عادل اشرف
زاہد صاحب کے مقدمے کی عمارت جس بنیادی دلیل پر کھڑی ہے وہ یہ ہے کہ فقہاء و متکلمین کے ہاں “ولی عہدی” خلافت کے انعقاد کا ایک جائز ذریعہ ہے- اس پسمنظر میں وہ مولانا مودودی پر تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے صرف شوری/ جمہوری ذرائع کو ہی خلافت کے انعقاد کا واحد جائز ذریعہ قرار دیا ہیں اور ولی عہدی کو سرے سے ناجائز ٹھرایا ہیں- زاہد صاحب کے نزدیک مولانا مودودی کا یہ اجتہاد چاہے کتنا ہی جاذب نظر معلوم ہو لیکن اس کا کلام و فقہ کی روایت سے کوئی تعلق نہیں-
اس حوالے سے دو نکات پر مشتمل ہمارا جواب ملاحظہ ہو-
پہلا نکتہ یہ ہے کہ اگر مولانا مودودی کی کتاب “خلافت و ملوکیت ” کو ہی بالاستیعاب پڑھا جاۓ تو اس سے معلوم ہوگا کہ مولانا کے نزدیک ولی عہدی بھی خلافت کے انعقاد کا ایک جائز ذریعہ ہیں بشرطے کہ اسکی تائید اہل حل و عقد اور آزادنہ بیعت کرے! چنانچہ وہ حضرت معاویہ رض کے اقدام کو صرف “نفس ولی عہدی” کے حق کے استعمال کی وجہ سے غلط نہیں ٹھراتے، بلکہ انکے نزدیک یہ ولی عہدی “صحیح قسم کی ولی عہدی” نہیں تھی- مولانا اسکے دو وجوہ بیان کرتے ہیں، انکے الفاظ میں:-
۱- “ایک یہ کہ یزید کی ولی عہدی کے لیے ابتدائی تحریک کسی صحیح جذبے کی بنیاد پر نہیں ہوئی تھی-”
۲- “دوسرے یہ کہ یزید بجائے خود اس مرتبے کا آدمی نہ تھا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہونے کی حیثیت سے قطع نظر کرتے ہوہے کوئی شخص یہ رائے قائم کرتا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد امت کی سربراہی کے لئے وہ موزوں ترین آدمی ہے-”
تو ثابت ہوا کہ فقہاء و متکلمین کی طرح مولانا کے نزدیک بھی “ولی عہدی” کا طریقہ ایک جائز طریقہ ہے-
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ولی عہدی کے ذریعے سے انعقاد خلافت کو اہل حل و عقد کی توثیق سے مشروط رکھنا مولانا کا کوئی انوکھا اجتہاد نہیں بلکہ قاضی ابو یعلی کی “احکام السلطانیہ” سے بھی یہی بات مترشح ہوتی ہے کہ اس طریقے میں اصل “شوری” اور اہل حل و عقد کی توثیق ہے- قاضی ابو یعلیٰ کے حوالے سے یہ بات ڈاکٹر محمد مشتاق اس موضوع پر اپنی ایک مفصل تحریر میں ثابت کرچکے-
اب رہی بات امام ماورودی کی احکام السلطانیہ کی، جو زاہد صاحب اور انکے فکری ہمنواؤں کا واحد سہارا ہے, تو اس میں بھی یہ لوگ امام صاحب کے موقف کو خلط ملط کرتے ہیں- امام صاحب وہاں “بیٹے اور باپ کے بغیر” کسی کو ولی عہد بنانے کے جواز پر الگ سے بحث کرتے ہیں اور خاص یٹے یا باپ کو ولی عہد بنانے پر الگ سے- پہلی چیز کے بارے میں بھی وہ اسی امر کا ذکر کرتے ہیں کہ اہل بصری کے بعض علماء اس راۓ کی طرف گیے ہیں کہ ولی عہد کی خلافت کے انعقاد کیلۓ اہل حل و عقد کی توثیق ضروری ہے- لیکن اسکے معاً بعد وہ لکھتے ہیں کہ “مگر صحیح یہی ہے کہ اس میں اہل حل و عقد کی رضا ضروری نہیں”- یہاں پر یہ بات نوٹ کریں کہ ماورودی اس مقام پر یہ نہیں کہتے کہ “جمہور کی راۓ یہ ہے” بلکہ بس “والصحیح ان” ( اور صحیح یہ ہے کہ) کے الفاظ استعمال کرتے ہیں- ان الفاظ سے قطعی طور پر صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ماورودی یا انکے حلقے کے علماء کے نزدیک صحیح مسلک ہے ناکہ جمہور کا مسلک- اسکے جمہور کے مسلک ہونے کی نفی انہی کے ہمعصر اور انہی کے شہر ( یعنی بغداد) کے عالم قاضی ابویعلٰی کی کتاب سے ہوجاتی ہے، جسکا ذکر اوپر آچکا-
پھر جب امام ماورودی بیٹے یا باپ کو ولی عہد بنانے کی بحث الگ سے اٹھاتے ہیں تو اس میں وہ تین مسالک نقل کرتے ہیں اور خود صراحتاً کسی مسلک کی تائید نہیں کرتے- لیکن ان مسالک کے بیان میں وہ اسی مسلک کا ذکر مقدم رکھتے ہیں جسکے مطابق باپ یا بیٹے کے حق میں محض ولی عہدی سے انعقاد خلافت نہیں ہوتا، بلکہ اس میں اہل حل و عقد کی رضا و توثیق لازمی ہے-
خدارا ، اب مجھے بتائیں کہ کیا یہ دعویٰ کسی بھی طرح صحیح ہے کہ اس حوالے سے مولانا مودودی کی راۓ کا “کلام و فقہ کی روایت سے تعلق نہیں” ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عادل اشرف نے حال ہی میں ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کی ہے ۔ آپ کتب بینی اور فکری مسائل میں تفکر کے عادی و شائق ہیں۔
E-mail :- aadilash38@gmail.com
کمنت کیجے