضافہ کیا کیونکہ متاع معروف کا حکم ابتداء صرف اس غیر مدخولہ مطلقہ کے لئے تھا جس کا مہر مقرر نہ ہوا ہو۔
ان سب احکام کے بعد آیت 242 میں ارشاد ہوا:
كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
اسی طرح اللہ اپنی آیتوں کی تمہارے لیے وضاحت کرتا ہے تاکہ تم سمجھو
معلوم ہوا کہ حکم میں اضافہ کرنا شارع کے عرف میں تبیین ہی کہلاتا ہے۔
چوتھی مثال : بیوہ کے احکام
سورہ بقرۃ آیت 234 میں بیوہ سے متعلق یہ حکم دیا گیا کہ اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے :
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا
ترجمہ: جو تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں اپنے بارے میں چار ماہ دس دن توقف کریں
اس کے بعد مطلقہ خواتین کے احکام بیان ہوئے جن کا تذکرہ پیچھے گزرا، پھر صلوۃ سے متعلق ایک آیت کے بعد مکتب فراہی کے مطابق بیوہ سے متعلق آیت نمبر 240 توضیح کے لئے لائی گئی:
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ۚ
ترجمہ: جو تم میں سے وفات پائیں اور بیویاں چھوڑ رہے ہوں وہ اپنی بیویوں کے لیے سال بھر کے نان نفقے کی گھر سے نکالے بغیر وصیت کر جائیں۔
اس آیت میں بیوہ کے لئے غیر اخراج کی شرط کے ساتھ ایک سال نفقے (متاع) کی وصیت کا حکم دیا گیا ہے ، یعنی اگر بیوہ فوت شدہ خاوند کے گھر میں رہنا چاہے تو سال بھر وصیت کردہ مال پر رہ سکتی ہے۔ تاہم اگر مطلقہ اپنی مرضی سے فیصلہ کرتے ہوئے گھر چھوڑنا چاہے تو اسے اس کا اختیار ہے۔ اصلاحی صاحب کے مطابق یہ اس دور سے متعلق ایک عارضی حکم تھا جب میراث کی آیات نازل نہ ہوئی تھیں، احکام میراث کے اجرا کے بعد وصیت کا یہ حکم اسی طرح منسوخ ہوگیا جیسے والدین اور دیگر رشتے داروں کے لئے منسوخ ہوگیا۔ تاہم غامدی صاحب کے مطابق یہ مستقل حکم ہے جس کا آیات میراث سے تعلق نہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
” عورت کو نان و نفقہ اور سکونت فراہم کرنے کی جو ذمہ داری شوہر پر اُس کی زندگی میں عائد ہوتی ہے، یہ اُسی کی توسیع ہے۔ عدت کی پابندی وہ شوہر ہی کے لیے قبول کرتی ہے۔ پھر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے بھی اُسے کچھ مہلت لازماً ملنی چاہیے۔ یہ حکم اِن مصلحتوں کے پیش نظر دیا گیا ہے۔ تقسیم وراثت سے اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ” (البیان)
متعلقہ آیات کی تفہیم سے متعلق دیگر آراء بھی موجود ہیں مگر سب کا احاطہ مقصود نہیں۔ زیر بحث مقدمے کے تناظر میں یہاں اہم بات یہ ہے کہ آیت 234 کے بعد 240 میں بیوہ سے متعلق ایک حکم کا اضافہ کیا گیا ہے اور اس اضافے کو تبیین کہا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ کسی اصل حکم پر “اضافہ” شرح ہونے کے خلاف نہیں۔
پانچویں مثال : وہ خواتین جن سے نکاح حرام ہے
سورہ نساء آیت 23 میں ان خواتین کا ذکر ہوا جن کے ساتھ نکاح حرام ہے:
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ الخ
ترجمہ: تم پر حرام کی گئیں تمھاری مائیں، تمھاری بیٹیاں الخ
اس کے بعد آیت 23 میں آیا کہ ان کے سوا دیگر سب خواتین سے نکاح جائز ہے :
وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ
ترجمہ: ان کے ماسوا جو عورتیں ہیں وہ تمھارے لیے حلال ہیں
یہاں “مَا وَرَاءَ ذَٰلِكُ” میں ” مَا ” کے عموم پر توجہ رہے۔ سورہ بقرۃ آیت 221 میں مشرکات کے ساتھ نکاح کرنے سے منع کیا گیا :
لَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ
ترجمہ: مشرکہ عورتوں سے جب تک وہ ایمان نہ لائیں نکاح نہ کرو
سورہ بقرۃ کی اس آیت کے آخر میں تبیین کا لفظ آیا ہے:
وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ
ترجمہ: (اللہ) اپنی آیتیں لوگوں کے لیے واضح کرتا ہے
یہاں دو امکان ہیں:
الف) سورہ بقرۃکی آیت سورہ نساء کی آیت کے بعد نازل ہوئی، اس صورت میں اس نے سورہ نساء میں لفظ ” مَا ” کے عموم کی تخصیص کی اور اسے تبیین کہا گیا
ب) سورہ بقرۃ کی آیت پہلے نازل ہوئی اور سورہ نساء کی آیت محرمات بعد میں، اس صورت میں لفظ ” مَا ” سے سورہ بقرۃ کے حکم کے منسوخ ہونے کا پہلو نکلتا ہے۔ اصلاحی و غامدی صاحب کا اس پر کیا موقف ہے، یہ ہمیں معلوم نہیں ہوسکا ۔ اگر سورہ بقرۃ کی آیات بعد میں نازل ہوئی تو سورہ بقرہ کے مطابق (ایک خاص شرط پوری ہونے تک) خود اپنی مطلقہ کے ساتھ نکاح کرنا بھی جائز نہیں ۔ چنانچہ اس حکم نے بھی سورہ نساء کے مَا وَرَاءَ ذَٰلِكُ کی تخصیص کی ہے۔ یہاں ضمناً یہ بات بھی یاد رہے کہ سورہ احزاب میں نبیﷺ کی ازواج کے ساتھ نکاح کی حرمت کا حکم بیان ہوا ہے جو یقیناً سورہ نساء کے بعد نازل ہوا۔ چنانچہ اس حکم نے بھی سورہ نساء میں لفظ ” مَا ” کے حکم کی تخصیص کی ہے جسے اصولیین جزئی نسخ بھی کہتے ہیں۔
مکتب فراہی کی جانب سے یہاں کہا جاسکتا ہے کہ کسی ایک سورت میں مذکور لفظ تبیین کو کسی دوسری سورت میں مذکور احکام پر جاری کرنا درست نہیں کیونکہ ان الفاظ کے ذریعے شارع عام طور پر اسی سورت میں پہلے دئیے گئے احکام کی توضیح بیان کرتا ہے۔ اس کی اصولی بنیاد اور دلیل پر اگر ہم سوال نہ اٹھائیں تب بھی یہ ہمارے سوال کو کمزور نہیں کرتا اس لئے کہ خود اصلاحی صاحب نے سورہ بقرۃ میں مشرکہ کے ساتھ نکاح کی حرمت کے احکام کو سورہ نساء کی آیات ملا کر بیان کیا ہے۔ ان کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی یتیم کا ولی، یتیم کے حقوق ہی کے تحفظ کے نقطۂ نظر سے اگر اس یتیم کی ماں سے نکاح کر تو یہ از خود ایک اچھی بات ہے لیکن سورہ بقرۃ کی آیت نے بتایا کہ شرط یہ ہے کہ خاتون مؤمنہ ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ شرک جہنم کی طرف دعوت ہے۔ پھر آپ کہتے ہیں:
“یہ آیت بھی چونکہ اوپر کے مباحث کی وضاحت کے طور پر نازل ہوئی ہے اس وجہ سے آخر میں فرما دیا کہ وَیُبَیِّنُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ۔ اور اللہ اپنی آیتوں کی وضاحت کر رہا ہے تاکہ لوگ یاددہانی حاصل کریں۔ اوپر کی دو آیتوں میں یتامیٰ سے متعلق جو باتیں کہی گئی ہیں سورۂ نساء میں بھی ان کی طرف اشارے ہیں۔” (تدبر قرآن)
پھر انہوں نے سورہ نساء کی آیات 2 اور 3 لکھی ہیں:
وَاٰتُوا الْیَتٰمٰٓی اَمْوَالَھُمْ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِص وَلَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَھُمْ اِآٰی اَمْوَالِکُمْ اِنَّہٗ کَانَ حُوْبًا کَبِیْرًا وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ الخ
ترجمہ: اور یتیموں کے مال ان کے حوالہ کرو، نہ اپنے برے مال کو ان کے اچھے مال سے بدلو اور نہ ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ گڈ مڈ کر کے اس کو ہڑپ کرو۔ بے شک یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ اور اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کر سکو گے تو عورتوں میں سے جو تمھارے لیے جائز ہوں ان سے دو دو، تین تین، چار چار تک نکاح کر لو الخ
اس سے پتہ چلتا ہے کہ خود اصلاحی صاحب نے سورہ نساء کے ان احکام کو سورہ بقرۃ کی وضاحت یعنی تبیین کے ساتھ ملا کر دیکھا ہے لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وضاحتیں آپس میں ملی ہوئی ہیں۔
یہاں چلتے چلتے آخر میں ایک ضمنی سوال یہ ہے کہ سورۃ احزاب آیت 49 کے مطابق اگر مومن خاتون سے نکاح کے بعد دخول سے قبل اسے طلاق دے دی تو اس پرکوئی عدت نہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا
ترجمہ: اے ایمان والو، جب تم مومنہ عورتوں سے نکاح کرو پھر ان کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان کے بارے میں تم پر کوئی عدت واجب نہیں ہے جس کا تمہیں لحاظ کرنا ہو۔
یہاں یہ حکم مؤمن خواتین کے لئے بیان ہوا ہے۔ کیا اہل کتابیہ کے لئے بھی یہی حکم ہے یا ان کا حکم مختلف ہے؟ جو بھی جواب ہے اس کا اصول کیا ہے نیز اس اصول کا تخصیص، تقیید و اضافے کے ساتھ کوئی تعلق ہے؟ نیز اس اصول سے جو نتیجہ نکلا اس کا سورہ بقرۃ کے احکام کے ساتھ کیسا تعلق ہے؟
چھٹی مثال : باندی کی سزا میں تخفیف
سورہ نور آیت 2 میں زانی مرد و زن کی سزا سو کوڑے بیان ہوئی:
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ
ترجمہ: زانی عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو
یہاں آزاد و غلام کی تخصیص کئے بغیر سو کوڑے حکم بیان کیا گیا ہے۔ تاہم سورہ نساء آیت 25 میں باندی کی سزا محصنۃ کے مقابلے میں نصف قرار دی گئی ہے:
فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ
ترجمہ: اگر وہ بدکاری کی مرتکب ہوں تو آزاد عورتوں کے لیے جو سزا ہے اس کی نصف سزا ان پر ہے۔
اصلاحی صاحب اس نرمی کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“سزا میں ان کے لیے آزاد عورتوں کے بالمقابل جو رعایت رکھی گئی اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کو وہ تحفظ حاصل نہیں تھا جو قدرتی طور پر خاندانی عورتوں کو حاصل تھا۔” (تدبر قرآن)
غامدی صاحب اس حکم کی توجیہہ جس طرح کرتے ہیں وہ ہمارے علم میں ہے۔ لیکن باندی کے حکم میں تخفیف کی علت و توجیہہ بھلے سے جو مرضی قرار دی جائے، اس بات سے انکار ناممکن ہے کہ یہاں لفظ “زانی” میں شامل بعض افراد کو اس سے نکال دیا گیا ہے کیونکہ زانی سے “آزاد زانی” مراد لینا نہ عربی لغت کا تقاضا ہے، نہ سیاق کلام کا اور نہ عقل عام کا۔ یہ بھی جزئی نسخ کی صورت ہے۔ اس کے بعد آیت 26 میں ارشاد ہوا:
يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيَكُمْ
ترجمہ: اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ تم پر اپنی آیتیں واضح کر دے
معلوم ہوا کہ تخصیص تبیین ہی ہے۔
درج بالا مثالوں سے انصاف پسند اہل علم پر یہ بات قطعی طور پر واضح ہوچکی کہ قرآن کے مطابق درج ذیل امور تبیین کی صورتیں ہیں:
1۔ تخصیص
2۔ جزئی نسخ
3۔ تقیید و تحدید
4۔ اضافہ
چنانچہ یہ دعوی شارع کی عادت مستمرہ نیز عقل عام کے خلاف ہے کہ یہ امور بیان و شرح سے باہر ہیں۔ دنیا کا ہر عقل مند انسان جانتا ہے کہ متکلم تخصیص، اضافہ و نسخ کی صورت اپنے کلام کی وضاحت کرتا ہے۔ دھیان رہے کہ یہاں ہم نے صرف وہی مثالیں ذکر کی ہیں جہاں شارع نے خود ان طرق وضاحت کو براہ رست تبیین قرار دیا ہے وگرنہ وہ مقامات جہاں اس لفظ کے بغیر شارع نے ایسی وضاحت کی وہ درجنوں ہیں (مثلا وراثت کے احکام سے وصیت کے احکام کو منسوخ یا ان کی تخصیص کرنا وغیرہ)۔ تاہم ان قرآنی حقائق سے سہو نظر کرتے ہوئے غامدی صاحب “رجم کی سزا” پر اپنے مضمون میں فرماتے ہیں:
“لغت قرآن سے واقف کوئی شخص اِس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ’ اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ ‘ کے الفاظ سے محض کنوارا زانی اور کنواری زانیہ بھی مراد لیے جا سکتے ہیں ۔ آیت کے الفاظ اپنے لغوی مفہوم کے اعتبار سے اِس کی نفی کرتے ہیں ۔ جملے کی ترکیب و تالیف اِس سے ابا کرتی ہے ۔ کلام کے سیاق و سباق کو اِسے قبول کرنے سے انکار ہے ۔ عرف و عادت کی دلالت کی بناپر اِسے متکلم کا منشا قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ قاضی عقل بالصراحت اِس کے عدم جواز کا فتویٰ دیتا ہے ۔ غرض کسی لحاظ سے اِسے قرآن مجید کے مدعا کی شرح و تبیین قرار دینا ممکن نہیں ہے ۔ یہ اگر شرح ہے تو پھر بیل سے گھوڑا مراد لیا جا سکتا ہے ۔ زمین کا لفظ آسمان کے معنی میں بولا جا سکتا ہے ۔ ثریا سے ثریٰ کا مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے ۔ آفتاب ماہ کا ہم معنی ہو سکتا ہے اور نور کو ظلمت کے محل میں استعمال کر سکتے ہیں ۔ ہر وہ شخص جو اِسے شرح کہنے کی جسارت کرتا ہے ، بغیر کسی خوف تردید کے کہا جا سکتا ہے کہ وہ قرآن کی بلاغت پر حرف لاتا ، اُس کی فصاحت سے انکار کرتا اور اُس کی ابانت کو مجروح ٹھیراتا ہے”(برھان)
غامدی صاحب کا یہ اقتباس انشا پردازی کا حسین مرقع ہونے کے باجود اصل مدعے سے غیر متعلق ہے۔ زانی سے غیر شادی شدہ زانی کی مراد کو نور و ظلمات، زمین و آسمان اور بیل و گھوڑے پر قیاس کرتے ہوئے پیش کرنا خلط مبحث کے سوا کچھ نہیں کیونکہ اہل علم جانتے ہیں کہ ان تینوں کے مابین تضاد یا تقابل عدم ملکہ کا تعلق ہے جو ایک وقت میں جمع نہیں ہو سکتے۔ اس کے برعکس لفظ زانی کے اطلاق میں “شادی شدہ اور غیر شادی شدہ” کا شامل ہونا ایک عام کے تحت اس کے مختلف افراد کا آنا ہے جو اس کے عموم میں ابتدائے کلام سے داخل ہیں۔ اب اس کے عموم میں تخصیص کی نفی کے لیے غامدی صاحب نے اپنے ذوق کو بنیاد بناتے ہوئے کہا کہ متکلم یہاں یہ مراد ہی نہیں لے سکتا، اس کے سوا ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ یہاں متعلقہ مثال یوں ہے کہ “گائے” ذبح کرو کے بعد “پیلی گائے ” ذبح کرنے کا حکم دیا جائے اور ہم دیکھ چکے ہیں کہ قرآن نے اسے تبیین قرار دیا ہے۔ چنانچہ یہ بات بلا خوف و تردد کہی جاسکتی ہے کہ غامدی صاحب کے نظرئیے کی رو سے قرآن کی اصطلاح پر حرف آتا ہے۔
حاصل بحث
مسئلہ رجم پر غامدی صاحب کا مدعا دو مقدمات پر مبنی ہے:
1۔ تبیین میں تخصیص، نسخ و اضافہ وغیرہ شامل نہیں
2۔ سنت کو تبیین کا درجہ حاصل ہے، لہذا اس کے ذریعے تخصیص، نسخ و اضافہ جائز نہیں
نتیجہ: رجم کی سزا سے متعلق فقہا کا موقف یہ کہتا ہے کہ سنت نے قرآن کی تخصیص یا تنسیخ کی، لہذا یہ موقف غلط ہے
غامدی صاحب نے اپنی تحریر میں لکھا ہے:
“جو لوگ ہمارے اِس موقف کی تردید کرنا چاہتے ہیں ، اُن کے لیے صحیح راستہ یہ ہے کہ وہ فقہا کی اِس تعبیر کو قرآن کی شرح ثابت کر دیں یا قرآن مجید سے سنت کے لیے یہ اختیار ثابت کر دیں کہ وہ اُس کے احکام میں تغیر و تبدل کر سکتی ہے ۔ اِس کے بعد اُنھیں اپنا موقف ثابت کرنے کے لیے روایات و آثار کے انبار جمع کرنے کی ضرورت نہ ہو گی ۔ وہ ایک روایت بھی اگر پیش کریں گے تو ہم اُس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ ” (برھان)
اس تحریر میں یہ ثابت کیا گیا کہ ان کا پہلا مقدمہ از روئے قرآن غلط ہے، قرآن کی اصطلاح میں اضافہ، تخصیص و نسخ سب تبیین کی اقسام ہیں۔ اس کے بعد ان کا دوسرا مقدمہ خود بخود جاتا رہا کیونکہ سنت کے لئے تبیین کے وہ قائل ہیں۔ لہذا ان کے نتیجے کی کوئی علمی بنیاد نہیں رہ جاتی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ غامدی صاحب اپنے موقف پر از سر نو غور کرتے ہوئے اس سے رجوع کریں گے کیونکہ انہوں نے لکھا ہے:
“کوئی شخص اگر اِس طرح کی کوئی چیز پیش کر دیتا ہے تو ہم جس زور سے اِس کا انکار کر رہے ہیں ، خدا نے چاہا تو اِسی قوت کے ساتھ اِس انکار سے رجوع کے لیے تیار ہوں گے ۔” (برھان)
کمنت کیجے