وجود خداوندی پر دئیے جانے والے متعدد دلائل میں سے ایک اہم دلیل “کاسمولوجیکل آرگومنٹ” (یعنی دلیل کونیات) بھی ہے۔ اس دلیل کی کئی تشریحات ہیں ۔ عیسائی دنیا میں اس کی وہ تشریحات مشہور ہیں جو سینٹ اکواناس (م 1274 ء) نے بیان کیں اور مغربی فلسفے میں انہی کی تشریحات نقد و دفاع کا موضوع بنیں۔ سینٹ اکواناس کی تشریحات دراصل ابن سینا (م 1037ء) اور علامہ ابن رشد (م 1198 ء ) کی روایت سے ماخوذ ہیں۔ اس روایت کے اندر اس دلیل کی ساخت یوں ہے:
1) کائنات میں اشیاء کے مابین علت و معلول کا سلسلہ جاری ہے ( یعنی ایک شے دوسری کی وجہ سے اور دوسری تیسری کی وجہ سے وغیرہ)
2) علل و معلول کی یہ سیریز لامتناہی نہیں ہوسکتی
3) لہذا ماننا ہوگا کہ اس سیریز کا کوئی آغاز ہے، ایسا آغاز جو خود کسی کا محتاج نہ ہو۔ یہ “علت اولی” خدا ہے
علل و معلول کی سیریز لامتناہی کیوں نہیں ہوسکتی، فی الوقت اس سے سہو نظر کیجئے۔ کانٹ ذدہ ملحدین اور بعض مذہبی مفکرین کا اس دلیل پر دو اعتراضات ہیں۔
• پہلا یہ کہ یہاں ایک غیر منطقی چھلانگ لگائی گئی ہے۔ پہلے قضیے میں علت و معلول کے جس تصور کو بنیاد بنایا گیاہے، وہ تصور زمان و مکان میں موجود اشیاء کے مابین تاثیرات پر مبنی نیز مشاہدات کا رہین منت ہے۔ اس کے بعد نتیجے میں ایک ایسے تصور علت کا اقرار کیا گیا ہے جو زمان و مکان سے ماوراء ہے، گویا دلیل میں یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ علت کا جو تصور زمان و مکان میں ہے وہی زمان و مکان سے ماوراء بھی جاری ہے جبکہ اس کی کوئی مشاہداتی دلیل نہیں۔ اس دلیل پر یہ نقد اس لئے بھی متوجہ ہوتا ہے کہ پہلے قضیے میں جس شے کا نام “علت” رکھا گیا ہے، اس کا مفہوم اس دلیل میں تصور خدا تک پہنچنے سے ماقبل قضیہ اول میں متعین کیا جاچکا ہے، یعنی قضیہ اول کی صحت اس بات کا تقاضا کررہی ہے کہ علت و معلول کا تصور اشیاء میں از خود جاری مانا جائے اور پہلے قضیے کی توجیہہ کرتے ہوئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ علت و معلول کا یہ رشتہ خدا کی وجہ سے موجود ہے کیونکہ پہلا قضیہ اس استدلال کا پہلا قدم ہے اور اس قدم تک خدا استدلال میں موجود نہیں۔ لہذا اس قضئے کی صحت کے لئے تصور علت سے متعلق دو امور کو ماننا ہوگا: (1) یہ اشیاء میں پیوست تاثیرات پر مبنی تصور ہے ، (2) یہاں جس چیز کو علت و معلول کہا جارہا ہے وہ زمان و مکان میں مقید تصور ہے۔ انہی بنا پر ناقدین اس استدلال پر درج بالا نقد کرتے ہیں۔
• دوسرا اعتراض اس استدلال کی اس خصوصیت سے جنم لیتا ہے کہ جس علت کو کائنات میں جاری مانا گیا ہے، کائنات سے ماوراء بھی اسی تصور علت کو پھیلانے کا جواز پیدا ہوتا ہے۔ پس اگر کائنات میں “فطری قوانین” پر مبنی علت کارفرما ہے تو اس سے پرے بھی انہی قوانین کا راج ہونا چاہئے۔ گویا اس دلیل سے اگر خدا ثابت ہوگا تو اسی طرح کا خدا ہوگا جس سے “طبعاً” اشیاء کا ظہور ہو، جو گویا ایک کائناتی قوت نما شے ہے نہ کہ صفات سے متصف ایک ذات جسے اہل فلسفہ پرسنل گاڈ (personal God) کہتے ہیں۔ گویا ناقد کا اعتراض یہ ہے کہ علت اولی ثابت کرنے سے مذہب کے پرسنل گاڈ پر استدلال قائم نہیں ہوتا۔
ناقدین کا مفروضہ ہے کہ یہ اعتراضات ہر کاسمولیوجیکل دلیل پر وارد ہوتے ہیں۔ اب ہم بتاتے ہیں کہ متکلمین کی دلیل حدوث کی رو سے یہ اعتراضات کیونکر غلط ہیں۔
جواب:
اعتراضات کے ازالے کے لئے چار امور سمجھنا ضروری ہے:
1۔ دلیل حدوث کی ساخت
2۔ اکواناس کی دلیل سے اس کا فرق
3۔ علت کا مفہوم
4۔ کائنات میں جاری علت و معلول کی حقیقت
– دلیل حدوث کی ساخت
دلیل حدوث پر ہم متعدد مرتبہ بات کرچکے ہیں۔ اس کی ساخت امام غزالی کے الفاظ میں یوں ہے:
1) حادث کے لئے محدث (علت یا سبب) ہے
2) کائنات حادث ہے (اور حوادثات کی یہ سیریز لامتناہی نہیں ہوسکتی، اس پر ہم یہاں بات نہیں کریں گے)
3) لہذا کائنات کے لئے محدث ہے
پہلے قضئیے میں دو اصطلاحات ہیں: حادث اور محدث (یا علت)۔ حادث سے مراد وہ شے جو عدم سے وجود میں آئے۔ جو شے حادث ہو ، نہ وہ واجب (necessary) ہوسکتی ہے اور نہ محال (impossible)۔ اگر واجب ہوتی تو معدوم نہ ہوتی (کہ واجب عدم کو قبول نہیں کرتا)، اور اگر محال ہوتی تو موجود نہ ہوسکتی (کہ محال وجود کو قبول نہیں کرتا)۔ پس حادث کو عدم اور وجود دونوں کا لاحق ہوسکنا بتارہا ہے کہ وہ ممکن (Possible) ہے۔ ممکن وہ ہے جو دو (یا اس سے زائد) متوازی امکانات میں سے کسی ایک جانب ترجیح کے لئے کسی “وجہ ترجیح ” (preponderant) پر معلق ہو، اگر یہ وجہ ترجیح موجود نہ ہو تو عدم اس پر طاری رہے اور اگر وجہ ترجیح آجائے تو وہ عدم سے وجود میں آجائے۔ اسی طرح وجود میں آنے کے بعد بھی چونکہ وہ ممکن ہی ہے، لہذا پھر دو امکانات (وجود پر باقی رہنے اور معدوم ہوجانے) کے لئے وجہ ترجیح کا محتاج ہے۔ متکلمین اسی وجہ ترجیح کو علت کہتے ہیں جو حادث و ممکن کی اس احتیاج کو پورا کرے۔ یہاں اچھی طرح یہ بات نوٹ کرلیجئے کہ حادث علت نہیں معلول (effect) یانتیجہ ہوتا ہے۔ قبل اس سے کہ ہم علت کا مفہوم کھولیں، پہلےدلیل حدوث کا اکواناس کی دلیل سے فرق جان لینا مفید ہوگا۔
– سینٹ اکواناس کی دلیل سے فرق
سینٹ اکواناس کے استدلال کی طرح پہلے قضئے کی توجیہہ میں متکلمین کائنات کے اندر کسی علت و معلول کے اجرا کا اقرار نہیں کرتے بلکہ پہلے قضئے میں جو کچھ ہے وہ سب “حوادثات” (یعنی ایفیکٹس) ہیں اور ان کے مابین علت و معلول کا کوئی تعلق موجود نہیں، سب مساوی طور پر اپنے سے خارج میں علت (مرجح) کے محتاج ہیں۔ یہ ماننا ہی عقل کا صریح تقاضا ہے اس لئے کہ جو حادث خود اپنے ہونے کی توجیہہ نہیں کرسکتا وہ کسی دوسرے پر موثر کیسے ہوسکتا ہے؟ (یہاں آپ کے ذہن میں یہ سوال آئے گا کہ پھر علت و معلول کے ان تصورات کی کیا حقیقت ہےجنہیں ہم اس دنیا میں جاری و ساری دیکھتے ہیں، اس پر آگے بات آرہی ہے)۔ متکلمین کا کہنا ہے کہ عالم حوادثات کا مجموعہ ہے اور حوادثات کی یہ سیریز لامتناہی نہیں ہوسکتی۔ دوسرے قضئے میں بھی قابل غور بات یہ ہے کہ یہاں بھی علل و معلول کی لامتناہی سیریز کی بات نہیں ہورہی بلکہ “حوادثات” کی لامتناہی سیریز کی بات ہورہی ہے۔ یعنی سینٹ اکواناس جس سیریز کے ناممکن ہونے کی بات کررہے ہیں وہ یوں ہے:
الف بوجہ ب، ب بوجہ ج، ج بوجہ د ۔۔۔۔ (جہاں تمام افراد ایک دوسرے کے ساتھ علت و معلول کے نظم میں مربوط ہیں)
اس کے برعکس متکلمین جس سیریز کی بات کرتے ہیں وہ یوں ہے:
الف، ب، ج، د ۔۔۔۔۔ (جہاں تمام افراد حوادثات ہیں، ہر ایک عدم سے وجود پزیر ہورہا ہے نہ کہ ایک دوسرے سے)
سینٹ اکواناس کی سیریز میں “پہلی علت” (first cause) سے آگے (یعنی سیکنڈ لاسٹ نمبر پر) ایک “علت” ہے جو کہ زمان و مکان میں جاری تاثیرات سے عبارت ہے، جبکہ متکلمین کی سیریز کے آخری کونے (یا ابتدائی مقام) پر ایک حادث ہے اور اس سیریز کے تمام افراد اور ان کا مجموعہ اپنے سے باہر علت کے محتاج ہیں۔
اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ متکلمین کی دلیل حدوث کے دونوں قضایا کائنات میں موجود اشیاء کے مابین کسی نوعیت کی سیکنڈری یا پرائمری علت کے تعلق پر منحصر نہیں بلکہ وہ اس تصور کو رد کرتی ہے اس لئے کہ مشاہدے میں آنے والے سب امور حوادث (نتائج) ہیں ۔ لہذا یہ دلیل ابتدا ہی سے علت کو کائنات سے باہر ماننا ضروری قرار دیتی ہے، اس لئےکہ پوری کائنات (زمان و مکان سمیت) ہی حادث اور اس لئے محتاج ہے اور یہی محتاجی علت کے تصور کی بنیاد ہے۔ چنانچہ متکلمین کی دلیل زمان و مکان اور اشیاء میں جاری تاثیرات جیسے غلط مفروضات کو فرض نہیں کرتی اور نہ ہی علت و معلول کو مشاہداتی امور سے اخذ کرکے اسے کسی علت اولی پر وارد کرتی ہے۔ کائنات میں علت ہے ہی نہیں کیونکہ یہاں صرف حوادث (ایفیکٹس) ہیں، علت اس سے ماورا ہے اور صرف ایک ہے (توحید کے دلائل پیش کرنا یہاں مقصود نہیں)۔ دوسرے لفظوں میں متکلمین ارسطو کی طرح مشاہداتی علم سے اخذ شدہ (مفروضہ )علتوں کی ترتیب کو بنیاد بنا کر اس کے آخری سرے پر واقع کسی ایسی علت اولی (first cause) پر استدلال قائم نہیں کرتے جس نے علتوں کے ان روابط کا بس آغاز کردیا ہو، بلکہ وہ ایک ایسی واحد علت (only cause) کا اثبات کرتے ہیں جو جمیع حوادث (پوری کائنات) پر حاوی ہے اور اس استدلال کی بنیاد حوادث کی لازمی احتیاج ہے نہ کہ ان کے مابین جاری علل و معلول کی فرضی باہمی نسبت۔ لہذا جو نقد اکواناس کی دلیل پر وارد ہوتا ہے، وہ متکلمین کی دلیل حدوث پر قطعاً وارد نہیں ہوتا۔ یہاں سے پہلا اعتراض رفع ہوگیا اور اہل نظر سمجھ سکتے ہیں کہ دوسرے کی بنیاد بھی اکھڑ گئی۔
– علت کا درست مفہوم
اب اس بات کی جانب واپس چلئے کہ حادث علت کا محتاج ہے۔ یہاں دو باتیں سمجھ لینا چاہئیں۔
• پہلی بات: “حادث کے لئے محدث ہے”، یہ مشاہدات پر مبنی کوئی استقرائی دلیل نہیں کہ چونکہ ہم ایک حادث سے دوسرے حادث کے حدوث کا مشاہدہ کرتے ہیں اس لئے ہم نے یہ جانا کہ حادث کے لئے محدث ہے، بلکہ یہ قضیہ بدیہی و اولیات عقلیات (first principles) میں شامل ہے۔ جس شخص نے حادث کا مطلب سمجھ لیا جو اوپر بیان ہوا وہ لازماً اس قضئے کا اقرار کرے گا کیونکہ حادث محتاج ہے اور علت وہ شے ہے جو حادث کی اس احتیاج کو پورا کرے۔ اگر کوئی شخص فاتر العقلی کے اس مقام تک نہیں پہنچا کہ عدم بھی وجود کا سبب ہوسکتاہے(non-existence can cause existence) تو وہ لازما اس بدیہی و لازمی قضئے کا اقرار کرے گا۔ پس جب یہ معلوم ہوگیا کہ حادث ممکن ہے اور کسی ایک جانب ترجیح کے لئے مرجح کا محتاج ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ حادث موجود ہے، تو عقل لازما حکم لگاتی ہے کہ مرجح بھی موجود ہے۔
• دوسری بات: یہ محدث یا سبب کیسا ہونا چاہئے؟ یہ محدث چار سوالات کا جواب ہونا چاہئے:
الف) حادث کے لئے عدم سے وجود کی ترجیح
ب) وجود کے بعد معدوم ہونے کے بجائے وجود پر بقا کی ترجیح
ج) حوادث کے مابین تقدیم و تاخیر کی ترجیح
د) حوادث کی کیفیات و مقدار کی ترجیح
جو علت ان چار سوالات کا جواب دے، وہ عالم کا مرجح کہلانے کی مستحق ہے۔ یہ وجہ ترجیح یعنی علت نری طبع (nature) نہیں ہوسکتی بلکہ ترجیح کا تصور لازماً “ارادے ” (will) کو متضمن ہے۔ ارادے کا مطلب ہی مساوی امکانات میں سے ایک جانب کو ترجیح دینا ہے اور حادث اسی کا محتاج ہے، اگر یہ اختیار ثابت نہیں تو ترجیح کاکوئی مطلب نہیں اور نہ ہی حادث لائق توجیہہ ہے۔ اب اگر تم کہو کہ علت بننے کے لئے “ترجیح ” ہونا کیوں ضروری ہے، تو ہم کہیں گے کہ پھر سے حادث و ممکن کے تصور پر غور کرو: وہ جو دو یا اس سے زائد امکانات میں معلق ہو اور کسی ایک جانب کے لئے ترجیح کا محتاج ہو۔ حادث (یعنی جو ترجیح کا محتاج ہے) کی احتیاج “ترجیح دئیے جانے ” کے بغیر بھلا کب پوری ہوسکتی ہے، اس بات کو سمجھو! مزید یاد رکھئے کہ جس طرح تصور “ترجیح” ارادے کو متضمن ہے، اسی طرح ارادہ قدرت و علم کو متضمن ہے کیونکہ ان دو کے بغیر ترجیح و ارادے کا کوئی مطلب نہیں (اس پر ہم الگ سے بات کرتے رہے ہیں)۔ تو علت کا مطلب ہے “ارادہ” جو قدرت و علم کو فرض کئے ہوئے ہے اور یہ دونوں حیات کو۔ یوں ہمارے سامنے علت کا وہ مفہوم آیا جو حقیقی علت ہے۔
یہاں سے ناقدین کا دوسرا اعتراض رفع ہوگیا کہ آخر علت سے پرسنل گاڈ کیسے ثابت ہوا؟ علت جن صفات یا معنی (علم، قدرت، ارادہ و حیات) کا نام ہے وہ ایک ایسی ذات کا پتہ بتارہی ہیں جو ان صفات سے متصف ہے کیونکہ صفت بدون ذات کا کوئی مطلب نہیں۔ اسے ہی تو پرسنل گاڈ کہتے ہیں، لہذا اسے ثابت کرنے کے لئے الگ سے کسی استدلال کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ ملحدین کا یہ اعتراض کلیتاً بے معنی ہے کہ اہل مذہب علت اولی عقل سے ثابت کرتے ہیں لیکن پرسنل گاڈ کے لئے نبی کی خبر پر انحصار کرتے ہیں۔ اس قسم کی باتیں علم کلام سے ناواقفیت کا مظہر ہیں۔ متکلمین کے استدلال کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ارسطو و مسلم فلاسفہ کی طرح صرف پہلی علت ثابت نہیں کرتے بلکہ ایک ایسی بااختیار و صاحب علم و قدرت ذات ثابت کرتے ہیں جو دراصل “فاعل “(agent) ہے۔
آگے بڑھنے سے قبل ناقدین کی غلطی بھی سمجھ لیجئے۔ یہ لوگ خود اپنی طرف سے غلط طور پر علت سے مراد اشیا کے مابین ایسی تاثیرات فرض کرلیتے ہیں جو ان اشیا میں زمانی و مکانی تعلقات (و شرائط) سے عبارت ہیں، پھر یہ لوگ سوال پوچھتے ہیں: بتاؤ خدا اگر علت ہے تو اس کا اس علت سے سوا کچھ ہونا کیسے ثابت ہوا؟ ہم کہتے ہیں کہ آپ کا مفروضہ ہی غلط ہے، علت وہ تصور ہے ہی نہیں جسے آپ علت فرض کرتے ہیں۔ بھلا حادث (معلول) بھی علت ہوسکتا ہے؟ کیسی بات کرتے ہو! اگر ہم ایک لمحے کے لئے یہ غلط بات مان بھی لیں کہ اشیا کے اندر تاثیرات ہیں تو یہ تاثیرات ان میں کہاں سے آگئیں؟ پھر اشیا کے مابین ان کی تقسیم اور ان جیسی دیگر صفات کا تعین کیسے ہوا؟ الغرض جسے تم “طبع ” کہتے ہو وہ ان چار بنیادی سوالات میں سے کسی ایک سوال کا جواب بھی نہیں دیتی، ایسے میں یہ علت بننے کی اہل کیسے ہوئی؟ اس غلطی میں آپ اس لئے پڑے کیونکہ آپ نے معلول (حادث) کو علت سمجھنا شروع کردیا۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ علت متعین کرنے میں آپ کو دھوکا ہوا ہے، آپ نے “علت کی علامت “کو علت سمجھ لیا ہے اور اس کی واحد دلیل آپ کے پاس یہ ہے کہ ہم آگ کو روئی کو جلاتا ہوا دیکھتے ہیں۔ اب ہم اس آخری نکتے کو کھولتے ہوئے بتاتے ہیں کہ متکلمین نے اس غلطی کو کیسے سدھارا۔
– ظاہری علل و معلول کی حقیقت
انسانی سطح پر جنہیں تاثیرات یا اسباب یا علت و معلول کے تعلقات کہا جاتا ہے، ان میں سے کوئی بھی علت نہیں بلکہ اصلاً یہ سب علامات ہیں جو حقیقی علت (یعنی بااختیار ہستی) کی عادت کے تحت امور کے خاص ترتیب سے ظاہر ہونے کی وجہ سے بندوں کے حق میں مقرر ہوتی ہیں۔ الف کے بعد ب کا ظاہر ہونا اور بار بار ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ الف ب پر مؤثر ہے، بھلا الف ب پر کیسے مؤثر ہوسکتا ہے جبکہ عقل جانتی ہے کہ الف بھی حادث ہےاور ب بھی؟ کیا شے کی تاثیر بھی بھلا کسی کے مشاہدے میں آتی ہے؟ ہر گز نہیں بلکہ اشیا کے مابین تاثیر کا یہ تصور محض ان کے مابین اقتران (concurrence) سے عبارت ہے۔ متکلمین نے اس نکتے کو ہیوم سے کئی سو سال پہلے سمجھ لیا تھا، اہل علم کے ہاں یہ وہی مشہور بات ہے جو امام غزالی (م 505 ھ) نے فلاسفہ کے نظریہ علت و معلول پر نقد کرتے ہوئے کہی تھی کہ مشاہدے کے عمل میں علت کا مشاہدہ کبھی نہیں ہوتا، جو چیز مشاہدے میں آتی ہے وہ صرف دو اجسام یا دو احوال ہوتے ہیں، مثلا آگ سے قربت پر روئی کا جل جانا، ان دو احوال میں تبدیلی کی جس وجہ (یعنی آگ میں جلانے اور روئی میں یہ تاثیر قبول کرنے کی صلاحیت) کا نام “علت” یا “سبب” رکھا جاتا ہے وہ کبھی مشاہدے میں نہیں آتا۔ فلاسفہ کے نظریہ علت (طبع و تولد جو تاثیر سے عبارت ہیں) پر یہ نقد امام غزالی سے قبل واضح طور پر قاضی باقلانی (م 403 ھ) کے ہاں مل جاتا ہے۔ آپ کتاب “تمہید الاوائل” میں فلاسفہ و معتزلہ کے نظریات کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فَأَما مَا يهذون بِهِ كثيرا من أَنهم يعلمُونَ حسا واضطرارا أَن الإحراق والإسكار الحادثين واقعان عَن حرارة النَّار وَشدَّة الشَّرَاب فَإِنَّهُ جهل عَظِيم وَذَلِكَ أَن الَّذِي نشاهده ونحسه إِنَّمَا هُوَ تغير حَال الْجِسْم عِنْد تنَاول الشَّرَاب ومجاورة النَّار وَكَونه سَكرَان ومحترقا ومتغيرا عَمَّا كَانَ عَلَيْهِ فَقَط فَأَما الْعلم بِأَن هَذِه الْحَالة الْحَادِثَة المتجددة من فعل من هِيَ فَإِنَّهُ غير مشَاهد
مفہوم: جہاں تک کثرت سے پھیلی ہوئی ان خرافات کا تعلق ہے کہ ہمیں حسی مشاہدے سے لازمی طور پر یہ علم حاصل ہوجاتا ہے کہ جلنا اور نشہ آوری آگ کی گرمائش اور شراب کی شدت کی بنا پر ہے، تو یہ نری جہالت ہے، کیونکہ جس چیز کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں وہ صرف اجسام میں وہ تغیر ہے جو شراب پینے اور کسی شے کو آگ کے نزدیک لے جانے سے واقع ہوتا ہے، رہی یہ بات کہ نشہ آوری اور جلنے کی وجہ بھی یہی چیزیں ہیں، تو یہ بات کبھی مشاھدے میں نہیں آتی
اس بات کا ذکر تو اکثر ہوتا ہے کہ متکلمین نے ہیوم سے قبل اس حقیقت کو جان لیا تھا لیکن ان کے مجموعی نظام فکر میں اس کا کیا کردار ہے، نہ اس کا درست مقام ٹھیک سے سمجھا جاتاہے اور نہ ہی اسے دلیل حدوث کے ساتھ جوڑ کر متکلمین کے تصور علت کے ساتھ مربوط کیا جاتا ہے جبکہ یہ سب امور باہم مربوط ہیں۔ جب دلیل سے یہ ثابت ہوگیا کہ کائنات کی ہر شے حادث ہے اور عدم سے وجو دمیں آنے کے بعد پھر معدوم ہونے کے بجائے وجود پر برقرار رہنے کے لئے اسی علت کی محتاج ہے جس نے اسے عدم سے وجود بخشا، تو معلوم ہوا کہ وہ بااختیار علت ہر لمحے اسے تخلیق سے سرفراز فرما کر وجود بخش رہی ہے۔ اسی بات کو یوں کہتے ہیں کہ ذات باری کائنات کو ہر لمحے تخلیق فرماتی ہے کیونکہ ہر ساعت میں تخلیق ہونے والا وجود اس لائق نہیں کہ دوسرے لمحے اپنا وجود برقرار رکھ سکے چہ جائیکہ وہ کسی دوسرے وجود پر مؤثر ہوکر اس کی بقا کا ذریعہ بھی ہو۔ چنانچہ الف کے بعد ب ظاہر ہونے اور بار بار ظاہر ہونے کی وجہ یہ نہیں کہ الف میں کوئی تاثیر ہے جو ب کو ظاہر کرتی ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ذات باری ان دونوں کو اس خاص ترتیب سے پیدا فرماتی ہے۔ انسانی سطح پر علت و معلول کے تمام تعلقات محض نشانیاں (signs or symbols) ہیں ۔ یعنی بندے کی سطح پر سبب کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ھائی وے پر سفر کرتے ہوئے اگر ہمیں یہ نظر آئے کہ “آرام گاہ دو کلو میٹر” اور پھر دو کلو میٹر بعد وہ آرام گاہ موجود ہو اور ہم بار بار اسی ترتیب کا مشاہدہ کریں تو ہم اس بورڈ کو آرام گاہ ظاہر ہونے کی علامت مقرر کرسکتے ہیں اور اگلی بار اس کے مشاہدے پر یہ یقین بھی قائم کرسکتے ہیں کہ آرام گاہ موجود ہوگی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بورڈ اس آرام گاہ کی بایں معنی علت ہے کہ بوڑد اس آرام گاہ پر مؤثر ہے یا آرام گاہ اس بورڈ کی تاثیر کی بنا پر ہے۔ پس اس عالم میں ہمارے اعتبار سے جاری تمام علتیں ایک بااختیار ہستی کی جانب سے مقرر کردہ نشانیاں ہیں جو اس کے اختیاری افعال کی وجہ سے مقرر ہورہی ہیں۔ انہی معنی میں انہیں علامات یا نشانیاں کہتے ہیں کہ یہ اپنے ظاہر کرنے والی صاحب ارادہ ذات کا پتہ بتا رہی ہیں۔ پھر اگر ہمیں یہ بھی معلوم ہوجائے کہ یہ بورڈ لگانا یا اس کے بعد آرام گاہ کھڑی کرنا ھائی وے اتھارٹی پر واجب نہیں تھا تو اس ترتیب سے ہمیں جو فائدہ ملتا ہے اس پر ہم ھائی اتھارٹی کے شکر گزار بھی ہوں گے۔ ان علامتوں کی جانچ کے لئے ہم یقیناً استقرائی طرق استعمال کرسکتے ہیں اور اس مطالعہ سے سامنے آنے والے نتائج پر بایں معنی اعتماد کرتے ہوئے زندگی بسر کرسکتے ہیں کہ وہ بااختیار ذات اپنی عادت کے تحت ہم پر کرم نوازی کرتے ہوئے الف کے بعد ب ہی کو موجود کرتی ہے۔ لیکن ان علامتوں کو از خود علت سمجھ لینا اس احمق انسان جیسا استدلال ہے جو ٹریفک سگنل لال ہونے پر گاڑیاں رکتے اور ہرے ہونے پر گاڑیاں چلتے دیکھ کر یہ کہتا پھرے کہ لال و ہرے رنگوں میں گاڑیاں روکنے و چلانے کی تاثیر ہے۔
– خلاصہ بحث
کاسمولوجیکل دلیل پر وارد کئے جانے والے دونوں مایہ ناز اعتراضات بے بنیاد ہیں۔ یہ اعتراض اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ علت اشیا کے مابین زمانی و مکان تعلقات سے عبارت ہے جبکہ اشیا کے مابین ترتیب کے سوا اس کی کوئی مشاہداتی دلیل موجود نہیں۔ علت کا درست بدیہی تصور وہی ہے جو متکلمین نے پہچانا، یعنی وہ جو حادث کی احتیاج پوری کرے اور ایسی علت علم، قدرت و ارادے سے ہی عبارت ہوسکتی ہے اور اسے ہی پرسنل گاڈ کہا جاتا ہے۔ اس تفصیل سے دونوں اعتراضات رفع ہوجاتے ہیں۔
جس نے ان امور کو سمجھ لیا وہ ان شاء اللہ جدید فلاسفہ کی پھیلائی ہوئی اکثر و بیشتر غلط فہمیوں سے محفوظ رہےگا۔
وما توفیقی الا باللہ
کمنت کیجے