زبیر بن اسماعیل
پاؤلوکوئیلہو کی عالمی شہرت یافتہ کتاب, مسمی بہ, الکیمسٹ, ہے ,مصنف کا تعلق برازیل سے ہے, انہوں نے دیگر موضوعات پر اور کتابیں بھی تصنیف کی ہیں, مگر انہیں شہرت اس کتاب سے ملی,
کتاب اصل تو انگریزی میں ہے, مگر اس کا اردو ترجمہ,, کیمیا گری, کے نام سے نامور مترجم عمر الغزالی نے کیا ہے, ,,
جب کسی کتاب کے متعلق معلوم ہو کہ فلاں کتاب کا ترجمہ دنیا کی چالیس زبانوں میں ہو چکا ہے,,اور تقریباً چار کروڑ لوگ اسے خرید چکے ہیں, تو ہر کتاب دوست شخص کے دل میں یہ تجسس پیدا ہوتا ہے, کہ مذکورہ کتاب میں ایسا کیا ہے,,,,!
اسی تجسس نے مجھے بھی یہ کتاب پڑھنے پر مجبور کیا,,!
کتاب کیا ہے,,,,! مقصد کا تعین کرنے کی دل میں چاہ پیدا کرتی ہے, مقصد کا تعین کرواتی ہے, اور پھر اس مقصد پر چلنے کی جدوجہدِ کرنے اور آنے والی مصیبتوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت اور ہمت پیدا کرتی ہے,,,!
یہ ایک ہسپانوی چرواہے کی کہانی ہے, جو چرواہا تو نہیں ہوتا مگر سیاحت اور کچھ سیکھنے کا شوق اسے چرواہا بنا دیتا ہے, یوں سمجھیں کہ چرواہا بننا اس کا مقصد بن جاتا ہے, اس کی کل کائنات اس کی بھیڑیں ہوتی ہیں, مگر وقت کے ساتھ اس کی زندگی میں تبدیلیاں آتی ہیں, مقاصد تبدیل ہوتے ہیں, مصیبتیں آتی ہیں, قربانیاں دلوائی جاتی ہیں, اور بلآخر اسے اس کا سب سے آخری مقصد, ایک خزانے کی صورت میں مل جاتا ہے,, حیران کن بات یہ کہ اسے وہ خزانہ وہیں ملتا ہے, جہاں سے اس نے پہلے دن چرواہا بننے کا سوچا تھا,
مصنف کے پیش نظر تین چیزیں ہیں, مقصد,,,, کہ چرواہے اور بھیڑوں کے مقصد کے درمیان فرق ہے,,,!اور یہی مقصد ہی انسان کو جانوروں سے ممتاز کرتا ہے,
قربانیاں,, کہ وقت کی تبدیلی کے ساتھ اپنے نئے مقاصد کے لیے پرانے مقاصد کی قربانی دی جائے, گویا کہ ماضی کو بھول کر, حال کی فکر کرے, تو مستقبل کی فکر سے آزاد ہو جائے گا
زندگی,, اسے خزانے سے تشبیہ دی گئی ہے,,,! کہ جب تک آپ کے پاس کوئی قیمتی خزانہ موجود نہیں, تب تک آپ کے دل و دماغ کسی حتمی مقصد پر اکٹھے نہیں ہو سکتے,, یعنی زندگی ہے تو مقصد موجود ہے, ورنہ کچھ نہیں,
مصنف کے مطابق بعض لوگ اپنی کوتاہیوں کو قسمت پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں, اور مثبت شئے سے منفیت کا اثر لیتے ہیں, جو کہ خود قسمت کے ساتھ ایک گھناؤنی حرکت ہے,, قرآن مجید میں ارشاد ہے, لیس للانسان الا ما سعی,
کوشش کرنے والا انسان ہمیشہ اپنی کوشش کا حصہ پا لیتا ہے,, دنیا میں ہمیشہ وہی لوگ پریشان حال اور مسائل کا شکار ہیں, جو کام چور اور سست ہیں,, ورنہ فطرتاً اللہ پاک نے انسانی زندگی کو ڈیزائن ہی ایسا کیا ہے کہ اس کی کوئی کوشش ناکام نہیں جاتی, بلکہ اسے کچھ نہ کچھ موصول ضرور ہوتا ہے,, اور یہی اس کی مقصدیت تک پہنچنے کی سیڑھیاں ہیں,,,اور کسی کی محنت ضائع نہ کرنے کا وعدہ بھی اس رب رحمان کی طرف سے ہمیں ودیعت کیا جا چکا ہے,,,!
میرے ساتھ رہنے والے احباب اگر مجھ میں کوئی تبدیلی دیکھیں یا محسوس کریں, تو اسی کتاب کی بدولت ہوگی,,,!
آپ چاہے زندگی کے کسی بھی موڑ پر موجود ہیں, یا آپ کی عمر کتنی بھی ہے, آپ اس کتاب کو پڑھ کر اپنے مقصد کا تعین کر سکتے ہیں, وہ خزانہ آپ کے ہاتھ بھی لگ سکتا ہے, جس کے لئے بعض بے مقصد لوگ مارے مارے پھرتے ہیں, مگر کچھ حاصل نہیں ہوتا,,! کیونکہ انہیں خزانہ تو چاہیے, مگر انہیں یہ نہیں پتہ کہ کیوں چاہیے,,!
یاد رہے دنیا میں تمام اعمال کا سرچشمہ محبت ہے,,,! اور سب سے عمدہ خزانہ بھی اور یہ بھی یاد رہے کہ ہر شخص کے مقصد کے مطابق اس کا خزانہ مختلف بھی ہو سکتا ہے,,
اس کتاب کو
کم از کم تین بار پڑھئیے,,,!زندگی کی کیمسٹری ہے, مختلف قسم کے جذباتی دھاتوں کو ملا کر آپ اپنے لیے اسے سونا بنا سکتے ہیں, ,یا چاندی, یا تانبا, یا کم از کم لوہا, یہ آپ کی صوابدید, محنت اور قربانی پر منحصر ہے,
آپ کی زندگی کے سنور جانے کی گارنٹی دیتا ہوں,
تین جملے اس کتاب کا خلاصہ ہیں,
جب کوئی زی روح اپنے مقصد کا تعین کرتا ہے,تو کائنات کی ہر چیز اس کی مدد کرنے کے لیے لگ جاتی ہے,
یہ درست ہے کہ زندگی ہمیشہ ان پر مہربان ہوتی ہے, جو منزل کے تعین میں سرگرداں ہوتے ہیں,,
زندگی کائنات کی سب سے قیمتی چیز ہے, ایمان کے علاوہ اس کے لئے ہر چیز کی قربانی دی جا سکتی ہے,
پڑھئیے اور سر دھنیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبیر بن اسمعیل صاحب فاضل جامعہ دارالعلوم اسلامیہ ، ایم اے اردو جامعہ پنجاب ہیں ۔ جبکہ جامعہ پنجاب ہی میں بی۔ایس نفسیات کے طالبعلم ہیں۔
کمنت کیجے