Home » سکول و مدرسہ : خواتین کا کردار (قسط نمبر 2)
سماجیات / فنون وثقافت مدارس اور تعلیم

سکول و مدرسہ : خواتین کا کردار (قسط نمبر 2)

اب بات کر لیتے ہیں دینی مدارس میں پڑھنے والی طالبات پر جنھیں ایک “نام نہاد دانشور” نے خاص طور پر مطعون کیا ہے۔ان کی ” سوچ ” کی بنیاد یہ ہے کہ بنات کے مدارس میں پڑھنے والیاں سبھی کی سبھی خراب ہوتی ہیں جس کی تفصیل وہ یوں بیان کر رہے ہیں کہ “روئے زمین پر ایک لڑکی بھی رہ جائے اور وہ مدرسہ کی فاضلہ ہو تو میں اسے اپنے بیٹے کی بہو نہیں بناؤں گا”۔ ایک بات اور انھوں نے کہی ہے کہ بنات کے مدارس میں پڑھنے والیوں کی طلاق کی ریشو زیادہ ہے۔
پہلی بات پر تو ہم پچھلی تحریر میں عرض کر چکے ہیں کہ ” ایسی سوچ کے پیچھے نری جاہلیت کار فرما ہے۔مزید اس پر گزارش ہے کہ آپ صحافی ہیں۔ ایک اوریجنل صحافی کا کام ” ہوا میں بات کہہ دینا ” نہیں ہوتا بلکہ وہ ڈیٹا پیش کرتا ہے۔ حقائق سامنے رکھتا ہے اور پھر اس کی بنیاد پر اپنا مقدمہ کھڑا کرتا ہے۔بغیر ثبوتوں کے صرف یہ کہہ دینا ” خوف ناک صورت حال ” سامنے آئی ہے خود ایک صحافی کے بارے میں خوف ناک صورت حال پیدا کر دیتا ہے اس سے تاثر یہ ملتا ہے کہ موصوف کے پاس ثبوت نہیں ہیں لیکن سنی سنائی کی بنیاد پر بات کہنے کی آرزو ان کی شدید ہے۔وہ چند مدارس کے بارے ہی بتا دیں کہ وہاں طالبات کی تعداد اتنی ہے اور ایسے ایسے واقعات جن سے ان کے کردار پر دھبہ آیا ہے، اتنے ہیں۔ صورت حال واضح ہو جائے گی۔اکا دکا واقعات یا سینکڑوں اور ہزاروں طالبات کے ہوتے ہوئے دس بارہ واقعات بھی ایسے نکل آئیں تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ آوے کا آوے بگڑا ہوا ہے ؟
انھیں معلوم نہیں ہے کہ ان بنات کے مدارس کے اثرات کیا ہیں۔
مرکز الحریم ہماری کلاس فیلو کا ادارہ ہے۔ وہ کراچی کے ہی ایک قد آور عالم دین کی بیٹی ہے۔ بے شمار طالبات جو ہر طرح کے پس منظر سے آئی تھیں وہاں سے فارغ ہونے کے بعد مختلف علاقوں میں کام کر رہی ہیں۔ وہ خود عالمی سطح کے پروگراموں کا حصہ بنتی رہی ہیں۔ پی ٹی وی سے لے کر سوشل میڈیا تک وہ Active ہیں۔ان کے اپنے بارے ہم سب کی رائے یہ ہے ” وہ غضب کی باصلاحیت ہے، ہر طرح کے ماحول میں اپنے وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور دینی شناخت کو بچاتے ہوئے Adjust ہو جاتی ہے۔” میں اپنی دونوں چھوٹی بہنوں کے حوالے سے اس سے کئی بار بات کر چکا ہوں اور کئی بار ارادہ ہوا ہے کہ انھیں اس کے زیر تربیت کچھ عرصہ رکھا جائے تاکہ انھیں دین و دنیا کا پتا چلے اور ملکی و غیر ملکی سطح کے علمی و تربیتی فورمز کی پہچان ہو اور معلوم ہو کہ مردوں کو ٹیکل کیسے کرنا ہے۔ آپ مجھے بتائیں اگر خواتین کے مدارس کا ماحول خدانخواستہ ایسا ہی بد تر ہوتا کہ وہاں پڑھنے والیوں کے کریکٹر ڈھیلے ہوتے تو میں کیسے یہ سوچ سکتا تھا کہ اپنی بہنوں کو ایسی لڑکی کی تربیت میں دیا جائے جو خود دینی مدرسہ کی فاضلہ ہے اور اور اب بنات کے ادارے کا اہتمام سنبھالے ہوئے ہے۔
دینی مدارس کی فاضلات جہاں جاتی ہیں وہاں ایک ” گھر میں مدرسہ” بن جاتا ہے۔ میرے بڑے بھائی کی اہلیہ دینی مدرسے کی فاضلہ ہے،ایک عرصہ کتابیں پڑھاتی رہی ہے۔ اس کا مزاج اور جملہ طور اطوار بعض حوالوں سے قابل رشک ہیں۔ وہ ایک وفا دار بیوی،بہترین ماں اور ہر حوالے سے ایک شاندار فیملی ممبر ہے۔وہ ہمارے گھر آئی تو ارد گرد کی بچیاں جو مختلف مذہبی پس منظر سے تعلق رکھتی ہیں، پڑھنے آنا شروع ہو گئیں اور اب اگر بات کی جائے تو الحمدللہ اپنی گلی کی اور ارد گرد کی گلیوں کی کئی بچیوں کو قرآن پڑھا چکی ہے۔ بعض لڑکیاں جو شادی کی عمر کو پہنچی ہوئی تھیں، ان کے ماں باپ پریشان تھے، اب اس عمر میں کہاں پڑھائیں وہ بھی اس سے پڑھ کر جا چکی ہیں۔ دو وقت بچے پڑھنے آتے ہیں۔ وہ گھر کے کام کاج بھی کرتی ہے اور انھیں پڑھا بھی دیتی ہے۔
اب آ جائیں اس بات پر کہ طلاق کی ریشو زیادہ ہے۔ ہماری گزارش ہے اس کی تفصیلات تلاش کی جائیں تو معلوم پڑے گا کہ طلاق کی تعداد میں اضافہ صرف مدرسہ کی طالبات کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ مجموعی طور پر معاشرے میں اس کا رجحان بڑھ گیا ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ پہلے بھی یہاں جنوبی پنجاب میں ہم جن بڑے مدارس میں پڑھتے رہے ہیں وہاں اکثر فتاوی جات طلاق کے متعلق ہی ہوتے تھے۔ طلاق بڑھنے کی وجوہات اگر تلاش کی جائیں تو بہت سی جائز ہوتی ہیں۔ سادہ الفاظ میں اگر کسی عورت کو نان نفقہ نہیں مل رہا،جائز عزت حاصل نہیں ہے اور سوائے اذیت کے اس کے ہاتھ کچھ نہیں آ رہا تو پھر ایسا رشتہ ختم کرنا بہتر ہے۔قرآن مجید نے طلاق کے معاملے میں جن اخلاقیات کو ملحوظ رکھنے کا حکم دیا ہے انھیں پڑھ کر معلوم ہوتا ہے طلاق کوئی اچھا معاملہ نہیں ہے لیکن اگر اس کے سوا چارہ نہ ہو تو اسے اختیار کرنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ کچھ وجوہات ہیں جو پریشان کن ہیں مثلا عدم برداشت اور ذمہ داریوں سے روگردانی۔ اور یہ دونوں طرف ہیں یعنی مردو خواتین دونوں اس کا شکار ہیں۔ایسا گھر کیسے چل سکتا ہے جہاں مرد یا عورت اپنی ذمہ داریوں سے رو گردانی کرے یا ان میں ایک دوسرے کے حالات یا مزاج کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہ ہو لیکن ان چیزوں سے صرفِ نظر کر کے اس کو مدارس دینیہ کی فاضلات کے ساتھ خاص کر دینا کہ وہاں سے پڑھنے والیاں چوں کہ برے کردار کی مالک ہوتی ہیں اور نک چڑھی ہوتی ہیں اس لیے ان کو طلاق ہو جاتی ہے، نادرست ہے۔ ایسا کرنے والا سماجی شعور ہی نہیں رکھتا۔اس ساری تفصیل کے بعد ہم پھر بھی کہتے ہیں کہ خواتین بھی انسان ہوتی ہیں، وہ مردوں کی طرح خطا کا پتلا ہیں لہذا مسائل ہیں اور وقت کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے بنات کے مدارس میں بہت اصلاحات کی ضرورت ہے، خاص کر وہاں کے منتظمین کی تربیت و اصلاح از حد ضروری ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ خواتین کے مدارس بدکاری کے اڈے ہیں یا صرف وہاں کی طالبات کو اپنی بدمزاجی یا برے کردار کی وجہ سے طلاق ہو جاتی ہے۔ایسا سوچنا نری جہالت ہے، سماجی شعور کی کمی کی آئینہ دار ہے اور بیمار ذہنیت کی علامت ہے۔

محمد عثمان حیدر

محمد عثمان حیدر نے دار العلوم کبیر والا سے درس نظامی اور گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ سے علوم اسلامیہ میں ایم فل کیا ہے۔ فوجی فاونڈیشن کالج اسلام آباد میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
Usaidhaider7@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں