Home » حدیث میں مذکور لفظ “علماء” کا مصداق
اسلامی فکری روایت تفسیر وحدیث

حدیث میں مذکور لفظ “علماء” کا مصداق

سب سے پہلا سوال تو یہی ہے کہ علماء کون ہیں؟ یہ بات درست ہے کہ صحیح حدیث میں علماء کو انبیاء کا وارث کہا گیا ہے لیکن یہ کن علماء کی بات ہو رہی ہے؟ درس نظامی پاس علماء کی؟ مدرسہ کے سرٹیفائیڈ علماء کی؟ منطق وبلاغت، اصول فقہ اور اصول وحدیث کی درسی کتابیں پڑھنے والے علماء کی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ درس نظامی تھا، نہ مدارس کا نظام تھا، نہ وہ نصاب تعلیم تھا کہ جس سے گزر کر آج کسی کو عالم دین کا ٹائیٹل دیا جاتا ہے؟ نہ صحابہ کرام اس نصاب تعلیم سے گزرے تھے کہ جس سے آج کے علماء گزرتے ہیں تو پھر وہاں علم سے کیا مراد تھا کہ جن کے حاملین کو علماء کہا گیا ہے؟ صحابہ کے علماء کن علوم کے حامل تھے؟

آپ زمانہ نبوت میں جائیں۔ وہاں علم اپنی سادہ ترین صورت میں موجود ہے۔ تمام چلاکیوں اور مناظرانہ ابحاث سے پاک۔ الحمد للہ۔ اور یہی وہ علم تھا جو عمل کی بنیاد بھی بن رہا تھا۔ علم، کوئی اسماء ورجال کے جاننے کا نام تھوڑی ہے کہ جسے بخاری ومسلم کے راویوں کے احوال یاد ہیں تو وہ بڑا عالم ہے۔ قرآن مجید جب علماء کا تعارف کرواتا ہے تو اس کی بنیاد عمل کو بناتا ہے اور وہ بھی اعمال القلوب۔ اسی لیے قرآن مجید میں ہے کہ علماء ہی اللہ کی خشیت اختیار کرتے ہیں۔ اور خشیت دل کا فعل ہے جو کسی خاص نصاب تعلیم سے گزرنے یا کتابیں پڑھنے سے نہیں پیدا ہوتی۔ یہ معرفت الہی سے پیدا ہوتی ہے۔ اور معرفت الہی بھی وہ نہیں جو اسماء وصفات کی کلامی بحثوں میں الجھ کر پیدا ہو کہ یہ تو صحابہ اور سلف کے زمانے میں تھیں ہی نہیں۔ اور وہی سب سے بڑے عارف باللہ بھی تھے اور انبیاء کے ورثاء بھی۔

اس کو ایک اور طرح سے سمجھیں کہ سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی ہے کہ عالم دین کے ٹائیٹل کو ایک ڈگری کے ساتھ ٹیگ کر دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ عزوجل مومنوں کو جنت کی بشارت سناتے ہیں۔ کیا مومن ہونا کوئی ڈگری ہے؟ نصاب ہے؟ کورس ہے؟ جس سے گزرنے کے بعد کوئی مومن بن جاتا ہے اور جنت کا مستحق بھی۔ واضح بات ہے کہ مومن ہونا کچھ صفات ہونے کا نام ہے۔ اگر وہ صفات آپ میں ہیں تو آپ مومن ہیں لیکن ان صفات کی موجودگی کے باوجود اپنے مومن ہونے کا آپ پھر بھی دعوی نہیں کریں گے۔ اگر کریں گے تو بے وقوف ہی کہلائیں گی۔ یہی معاملہ علماء کا بھی ہے۔ کتاب وسنت میں جنہیں علماء کہا گیا ہے، ان کی کچھ صفات بھی بیان ہوئی ہیں۔ عالم ہونا کسی ڈگری، کورس اور نصاب تعلیم میں گزرنے کا نام نہیں ہے جیسا کہ آج بد قسمتی سے سمجھ لیا گیا ہے۔ آج آپ اگر کسی کو مومن بننے کے لیے، آٹھ سالہ نصاب تعلیم سے گزار کر، اسے مومن ہونے کی ڈگری دے کر، مومن کا ٹائیٹل بھی دے دیں تو وہ کتاب وسنت کا مومن نہیں ہے، آپ کا مومن ہے۔ یہ فرق سمجھیے کہ آپ کے دماغ میں موجود مومنین کی فہرست پر تنقید، کتاب وسنت کے مومنین پر نہیں ہے۔

تو چڑ ہمیں علماء سے نہیں ہے لیکن علماء ہیں کہاں؟ آپ کو نظر آتے ہیں کیا؟ یعنی وہ علماء جن کا ذکر کتاب وسنت میں ہے۔ اور جن علماء کا ذکر کتاب وسنت میں ہے، وہ وہ علماء ہیں کہ جن کے احوال قلوب یعنی دلوں کے حال کتاب وسنت کے مطالعہ نے بدل دیے ہوں۔ ایک جگہ قرآن مجید میں ہے کہ یہ قرآن تو اہل علم کے سینوں میں موجود آیات بینات ہیں۔ تو سینے میں آیت جب اس طرح روشن ہو جاتی ہے کہ وہ اللہ کی معرفت کی دلیل بن جائے اور اس کے نتیجے میں خشیت پیدا ہو تو یہ عالم دین ہے۔

سلف کے زمانہ میں علماء کسے کہتے تھے؟ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کی زبانی سنیں۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ علماء وفقہاء آپ کے فتووں کا مذاق اڑاتے ہیں تو انہوں نے جواب میں کہا کہ تمہیں معلوم بھی ہے کہ عالم وفقیہ کسے کہتے ہیں؟ عالم وفقیہ وہ ہے جو اپنے سے چھوٹے والے کا مذاق نہ اڑائے اور اپنے سے بڑوں پر اشارے کنایوں سے بات نہ کرے۔ اور اپنے علم سے لوگوں کو رگیدنے کا کام نہ کرے۔ یہ قول اخلاق العلماء میں موجود ہے۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میں یہ کہوں گا کہ فی زمانہ عالم وہ ہے کہ جو کسی دوسرے عالم کی بدخوئی، غیبت اور چغلی نہ کھائے کہ فی زمانہ یہ سماجی برائیاں سرٹیفائیڈ علماء میں عوام سے بھی زیادہ ہیں۔ سب ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے یا دوسرے کو گرانے میں لگے ہیں اور ساتھ میں خواہش ہے کہ ہمیں انبیاء کا وارث سمجھا جائے۔ تو انبیاء کے کیا یہ کام ہوتے تھے؟ تو تمہیں انبیاء کا وارث سمجھا جائے؟

اب لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں تو کیا پھر آپ خود ایسے عالم ہیں؟ میں نے تو کبھی اس معنی میں عالم ہونے کا دعوی نہیں کیا۔ میں اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر اور حافظ لکھتا ہوں۔ عالم ہونا میرے نزدیک کوئی ڈگری نہیں ہے بلکہ احوال اور کیفیات کا نام ہے جو کتاب وسنت کے مطالعے سے پیدا ہوتی ہیں اور فی زمانہ جنہیں علماء کہتے ہیں، ان میں وہ احوال اور کیفیات مفقود ہیں۔ بلکہ میری رائے تو یہ ہے کہ مدارس میں جس نصاب تعلیم سے، اور جس انداز میں گزارتا جاتا ہے، اس سے وہ کتاب وسنت والے علماء یعنی علمائے ربانی پیدا ہو ہی نہیں سکتے۔ اگر کوئی پیدا ہو بھی رہا ہے اور یقینا ہو رہا ہے تو اپنی ذاتی صلاحیت کی بنیاد پر ہو رہا ہے، سسٹم اسے پیدا نہیں کر رہا کیونکہ پورے تعلیمی نظام یا سسٹم کی بنیاد اور اٹھان ہی کچھ اور ہے۔ باقی علماء سے مراد اگر سرٹیفائیڈ اور ڈگری ہولڈر ہیں یا خاص نصاب تعلیم پاس کیے ہوئے ہیں تو ہمارے پاس بھی ڈگریاں ہیں اور ہم بھی وہ نصاب تعلیم نہ صرف پڑھ چکے ہیں بلکہ پچھلے بیس سال سے پڑھا رہے ہیں لہذا علماء ہیں۔

اب اسی سوال کو لے لیں کہ علماء کو تبلیغ کی اجازت ہونی چاہیے، عامی کو نہیں۔ اور علماء سے مراد ڈگری ہولڈر ہے۔ تو حدیث میں جس عالم کو نبی کا وارث کہا گیا ہے، یعنی صحابہ کو، ان کے پاس کون سی درس نظامی کی ڈگری تھی؟ صحابہ کے پاس محض کتاب وسنت کا علم تھا اور وہ دعوت وتبلیغ کا کام کر رہے تھے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی تربیت ہو چکی تھی۔ تو آج بھی تربیت ڈگری ہولڈر علماء اور سرٹیفائیڈ مولوی نہیں کریں گے بلکہ کتاب وسنت کے علمائے ربانی کریں گے کہ جن کے احوال وکیفیات، معرفت الہی کے سبب بدل چکی ہیں۔ اور ان کی محض صحبت سے دلوں کے احوال اور کیفیات بدل جاتی ہوں۔ یہ وہی ہوں گے جو افعال القلوب میں اچھے ہوں گے کہ علم نافع یا علم حقیقی کا ثمرہ اور نتیجہ یہی ہے۔ ان کے دل ریاکاری، تکبر، حسد، بغض، نفرت، عداوت، نفاق، عجب، خود پسندی وغیرہ سے پاک ہوں گے۔ اور خشیت الہی، تواضع، عجز، محبت، ایثار، احسان، حیاء، شجاعت اور زہد وغیرہ سے معمور ہوں گے۔

تو جس طرح مسلمانوں پر نقد اسلام پر نقد نہیں ہے۔ اسی طرح معاصر علماء کے رویوں اور اخلاق پر نقد، کتاب وسنت میں جن علماء کا تذکرہ ہے، ان پر نقد نہیں ہے۔ معاصر علماء یہ بھی چالاکی کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو کتاب وسنت کی نصوص کا مصداق بنا لیتے ہیں۔ بھئی، کتاب وسنت میں علماء کا ذکر ہے، ٹھیک ہے، ہے۔ لیکن اس میں آپ، آپ کے استاذ، آپ کے شیخ اور پیر، اور آپ کے فرقے اور مسلک کے سارے سرٹیفائیڈ مولوی بھی شامل ہیں تو یہ کہاں لکھا ہوا ہے۔ اب ہر فرقے کے علماء دوسرے فرقے کے علماء کو گمراہ بھی سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو انبیاء کا وارث بھی۔ گویا ہر فرقے کے علماء کے نزدیک دوسرے فرقے کے علماء کتاب وسنت کی نصوص کا مصداق نہیں ہیں۔ اگر ہیں تو مجھے بتلائیں۔ کیا اہل حدیث علماء کے نزدیک، علماء انبیاء کے وراث ہیں، اس سے مراد بریلوی اور دیوبندی علماء بھی ہیں؟ اور کیا بریلوی اور دیوبندی علماء کے نزدیک اس سے مراد اہل حدیث علماء بھی ہیں۔ تو ہم کوئی نیا کام نہیں کر رہے ہیں۔ وہی کام کر رہے ہیں جو پہلے ہی علماء کر رہے ہیں کہ ایک دوسرے کو کتاب وسنت میں مذکور علماء نہیں مان رہے۔ اور یہ سب فرقوں کے علماء ایک دوسرے کے بارے ٹھیک کہہ رہے ہیں، ہم بس اتنا کہہ رہے ہیں۔

قرآن مجید جب تبلیغ کی بات کرتا ہے تو تین لیولز کا ذکر کرتا ہے یعنی حکمت، اچھی وعظ ونصیحت اور مجادلہ احسن یعنی اچھے طریقے سے بحث مباحثہ کر لینا۔ اب علماء جس نظام تعلیم سے گزرتے ہیں، وہاں انہیں کون سی حکمت اور موعظہ حسنہ کی تربیت دی جاتی ہے۔ ہاں، تحریکوں اور تبلیغی جماعتوں کی دعوت وتبلیغ میں آپ کو حکمت اور موعظہ حسنہ دیکھنے کو مل جاتی ہے کہ انہوں نے اس کو اپنے لیے موضوع بحث بنایا ہے۔ علماء نے تو تبلیغ کے نام پر صرف ایک کام کیا ہے یعنی مجادلہ۔ اور وہ بھی احسن نہیں، بلکہ اکثر تو اقبح ہی کیا ہے۔

حضور علم وعمل میں زمین وآسمان کا گیپ پیدا ہو چکا۔ علماء اب عمل وکردار کے غازی نہ رہے۔ محض علم کے دعووں سے کب تک عوام کو بے وقوف بناتے رہیں گے۔ علم، وہی ہے جو علم نافع ہے یعنی جو عمل کی بنیاد بن رہا ہے۔ باقی تو کچھ اور ہی ہے، علم نہیں ہے۔ پہلے زمانے میں علم کے ثمرات خشیت الہی اور زہد وورع ہوتا تھا اور آج کل کروڑوں کا مدرسہ، لاکھوں کی جماعت، کئی ایک پراڈوز اور آگے پیچھے گارڈز ہوتے ہیں۔ اور اب اس میں سوشل میڈیا کے فالوورز بھی شامل کر لیں۔ یہ سب دنیا ہے جو علماء سمیٹ رہے ہیں اور ساتھ میں دعوی ہے کہ ہمیں انبیاء کا وارث بھی مانا جائے کہ جن کی کوئی میراث ہی نہیں ہوتی تھی۔ جو چھوڑتے تھے، وہ صدقہ شمار ہوتا تھا۔ اور یہاں بیٹے یا خاندان سے باہر کچھ جاتا ہی نہیں ہے، نہ مدرسہ نہ جماعت۔ ٹھیک ہے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، گارڈز والے، مدرسوں کے مالک، علماء اگرچہ چند ایک ہی ہوتے ہیں لیکن ایک بڑی تعداد ان کے چمچوں کی ہوتی ہے کہ جن کی زندگی کا مقصد ان کے دفاع کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔

تو عرض یہ ہے کہ اس علماء کلچر سے جان چھڑائیں۔ یہ اب علماء پرستی شروع ہو چکی ہے۔ اب بہت ہو چکا۔ لوگوں کو اسی طرح کتاب وسنت سے جوڑیں جیسا کہ صحابہ جڑے ہوئے تھے۔ اور وہی دعوی کریں جو نبیوں کو سکھایا گیا ہے کہ اس سے بہتر بات کس کی ہو سکتی ہے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے اور ساتھ میں یہ بھی کہے کہ میں [عام] مسلمانوں میں سے ہوں۔ کچھ خاص دکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ بھی عام مسلمان ہی ہیں۔ پہلے ہی اس قوم کا بہت استحصال ہو چکا۔ اب مزید کی گنجائش نہیں ہے۔ باقی میری فکر نہ کریں کہ میں علماء پر تنقید کر کے اپنی عاقبت خراب کر رہا ہوں۔ میرے ذہن میں برادران یوسف کا مقولہ ہر وقت گردش کرتا رہتا ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ یوسف کو اندھے کنویں میں ڈال کر رب سے معافی مانگ لیں گے۔ تو یہ گناہ کا کام مجھے کرنے دیں کیونکہ میرے نزدیک یہ دینی فریضہ ہے، آپ مطمئن رہیں، بعد میں اپنے رب سے معافی مانگ لوں گا، ان شاء اللہ۔ باقی آپ یوسف نہیں ہیں، علیہ السلام، اس غلط فہمی میں نہ آئیے گا۔ اور میں آپ کو اندھے کنویں میں ڈالنا چاہتا ہوں، تو یہ معنی شوق سے نکال سکتے ہیں۔

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر دینی علوم کے معروف اسکالر ہیں اور رفاہ یونیورسٹی لاہور میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔

mzubair.is@riphah.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں