حضرت امیر معاویہ پر ایک الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے لوگوں کو رشوت دے کر اور ڈرا دھمکا کر یزید کی بیعت لی۔ یہ منظر کشی اصولا ہمیں قبول نہیں، لیکن برسبیل تنزیل بحث کے لئے ایسی روایات کو قبول کرلیتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ حقائق کی منظر کشی کا یہ انداز بیان آپ کی رائے کے مخالفین نے مشہور کیا اور اس کے نظارے ہم آج بھی مختلف بیانیوں کی صورت اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں کہ ایک ہی سیاسی واقعے کو مخالف اور حامی الگ انداز سے دیکھتے ہیں نیز ہر دو قسم کے لوگ ہر ایک رائے کے ساتھ اور اس کے خلاف ہوتے ہیں۔ اتنی وسیع و عریض سلطنت جہاں متنوع و متضاد انٹرسٹ گروپس موجود ہوں وہاں مقاصد کے حصول کے لئے لابنگ کرنا ایک عام و قابل فہم بات ہے جسے مخالفین غلط رنگ دے کر پیش کردیتے ہیں۔ جن لوگوں نے کسی بڑے ادارے میں کام کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ پالیسی سازی کے عمل میں بعض لوگوں کو ساتھ ملانا پڑتا ہے، بعض کو نیوٹرلائز کرنا ہوتا ہے، بعض کو کارنر کرنا پڑتا ہے، بعض کو نتائج سے خبردار بھی کرنا ہوتا ہے (مخالفین کی جانب سے اسے “ڈرانا دھمکانا” کہا جاتا ہے) اور بعض مخالفین کے وزن کے سبب ان سے سہو نظر بھی کرنا ہوتا ہے۔ خود جمہوریت میں اپنے مقاصد کے لئے قانون سازنی کی خاطر نیچے سے لے کر اوپری سطح تک منظم انداز میں لابنگ کرنا پڑتی ہے۔ اس سارے عمل کو رشوت قرار دینے والوں سے بعید نہیں کہ کل کو زکوۃ کے تحت تالیف قلب کی مد کو بھی رشوت قرار دینے لگیں جبکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ آپﷺ نے بعض مخالف قبائل کو نیوٹرلائز کرنے کے لئے اسے استعمال کیا تانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان قبائل سے متعلق یہ ضرورت ختم ہوجانے پر ان کا یہ فنڈ بند کردیا۔ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت منعقد ہوجانے پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کچھ شکوہ تھا نیز آپ نے ابتداء بیعت بھی نہ کی اور تاریخی روایات میں یہ باتیں موجود ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے گھر پر بنو ھاشم کے افراد اس حوالے سے مشورے کے لئے جمع ہوتے تھے جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں باز آنے کا کہا اور نتائج سے خبردار بھی کیا۔ ان روایات میں بیان کردہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اقدام کو رنگ آمیزی کے ساتھ ایک گروہ یہی معنی پہناتا ہے کہ دیکھو لوگوں پر جبر و دھونس سے کام لیا گیا وغیرہ۔
ہمارے ہاں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے متعلق ان واقعات کو بڑھا چڑھا کر منظم انداز میں پیش کرنے کا کام مولانا مودودی رحمہ اللہ نے سر انجام دیا۔ آپ نے احیائے اسلام کے لئے ایک جماعت تشکیل دی مگر چند ہی سالوں بعد آپ محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ کا ساتھ دیتے دکھائی دئیے۔ کتاب “خلافت و ملوکیت” اور “پردہ” میں بیان کردہ تفصیلات کے باوجود ان کی اس شراکت داری کی توجیہہ و تاویل ہمارے نزدیک عملی گراؤنڈز پر ممکن ہے مگر جو لوگ آئیڈئیل ازم کی اونچی عمارت سے نیچے اتر کر حضرت امیر معاویہ کو حالات کے تحت کوئی گنجائش دینا پسند نہیں کرتے اور ایک کے بعد دوسرا “اصولی سوال” پوچھتے ہیں ان کے لئے یہاں تاویل و توجیہہ کا کوئی مقام موجود نہیں۔ ایک چھوٹی سی جماعت، جسے اس عزم اور وژن کے ساتھ کھڑا کیا گیا کہ وہ خلافت راشدہ کے بعد پہلی جماعت ہے جو مکمل اسلام کے احیاء کی جدوجہد کرنے والی ہے کیونکہ پہلے کے سب مجددین امت کی جدوجہد کسی نہ کسی صورت ناقص تھی، اور جو ایک چھوٹے سے ملک میں کام کررہی ہے اس کی سیاسی تاریخ میں اپنے بیان کردہ آئیڈئیل نظرئیے سے ایک کے بعد دوسرا کمپرومائز نظر آتا ہے جو آج تک جاری و ساری ہے (اور ہمارے نزدیک وہ قابل فہم ہے)۔ مولانا کی قائم کردہ جماعت کے تحت تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے اس کے سٹوڈنٹ ونگ کے بارے میں ان کے مخالفین کی جانب سے کیا یہ مشہور نہیں کہ یہ لوگ دھونس و زبردستی سے کام لیتے ہیں؟
کمنت کیجے