ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی بھارت سے تعلق رکھنے والی علمی شخصیت ہیں۔ اس وقت وہ جامعہ عارفیہ سید سراوں الہ آباد میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ذیشان مصباحی صاحب کی چار سو زائد صفحات کی کتاب “مسئلہ تکفیر و متکلمین” کو پاکستان میں ورلڈ ویو پبلشرز لاہور نے شائع کیا ہے۔
کتاب پر بات کرنے سے پہلے میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مسئلہ تکفیر ایک حساس مسئلہ ہے اور میری حیثیت بھی ایک عام قاری کی ہے اور مطالعہ بھی محدود ہے اس لیے غلطی کا امکان موجود ہے۔
دوسری بات مسئلہ تکفیر پر یہ پہلی کتاب ہے جو میں نے مکمل پڑھی ہے اس لیے میرے لیے اس پر بات کرنا اور بھی مشکل ہے، لہذا اس وجہ سے بھی ممکن ہے کہ میں کوئی بات درست انداز میں پیش نہ کرسکوں۔
لہذا ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی صاحب کی کتاب پر یہ گذارشات ایک عامی و طالب علم کی ہیں نا کہ کسی عالم و محقق کی۔
اس کتاب کا خانقاہ منعمیہ پٹنہ کے ڈاکٹر سید شمیم الدین احمد منعمی اور جامعہ ہمدرد دہلی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وارث مظہری صاحب نے عمومی تعارف کرایا ہے۔ بالخصوص ڈاکٹر مظہری صاحب نے اس موضوع کی نزاکت و حساسیت اور اس میں پائی جانے والی افراط و تفریط کا ذکر کیا ہے اور ڈاکٹر مصباحی صاحب کی کتاب علمی و دعوتی انداز تحریر کی تعریف کی ہے جس میں تمام ضروری مباحث کو اٹھایا ہے بجائے کسی خاص مکتب فکر کی ترجمانی کہ اس کو مجموعی فکر اسلامی کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔
کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی نے اپنے مرشد شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی صاحب کی گفتگو کا ایک حوالہ دیا ہے کہ یزید کے ایمان کے بارے میں امام ابوحنیفہ رح نے سکوت فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت کا مسلم معاشرہ یزید کے بارے میں سچ سننے کی تاب نہیں رکھتا تھا۔
اس لیے تکفیری ماحول میں تکفیر مخالف مقدمہ قرین مصلحت تو نہیں مگر غلو فی التکفیر ایک بڑا فتنہ ہے جس کا سد باب ضروری ہے اس پر ڈاکٹر ذیشان مصباحی نے کہا ہے کہ اگر ان کی اس کاوش سے چند ایک نوجوان بھی تکفیر کی جگہ تاویل، کفر کی جگہ ایمان اور مسلک کی جگہ ملت کی فکر سے روشناس ہو جاتے ہیں تو یہ ان کے لیے سرمایہ آخرت ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں دیوبندی علماء اربعہ کی تکفیر ایک اور حساس مسئلہ رہا ہے مگر ڈاکٹر ذیشان مصباحی صاحب نے اس پر الگ سے کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ یہ مستقل بحث کا متقاضی ہے اس لیے یہ مسئلہ اس کتاب میں زیر بحث نہیں ہے۔
ایسے ہی قادیانیت کا مسئلہ بھی اس کتاب کا حصہ نہیں ہے کیونکہ قادیانی ضروریات دینی کے منکر ہیں اس لیے وہ اہل قبلہ کا بھی حصہ نہیں نہ ان کا اس کتاب میں شمولیت کا کوئی جواز بنتا ہے۔
پس منظر میں غلو فی التکفیر کے فتنے پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر مصباحی صاحب نے لکھا کہ اس کا سرا عہد صحابہ سے ملا ہوا جب خوارج نے حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ جیسی ہستی کی تکفیر کر ڈالی،مگر آج مشکل یہ ہے کہ کوئی ذوالفقار حیدری نہیں ہے جو ان فتنہ سامانیوں کا سدباب کر سکے۔
آگے ڈاکٹر ذیشان مصباحی صاحب نے غلو فی التکفیر کی وضاحت کی ہے کہ غلو کرنے والے دین کی فروعی بات کو اصولی بات قرار دیتے ہیں، یہ اپنے فہم کو نص کا درجہ دیتے ہیں یہ خود چاہیں تو تاویل کریں مگر دوسروں کو تاویل کا حق نہیں دیتے۔ تعصب اور جہالت تکفیر میں غلو کے بنیادی اسباب ہیں۔
خوارج کی طرح معتزلہ نے بھی غلو کا مظاہرہ کیا جو مرتکب گناہ کبیرہ کو خارج از اسلام کہا مگر ایک گنجائش رکھی کہ ایسے شخص کو کافر نہیں قرار دیا، ذیشان صاحب نے یہاں پر شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کی وہابی تحریک کو بھی تکفیر کے معاملے میں خوارج کی پیروی کرنے والا کہا جس میں انہوں نے توسل و زیارت اور احترام اولیاء و مشائخ جیسے مسائل میں شیخ ابنِ عبدالوہاب کا ہم نوا نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو کافر قرار دیا۔ اس فکر کی عرب میں سب سے پہلے مخالفت کرنے والے شیخ سلیمان بن عبد الوہاب تھے جو کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کے بھائی تھے انہوں نے اپنے بھائی کی ناروا تکفیر پسندی پر نوحہ تو پڑھا مگر پلٹ کر اپنے بھائی یا ان کے گروہ کی تکفیر نہیں کی۔ ایسے ہی غلو فی التکفیر کے عادی کچھ وہابی مخالف پکے سنی کہلانے والے بھی ہیں جو امام حرم کے پیچھے نمازوں کو ہی درست نہیں مانتے۔
غلو فی التکفیر کے ردعمل میں بعض حلقے تساہل فی التکفیر کی طرف چلے گئے، جو تکفیر کو ہی سرے سے جرم مانتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ جو شخص خود کو مسلمان کہے ہم اس کو کافر نہیں کہہ سکتے۔ ڈاکٹر ذیشان مصباحی صاحب نے اس فکر کو بھی غیر معقول اور ناقابل قبول کہا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے نمایاں نام جاوید احمد غامدی صاحب اور مولانا وحید الدین خاں صاحب کا ہے۔ یہ کافر کی بجائے غیر مسلم کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو ڈاکٹر ذیشان مصباحی صاحب نے لکھا کہ کافر اور غیر مسلم ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ اس لیے یہ سوچ کہ ہم کسی کو غیر مسلم تو کہہ سکتے ہیں مگر کافر کہنا غلط ہے، یہ پرلے درجے کی سادگی ہے۔ اسلامی اصطلاح میں وہ تمام افراد کافر ہیں جو غیر مشروط طور پر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی لائی ہوئی تمام باتوں کی تصدیق نہ کریں۔ اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اگلے باب میں اصطلاح مذاہب میں Believer کی بات کرتے ہوئے کہا کہ اس شخص کو Believer کہا جاتا ہے جو کسی ماورائی طاقت کو تسلیم کرے یا کسی مذہبی و روحانی نظام میں یقین رکھتا ہو اس لحاظ سے یہود و ہنود بلکہ ہنودو مجوس اور جینیوں اور بدھسٹوں پر بھی مومن کا اطلاق درست ہو سکتا ہے لیکن اگر اسلامی اصطلاح میں بات کریں تو ایمان تصدیق بالرسول سے عبارت ہے اور اسلام میں ایمان کا مرکز و محور ذات مصطفی علیہ الصلٰوۃ والسلام ہے۔ یہاں پر ڈاکٹر ذیشان مصباحی صاحب نے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے ایک خطاب پر ضمنی طور پر گفتگو کی ہے کہ جہاں انہوں نے اہل کتاب کو Believer کہا، تو اصطلاح مذاہب میں یہ بات درست مگر اصطلاح اسلامی میں کفری کہلائے گی اور ڈاکٹر طاہر القادری صاحب جیسی شخصیت سے یہ بعید تر ہے کہ انہوں نے اصطلاح اسلامی میں ان کو مومن کہا ہو،کیونکہ ان کے سینکڑوں خطبات اور کتب میں مومن کی وہی تعریف ہے جو اہل اسلام کی اصطلاح ہے۔
تصدیق بالرسالت کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر ذیشان مصباحی صاحب نے لکھا ہے کہ اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان تمام باتوں کو ماننا ہے جو تواتر سے ثابت ہیں، اخبار احاد کا انکار تصدیق سے خارج ہے۔
ایمان کے بعد اگلے باب میں کفر پر بحث کی گئی ہے جیسے ایمان کی بنیاد تصدیق رسالت ہے ایسے ہی کفر کی بنیاد تکذیب رسالت ہے۔ اس لیے کسی مجدد، مجتہد، عالم، فقیہ و صوفی کو ماننا یا نہ ماننا یہاں تک کسی صحابی رضی اللہ عنہ کو ماننا یا نہ ماننا ایمان کی بحث سے خارج ہے جب تک براہ راست تکذیب رسالت نہ ہو ایمان رہے گا کفر نہ ہوگا۔ سب صحابہ ایک قبیح فعل ہے لیکن اگر کسی تاویل کی بنا پر ہو تو تکفیر نہیں کی جائے گی۔ اس پر آگے مصنف نے علامہ شامی رح کا کلام نقل کیا کہ خوارج کی عدم تکفیر میں یہ دلیل موجود ہے کہ سب صحابہ اگرچہ کسی تاویل فاسد پر ہی کیوں نہ ہو تکفیر نہیں کی جائے گی۔ اسی باب میں تاویل پر مصنف نے مزید بحث کی ہے۔ اس کے بعد مصنف نے لکھا ہے کہ علماء کی ایک جماعت سب صحابہ کو کفر کہتی ہے مگر یہ بات عندالتحقیق درست نہیں زیادہ سے زیادہ یہ کفر لزومی ہو سکتا کفر حقیقی نہیں،اس کی ضلالت وگمراہی اور بدبختی ہونے پر کوئی شبہہ نہیں۔ شرک،الحاد، یہودیت و عیسائیت، انکار ضروریات دین، تحریف و اہانت دین اور گستاخی رسول یہ سب تکذیب رسالت ہی کی مختلف صورتیں ہیں۔ کفر کے درجات، کفر اکبر اور اصغر میں فرق، تاویل کا کفر نہ ہونا اور اس کی حدود قیود کہ تاویل تحریف نہ بن جائے کو مصنف نے اس باب میں اٹھایا ہے۔
اگلے باب میں تکفیر پر گفتگو کی ہے، اس کی مختلف صورتوں کا یہاں بیان ہے جیسے کہ کسی کا قول تو کفری ہو گا مگر وہ بندہ از خود کافر نہیں ہو گا۔ تکفیر قطعی اور تکفیر ظنی میں فرق کا ذکر ہے، تکفیر قطعی کی شہادت قرآن و سنت یا اجماع سے ملتی ہے جبکہ ظنی تکفیر اجتہاد پر مبنی ہوتی ہے اس میں ایک مجتہد کی رائے دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہے، اس کو تفصیل سے مصنف نے تکفیر مشاہر والے باب میں مثالوں سے بیان کیا ہے۔
تکفیر فقہی اور کلامی کے عنوان سے مصنف نے اس باب میں فقہاء و متکلمین کے اصول تکفیر پر بات کی ہے اور بتایا ہے کہ فقہاء تکفیر میں سختی کرتے ہیں جبکہ متکلمین تکفیر کرنے میں نرمی برتتے ہیں۔ کلامی تکفیر زیادہ سخت ہوتی ہے اور علمی دنیا میں اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ تحقیقی تکفیر بھی کہلاتی ہے۔التزام کفر اس ہی تکفیر سے سامنے آتا ہے جبکہ فقہی تکفیر سے لزوم کفر واضح ہوتا ہے۔ اس باب میں شخصی و جماعتی تکفیر پر بھی بات کی گئی ہے۔ گو کہ دونوں تکفیروں کے اصول تو ایک طرح ہیں مگر جماعتی تکفیر میں زیادہ احتیاط اور تحقیق چاہیے ہوتی ہے کہ جس عقیدے پر گروہی تکفیر کی جا رہی ہے وہ واقعی پوری جماعت کا متفقہ عقیدہ ہے۔
اگلا باب اصول تکفیر کے بارے میں ہے کہ تکفیر کرتے ہوئے کون سی شرائط کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوتا ہے اس میں مصنف نے پانچ شرائط کا ذکر کیا ہے۔
مکلف ہونا
علم ہونا
قصد و ارادہ ہونا
اختیار و رضا ہونا
اور
التزام کفر ہونا۔
مصنف نے پانچوں شرائط کی الگ الگ وضاحت بھی اس باب میں کر دی ہے۔
اس سے آگے تاویل کے اوپر باب ہے، تاویل کا مطلب ہوتا ہے لفظ کو اس کے ظاہری معنی سے پھیر کر غیر ظاہری معنی میں پھیرنا،اور جب ہم عقائد کے باب میں تاویل کا لفظ بولتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے ایسا قول یا عمل جو بظاہری کفری ہو مگر اس کو اس طرح بیان کیا جائے کہ عدم تکفیر کی راہ نکل آئے۔ تاویل موول لفظ میں ہوتی ہے صریح بات میں تاویل نہیں ہوتی، اس لیے ممکن ہے کہ ایک بات کسی کے لیے صریح ہو جبکہ دوسرے کے نزدیک موول ہو، اس کی مثالیں بھی مصنف نے اس باب میں پیش کی ہیں۔ اس سے آگے تاویل کے مقامات میں تفہیم نصوص کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ذیشان مصباحی صاحب نے لکھا ہے کہ نصوص کے معانی جو تواتر اور اجماع سے نہیں ہیں ان میں اختلاف اور تاویل کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے اس کے ساتھ عقیدہ کی قطعیت کی گنجائش بھی ختم ہو جاتی ایسے مواقع پر جمہور امت کے موقف کے ساتھ رہنا چاہیے یہی طریق اہل سنت ہے مگر جہاں خود اساطین اہلسنت کی رائے مختلف وہاں زیادہ سے زیادہ فریق مخالف کو دلیل کی بنیاد پر خاطی کہا جا سکتا ہے ایسے شخص کی تکفیر تو درکنار اس کو خارج از اہلسنت نہیں کہا جا سکتا۔
ڈاکٹر صاحب نے اس باب میں یہ بھی لکھا ہے کہ تکفیر ایک تحقیقی مسئلہ ہے نا کہ تقلیدی اس لیے یہاں علماء کی آراء میں اختلاف ہو جاتا ہے اور کوئی فریق دوسرے کی اس بنا پر تکفیر نہیں کرتا، ایسے ہی جس فقیہ و متکلم کے نزدیک کوئی لفظ صریح ہے اور وہ کفریہ ہے تو اس کا تکفیر کرنا لازم ہے لیکن اگر کوئی اس لفظ کو موول سمجھتا ہے تو اس کا تکفیر نہ کرنا بھی درست ہو گا۔
جب ایک شخص کی تکفیر ہو جائے تو اس کے بارے میں کیا احکامات ہیں؟ اگلے باب میں اس سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ تکفیر کے نتیجے میں وہ شخص اپنی جان کی حرمت کھو دیتا ہے، ایسے ہی اس کی وراثت کا حق منسوخ ہو جاتا ہے، اس کا نکاح قائم نہیں رہتا،اس کے ہاتھ کا ذبیحہ تک حرام ہو جاتا ہے، وہ نماز جنازہ کے حق سے محروم ہونے کے ساتھ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہونے کا حق بھی کھو دیتا ہے۔ ایسے شخص پر لعنت بھی درست ہوتی ہے اور وہ خلود فی النار کا حقدار قرار دیا جاتا ہے۔ یہ اتنے سخت احکامات اس بات کی کافی دلیل ہیں کہ تکفیر کرتے ہوئے کس قدر احتیاط اور تحقیق لازم ہے۔
نصوص تکفیر کے نام سے اگلے باب میں ڈاکٹر ذیشان مصباحی صاحب نے ان آیات و احادیث کی تشریح و تاویل کی ہے جس کو بنیاد بنا کر تکفیر میں تعجیل کرنے والوں نے فوراً ہی تکفیر کر ڈالی، جس میں آیت تحکیم بھی جس کی تاویل فاسد کی بنا پر حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ جیسی پاک ہستی کو خوارج نے کافر کہا، یہاں پر ڈاکٹر مصباحی نے سید مودودی ، سید قطب شہید اور محمد قطب کی فکر پر بھی نقد کیا جو کہتے ہیں کہ موجودہ جمہوری ریاستوں میں مسلمانوں نے ربانی حاکمیت کو چھوڑ کر طاغوتی حاکمیت کو قبول کر لیا جو کہ شرک ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب بھی جمہوری حاکمیت کو شرک کی بدترین شکل قرار دیتے تھے۔ ڈاکٹر مصباحی نے یہاں اس نظریے کو خوارج کی فکر کا عکس کہا ہے۔
اس سے اگلا باب متعلقات تکفیر کے بارے میں جس میں اجماع کے منکر کی تکفیر کے بارے میں تفصیل سے لکھا گیا ہے اور اس میں سے فقط صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع جو ضروریات دینی کے متعلق ہو کا منکر کافر ہے باقی اجماع امت سے انکار کرنے والے کی تکفیر درست نہیں ہے۔یہاں پر ڈاکٹر ذیشان مصباحی صاحب نے پاکستانی عالم ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی صاحب سے کچھ جزوی اختلاف کیا ہے جس کو اس باب میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اگلا باب تکفیر مسالک کے نام سے ہے جس میں اہل تشیع، خوارج، معتزلہ، قدریہ اور وہابیہ کی تکفیر پر الگ الگ گفتگو کی ہے۔ شیعہ کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے کہا ہے کہ جو شیعہ الوہیت علی، تحریف القرآن، خطا ء جبرائیل جیسے نظریات رکھتا ہے اس کی تکفیر کی جائے گی لیکن سب اہل تشیع کو ان نظریات کا حامل قرار دینا آسان نہیں ہے بلکہ بہت سے شیعہ علماء ان عقائد سے برات کا اعلان کرتے ہیں اس لیے بجائے گروہی تکفیر کرنے کے ان عقائد کو کفریہ قرار دینا چاہیے، اس لیے جو بھی ان کا حامل ہو گا وہ کافر ہو گا۔ شیعہ کی تکفیر کے سلسلے میں ڈاکٹر ذیشان مصباحی صاحب نے مولانا منظور احمد نعمانی، شیخ ابنِ تیمیہ اور اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے نتائج سے اختلاف کیا ہے جبکہ اس حوالے سے شیخ الازہر احمد طیب اور ڈاکٹر شوقی علام کی فکر سے اتفاق کیا ہے۔
خوارج کی تکفیر پر بھی کافی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے اس بارے میں سیرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ہمیں یہ نمائندگی ملتی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے ان کی تکفیر نہیں کی۔ اس بارے میں ڈاکٹر مصباحی صاحب نے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے خوارج کے بارے میں دئیے گئے مشہور فتوی پر بھی گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے تکفیر خوارج میں نا صرف عجلت سے کام لیا ہے بلکہ علماء کی عبارات سے بھی غلط معنی اخذ کیے ہیں۔ ڈاکٹر مصباحی نے لکھا کہ خوارج کے باب میں بھی درست فکر ان کی عدم تکفیر ہی ہے۔
معتزلہ، مرجیہ اور قدریہ برصغیر کے تناظر میں بحث طلب ہیں ہی نہیں اس میں معتزلہ کے اثرات تو پائے جاتے ہیں مگر یہ فرقے اب اپنا باقاعدہ وجود نہیں رکھتے۔ وہابیہ میں سے شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کے بارے میں گزر چکا کہ انہوں نے تکفیر میں شدت برتی مگر ان کا رد کرنے والوں نے ان کو گمراہ کہا مگر کافر نہیں ایسے شاہ اسماعیل دہلوی نے وہابیت کا ہندوستانی ایڈیشن متعارف کرایا ان کی علامہ فضل حق خیر آبادی رح نے تکفیر بھی کی مگر ایک اور بڑے سنی عالم علامہ شاہ فضل رسول بدایونی رح نے شاہ اسماعیل کو گمراہ و مبتدع کہا مگر تکفیر نہیں کی، بلکہ شیخ نجدی اور شاہ اسماعیل کو اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رح نے گمراہ لکھا کافر نہیں کہا۔ ایسے ہی عرب میں ڈاکٹر سعید بن رمضان بوطی شہید رح اور شیخ یوسف ہاشم رفاعی رح نے رد وہابیہ پر کام کیا لیکن کہیں بھی وہابیہ کی تکفیر نہیں کی۔
اس سے اگلے باب میں ان مشاہیر کا ذکر ہے جن کی تکفیر کی گئی مگر امت کے ایک حصے نے ان کی عظمت کا قول کیا۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رح تو فرعون کی کفر کے قائل نہیں تھے، حالانکہ اس کا کفر کتاب و سنت، اجماع حتی کہ یہودیت و عیسائیت میں بھی متفقہ ہے مگر اس کے باوجود شیخ ابنِ عربی رح کو کئی علماء اہلسنت نے امام المکاشفین اور واجب توقیر لکھا ہے۔ ایسے ہی حضرت ابو طالب کی تکفیر پر بھی امت میں اختلاف ہے، ایک بڑی تعداد میں علماء ان کے ایمان کے قائل نہیں تو دوسری جانب ایسے علماء بھی موجود ہیں جو ان کے ایمان کے قائل ہیں۔ کوئی طبقہ دوسرے طبقے کی ایمان ابو طالب کے نظریہ پر تکفیر نہیں کرتا، ایسے ہی یزید ، حضرت بایزید بسطامی رح، حسین بن منصور حلاج، حکیم ترمذی، امام غزالی، شیخ ابنِ تیمیہ اور اسماعیل دہلوی میں سے ہر ایک کا ذکر کیا ہے کہ کئی علماء نے ان کی تکفیر کی تو کئی لوگوں نے ان کو امام علم و فن جانا۔ ان میں سے ہر ایک کے بارے میں فرداً فرداً گفتگو مزید طوالت کا باعث ہو گی مگر کتاب میں آپ کو ہر ایک کے بارے میں مدح و مذمت دونوں طرح کے اقوال مل جائیں گے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ تکفیر تقلیدی مسئلہ نہیں ہے اس میں کسی عالم سے دوسرے عالم کی رائے کا اختلاف ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے اس کے لیے کسی ایک ہی عالم کے فتوی کو سب کے لیے واجب العمل اور واجب الاتباع قرار دینا اسلامی علمی و کلامی روایت کے خلاف ہے۔ دلیل کی بنیاد پر کوئی عالم دوسرے عالم سے اختلاف کر سکتا ہے۔ اس نتیجے سے آپ ڈاکٹر ذیشان مصباحی صاحب کے دیوبندی علماء اربعہ کی تکفیر کے بارے میں سوچ کو سمجھا جا سکتا گوکہ انہوں نے خود اس بارے میں کلام نہیں کیا لیکن نتیجہ یہ ہی نکلتا ہے۔
راہ اعتدال کے نام سے آخری باب میں ڈاکٹر ذیشان مصباحی صاحب نے بتایا ہے کہ اسلام بنیادی طور پر دین دعوت ہے نا کہ دین تکفیر، اس لیے تکفیر وتردید سے زیادہ اہمیت دعوت و اصلاح کی ہے۔ تکفیرت کے سدباب میں ڈاکٹر ذیشان مصباحی نے شیخ الازہر احمد طیب کی کاوشوں کو سراہا ہے اور ان کے فکر و منہج کو عالم اسلام میں پھیلانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ عمان اعلامیہ جس میں پاک و ہند سمیت دنیا بھر کے دو سو کے قریب علماء کے دستخط ہیں جس میں حنفی،شافعی، مالکی، حنبلی کے ساتھ سلفی، اباضی، جعفری،زیدی اور ظاہری کو مسلمانوں میں شمار کیا گیا ہے۔ کتاب کے ضمیمہ میں رسالہ عمان پر مولانا ناصر رامپوری صاحب کا ایک جائزہ بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر ذیشان مصباحی نے برصغیر کے تناظر میں عمان اعلامیہ طرز کے کسی متفقہ اعلامیہ پر زور دیا ہے جو یہاں تکفیریت کے عفریت کو قابو میں کر سکتا ہے۔
کتاب کے آخر میں خلاصے میں ڈاکٹر مصباحی نے لکھا ہے کہ ہمیں باطن پر فتوی نہیں دینا چاہئے، تکفیر کا آپشن آخری راستہ ہونا چاہیے اور اتحاد امت کے لئے غلو فی التکفیر سے بچنا ضروری ہے، تکفیر میں تعجیل خارجی منہج ہے جبکہ ہمیں اشعری و ازہری منہج کو فروغ دینا چاہیے۔ ڈاکٹر ذیشان مصباحی صاحب نے سب سے زیادہ امام غزالی رح کے رسالے فیصل التفرقتہ بین الاسلام و الزندقتہ سے استفادہ کیا ہے۔
بہت شکریہ راجہ صاحب! وفقتم خیرا
ماشاء الله عليك
بہت ہی عمدہ معلوماتی تبصرہ