عمران شاہد بھنڈر
زاہد مغل صاحب کی تحریر کا تنقیدی جائزہ لینے سے پہلے میں چاہوں گا کہ فلسفے سے متعلق چند بنیادی باتیں واضح کر دی جائیں۔
تاریخِ فلسفہ کے طالبِ علم جانتے ہیں کہ فلسفے کے سب سے بنیادی سوالات یہ ہیں: شعور اور وجود کے درمیان کیا تعلق ہے؟ کیا وجود کو اس کی کُلیت میں جانا جا سکتا ہے یا نہیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو قدیم فلسفیوں سے شروع ہوئے اور آج تک ان کے جوابات دیے جا رہے ہیں۔ تاہم جوابات کے حوالے سے ”حتمیت“ خدا اور متکلمین دونوں کے ہاں موجود ہے۔ ان سوالات کے ابتدائی اور انتہائی جامع جوابات ہمیں افلاطون اور ارسطو کے فلسفوں میں ملتے ہیں۔ افلاطون کا کہنا تھا کہ ہم حقیقت کو نہیں جان سکتے، کیونکہ حقیقت عالمِ امثال میں ہے جو کہ زمان و مکاں سے ماورا ہے۔ ارسطو، جسے بعض فلسفیوں نے ”حقیقت پسند“ اور بعض نے”تجربیت پسند“ کہا ہے، کا یہ خیال تھا کہ حقیقت کو وجودیاتی (Ontological سطح پر جانا جا سکتا ہے، تاہم ایک غیر متحرک محرک ہے جس کی ماہیت کو جانا نہیں جا سکتا، کیونکہ وہ زمان و مکاں سے ماورا ہے اور جو شے زمان و مکاں سے ماورا ہو اس پر وجودیاتی قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اختصار سے پیش کیے گئے اس جواب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زاہد مغل صاحب نے ”امام“ رازی صاحب کے حوالے سے جو تفصیل پیش کی ہے وہ ساری قدیم فلسفے کے احاطے میں آتی ہے۔ اس پر ارسطو کی”دی آرگینن“ کی پانچوں کتابوں میں بے مثال تجزیات موجود ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ہر عظیم فلسفی نے شعور اور وجود کے تعلق کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے اپنا ایک الگ فلسفیانہ نظام اور منہج تشکیل دیا ہے۔ اور ہر وہ فلسفی جو اپنا فلسفیانہ نظام اور منہج تشکیل دیتا ہے، اس کا ابطال اسی منہج کے اندر سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ اس کے نظام اور منہج سے باہر کھڑے ہو کر محض پتھر تو پھینکے جا سکتے ہیں، لیکن اس منہج اور نظام کو غیر مستحکم نہیں کیا جا سکتا۔ غور کریں کہ صرف ”منہج“ کی اہمیت پر ہی ڈیکارٹ، سپائینوزا، کانٹ، ہیگل، فختے وغیرہ نے سینکڑوں صفحات رقم کیے ہیں۔ لہذا جب زاہد مغل صاحب ظاہری مماثلتوں کو دیکھ کر نتیجہ نکالتے ہیں تو ہمیں وہ فلسفے کے ایک غیر سنجیدہ قاری معلوم ہوتے ہیں جن کی نظر مماثلتوں پر تو رہتی ہے، لیکن امتیازات پر نہیں۔ فلسفہ، بہرحال، امتیازات کی بنیاد پر ہی آگے بڑھتا ہے۔ لہذا واضح رہے کہ مغل صاحب نے رازی صاحب کے متعلق جو بھی”انکشافات“ کیے ہیں ان پر افلاطون اور ارسطو مفصل مباحث پہلے ہی کر چکے ہیں۔ ان سب کی تفصیل میں جانا مناسب نہیں ہے۔ اس لیے قاری کو تحریک دی جاتی ہے کہ وہ خود افلاطون اور ارسطو کی کتابوں کا مطالعہ کرے۔
ارسطو نے اپنے منطقی منہج کی تشکیل کے لیے دس مقولات تشکیل دیے تھے۔ بعد ازاں اس نے مزید پانچ مقولات کو واضح کیا جن کو اس نے Post Predicaments کہا، اور پھر اس نے مزید پانچ خالص حسی مقولات دریافت کیے جن میں سمت، مقام، محل، تقدم اور معیت وغیرہ شامل ہیں۔ یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ارسطو نے تقریبا کُل بیس مقولات کا تجزیہ پیش کیا تھا اور یہ تمام مقولات شے یا وجود سے متعلق تھے۔ ارسطو کے ان مقولات میں کانٹ سے پہلے تک کسی ایک بھی مقولے کا اضافہ نہیں کیا گیا تھا۔ اسلامی متکلمین نے بھی انہی مقولات کی جمع تفریق سے اپنا کام چلایا تھا۔
کانٹ اگرچہ ارسطو کے مقولات کی بے پناہ تعریف کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ان کو ”ناقص“ قرار دیتا ہے۔ وجہ یہ کہ ارسطو نے یہ مقولات کسی اصول کے تحت مستنبط نہیں کیے تھے، بلکہ بقول کانٹ جو اس کے ذہن میں آئے اس نے وضع کر دیے۔ ارسطو کے برعکس کانٹ نے بارہ عقلی مقولات پیش کیے۔ لیکن کانٹ سے متعلق یہ بات بھی ادھوری ہے، کیونکہ کانٹ کے فلسفے میں ان کے علاوہ بھی بہت سے مقولات موجود ہیں جن کا صرف انہی لوگوں کو علم ہے جنہوں نے کانٹ کی ”تنقید عقلِ محض“ کو بیس پچیس بار انتہائی توجہ سے پڑھا ہو۔ کانٹ نے ان مقولات کو فرعی اور ضمنی مقولات میں تقسیم کیا ہے اور انتہائی مربوط طریقے سے (ارسطو کے اغلاط کو ذہن میں رکھتے ہوئے) ان کا استخراج کیا ہے۔ کانٹ نے جو مقولات تشکیل دیے اور جنہیں اس نے فہم (انڈرسٹینڈنگ) میں جگہ دی نہ کہ عقل میں ان کی نوعیت اے پرائیورائی اور ”تعقلاتی“ ہے۔ ارسطو کے مقولات کی نوعیت ”وجودیاتی“ (Ontological) ہے۔ کانٹ کے نزدیک مقولات جنہیں اس نے فہم کے ”تصورات“ کہا ہے وہ اس وقت تک علم کی تشکیل نہیں کرتے جب تک قبل تجربی شرائط کے تحت امکانی تجربہ پہلے ہی سے موضوع میں نہ دیا گیا ہو۔ واضح رہے کہ مغل صاحب نے کہا ہے کہ ”علم یا تصور ہے یا تصدیق یعنی ایک تصور کی دوسرے کے ساتھ اثباتی یا سلبی نسبت۔“ یہاں ان پر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ وہ علم کو تصور کہہ رہے ہیں جبکہ کانٹین فلسفے میں علم تصور اور حسی ادراک کی وحدت سے تشکیل پاتا ہے۔ کانٹ کے فلسفے میں علم کی تین صورتیں ہوتی ہیں: پہلا،حسی اور مقولے کی ترکیبی وحدت۔دوسرا، تصورات کا باہمی تقابل جن سے منطقی تصورات ایک ربط کے تحت تشکیل پاتے ہیں۔ منطقی علم میں حسی ادراک کی بجائے تصورات کو ان کی صورت کے لحاظ سے منطقی طور پر مستنبط کیا جاتا ہے۔ تیسرے کا تعلق ماورائے تجربہ Transcendental)) سے ہے، اور یہی وہ مقام ہے جہاں کانٹ کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم تصورات کے صحیح منطقی استخراج سے ”شے فی الذات“ کا اثبات تو کرتے ہیں، لیکن اس کو جان نہیں سکتے۔ یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ ہم ”شے فی الذات“ کو کیوں نہیں جان سکتے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ ہماری فہم کے مقولات کا اطلاق حسی ادراکات پر ہوتا ہے جو کہ اے پرائیورائی شرائط کے پابند ہوتے ہیں۔ ہماری فہم براہِ راست حسی ادراکات سے پرے کسی شے کا ادراک نہیں کرتی، جبکہ فہم کے پاس جاننے کے لیے صرف فہم کے تصورات ہوتے ہیں۔ ان تصورات کا اطلاق صرف حسی مشاہدات پر ہی ممکن ہے۔
جہاں تک خدا کا تعلق ہے تو خدا نہ ہی حسی ادراکات میں ظاہر ہوتا ہے اور نہ ہی فہم کے مقولات میں سے وہ کوئی ایسا مقولہ ہے کہ جس کا اطلاق حسی ادراکات پر کر دیا جائے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا کا تصور کانٹ کے ذہن میں کیسے پیدا ہوتا ہے؟ یہ ایک مشکل قضیہ ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ قارئین اسے پوری توجہ سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ کانٹ سے پہلے افلاطون اور ڈیوڈ ہیوم یہ نتیجہ نکال چکے تھے کہ اشیا کے درمیان ربط کی نوعیت حسی مشاہدے میں نہیں آتی۔ زاہد مغل صاحب ہمیں بار بار یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ حقیقت کا مشاہدے میں نہ آنا اسلامی متکلمین کا نکالا گیا نتیجہ ہے۔ جبکہ معمولی غور و فکر سے ہی یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ افلاطون اعلیٰ درجے کے مکالمات سے یہ نتیجہ پہلے ہی نکال چکا تھا کہ حسیات ہمیں حقیقت کا مکمل ادراک نہیں کراتیں۔ عقل سے محض ہم ایک مثالی دنیا یا ’علت‘ تک تو پہنچ جاتے ہیں لیکن اس علت کی ماہیت کا علم کبھی حاصل نہیں کر سکتے۔کانٹین فلسفے میں مقولات کا منطقی استعمال تو ہے، لیکن ماورائے تجربہ کوئی ایسا استعمال نہیں ہے جو داخلی سطح پر خدا کی ماہیت کا علم حاصل کر لے۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔
نوٹ۔ احباب، مضامین کے اس سلسلے میں اسلامی متکلمی کے خدا سے متعلق پیش کیے گئے دلائل کا ابطال کیا جائے گا۔ یہ سلسلہ کئی اقساط پر مشتمل ہو گا۔ اس لیے نظر رکھیے اور پڑھتے رہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر صاحب یوکے میں مقیم فلسفہ کے استاد اور کئی اہم کتب کے مصنف ہیں ۔
کمنت کیجے