مفتی اویس پراچہ
بجلی اور اجارہ:
سوال یہ ہے کہ کیا ہم بجلی کو اس کے آلات کا اجارہ نہیں کہہ سکتے؟ یعنی آلات سے ملنے والا نفع؟ اور اس کی قیمت اس نفع کی اجرت ہو؟ اس کے لیے ہمیں پہلے “منفعت” پر غور کرنا ہوگا کہ وہ کیا چیز ہے اور کیا بجلی پر اس کا اطلاق ہو سکتا ہے؟ منفعت (جیسا کہ پہلے ذکر ہوا) سروس کے نتیجے یعنی فائدے کو کہتے ہیں۔الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں اس کی تعریف ہے: “وہ فائدہ جو عین کے استعمال سے حاصل ہوتا ہے۔”
لیکن یہ تعریف اس اعتبار سے مکمل نہیں ہے کہ اگر کسی شخص کو اجرت پر رکھا جائے تو اس سے بھی حاصل شدہ فائدے کو منفعت ہی کہتے ہیں۔ “فائدہ” اپنی اصل میں باقی رہنے والی چیز نہیں ہوتا۔ مثلاً میں نے ایک شخص کو ملازم رکھا ہے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کی منفعت حاصل کر کے میں کسی بوتل میں رکھ لوں اور بوقت ضرورت کسی بھی مناسب استعمال میں لے آؤں۔ اسی طرح میں اگر کوئی گھر کرائے پر لیتا ہوں تو اس کی منفعت کسی جگہ قید کر کے نہیں رکھ سکتا کہ بعد میں استعمال کر لوں۔ یہ چیز وجود میں آتی ہے اور اپنا اثر دکھانے کے فوراً بعد ختم ہو جاتی ہے۔ اس کا اثر بھی اپنی مرضی سے نہیں نکالا جا سکتا۔
اس کے مقابلے میں ہم بجلی کو دیکھیں تو وہ اپنے آلات اور مشینوں سے وجود میں تو آتی ہے لیکن اس کے بعد اس میں دو کام ہوتے ہیں:
1. وہ بیٹری میں قید ہو جاتی ہے اور بوقت ضرورت استعمال ہو سکتی ہے۔
2. وہ تاروں میں بھی موجود رہتی ہے اور اسے ہم اپنی مرضی سے اس کے کسی بھی مناسب استعمال میں لا سکتے ہیں۔ یعنی یہ طے نہیں ہوتا کہ فلاں بجلی صرف لائٹ جلائے گی اور فلاں صرف پنکھا۔ اس پر مزید گہرائی میں جا کر بحث کی جا سکتی ہے لیکن فی الحال اختصار ہی کافی ہے۔
اب ہم اس کی نظیر تلاش کرتے ہیں۔ کیا کہیں ایسا ہوتا ہے کہ ایک عین سے دوسری عین پیدا ہو جو پہلے موجود نہ ہو؟ ایسا پھل اور کھیتی میں عام فہم ہے۔ لہذا یہ بجلی بھی اسی طرح اپنے آلات کی پراڈکٹ (پیدا شدہ چیز) ہے اور جب وجود میں آ جاتی ہے تو اسے محفوظ کر کے رکھا جا سکتا ہے اور مختلف چیزوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ البتہ یہ ذہن میں رہے کہ ہر چیز کا وقت حفاظت مختلف ہوتا ہے۔ برف چند گھنٹوں میں پگھل جاتی ہے اور پتھر کو برسوں کچھ نہیں ہوتا۔
ڈیجیٹل اشیاء اور ان کا وجود:
اب تک ہم نے یہ سمجھ لیا کہ کسی “مال” کے لیے اس کا باقی رہنے والا ہونا ضروری ہے، اگر وہ باقی رہ سکتا ہے اور لوگ اسے مال سمجھنے لگتے ہیں تو وہ مال بن جائے گا۔ اس کا مادی یا حسی وجود ہونا شرط نہیں ہے اور فقہاء کرام کی تعریفات میں “عین” سے مراد بھی یہی ہے کہ وہ چیز منفعت کی طرح ناپائیدار نہ ہو۔ اب اس بنیاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم ڈیجیٹل اشیاء پر غور کرتے ہیں۔
ڈیجیٹل اشیاء تین قسم کی ہو سکتی ہیں:
1. ملٹی میڈیا جیسےتصویر، ویڈیو، آڈیو وغیرہ
2. بذاتہ قابل انتفاع اشیاء جیسے سافٹ وئیر اور ویب سائٹ وغیرہ
3. فقط قابل تبادل جیسے کرپٹو کرنسی، سی بی ڈی سی (سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی)، شئیرز اور بانڈز وغیرہ (جب کہ یہ حسی نہ ہوں، صرف کمپیوٹر میں ہوں)۔ اس میں پھر دو قسمیں کی جا سکتی ہیں:
أ. جو صرف مالیت کو ظاہر کرے جیسے کرپٹو کرنسی (اس میں کوائین اور ٹوکن کو آسانی کے لیے ایک جگہ کیا گیا ہے) اور سی بی ڈی سی۔
ب. جو کسی مشترک حصے یا قرض یا اثاثے کی نمائندگی کرے جیسے شئیرز، بانڈز وغیرہ۔
کمپیوٹر میں ہر چیز بجلی یا اس کے سگنلز کی شکل میں موجود ہوتی ہے۔ “سگنلز” کا لفظ میں ہارڈ ڈسک میں مقناطیسی ذرات، یو ایس بی وغیرہ میں محفوظ بجلی اور سی ڈی یا ڈی وی ڈی میں آپٹیکل اثرات کے لیے استعمال کرتا ہوں۔ مراد یہ ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں کمپیوٹر میں چیز موجود ہوتی ہے۔ وہ کسی چیز کو فرض نہ کر سکتا ہے اور نہ ہی فرضی شکل میں محفوظ کر سکتا ہے۔
کمپیوٹر میں جو چیزیں محفوظ ہوتی ہیں انہیں “بائنری” یعنی “صفر” اور “ایک” کے ہندسوں سے ظاہر کیا جاتا ہے جس سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کمپیوٹر میں صرف ہندسے محفوظ ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ بجلی کے ہونے، نہ ہونے یا کم زیادہ ہونے کا اظہار ہوتا ہے جو سمجھنے کے لیے ہندسوں کی شکل میں ہوتا ہے۔ پروگرام یا سافٹ وئیر عموماً ہائی لیول لینگویج (جیسے سی پلس وغیرہ) میں لکھے جاتے ہیں اور مخصوص پروگرام انہیں کمپیوٹر کی “بائنری” لینگویج میں منتقل کر دیتے ہیں- اس لیے ہم آسانی کی خاطر یوں کہتے ہیں کہ کمپیوٹر میں “کوڈ” کا ایک ٹکڑا محفوظ ہوتا ہے۔
ڈیجیٹل اشیاء کی مذکورہ بالا تینوں اقسام (ملٹی میڈیا، بذاتہ قابل انتفاع اور فقط قابل خرچ یا قابل تبادل اشیاء) بھی کمپیوٹر میں اسی طرح محفوظ “پیس آف کوڈ” ہوتے ہیں۔ انہیں محفوظ کیا جا سکتا ہے اور بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اب آپ پہلے ذکر کردہ علامہ شامیؒ کی تعریف اور ہماری وضاحت کی روشنی میں اسے دیکھیے! یہ ایسی چیز ہے جو وقت ضرورت کے لیے محفوظ کی جا سکتی ہے لہذا یہ مالیت کا محل بن سکتی ہے۔ چنانچہ اگر لوگ اسے مال سمجھنے لگیں تو یہ مال بھی ہوگی۔ اس کے لیے “حسی” یا “مادی” وجود کی قید لگانا درست نہیں ہے۔
مذکورہ بالا تینوں اشیاء کو اب الگ الگ دیکھ لیتے ہیں:
اول: ملٹی میڈیا:
اس میں تصاویر، ویڈیوز اور آڈیوز شامل ہیں۔ یہ سب بھی “پیس آف کوڈ” یا “کوڈ کے ٹکڑے” ہیں۔ یہ کمپیوٹر میں محفوظ ہوتے ہیں لہذا اگر ان میں سے کسی کو لوگ مال سمجھیں گے تو وہ چیز مال ہوگی۔ اس کے مال ہونے کے بعد ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ جائز چیز ہے یا ناجائز؟ یعنی متقوم ہوگی یا غیر متقوم؟ غیر متقوم کا لین دین درست نہیں ہوگا۔
دوم: قابل انتفاع اشیاء:
ان میں سافٹ وئیرز، ویب سائٹس اور آپریٹنگ سسٹم وغیرہ شامل ہیں۔ یہ بھی کوڈ کے ٹکڑے ہیں لہذا یہ خود مال ہوں گے۔ البتہ اگر سافٹ وئیر ڈیویلپر نے ایک ہی بار پیسے لے کر سافٹ وئیر دوسرے کو دے دیا ہے تو یہ بیع (خرید و فروخت) ہوگی اور اگر وہ ہر مہینے یا سال بعد اس کا کرایہ لیتا ہے تو یہ اجارہ (کرائے داری کا معاملہ) ہوگا۔ یہ اجارہ اسی کوڈ کے ٹکڑے کا ہے جو مال ہے۔
سوم: قابل تبادلہ اشیاء:
ان میں کرپٹو کرنسی، سی بی ڈی سی، شئیرز، بانڈز وغیرہ ہیں۔یہ بھی کوڈ کے ٹکڑے ہیں لہذا اپنے وجود کی بنیاد پر مالیت کا محل ہیں۔ البتہ مال اس وقت ہوں گے جب انہیں مال سمجھا بھی جائے۔ پھر ان میں شئیرز اور بانڈز وغیرہ تو اپنے پیچھے موجود اثاثے کو ظاہر کرتے ہیں لہذا اصل مال وہ اثاثہ ہوگا، یہ شئیر اور بانڈ فقط اس کا اظہار ہوں گے۔ جب کہ سی بی ڈی سی (وہ ڈیجیٹل کرنسی جو سینٹرل بینک ایجاد کرتے ہیں) اور کرپٹو کسی اثاثے کو ظاہر نہیں کرتے لہذا ان کی اپنی حیثیت کو دیکھا جائے گا۔
اب ان میں سوال یہ ہے کہ جب کرپٹو کرنسی خود قابل انتفاع نہیں ہے بلکہ اسے خرچ ہی کرنا پڑتا ہے تو یہ کس قسم کا مال ہے؟ اس پر گفتگو ہم ان شاء اللہ اس سلسلے کے اگلے مضامین میں سے ایک میں “تخلیق زر” کے عنوان سے کریں گے۔ اس سے پہلے حصہ چہارم میں ہم اس پر کچھ اشکالات اور ڈیجیٹل اشیاء کی کچھ تکییفات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔
ڈیجیٹل اشیاء اور اجارے کی تکییفات:
جس طرح اوپر بجلی کے حوالے سے ذکر ہوا اسی طرح ڈیجیٹل اشیاء، خصوصاً سافٹ وئیرز کے بارے میں بھی یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا انہیں اجارہ نہیں کہا جا سکتا؟ یعنی یہاں یہ سمجھا جائے کہ کوئی شخص دوسرے کی سروس لے رہا ہے اور اس کی اجرت ادا کر رہا ہے؟
اس کی پھر دو صورتیں ہو سکتی ہیں:
اول: سافٹ وئیر بنانے والے کی منفعت حاصل کرنا۔ مثلاً ایک شخص کسی سافٹ وئیر ڈیویلپر سے رابطہ کرتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ میرے لیے فلاں فلاں صفات پر مشتمل ایک سافٹ وئیر بنا دو۔ ڈیویلپر اس کے لیے کوڈ لکھتا ہے، تصاویر مرتب کرتا ہے اور سافٹ وئیر تیار کر دیتا ہے۔ یہ سافٹ وئیر اب جب تک چل رہا ہے تب تک مطلوبہ کام کر رہا ہے۔ اس معاملے کو ہم اجارہ (سروس دینا) کہیں گے یا استصناع (مینوفیکچرنگ)؟
اس کے لیے ہمیں سافٹ وئیر کی ماہیت پر غور کرنا ہوگا۔ ہم نے اوپر گفتگو کی کہ منفعت وہ چیز ہوتی ہے جو باقی نہیں رہتی۔ وہ وجود میں آتی ہے اور اثر دکھا کر ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس عین وہ چیز ہوتی ہے جو باقی رہتی ہے اور اسے بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ چیز محتاج دلیل نہیں ہے کہ سافٹ وئیر کا کوڈ موجود رہتا ہے اور بوقت ضرورت اسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لہذا اسے عین کہا جانا چاہیے۔ اس پر منفعت کا اطلاق کرنا قابل اشکال ہے۔
دوم: سافٹ وئیر کے انتقال یا سرور کے استعمال کی منفعت حاصل کرنا۔ مثلاً ایک شخص کے پاس کوئی سافٹ وئیر ہے ، اس سے دوسرا شخص رابطہ کرتا ہے اور وہ یہ سافٹ وئیر اس دوسرے شخص کے کمپیوٹر میں منتقل کر دیتا ہے اور اس انتقال کی اجرت لے لیتا ہے۔ یا کوئی سافٹ وئیر کسی کمپنی کے سرور پر موجود ہے اور وہاں سے کوئی شخص ڈاؤن لوڈ کرتا ہے اور سرور کی اجرت ادا کرتا ہے۔ یہ ایک عجیب تکییف ہے جس پر کئی بنیادی قسم کے اشکالات ہوتے ہیں:
1. اس تکییف کی بنیاد اس پر ہے کہ سافٹ وئیر کا کوئی مادی وجود نہیں ہوتا، ورنہ اس کی بیع کی جاتی۔ اب اگر مان لیا جائے کہ سافٹ وئیر کا مادی وجود نہیں ہے اور مادی وجود ہونا مال کے لیے ضروری ہے، تو پھر سوال یہ ہے کہ اس کا وجود کون سا ہے؟ فرضی ہے؟ منفعت ہے؟ حق ہے؟ یا ڈیجیٹل وجود الگ سے کوئی چیز ہے؟ چاروں صورتوں میں:
أ. اگر اس کا وجود فرضی ہے تو فرضی چیز کے انتقال کی اجرت درست نہیں ہو سکتی۔ مثلاً کوئی شخص اپنے ذہن میں ایک تصویر فرض کر لے اور کسی کو کہے کہ یہ تصویر میں تمہارے ذہن میں منتقل کرتا ہوں، تم اس کی اجرت دو۔ یہ درست نہیں ہوگا۔
ب. منفعت ہے تو یہ کمپنی (یعنی اس کے افراد) کی منفعت ہوگی (یعنی اجارۃ الاشخاص ہوگا)۔ جو سافٹ وئیرز ایک بار ہی خریدے جاتے ہیں ان میں نہ اس اجارے کی مدت متعین ہوتی ہے اور نہ ہی منفعت کی مقدار، یعنی اجارہ فاسدہ ہوتا ہے۔ اجارہ فاسدہ سے حاصل شدہ منفعت آگے منتقل کرنا درست نہیں ہے بلکہ اسے ختم کرنا ضروری ہوتا ہے۔
ج. حق ہے تو کس چیز کا حق ہے؟ اگر سافٹ وئیر کے استعمال کا حق ہے تو یہی منفعت کا حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اور اگر کوئی اور حق ہے تو حق مجرد کا اجرت پر انتقال بھی جائز نہیں ہے۔
د. ڈیجیٹل وجود الگ سے ایک چیز ہے تو اسے کسی اور چیز پر قیاس کیا جائے گا۔ اب اگر اسے عین پر قیاس کیا گیا ہے تو پھر مکمل قیاس کر کے بیع بھی درست سمجھی جانی چاہیے۔ اور اگر منفعت یا حق پر قیاس کیا جا رہا ہے صرف اس بنا پر کہ یہ حسی نہیں ہے تو انتقال کی اجرت میں منفعت یا حق کے انتقال والے مسائل پیدا ہونے چاہئیں۔
2. اگر کوئی شخص کمپنی کے سرور سے سافٹ وئیر ڈاؤن لوڈ کرتا ہے توسرور سے اس کا اپنے کمپیوٹر میں انتقال تو وہ خود کر رہا ہوتا ہے، اس کی اجرت کمپنی کی نہیں بنتی۔ اور اگر اسے سرور پر سافٹ وئیر رکھنے کی اجرت کہا جائے تو سافٹ وئیر کمپنی کی ملکیت تھا اور اس نے اپنے سرور پر رکھا ہے لہذا اس شخص پر اس کی اجرت لازم نہیں ہوتی۔ یہاں اسے ایسی کوئی خدمت نہیں ملی جس کی اجرت اسے قرار دیا جائے۔
3. اگر کوئی شخص کسی اور سے یو ایس بی میں سافٹ وئیر لے کر آتا ہے اور اپنے کمپیوٹر میں منتقل کر دیتا ہے تو ایسی صورت میں انتقال کا عمل بھی اس نے خود کیا ہے لہذا اس پر بھی اجرت نہیں بنتی۔
خلاصہ یہ ہے کہ ان دونوں تکییفات کی بنیاد پر اجارہ کہنا ڈیجیٹل اشیاء کی ماہیت کے بھی خلاف ہے اور ان کے لین دینے کے عرف کے بھی مخالف ہے۔ یہ تکییفات کسی ایسے شخص سے بعید ہیں جو لوگوں کے لین دین اور ڈیجیٹل اشیاء کے بارے میں مناسب واقفیت رکھتا ہو۔ اس کے بر عکس فقہاء کرام کی تعریفات کی روشنی میں ڈیجیٹل اشیاء کو ہم “عین” قرار دے سکتے ہیں اور اگر لوگ انہیں مال سمجھنے لگیں تو ان پر مال والے احکام جاری ہوں گے۔
ختم شد! اگلے مضمون میں ان شاء اللہ ہم کرپٹو کرنسی کی دنیا بھر میں ایڈاپشن کا قسط وار جائزہ لیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی محمد اویس پراچہ نے شیخ زاید اسلامک سنٹر، جامعہ کراچی سے ایم فل کیا ہے اور جامعۃ الرشید کراچی میں افتاء کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
Owais Paracha | Facebook
کمنت کیجے