گفتگو : ڈاکٹر الطاف احمد اعظمی
جمع و تدوین: عثمان فاروق
اگر دنیا کے مظلوم اہل علم کی ایک فہرست بنائی جائے تو یہ فہرست اس وقت تک نامکمل رہے گی جب تک اس میں سرسیّد کا نام شامل نہ کیا جائے۔ آپ اسے مبالغہ پر محمول نہ کریں یہ ایک حقیقت ہے جو اوراقِ تاریخ میں محفوظ ہو چکی ہے۔ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے نے،جس میں مذہبی اور غیر مذہبی دونوں طرح کے لوگ شامل ہیں، جس شدّت اور تواتر کے ساتھ اس ایک عظیم دانشور کی تحقیر و تذلیل کی ہے اس کی کوئی دوسری مثال مشکل سے ملے گی۔
انھیں ملحد،لامذہب،کرسٹان،دہریہ،نیچری،کافر اور دجّال وغیرہ کے “خِطابات” سے نوازا گیا حتّٰی کہ انھیں گالیوں سے بھرے خطوط لکھے گئے۔سرسّید نے ایک ایسے ہی خط کو،جومغلّظات سے بھرا ہوا تھا، محفوظ کردیا تھا اور ہدایت کی تھی کہ وہ ان کی لائف میں ہی چھاپ دیا جائے تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ اس قوم کے نادانوں نے اپنے ایک بہی خواہ کے ساتھ کیسا نازیبا سلوک روا رکھا۔ سرسیّد کے سوانح نگار مولانا الطاف حسین حالیؔ نے اس خط کو “حیاتِ جاوید” میں شائع نہیں کیا تھا۔اس کی وجہ انہی کے الفاظ میں سماعت فرمائیں:
“ہماری غیرت گوارا نہیں کرتی کہ اس ملعون تحریرکو سرسیّد کی لائف میں نقل کرکےقوم کی نالائقی تمام دنیا پر ظاہر کریں ۔” (حیات جاوید،صفحہ نمبر 548)
سرسیّد کی مخالفت بلکہ مخاصمت کے کئی وجوہ ہیں :
ایک وجہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے قدیم نصابِ تعلیم کے خلاف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ نصاب اب کارآمد نہیں ہے بلکہ ایک معنی میں مضر بن چکا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس میں ترمیم و اصلاح کر کے اسے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنایا جائےلیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ مسلمان جدید علوم و فنون کو حاصل کریں جن کو حاصل کرکے مغرب کی قومیں تیزی سے ترقی کررہی ہیں اور ان کی عظمت و شوکت میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے۔
سرسیّد کی مخالفت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے مذہبی طبقے کے تقلید پسند رویّوں پر شدید تنقید کی تھی اور اپنی کئی تحریروں اور تقریروں میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ مسلمانوں کے زوال کی ایک بڑی وجہ یہی ہے یعنی ان کا تقلیدی رویّہ جس کی وجہ سے ان کے اذہان منجمد ہو گئے اور ان کی صلاحیتوں کو زنگ آلود ہوگئیں یہی وجہ ہے کہ ان کے علوم و فنون کی ترقی رُک گئی اور وہ علم کے میدان میں دنیا کی دوسری قوموں سے پیچھے رہ گئے۔ اس صورتحال میں تبدیلی اسی وقت ہو سکتی ہے جب مسلمان تقلید کی روش چھوڑ کر تحقیق و اجتہاد کی عادت ڈالیں۔
سرسیّد مرحوم کی مخالفت کی تیسری وجہ اور وہ زیادہ اہم ہے علماء نے سرسیّد کے عقائد کو اس بناء پر نادرست قرار دیا ہے کہ وہ فرشتوں کے وجود اور معجزوں کے منکِر تھے۔ انہوں نے اس خیال کو اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس تسلسل کے ساتھ پھیلایا کہ مسلمانوں کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ اس سے متاثر ہو گیا اور وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ سرسیّد کے عقائد درست نہیں تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے علماء نے اسلام کے بنیادی عقائد کے دائرے کو ، جس کو نصوصِ قرآن و سنّت نے قطعیّت کے ساتھ متعیّن کردیا تھا، وسیع کردیا ہے اور اس میں بہت سی ایسی چیزیں داخل کردی ہیں جن کا براہِ راست اسلام کے بنیادی عقائد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہاں میں یہ بات واضح کردوں کہ اسلام کے بنیادی صرف تین ہیں:
ایک،اللہ وحدہٗ لاشریک پر ایمان
دوسرا، اس کے رسولوں اور کتابوں پر ایمان
اور تیسرا ، آخرت پر ایمان
سرسیّد مرحوم نے اسلام کے بنیادی عقائد پر بہت پختہ ایمان رکھتے تھے۔ اس سے زیادہ پختہ جو بہت سے مسلمان رکھتے ہیں۔1884ء کو انہوں نے لاہور میں اسلام پر ایک طویل لیکچر دیا اور اس میں دوسری باتوں کے علاوہ انہوں نے اپنے عقائد بھی صاف صاف بیان کیے۔ مولانا حالی نے اس تقریر کے کچھ منتخب حصّے “حیات جاوید” صفحہ نمبر 763 تا 769 میں نقل کیے ہیں۔ اپ اس تقریر کو پڑھ لیں آپ کو اس میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ملے گا جو خلافِ اسلام ہو اور ان کی ہر بات نصوصِ قرآن و سنّت سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے۔میری اس وضاحت کے بعد اُمّید ہے یونیورسٹیوں کے پروفیسر صاحبان یہ کہنا چھوڑ دیں گے کہ سرسیّد کے عقائد درست نہیں تھے۔
علماء نے سرسیّد پر جو دو بڑے اعتراضات کیے ہیں ان میں سے ایک اعتراض یہ ہے کہ وہ فرشتوں کے وجود کے منکِر تھے۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے وہ فرشتوں کے وجود کے منکر نہیں تھے البتّہ اس کی انہوں نے تاویل کی ہے اور فروع میں تاویل کی گنجائش ہوتی ہے۔ امام غزالی ؒ نے اپنی مشہور کتاب “التّفرقہ بین الاسلام والزّندقہ” میں وجود کے پانچ مراتب بتائے ہیں:
پہلا، وجودِذاتی یا خارجی
دوسرا، وجودِحِسّی
تیسرا، وجودِ خیالی
چوتھا، وجودِ عقلی
اور پانچواں ، وجودِ شِبہی
سرسید علیہ الرّحمہ فرشتوں کے وجود کو وجودِ شبہی کے درجے میں رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے خیال کا اظہار اپنی تفسیر میں بھی کیا ہے ایک جگہ انہوں نے لکھا :
” خدا کی بے انتہا قدرتوں کے ظُہور کو اور ان قُوٰی کو جو خدا نے تمام مخلوق میں مختلف قسم کے پیدا کیے ہیں “ملک” یا “ملائکہ” کہا ہے۔” (تفسیر القرآن ، جلد نمبر 1 ، سورۃ البقرۃ ، صفحہ نمبر 43)
اس تاویل کے باوجود وہ فرشتوں کے مخلوق ہونے کے امکان کو تسلیم کرتے تھے۔ لکھتے ہیں :
” میں کہتا ہوں جس طرح انسان سے فروتر مخلوق کا ایک سلسلہ ہم دیکھتے ہیں اسی طرح انسان سے بر تر مخلوق ہونے سے انکار کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے شاید کہ ہو گو وہ کیسی ہی عجیب اور ناقابل یقین ہو۔” (تفسیر القرآن ، جلد نمبر 1 ، سورۃ البقرۃ ، صفحہ نمبر 42-41)
کیا اس اعتراف کے بعد یہ کہنا صحیح ہو گا کہ سرسیّد فرشتوں کے وجود کے یکسر منکِر تھے۔اگر علماء کو سرسیّد کی تاویل پر اعتراض ہے تو انہوں نے یہی اعتراض اُن علماء پر کیوں نہیں کیا جنہوں نے سرسیّد ہی کی طرح فرشتوں کے وجود کی تاویل کی ہے؟ مثال کے طور پر تصوُّف کی دنیا کے مشہور عالم اور وحدت الوجود کے امام و شارح شیخ محی الدّین ابن عربیؒ نے فرشتوں کو قُوائے عالَم قرار دیا ہے یعنی Forces of the Nature۔
انہوں نے اپنے اس خیال کا اظہار اپنی مشہور کتاب “فصوص الحِکم” میں کیا ہے۔ سرسیّد نے اپنی تفسیر کی پہلی جلد صفحہ نمبر 44 پر شیخ ابن عربی کی محوّلہ بالا کتاب سے طویل اقتباس دیا ہےجس میں اس خیال کو دیکھا جا سکتا ہے۔ امام غزالی نے بھی فرشتوں کے وجود کی تاویل کی ہے ان کے نزدیک فرشتے دراصل “صُوَرِ علمیہ” ہیں۔ یہ ایک متصوّفانہ اصطلاح ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہ اچانک پیدا نہیں ہوگئی ہے بلکہ درجہ بدرجہ علمِ الٰہی سے اس کا صدور ہوا ہے اور اس صدور کے پانچ مراحل ہیں :
پہلا : صُوَرِ علمیہ بلا امتیاز
دوسرا : صُوَرِ علمیہ بالامتیاز
تیسرا : عالَمِ ارواح
چوتھا : عالم امثال
پانچواں : عالم شہادۃ (یہی دنیائے رنگ و بُو کس میں ہم اور آپ زندگی گزار رہے ہیں)
فرشتوں کاوجود صدور کے دوسرے مرحلے سے تعلق رکھتا ہےیعنی صُوَرِ علمیہ بالامتیاز۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ امام غزالی فرشتوں کے وجودِ خارجی کے منکِر تھے ۔ اتنا ہی نہیں امام صاحبؒ نے یہ بھی لکھا ہے کہ انبیاء کرام کو صفاءِباطن کی وجہ سے بیداری کی حالت میں فرشتوں کی جو صورتیں نظر آتی تھیں وہ دراصل وجودِحسّی ہے۔ وجودِ حسّی ایسا ہے جیسے آپ خواب میں چیزوں کو دیکھتے ہیں لیکن ان چیزوں کا وجود صرف آپ کے حاسّہ میں ہوتا ہے۔ خارج میں ان کا کوئی وجود نہیں ہوتا ہے۔(دیکھئے علّامہ شبلی نعمانیؒ کی “کلام اور علم الکلام” صفحہ نمبر 193)
کیا ہندوستانی علماء نے شیخ ابن عربیؒ اور امام غزالیؒ کی تاویلات پر کبھی اعتراض کیا ہے؟ اور ان پر کفر کا فتوٰی صادر کیا ہے؟ جواب یقیناً نفی میں ہوگا۔ تو پھر علماء نے سرسیّد پر ہی کیوں اعتراض کیا ؟ انہوں نے فرشتوں کے وجود کے بارے میں وہی بات کہی جو ان دونوں فاضلِ وقت نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔
سرسیّد پر دوسرا اعتراض علماء نے یہ کیا ہے کہ وہ معجزوں کو نہیں مانتے تھے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ معجزات کو کیوں نہیں مانتے تھے؟ اس علمی کتمان کی تفصیل سے پہلے آپ یہ جان لیں کہ معجزے کا کیا معنی ہیں ؟ قرآن مجید میں معجزے کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ آیت یا آیات اور سلطان کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔آیت کا مطلب نشانی ہے اور اس چیز کوبھی آیت کہتے ہیں جو بطورِدلیل پیش کی جائے۔معجزہ کی اصطلاح علماء اور فقہاء نے وضع کی ہے انہوں نے معجزے کی تعریف یہ کی ہے کہ جو خرقِ عادت ہو یعنی واقعہ عادت جاریہ کے خلاف واقع ہو مثلاً آگ کی فطرت یا عادت جلانا ہےاگر اس سے یہ عادت مسلوب ہو جائے اور وہ جلانے کا عمل چھوڑ دےتو یہی خرقِ عادت ہے اور اسی کا نام معجزہ ہے۔
دوسرے کئی علماء کی طرح سرسیّد نے بھی اس تعریف ِمعجزہ پر اعتراض کیا ہےاور اسے نادرست قرار دیا ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کی جو فطرت بنائی ہے وہ اس سے کبھی جدا نہیں ہوسکتی۔انہوں نے آگ ہی کی مثال دی ہے اور بتایا ہے کہ آگ کی فطرت جلانا ہے اگر اللہ چاہے تو اس کی فطرت کو بدل سکتا ہےیعنی اس سے عملِ احتراق (combustion) صادر ہو لیکن اللہ قدرت کے باوجود ایسا نہیں کرتا ہے اور یہی سنّت اللہ ہے جو ناقابلِ تغیُّر ہے۔ انہوں نے اپنے اس خیال کی تائید میں قرآن مجید کی یہ آیت پیش کی ہے:
فلن تجد لسنۃ اللہ تبدیلاً (الفاطر:آیت نمبر 43)
ترجمہ : تم اللہ کی سنّت میں ہرگز تبدیلی نہ پاؤ گے۔
معجزے کی تعریف میں علماء نے یہ چیز داخل کردی ہے کہ وہ سبب سے عاری ہوتا ہےیعنی محض اللہ کے علم اور قدرت سے واقع ہوتا ہے اس کا کوئی سبب نہیں ہوتا ہے۔سرسیّد نے علماء کے اس خیال کو اس بنا پر تسلیم نہیں کیا کہ یہ خیال علّت و معلول (Cause & Effect) کے اصولِ مسلّمہ کے خلاف ہے۔ارسطو کے عہد سے آج تک یہ اصول ایک معتبر اصول سمجھا جاتا رہا ہے۔دنیا کے بہت سے واقعات و حوادث اور اشیاء کا مطالعہ اس اصول کی تصدیق کرتا ہے۔ اس اصول کے مطابق اس دنیا میں کسی چیز کا وجود یا کسی واقعے کا صدور علّت کے بغیر خارج ازامکان ہے۔اس بنا پر معجزے کا وقوع بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ علماء اسی واقعہ پر معجزے کا اطلاق کرتے ہیں جس کا کوئی سبب نہ ہو۔سر سیّد نے بتایا کہ علماء جن واقعات کو معجزہ کہتے ہیں ان کا بھی کوئی نہ کوئی سبب ہوگا جو عام حالات میں مخفی ہوتا ہے۔ کئی جیّد علماء نے اس خیال کو تسلیم کیا ہے۔
شاہ ولی اللہ محدِّث دہلویؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب “حجۃ اللہ البالغۃ” کے باب “حقیقۃ النّبوّۃ وخواصھا” اور اپنی دوسری مشہور کتاب “التّفھیمات الالٰھیۃ” صفحہ نمبر 55 پرلکھا ہے کہ معجزے اسباب سے عاری نہیں ہوتے بلکہ ان کا بھی کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے جو عام طور پر نگاہوں سے مخفی ہوتا ہے اور اسی کتاب یعنی “التّفھیمات” میں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ رسولِ اکرمﷺ کو کوئی مافوق الفطرت (Supernatural)معجزہ نہیں دیا گیا۔اور اس سلسلے میں قرآن مجید میں کوئی ادنٰی اشارہ بھی نہیں پایا جاتا۔انہوں نے شقّ القمر کو بھی معجزہ تسلیم نہیں کیا ہے کیونکہ ان کے خیال ہے کہ یہ واقعہ قُربِ قیامت کی علامت ہے۔میں پوچھتا ہوں کی آج تک کسی دیوبندی ، بریلوی اور اہلِ حدیث عالم نے شاہ ولی اللہ ؒ پر اعتراض کیا ؟ انہیں منکرِ معجزہ ٹھیرایا؟ نہیں ! انہوں نے ایسا نہیں کیا اور اس لیے نہیں کیا کہ شاہ صاحب ان تینوں مکاتبِ فکر کے مقتدٰی ہیں۔علماء نے سرسیّد کے مذہبی افکار کی تردید و تنقیص ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے علمی مقام و مرتبہ کو مجروح کرنے اور ان کی مذہبی خدمات پر پردہ ڈالنے کی بھی پوری پوری کوششیں کی ہیں۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں میں صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ چند روز پہلے کی بات ہے میں نے یوٹیوب پر ایک صاحب کو تقریر کرتے سنا ۔ یہ صاحب ہند و پاک کے ایک مشہور خطیب اور مصنّف ہیں مگر اب بقیدِحیات نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں پہلے سرسیّد کی خوب مدح سرائی کی اور کہا کہ وہ مسلمانوں کے بڑے بہی خواہ ، غمگسار اور محِبِّ قوم تھے اور پھر ارشاد فرمایا کہ اس مقام سے آگے بڑھ کر متکلّمِ اسلام اور مفسّرِقرآن بن بیٹھے۔”بن بیٹھے” کے الفاظ انہی خطیب صاحب کے ہیں جو انہوں نے تعریضاً استعمال ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ سرسّید میں اتنی علمی لیاقت نہیں تھی کہ وہ علمِ کلام اور علمِ تفسیر کے میدان میں داخل ہوں۔مجھے یقین ہے کی ان خطیب صاحب نے سرسیّد کی تفسیرالقرآن کیا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ یہ تفسیر علمی ، تاریخی اور کلامی لحاظ سے ایک بلند پایہ تفسیر ہے۔میں نے اس موضوع پر ایک مبسوط مقالہ لکھا ہے جو شبلیؒ اکیڈمی (اعظم گڑھ) کے معروف علمی رسالہ “معارف” میں دو قسطوں میں شائع ہو چکا ہے۔ سامعین سے گزارش ہے کہ وہ “معارف” کے اپریل اور مئی 2020ء کے شمارے اگر کہیں سے مل سکیں تو ان کو ضرور پڑھیں۔ ان سے معلوم ہوگا کہ سرسیّد کس پائے کے مفسّر تھے۔ جہاں تک علمِ کلام کا تعلّق ہے تو اس میدان میں بھی سرسّد کا امتیاز مسلّم ہے وہ ہندوستان میں جدید علمِ کلام کے بانی ہیں۔ یہ بات فقط میں نہیں کہ رہا ہوں بلکہ متعدد اہلِ علم نے اس کو تسلیم کیا ہے۔ جناب ابوالکلام آزاد جس پائے کے عالم ، مفسّر ہیں اس سے آپ واقف ہیں ۔ انہوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :
“سرسیّد ہی دنیا میں وہ پہلا شخص ہے جس نے پہلے پہل یہ ضرورت محسوس کی ہ جدید علمِ کلام کی ضرورت ہے۔” (سرسیّد بازیافت ، پروفیسر عتیق الرّحمٰن ، صفحہ نمبر 19)
سرسیّد کی کلامی خدمات بھی بہت شاندار ہیں۔ یہاں میں صرف ایک خدمت کا ذکر کرتا ہوں۔ اہل مغرب بالخصوص مستشرقین (Orientalists)نے اسلام پر بہت سے اعتراضات کیے ہیں ان میں سے ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ اسلام غلامی کا حامی ہےاور اس نے رسمِ غلامی کو ممنوع قرار نہیں دیا ہے۔مغرب کے اس لَغو الزام کی تردید کے لیے پوری دنیا کے مسلمانوں میں جو شخص آگے بڑھا اس کا نام سرسیّد ہے۔ انہوں نے اردو میں ایک مبسوط مقالہ “ابطالِ غلامی” کے عنوان سے لکھا اور اس میں بڑے مضبوط علمی ، تاریخی ، کلامی اور عقلی دلائل سے ثابت کیا کہ مذہب اسلام واحد مذہب ہے جس نے رسمِ غلامی کو ممنوع قرار دیا ہے۔ جناب ابوالکلام آزاد نے سرسیّد کی اس کلامی خدمت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے :
“یورپ اسلام پر بڑے زور سے معترض ہے کہ وہ انسان کو اس کی فطری آزادی سے محروم رکھتا ہےاور غلامی کی ناپاک رسم کا حامی ہے۔ اس اعتراض کو رفع کرنے کا سب سے پہلے اسلامی دنیا میں سرسیّد کو خیال ہوا اور مرحوم نے عقلی و نقلی دلائل سے اسلام کو ا س رسم کے اعانت سے بری ثابت کیا اور لکھا کہ مسلمانوں کے افعال کا بانئ مذہب ذمہ دار ہو سکتا اور پھر اس سبجیکٹ پر ایک مبسوط رسالہ “تبریۃ الاسلام” لکھ کر اس بحث کا بالکل خاتمہ کر دیا۔ یہ سرسیّد کی کتاب “ابطالِ غلامی” کا عربی ترجمہ ہے۔مولانا آزاد کا یہ مضمون “وکیل” اخبار ، امرتسر، 1904ء میں شائع ہوا تھا۔
میری اس تقریر سے دو باتیں بالکل واضح ہو گئیں اور سامعین بھی مجھ سے یقیناً اتفاق کریں گے۔
پہلی بات یہ کہ انیسویں صدی اور اس کے بعد بھی معدودے چند اہلِ علم کو چھوڑ کر سرسیّد کے پائے کاکوئی دوسرا بالغ نظر محقق اور جامع علوم دانشور پیدا نہیں ہوا یہ دوسری بات ہے کہ مسلمانوں نے اس عظیم دانشور کی ناقدری کی۔
دوسری بات یہ ہے کہ سرسیّد کے عقائد اور بعض دوسرے مذہبی افکار پر بعض مغربی علوم کے فاضلین اور علماءِ ایران نے جو اعتراضات کیے ہیں ان میں سے بیشتر نادرست ہیں اور ان کی کوتاہی فکرونظر کی دلیل ہیں۔ اس میں کچھ جذبہ حسد اور فتنہ معاصرت بھی شامل ہے۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ تفسیرِ قرآن میں سرسیّد سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں مثلاً جِنّات کے خارجی وجود کا انکار وغیرہ مگر چند غلطیوں کی وجہ سے اس تفسیر کی خوبیوں اور ان کے دوسرے کمالات کی پردہ پوشی سخت ترین علمی ناانصافی ہے۔آخر وہ کون عالم اور مفسّر ایسا گزرا ہے جس کے علمی کاموں میں نقائص نہیں ہیں اور اس کے قلم نے کہیں لغزش نہیں کھائی ہے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ صرف سرسیّد احمد خان کو ہی نشانہ طعن و تنقید بنایا جاتا ہے؟ کیا ہمارے علماء قرآن مجید کی اس آیت سےواقف نہیں ہیں؟
اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى (انصاف کرو یہ بات تقویٰ سے قریب تر ہے)
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِین۔
کمنت کیجے